فہرست مضامین
شروع
ایک اور ایک چار
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہی یاں میاں
دیار عشق
یار بارش
بیوی کی ا نا
خفسانہ
مولوی صاحب کی بیوی
نظیر اکبر آبادی
لے عالم ارواح سے تا عالم جنّات
گر ایک کو ہزار روپے کا ملا کفن
یا ذات میں کہائے نامی اصیل ذاتی
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھر سے مارا
جو عشرتیں آکر ملیں تو وہ بھی کر جانا میاں
چڑیا نے دیکھ غافل کیڑا ادھر گھسیٹا
زرکی جو محبت تجھے پڑ جائیگی بابا
جس نے یہ زر دیا ہے پھر وہ ہی دھن بھی دیگا
اللہ نے جوانی کا وہ عالم ہے بنایا
حجاب دور ہوا دور جام کی ٹھیری
میلوں میں آم جامن سیب انار بیچے
پھر کتنے روز ہم نے بچہ بنے کا پالا
جہاں میں نام تو سنتے تھے ہم جدائی کا
یہ تم نے جو انگیا پہ لپیٹا ہے دو پٹا
سن لے اے شوخ گلبدن نادان
گر تجھ میں اے پری رو یا مہر یا وفا ہے
اڑنا لنگوٹیے کا ہے ایسا کچھ ارجمند
زرچے وگل آنکھ اور لل آنکھ اودے وزردے
جاتے ہیں ان میں کتنے پانی پہ صاف سوتے
جب راجہ نے بھی ترش ہو کر دربار پر وہت بلوائے
زور جب تک کہ ہمارے تن و بدن میں رہا
آخر جوانی ہاری اور بڑھاپا جیتا
سرکانپا چاندی بال ہوئے منھ پھیلا پلکیں آن جھکیں
جب پالکی میں چڑھ کے چلا آپ کا بدن
دنیا کا چمن یارو یہ راز ہے سر بستہ
کسی نے گھر کی حویلی گرو رکھا ہاری
دل تھوکر مار پچھاڑا ہواور دل سے ہوتی کشتی سی
رکھ خوانچہ کو سر پر پیکار یوں پکارا
کچھ اس میں اکیلے نہ چوہے سیر پڑے ہیں
جب پھول کا سر سوں کے ہوا آکے کھلنتا
خالص کہیں سے تازی کچھ زعفراں منگا کر
ملنے کا بہت رکھتے ہیں ارمان ادھر دیکھ
اب اس مہینے میں پہنچا ہے یہاں تلک تو حال
بیٹھے ہیں سب آپس میں نہیں ایک بھی کڑوا
کیوں نہ ہو سبز زمرد کے برابر تر بوز
کیوں عبث بیٹھا ہے ڈالے کان میں غفلت کا تیل
الفت کے زمرد کے یہ کھیت کی بوٹی ہے
جسدم چمن میں چاندکی ہوں خوش جمالیاں
زور مزوں سے رات کو برسے تھا مینھ جھمک جھمک
جنگل سے اپنے تن پر ہریالی سج رہے ہیں
برسات کا جہاں میں لشکر پھسل پڑا
ساون نے بادلوں سے پھر آ گھٹا جو چھائی
مچی ہے ہر طرف کیا کیا سلونوں کی بہاراب تو
رکنے سے ہوا کے جو برا ہوتا احوال
لوٹے ہیں کیا ہی ہم نے واہ رات مزے بہار کے
کچھ بھیڑ سی ہے بھیڑ کہ بے حدو بے شمار
شکر کا جن کے حلوا وہ تو پورے ہیں
کرتا ہے کوئی جور و جفا پیٹ کے لیے
روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جلن نہ ہو
جب تلک روٹی کا ٹکڑا ہو نہ دستر خوان پر
اب جن کے گھر می ڈھیر ہیں سونے کے دام کے
نقشہ ہے عیاں سو طرب ورقص کے رے کا
پیسے نے جس مکاں میں بچھایا ہے اپنا جال
جب آدمی کے حال پر آتی ہے مفلسی
جب مفلسی کا آکر سر پر پڑا ہے سایا
چاردن جس کو خوشامد سے کیا جھک کے سلام
زرسیم و لعل در کو تو بارے اسی سے مانگ
جہاں میں کیا کیا خرد کے اپنے ہر ایک بجا
یارب ہے تیری ذات کو دونوں جہاں میں برتری
تنہا نہ اسے اپنے دل تنگ میں پہچان
قمری بولے حق سرّہ بلبل بولے بسم اللہ
دلا تو کہنے کو میرے یقین جان میاں
آپ کا فضل و کرم کونین میں مشہور ہے
اسی کلمہ سے اے دل ہیں زمین و آسماں روشن
کروں کیا وصف میں ان کا المناک
علی ہے قاتل کفار گمراہ
جب شاہ اٹھے جوش میں آطیش وغضب سے
تھا ان میں ہی ایک اور پہلوان زور آور
یہ سنتے ہی حیدر نے زرہ خود پہن کر
لیکن اس کے باپ کو ہر گز خبر اس کی نہ تھی
داستانے ہاتھ میں او پشت کے اوپر سپر
پہلے اس ختم رسالت سے کہو عشق اللہ
جتنے اللہ نے بھیجے ہیں ولی پیغمبر
ان کو تو بالپن سے نہ تھا کام کچھ ذرا
بکھرے پڑے ہیں فرش پہ مقیش اور زری
اتنے لوگوں کے ٹھٹھ لگے ہیں آ
دیکھا ہے جب سے میں نے تیرا جمال بہیروں
یاروں عجب طرح کا یہ دلچسپ ہے مقام
یارو جو تاج گنج یہاں آشکار ہے
ہے اب تو کچھ سخن کا میرے کاروبار بند
کیا کیا کہوں میں شوخ کے عالم بناؤ کا
اس وقت نشے کی لذت میں آلپٹ ہوئی تھی اس گں سے
تلاش یار میں نہ پھرتا ہو آخر یہ حالت ہوتی ہے کہ
صیاد نے جو دیکھا ہرن اٹھ چلا جھپاک
کیا تونے نامہ عمل کا سیاہ
سدا دل سے اے مومن پاکباز
وہ کافر گدی کا عالم گھبراے پری بھی دیکھ جسے
ساقی سے جو ہم نے مے کا ایک جام لیا
کھلے گل سبز نزہت یار ہے کیا کیا بہاریں ہیں
ساقی ظہور صبح و تر شح ہے نور کا
بہر ہستی میں صحبت احباب
ناز کا اس کے جو تھپیڑا ہے
یہ جواہر خانہ دنیا جو ہے یا اب وتاب
چہرہ ہے تیرا نور کی تنویر کا نقشا
کہاں وہ کیقبادی کارخانہ
کب لالہ وگل کر سکیں عارض سے تیرے ہمسری
ہر حباب اس کا نزاکت جوش ہے
وادئے خاطر چمن سے ملتا ہے
گرہ ایک ہوا کی نمایاں ہوئی
نہایت وہ غصہ ہوئی اور خفا
صبح جب بول اٹھا مرغ سحر ککڑوں کو
ختم
فہرست مضامین
شروع
ایک اور ایک چار
مسجد بھی آدمی نے بنائی ہی یاں میاں
دیار عشق
یار بارش
بیوی کی ا نا
خفسانہ
مولوی صاحب کی بیوی
نظیر اکبر آبادی
لے عالم ارواح سے تا عالم جنّات
گر ایک کو ہزار روپے کا ملا کفن
یا ذات میں کہائے نامی اصیل ذاتی
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھر سے مارا
جو عشرتیں آکر ملیں تو وہ بھی کر جانا میاں
چڑیا نے دیکھ غافل کیڑا ادھر گھسیٹا
زرکی جو محبت تجھے پڑ جائیگی بابا
جس نے یہ زر دیا ہے پھر وہ ہی دھن بھی دیگا
اللہ نے جوانی کا وہ عالم ہے بنایا
حجاب دور ہوا دور جام کی ٹھیری
میلوں میں آم جامن سیب انار بیچے
پھر کتنے روز ہم نے بچہ بنے کا پالا
جہاں میں نام تو سنتے تھے ہم جدائی کا
یہ تم نے جو انگیا پہ لپیٹا ہے دو پٹا
سن لے اے شوخ گلبدن نادان
گر تجھ میں اے پری رو یا مہر یا وفا ہے
اڑنا لنگوٹیے کا ہے ایسا کچھ ارجمند
زرچے وگل آنکھ اور لل آنکھ اودے وزردے
جاتے ہیں ان میں کتنے پانی پہ صاف سوتے
جب راجہ نے بھی ترش ہو کر دربار پر وہت بلوائے
زور جب تک کہ ہمارے تن و بدن میں رہا
آخر جوانی ہاری اور بڑھاپا جیتا
سرکانپا چاندی بال ہوئے منھ پھیلا پلکیں آن جھکیں
جب پالکی میں چڑھ کے چلا آپ کا بدن
دنیا کا چمن یارو یہ راز ہے سر بستہ
کسی نے گھر کی حویلی گرو رکھا ہاری
دل تھوکر مار پچھاڑا ہواور دل سے ہوتی کشتی سی
رکھ خوانچہ کو سر پر پیکار یوں پکارا
کچھ اس میں اکیلے نہ چوہے سیر پڑے ہیں
جب پھول کا سر سوں کے ہوا آکے کھلنتا
خالص کہیں سے تازی کچھ زعفراں منگا کر
ملنے کا بہت رکھتے ہیں ارمان ادھر دیکھ
اب اس مہینے میں پہنچا ہے یہاں تلک تو حال
بیٹھے ہیں سب آپس میں نہیں ایک بھی کڑوا
کیوں نہ ہو سبز زمرد کے برابر تر بوز
کیوں عبث بیٹھا ہے ڈالے کان میں غفلت کا تیل
الفت کے زمرد کے یہ کھیت کی بوٹی ہے
جسدم چمن میں چاندکی ہوں خوش جمالیاں
زور مزوں سے رات کو برسے تھا مینھ جھمک جھمک
جنگل سے اپنے تن پر ہریالی سج رہے ہیں
برسات کا جہاں میں لشکر پھسل پڑا
ساون نے بادلوں سے پھر آ گھٹا جو چھائی
مچی ہے ہر طرف کیا کیا سلونوں کی بہاراب تو
رکنے سے ہوا کے جو برا ہوتا احوال
لوٹے ہیں کیا ہی ہم نے واہ رات مزے بہار کے
کچھ بھیڑ سی ہے بھیڑ کہ بے حدو بے شمار
شکر کا جن کے حلوا وہ تو پورے ہیں
کرتا ہے کوئی جور و جفا پیٹ کے لیے
روٹی نہ پیٹ میں ہو تو پھر کچھ جلن نہ ہو
جب تلک روٹی کا ٹکڑا ہو نہ دستر خوان پر
اب جن کے گھر می ڈھیر ہیں سونے کے دام کے
نقشہ ہے عیاں سو طرب ورقص کے رے کا
پیسے نے جس مکاں میں بچھایا ہے اپنا جال
جب آدمی کے حال پر آتی ہے مفلسی
جب مفلسی کا آکر سر پر پڑا ہے سایا
چاردن جس کو خوشامد سے کیا جھک کے سلام
زرسیم و لعل در کو تو بارے اسی سے مانگ
جہاں میں کیا کیا خرد کے اپنے ہر ایک بجا
یارب ہے تیری ذات کو دونوں جہاں میں برتری
تنہا نہ اسے اپنے دل تنگ میں پہچان
قمری بولے حق سرّہ بلبل بولے بسم اللہ
دلا تو کہنے کو میرے یقین جان میاں
آپ کا فضل و کرم کونین میں مشہور ہے
اسی کلمہ سے اے دل ہیں زمین و آسماں روشن
کروں کیا وصف میں ان کا المناک
علی ہے قاتل کفار گمراہ
جب شاہ اٹھے جوش میں آطیش وغضب سے
تھا ان میں ہی ایک اور پہلوان زور آور
یہ سنتے ہی حیدر نے زرہ خود پہن کر
لیکن اس کے باپ کو ہر گز خبر اس کی نہ تھی
داستانے ہاتھ میں او پشت کے اوپر سپر
پہلے اس ختم رسالت سے کہو عشق اللہ
جتنے اللہ نے بھیجے ہیں ولی پیغمبر
ان کو تو بالپن سے نہ تھا کام کچھ ذرا
بکھرے پڑے ہیں فرش پہ مقیش اور زری
اتنے لوگوں کے ٹھٹھ لگے ہیں آ
دیکھا ہے جب سے میں نے تیرا جمال بہیروں
یاروں عجب طرح کا یہ دلچسپ ہے مقام
یارو جو تاج گنج یہاں آشکار ہے
ہے اب تو کچھ سخن کا میرے کاروبار بند
کیا کیا کہوں میں شوخ کے عالم بناؤ کا
اس وقت نشے کی لذت میں آلپٹ ہوئی تھی اس گں سے
تلاش یار میں نہ پھرتا ہو آخر یہ حالت ہوتی ہے کہ
صیاد نے جو دیکھا ہرن اٹھ چلا جھپاک
کیا تونے نامہ عمل کا سیاہ
سدا دل سے اے مومن پاکباز
وہ کافر گدی کا عالم گھبراے پری بھی دیکھ جسے
ساقی سے جو ہم نے مے کا ایک جام لیا
کھلے گل سبز نزہت یار ہے کیا کیا بہاریں ہیں
ساقی ظہور صبح و تر شح ہے نور کا
بہر ہستی میں صحبت احباب
ناز کا اس کے جو تھپیڑا ہے
یہ جواہر خانہ دنیا جو ہے یا اب وتاب
چہرہ ہے تیرا نور کی تنویر کا نقشا
کہاں وہ کیقبادی کارخانہ
کب لالہ وگل کر سکیں عارض سے تیرے ہمسری
ہر حباب اس کا نزاکت جوش ہے
وادئے خاطر چمن سے ملتا ہے
گرہ ایک ہوا کی نمایاں ہوئی
نہایت وہ غصہ ہوئی اور خفا
صبح جب بول اٹھا مرغ سحر ککڑوں کو
ختم
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.