ترتیب
چھپی ہوئی تاریخ
شاعری میں نے ایجاد کی
تل زعتر سے نشیب
مٹی کی کان
زندگی مجھے اتنی فراوانی سے نہیں ملی
قدیم تلواروں کا زنگ
گون زا گو کہاں مارا گیا
اگر میں کسی کو یادرہ سکا
چھینی ہوئی تاریخ
سمندر نے تم سے کیا کہا
ہمیں ہمارے خوابوں میں ماردیا جاتا ہے
بلس اسٹریٹ میں ایک شام
یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں
اگر انھیں معلوم ہو جائے
میں کچھ نہ کچھ بچ جاتا تھا
ایک دن اور زندہ رہ جانا
لاگ بک
اگر میں لوٹ کر نہ آسکا
میں مار دیا جاؤں گا
برفانی چڑیوں کا قتل
جنگل کے پاس ایک عورت تھی
میرا دل چاہتا ہے
ایک تلوار کی داستان
شاعر کا دل
کیاں آگ سب سے اچھی خریدار ہے؟
میں ہار جاتا ہوں
آگ لگنے کے وقت
آمین اور الوداع
ایک پاگل کتے کا نوحہ
کون شاعر رہ سکتا ہے
فیصلہ
روشنی
فوری طور پر جاری کی ہوئی ایک یادداشت
نظم
میں ڈرتا ہوں
مجھے وہ سفید پھول پسند نہیں
سرخ پتوں کا ایک درخت
محبت
ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں
گھاس سے ہر یالی کاٹنے کے بعد
جتنی دیر میں ایک روٹی پکے گی
بادشاہ کا خواب
نوجوبنا
دوزبانوں میں سزاے موت
ثوبیہ
اگر تم تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے
زندہ رہنے کی آخری تاریخ
ایک نئی زبان کا سیکھنا
تم خوبصورت دائروں میں رہتی ہو
نظم
مجھے اس باغ میں جانے دو
نظم
تم ایک بوسہ ہو
زرمینہ
جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو
شاعری کی اصناف
زندہ رہنا ایک میکانیکی اذیت ہے
آندروس آئی لینڈ
میں زندگی کو استعمال کرنا چاہتا ہوں
خشک ہوتی ہوئی بندر گاہ
مجھے ایک کاسنی پھول پسند تھا
جس سے محبت ہو
آخری دلیل
کیا محبت کہیں کھو گئی
اگر ہم گیت نہ گاتے
نظم
میزبان
محبت
تمھاری انگلیاں
تمھارے بدن کا تہوار ختم ہونے کے بعد
ہمیں بھول جانا چاہیے
جہنم
اگر آپ مریم کانسکی وچ ہوتے
کرسٹل ناخت
دوزبانوں میں سزاے موت
سوربون کی سابق طالبہ
ایک اچھا سوال
کون تھا وہ
طوق اور تعویذ
ہم یہ جان کر خوش ہو سکتے ہیں
میری انتوانیت
حکایت
گلدستے اور دعوت نامہ
لاوانیا کے قریب
تم نیند میں بہت خوبصورت لگتی ہو
دلیر لڑکی
اگر کوئی پوچھے
گھوڑی جن کی ہے
ملک الشعرا نبار اسباریان کا ایک مطلع
میرے پارلر میں قدم رکھو
وہ اپنے آنسو ایک نازک ہیرڈرائیر سے کھاتی ہے
فروخت کیے ہوے انسانوں کی بغاوت
خدا مجھ سے ناراض ہو گیا ہے
شاعر اور تلوار کا گیت
نظم
زندگی ہمارے لیے آسان کردی گئی ہے
پھانسی
میں اس لیے نہیں پیدا ہوا تھا
روکو کواور دوسری دنیائیں
ہمارا قومی درخت
ایک مملکت کی خفیہ تاریخ
صرف غیر اہم شاعر
روکو کواوردوسری دنیائیں
ایک ناممکن لڑکی
ایمپریس مارکٹ سے واپسی
اسٹریلاڈی کیوروز کی موت
کون کیا دیکھنا چاہتا ہے
ایک دشوار سوال
ایک زنگ آلودپن
وہ آدمی جسے لڑکیوں کی جلد پسند تھی
لینن فہمیدہ ریاض کے حضور میں
ہمیں بہت سارے پھول چاہییں
ایک افتتاحی تقریب
کھیل
ہمارے لیے
خدا وند خدا کی روح
افتتاحی تختی چوری ہوگئی ہے
ہدایات کے مطابق
شہر میں بہار لوٹ آئے گی
ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا
وقت ان کا دشمن ہے
ایک آئس کریم کو متعارف کرانے کی مہم
دریاے سندھ ہمارے دکھ کیوں نہیں بہالے جاتا
ایک لڑکی
ایک سیاسی جماعت کے لیے انتخابی نشان گھوڑا منتخب ہونے پر
رابرٹ کلائیو
صفحہ نمبر۱۶۳ پر ایک تصویر
برٹینیکس
فلکیات اور شاعر
عظیم ناموں سے ابتدا
کتے کی موت
مجھے ایک کہانی سناؤ
امینہ جیلانی کیوں نہیں لکھتی
فوجی ورجل کی زمین چھین لیتے ہیں
خیمۂ سیاہ
سحاب سبز نہ طاؤس نیلمیں لایا
ہوا ہے قطع مرا دست معجزہ تجھ پہ
ایک ہی وقت میں تمہید بر و بحر لکھی
کچھ اور رنگ میں ترتیب خشک وتر کرتا
کبھی نہ خود کو بداندیش دشت ودر رکھا
نشان کس کا سپہر سیاہ میں آیا
دعا کی راکھ پہ مر مر کا عطرواں اس کا
روشن وہ دل پہ میرے دل آزار سے ہوا
بہت نہ حوصلۂ عز وجاہ مجھ سے ہوا
اگر چہ دل کو کئی عکس نے گزند کیا
میزان بد ونیک سے اک گوہر نایاب
اس سیل کار وکشت سے عالم ہلاک تھا
جست فنا کو بازی آموختہ کیے
آئین انتقام سے آئینہ خانہ تھا
اک خشت اگر کنگرۂ ایوان پہ رکھنا
کوزے کو چاک، رنگ کو تصویر چاہیے
گرا تو گر کے سرخاک ابتذال آیا
حشر نے آمدہ اس سوختہ جاں پر آیا
خواب نے قید کیا ہے سر وافسر میرا
بانوے شہر سے کہنا کہ ملاقات کرے
بانوے شہر سے کل شام ملاقات ہوئی
چراغ کشتہ کیا اور علم نہادہ کیا
عجیب خانۂ زنجیر سے صدا آئی
یہ نہر آب بھی اس کی ہے ملک شام اس کا
بہار گل کا مجھے نشۂ شدید ہوا
خداے ناز کے ادراک سے زیادہ تھا
ستم کی تیغ پہ یہ دست بے نیام رکھا
یہ نوجوان جو اس خیمۂ سیاہ میں ہے
کیا خود کو خاک تیز کے مانند کر دیا
پیا ہے شور عزاخانۂ تغافل میں
اک شخص چاہیے جو مجھے زندہ رکھ سکے
اک شام پہ سفاک و بداندیش جلا دے
کوئی نہ حرف نوید و خبر کہا اس نے
تمام خاک ہوا اور پھر نہیں سے بنا
نے مسلک غالب نہ غم میر سے پہنچا
کتاب شب سے جو کوئی ورق نکل آیا
نشاط نشۂ وحشت میں یہ غضب کرتا
یہ قتل عام جو چشم سیاہ تاب سے ہے
نگہ کو شوخ بنانا، ادا کو خوش کرنا
گل شقائق لبنان کے لیے نکلا
گراں فروش تھا میں دل کے کارو بار میں کل
کہیں لکھا ہو مرے ہاتھ سے نہ خوں اس کا
کسی کی خاک سے اپنی سرشت کیا کرتا
اگر میں شرح کیے جاؤں تو یہ حق میرا
بہت دنوں میں سمجھ مجھ کو حال غیر آیا
اے بخت کہ اس جان تغافل نے پئے فال
یہ کہہ کے روز وہ شاخ حنا جلاتا ہے
قباے ناز وہ بے باک کھول دیتا ہے
وہ سیم بر تپش ارتباط سے خوش تھا
اک دن جو ترے گلشن نوروز میں آیا
فزوں پذیر رہے حسن شادکام اس کا
خواب خوش دیکھا وہں میں رات کہ وہ آئنہ رو
ترتیب
چھپی ہوئی تاریخ
شاعری میں نے ایجاد کی
تل زعتر سے نشیب
مٹی کی کان
زندگی مجھے اتنی فراوانی سے نہیں ملی
قدیم تلواروں کا زنگ
گون زا گو کہاں مارا گیا
اگر میں کسی کو یادرہ سکا
چھینی ہوئی تاریخ
سمندر نے تم سے کیا کہا
ہمیں ہمارے خوابوں میں ماردیا جاتا ہے
بلس اسٹریٹ میں ایک شام
یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں
اگر انھیں معلوم ہو جائے
میں کچھ نہ کچھ بچ جاتا تھا
ایک دن اور زندہ رہ جانا
لاگ بک
اگر میں لوٹ کر نہ آسکا
میں مار دیا جاؤں گا
برفانی چڑیوں کا قتل
جنگل کے پاس ایک عورت تھی
میرا دل چاہتا ہے
ایک تلوار کی داستان
شاعر کا دل
کیاں آگ سب سے اچھی خریدار ہے؟
میں ہار جاتا ہوں
آگ لگنے کے وقت
آمین اور الوداع
ایک پاگل کتے کا نوحہ
کون شاعر رہ سکتا ہے
فیصلہ
روشنی
فوری طور پر جاری کی ہوئی ایک یادداشت
نظم
میں ڈرتا ہوں
مجھے وہ سفید پھول پسند نہیں
سرخ پتوں کا ایک درخت
محبت
ہم کسی سے پوچھے بغیر زندہ رہتے ہیں
گھاس سے ہر یالی کاٹنے کے بعد
جتنی دیر میں ایک روٹی پکے گی
بادشاہ کا خواب
نوجوبنا
دوزبانوں میں سزاے موت
ثوبیہ
اگر تم تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے
زندہ رہنے کی آخری تاریخ
ایک نئی زبان کا سیکھنا
تم خوبصورت دائروں میں رہتی ہو
نظم
مجھے اس باغ میں جانے دو
نظم
تم ایک بوسہ ہو
زرمینہ
جس کا کوئی انتظار نہ کر رہا ہو
شاعری کی اصناف
زندہ رہنا ایک میکانیکی اذیت ہے
آندروس آئی لینڈ
میں زندگی کو استعمال کرنا چاہتا ہوں
خشک ہوتی ہوئی بندر گاہ
مجھے ایک کاسنی پھول پسند تھا
جس سے محبت ہو
آخری دلیل
کیا محبت کہیں کھو گئی
اگر ہم گیت نہ گاتے
نظم
میزبان
محبت
تمھاری انگلیاں
تمھارے بدن کا تہوار ختم ہونے کے بعد
ہمیں بھول جانا چاہیے
جہنم
اگر آپ مریم کانسکی وچ ہوتے
کرسٹل ناخت
دوزبانوں میں سزاے موت
سوربون کی سابق طالبہ
ایک اچھا سوال
کون تھا وہ
طوق اور تعویذ
ہم یہ جان کر خوش ہو سکتے ہیں
میری انتوانیت
حکایت
گلدستے اور دعوت نامہ
لاوانیا کے قریب
تم نیند میں بہت خوبصورت لگتی ہو
دلیر لڑکی
اگر کوئی پوچھے
گھوڑی جن کی ہے
ملک الشعرا نبار اسباریان کا ایک مطلع
میرے پارلر میں قدم رکھو
وہ اپنے آنسو ایک نازک ہیرڈرائیر سے کھاتی ہے
فروخت کیے ہوے انسانوں کی بغاوت
خدا مجھ سے ناراض ہو گیا ہے
شاعر اور تلوار کا گیت
نظم
زندگی ہمارے لیے آسان کردی گئی ہے
پھانسی
میں اس لیے نہیں پیدا ہوا تھا
روکو کواور دوسری دنیائیں
ہمارا قومی درخت
ایک مملکت کی خفیہ تاریخ
صرف غیر اہم شاعر
روکو کواوردوسری دنیائیں
ایک ناممکن لڑکی
ایمپریس مارکٹ سے واپسی
اسٹریلاڈی کیوروز کی موت
کون کیا دیکھنا چاہتا ہے
ایک دشوار سوال
ایک زنگ آلودپن
وہ آدمی جسے لڑکیوں کی جلد پسند تھی
لینن فہمیدہ ریاض کے حضور میں
ہمیں بہت سارے پھول چاہییں
ایک افتتاحی تقریب
کھیل
ہمارے لیے
خدا وند خدا کی روح
افتتاحی تختی چوری ہوگئی ہے
ہدایات کے مطابق
شہر میں بہار لوٹ آئے گی
ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا
وقت ان کا دشمن ہے
ایک آئس کریم کو متعارف کرانے کی مہم
دریاے سندھ ہمارے دکھ کیوں نہیں بہالے جاتا
ایک لڑکی
ایک سیاسی جماعت کے لیے انتخابی نشان گھوڑا منتخب ہونے پر
رابرٹ کلائیو
صفحہ نمبر۱۶۳ پر ایک تصویر
برٹینیکس
فلکیات اور شاعر
عظیم ناموں سے ابتدا
کتے کی موت
مجھے ایک کہانی سناؤ
امینہ جیلانی کیوں نہیں لکھتی
فوجی ورجل کی زمین چھین لیتے ہیں
خیمۂ سیاہ
سحاب سبز نہ طاؤس نیلمیں لایا
ہوا ہے قطع مرا دست معجزہ تجھ پہ
ایک ہی وقت میں تمہید بر و بحر لکھی
کچھ اور رنگ میں ترتیب خشک وتر کرتا
کبھی نہ خود کو بداندیش دشت ودر رکھا
نشان کس کا سپہر سیاہ میں آیا
دعا کی راکھ پہ مر مر کا عطرواں اس کا
روشن وہ دل پہ میرے دل آزار سے ہوا
بہت نہ حوصلۂ عز وجاہ مجھ سے ہوا
اگر چہ دل کو کئی عکس نے گزند کیا
میزان بد ونیک سے اک گوہر نایاب
اس سیل کار وکشت سے عالم ہلاک تھا
جست فنا کو بازی آموختہ کیے
آئین انتقام سے آئینہ خانہ تھا
اک خشت اگر کنگرۂ ایوان پہ رکھنا
کوزے کو چاک، رنگ کو تصویر چاہیے
گرا تو گر کے سرخاک ابتذال آیا
حشر نے آمدہ اس سوختہ جاں پر آیا
خواب نے قید کیا ہے سر وافسر میرا
بانوے شہر سے کہنا کہ ملاقات کرے
بانوے شہر سے کل شام ملاقات ہوئی
چراغ کشتہ کیا اور علم نہادہ کیا
عجیب خانۂ زنجیر سے صدا آئی
یہ نہر آب بھی اس کی ہے ملک شام اس کا
بہار گل کا مجھے نشۂ شدید ہوا
خداے ناز کے ادراک سے زیادہ تھا
ستم کی تیغ پہ یہ دست بے نیام رکھا
یہ نوجوان جو اس خیمۂ سیاہ میں ہے
کیا خود کو خاک تیز کے مانند کر دیا
پیا ہے شور عزاخانۂ تغافل میں
اک شخص چاہیے جو مجھے زندہ رکھ سکے
اک شام پہ سفاک و بداندیش جلا دے
کوئی نہ حرف نوید و خبر کہا اس نے
تمام خاک ہوا اور پھر نہیں سے بنا
نے مسلک غالب نہ غم میر سے پہنچا
کتاب شب سے جو کوئی ورق نکل آیا
نشاط نشۂ وحشت میں یہ غضب کرتا
یہ قتل عام جو چشم سیاہ تاب سے ہے
نگہ کو شوخ بنانا، ادا کو خوش کرنا
گل شقائق لبنان کے لیے نکلا
گراں فروش تھا میں دل کے کارو بار میں کل
کہیں لکھا ہو مرے ہاتھ سے نہ خوں اس کا
کسی کی خاک سے اپنی سرشت کیا کرتا
اگر میں شرح کیے جاؤں تو یہ حق میرا
بہت دنوں میں سمجھ مجھ کو حال غیر آیا
اے بخت کہ اس جان تغافل نے پئے فال
یہ کہہ کے روز وہ شاخ حنا جلاتا ہے
قباے ناز وہ بے باک کھول دیتا ہے
وہ سیم بر تپش ارتباط سے خوش تھا
اک دن جو ترے گلشن نوروز میں آیا
فزوں پذیر رہے حسن شادکام اس کا
خواب خوش دیکھا وہں میں رات کہ وہ آئنہ رو
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.