سرورق
فہرست
نرجس کی شاعری
اندھیرے اجالے کی شاعرہ
محبت آسماں ہے
قلم برداشتہ۔۔۔۔ایک تاثر
ایک حقیقی شاعرہ
نفسیاتی تجزیے کی شاعرہ
تعارف
ایک شاخ بے ثمر تھی میں عطا سے پیشتر
مرجع جن وبشر جائے زیارت کربلا
اک ہاتھ دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے
ایک تتلی کی طرح اس کے تعاقب میں ہوں میں
نمی تھی آنکھ میں لیکن اک اعتماد بھی تھا
اک خواب نے پاؤں درامکان پہ رکھا
آنسوؤں سے سادہ کاغذ کو سجایا خوب تھا
ترے بغیر مرے خواب مرگئے چپ چاپ
صورت حال دل بدلتا ہے
آنکھیں چھوڑ اائے تھے مہتاب اٹھالائے تھے
چھوڑ آئے ہیں جہاں خواب کے گلدان رکھے
رات ہوا کمرہ تنہائی بارش کی آواز
وہ پہلا تجربہ چاہت کا دہرانا پڑے گا
رقص زمیں کو گردش افلاک چاہیے
کب اسے رنج کا احساس دلایا میں نے
پھیلے ہاتھوں کی دعا کوئی ثمر لائی تو ہے
بلا کا فاصلہ سمٹا ہوا وصال میں تھا
اپنے پندار سے گھٹ کر نہیں قائم رہتا
یادیں مہک اٹھیں تو دیے بولنے لگے
ضبط ٹوٹا نہ مگر نالۂ فریاد آیا
میں اس کو کم سے کم اب یاد کرنا چاہتی ہوں
دم بہ دم بجھ رہا ہے مجھ میں کون
دعائیں مانگی تھیں اک عمر سورجوں کے لیے
فضا کب شہر بھر کی اجنبی سی ہوتی جاتی تھی
ایک کروٹ پہ رات بھر رہنا
سجا کے بیٹھی جو دل کو دکان کی صورت
توازن کیش اگر یہ آسماں ہے
اس کے لوٹ آنے کا یوں ہوگمان اب کے
کہیں گرفت نہیں کوئی استعارا نہیں
میری آنکھوں پہ پھر سے جھک آئے
ہم اپنے اپنے غم کا ذائقہ تبدیل کرتے ہیں
وقت لوٹا نہیں سکتا مرا بچپن لیکن
غبار شب ذرا اس امر کی خبر کرنا
شگون لے کے چلی تھی میں اک ستارے سے
گماں کے شہر سے باہر نکلنا چاہتی ہوں
یوں بھی ہجرت کی روایات مرا ورثہ ہیں
چہرے بدل دیے سبھی لہجے بدل دیے
حادثہ بار بار ملتا ہے
وہ جتنی دیر بھی میرا نہیں تھا
مرے تکیے سے لپٹ کر کوئی بھیگا لمحہ
شوق دیدار کو تسخیر کرے تو جانوں
کتنے دن کے بعد تیری یاد کا موسم چلا
یہ کس کے عکس کی ضوتھی مرے رنگ تمنا میں
ہوا تھی موسموں کے ساتھ اپنے جوڑ توڑ میں
دل بدلتے ہیں جہاں لہجے بدل جاتے ہیں
حصار خواب سے مجھ کو رہائی دے دے کر
شاخسانہ یہ کسی خواب کی تعبیر کا ہے
تیرا فرمان کہاں دل کو دلاسا دیتا
تو اپنے عکس کے ہر رنگ سے مکر اک دن
رفاقتوں کا تسلسل ہے پیار میں نا خوب
محبت کو کوئی انوکھا سا انداز دینا
تو کیا عجب یہ تری یاد کا کرشمہ ہو
دل کی درگاہ پہ منت کوئی مانی جائے
میں دیکھتی ہوں ستارے کو ٹوٹتا ہر شام
ٹھہر گئی تھی کبھی روشنی ان آنکھوں میں
باہر نہ گھر سے جائے کسی طور گھر کی بات
دھوپ چھاؤں کا نام ہے دنیا
پھولوں کو مت کتاب میں رکھ احتیاط سے
امتحاں لینے چلا ہے مری بینائی کا
اک حادثہ خیال کی صورت بدل گیا
زمین بانٹ چکے آسمان بانیں گے
تمھارے ساتھ چلبوں تو نبٹ بھی سکتا ہے
گلے لگ کر وہ کل رویا بہت تھا
ایک لمحہ تھا ہاتھ میں لیکن
جو مجھ کو دیکھتے تھکتا نہیں تھا
اپنے دل میں جو غم دکھائی دے
گھر کے آنگن کو جو دو نیم کیے جاتا ہے
فضا کو رنگ ہواؤں کو اعتبار دیا
درد کی ابتدا تو ہو پہلے
ساحل کے نظارے سے سمندر نہیں کھلتا
اماس راتوں کے ریشے ریشے میں چاندنی کی لکیر اتری
مزاروں پر کسی کو مانگنے ہم جب بھی جاتے ہیں
ان کو آیا مرا خیال کہاں
اب یہ افسوس ہمھی پاس رفاقت کرتے
آنکھوں میں اشک آئے تو دھندلاگئی نظر
غباار شب کو امکان سحر دے
کم سے کم رات کو اب نیند تو آجاتی ہے
شجر سہمے ہوئے سے لگ رہے ہیں
دوپنے پر ستارے ٹانکتی ہے
غم دل کی فراوانی بہت ہے
کیا تصور مرے گمان میں تھا
چپکے سے ہمراہ تمہارے ہولے گا
آئینوں میں عکس چٹحنے لگتے ہیں
مرے اندر اڑی ہیں تتلیاں مری صدا کی
اسے گنوا کے اگرچہ ملال بھی ہوگا
اک موسم بہار ہے بینائی کے قریب
سرح نخل نوا کوئی نہیں ہے
نموئے شاخ کو باد صبا کا لمس بہت
تمہارے شہر میں ایسا کوئی سکہ نہ چلتا تھا
تمہاری آرزو کرتا ہے کوئی
ہمھی میں کوئی جھجک رہی ہے
موت سے پہلے کوئی جینے کی صورت کیجے
مری دسترس سے باہر تری قامت کشیدہ
خیال وخواب ہوئیں خوش گمانیاں کیا کیا
نرم رسیلی باتوں والے لوگ بڑے زہریلے ہوں
اک شب ہجرنے اس درجہ اجالا ہے مجھے
درمیاں ہے جو زمانہ تو ہٹاؤ جاناں
کسک دل میں کبھی آنکھوں میں پانی چھوڑ جاتی ہے
نظمیں
سنو
خسارے یوں بھی ہوتے ہیں
چاند سے کیں جو باتیں
سایہ
ایک نظم دسمبر کے مہینے میں
نظم
خواہش
تتلیوں کے پروں پہ نہ لکھ
نئے موسم کی خوشبو
نظم
دوسری خوشبو
ہوا
کہیں چاند آنگن میں
وہ چھوٹا سادن
اے پیاری بیٹی
شکست اعتبار
یادیں
نظم
انتظار ایسا
تم ہی کہو
ایک نظم مری کی وادی میں
سب مایا تھا
تری آواز سن کر
تم نہیں ہو تو
مرے بچے
نثری نظمیں
محبت آسماں ہے
۔۔۔۔سے ایک سوال
نظم
میرے بعد
کاش میں پوچھ سکتی
اپنی بیٹی کے لیے ایک خواہش
سفر میں
المیہ
پھر انھی وادیوں میں
مرے ہمسفر
ادھوری واپسی
خوں بہار
ان بلندیوں پر
مختصر نظمیں
آخری سانس
دھنک
جبر
AUTHORنرجس افروز زیدی
CONTRIBUTORارجمند آرا
PUBLISHER دستاویز مطبوعات، لاہور
AUTHORنرجس افروز زیدی
CONTRIBUTORارجمند آرا
PUBLISHER دستاویز مطبوعات، لاہور
سرورق
فہرست
نرجس کی شاعری
اندھیرے اجالے کی شاعرہ
محبت آسماں ہے
قلم برداشتہ۔۔۔۔ایک تاثر
ایک حقیقی شاعرہ
نفسیاتی تجزیے کی شاعرہ
تعارف
ایک شاخ بے ثمر تھی میں عطا سے پیشتر
مرجع جن وبشر جائے زیارت کربلا
اک ہاتھ دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے
ایک تتلی کی طرح اس کے تعاقب میں ہوں میں
نمی تھی آنکھ میں لیکن اک اعتماد بھی تھا
اک خواب نے پاؤں درامکان پہ رکھا
آنسوؤں سے سادہ کاغذ کو سجایا خوب تھا
ترے بغیر مرے خواب مرگئے چپ چاپ
صورت حال دل بدلتا ہے
آنکھیں چھوڑ اائے تھے مہتاب اٹھالائے تھے
چھوڑ آئے ہیں جہاں خواب کے گلدان رکھے
رات ہوا کمرہ تنہائی بارش کی آواز
وہ پہلا تجربہ چاہت کا دہرانا پڑے گا
رقص زمیں کو گردش افلاک چاہیے
کب اسے رنج کا احساس دلایا میں نے
پھیلے ہاتھوں کی دعا کوئی ثمر لائی تو ہے
بلا کا فاصلہ سمٹا ہوا وصال میں تھا
اپنے پندار سے گھٹ کر نہیں قائم رہتا
یادیں مہک اٹھیں تو دیے بولنے لگے
ضبط ٹوٹا نہ مگر نالۂ فریاد آیا
میں اس کو کم سے کم اب یاد کرنا چاہتی ہوں
دم بہ دم بجھ رہا ہے مجھ میں کون
دعائیں مانگی تھیں اک عمر سورجوں کے لیے
فضا کب شہر بھر کی اجنبی سی ہوتی جاتی تھی
ایک کروٹ پہ رات بھر رہنا
سجا کے بیٹھی جو دل کو دکان کی صورت
توازن کیش اگر یہ آسماں ہے
اس کے لوٹ آنے کا یوں ہوگمان اب کے
کہیں گرفت نہیں کوئی استعارا نہیں
میری آنکھوں پہ پھر سے جھک آئے
ہم اپنے اپنے غم کا ذائقہ تبدیل کرتے ہیں
وقت لوٹا نہیں سکتا مرا بچپن لیکن
غبار شب ذرا اس امر کی خبر کرنا
شگون لے کے چلی تھی میں اک ستارے سے
گماں کے شہر سے باہر نکلنا چاہتی ہوں
یوں بھی ہجرت کی روایات مرا ورثہ ہیں
چہرے بدل دیے سبھی لہجے بدل دیے
حادثہ بار بار ملتا ہے
وہ جتنی دیر بھی میرا نہیں تھا
مرے تکیے سے لپٹ کر کوئی بھیگا لمحہ
شوق دیدار کو تسخیر کرے تو جانوں
کتنے دن کے بعد تیری یاد کا موسم چلا
یہ کس کے عکس کی ضوتھی مرے رنگ تمنا میں
ہوا تھی موسموں کے ساتھ اپنے جوڑ توڑ میں
دل بدلتے ہیں جہاں لہجے بدل جاتے ہیں
حصار خواب سے مجھ کو رہائی دے دے کر
شاخسانہ یہ کسی خواب کی تعبیر کا ہے
تیرا فرمان کہاں دل کو دلاسا دیتا
تو اپنے عکس کے ہر رنگ سے مکر اک دن
رفاقتوں کا تسلسل ہے پیار میں نا خوب
محبت کو کوئی انوکھا سا انداز دینا
تو کیا عجب یہ تری یاد کا کرشمہ ہو
دل کی درگاہ پہ منت کوئی مانی جائے
میں دیکھتی ہوں ستارے کو ٹوٹتا ہر شام
ٹھہر گئی تھی کبھی روشنی ان آنکھوں میں
باہر نہ گھر سے جائے کسی طور گھر کی بات
دھوپ چھاؤں کا نام ہے دنیا
پھولوں کو مت کتاب میں رکھ احتیاط سے
امتحاں لینے چلا ہے مری بینائی کا
اک حادثہ خیال کی صورت بدل گیا
زمین بانٹ چکے آسمان بانیں گے
تمھارے ساتھ چلبوں تو نبٹ بھی سکتا ہے
گلے لگ کر وہ کل رویا بہت تھا
ایک لمحہ تھا ہاتھ میں لیکن
جو مجھ کو دیکھتے تھکتا نہیں تھا
اپنے دل میں جو غم دکھائی دے
گھر کے آنگن کو جو دو نیم کیے جاتا ہے
فضا کو رنگ ہواؤں کو اعتبار دیا
درد کی ابتدا تو ہو پہلے
ساحل کے نظارے سے سمندر نہیں کھلتا
اماس راتوں کے ریشے ریشے میں چاندنی کی لکیر اتری
مزاروں پر کسی کو مانگنے ہم جب بھی جاتے ہیں
ان کو آیا مرا خیال کہاں
اب یہ افسوس ہمھی پاس رفاقت کرتے
آنکھوں میں اشک آئے تو دھندلاگئی نظر
غباار شب کو امکان سحر دے
کم سے کم رات کو اب نیند تو آجاتی ہے
شجر سہمے ہوئے سے لگ رہے ہیں
دوپنے پر ستارے ٹانکتی ہے
غم دل کی فراوانی بہت ہے
کیا تصور مرے گمان میں تھا
چپکے سے ہمراہ تمہارے ہولے گا
آئینوں میں عکس چٹحنے لگتے ہیں
مرے اندر اڑی ہیں تتلیاں مری صدا کی
اسے گنوا کے اگرچہ ملال بھی ہوگا
اک موسم بہار ہے بینائی کے قریب
سرح نخل نوا کوئی نہیں ہے
نموئے شاخ کو باد صبا کا لمس بہت
تمہارے شہر میں ایسا کوئی سکہ نہ چلتا تھا
تمہاری آرزو کرتا ہے کوئی
ہمھی میں کوئی جھجک رہی ہے
موت سے پہلے کوئی جینے کی صورت کیجے
مری دسترس سے باہر تری قامت کشیدہ
خیال وخواب ہوئیں خوش گمانیاں کیا کیا
نرم رسیلی باتوں والے لوگ بڑے زہریلے ہوں
اک شب ہجرنے اس درجہ اجالا ہے مجھے
درمیاں ہے جو زمانہ تو ہٹاؤ جاناں
کسک دل میں کبھی آنکھوں میں پانی چھوڑ جاتی ہے
نظمیں
سنو
خسارے یوں بھی ہوتے ہیں
چاند سے کیں جو باتیں
سایہ
ایک نظم دسمبر کے مہینے میں
نظم
خواہش
تتلیوں کے پروں پہ نہ لکھ
نئے موسم کی خوشبو
نظم
دوسری خوشبو
ہوا
کہیں چاند آنگن میں
وہ چھوٹا سادن
اے پیاری بیٹی
شکست اعتبار
یادیں
نظم
انتظار ایسا
تم ہی کہو
ایک نظم مری کی وادی میں
سب مایا تھا
تری آواز سن کر
تم نہیں ہو تو
مرے بچے
نثری نظمیں
محبت آسماں ہے
۔۔۔۔سے ایک سوال
نظم
میرے بعد
کاش میں پوچھ سکتی
اپنی بیٹی کے لیے ایک خواہش
سفر میں
المیہ
پھر انھی وادیوں میں
مرے ہمسفر
ادھوری واپسی
خوں بہار
ان بلندیوں پر
مختصر نظمیں
آخری سانس
دھنک
جبر
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔