سرورق
ترتیب
خاک پر خلد بریں کی باتیں
بے وفا وقت نہ تیرا ہے، نہ میرا ہوگا
عام ہو جائے نہ اس پیکر مے فام کا نام
دشت میں ساتھ چلے تو ہزاروں، جو بھی چلا بیگانہ چلا
ہوا
ہوا کی بات سنائی نہ دے سکی سب کو
گو میں سکوں کی خاطر اتراہوں آسماں سے
دوسرا رخ
مجھے سے کافر کو ترے عشق نے یوں شرمایا
آج تک حسن کا معیار ہے عشق آزاری
معیار
اشعار
تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں، جہاں تک دیکھوں
تو بعنوان حیا یاد آیا
ہوائے دشت میں کیفیت بہار بھی ہے
پتھر
جنگل
ذہنوں میں خیال جل رہے ہیں
ہر لمحہ اگر گریز پا ہے
جو اپنی جڑوں کو کاٹتا ہے
لمحے اور صدیاں
یہ دوپہر، یہ خموشی کے لب پہ سائیں سائیں
یوں تو سب پھول کھلے سائے میں تلواروں کے
مجبوری
احساس میں پھول کھل رہے ہیں
محبت
دیار یار میں دیدار یار ہی نہ ہوا
اظہار
تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے
اذان صبح سے شب کا علاج کیا ہوگا
یہ عجب شب ہے
یوں تمھارا طرز محبوبی تو معصومانہ تھا
نیلام
صدائے بے صدا
آج کی شب تم نہ آپائے، مگر اچھا ہوا
حصار فصل گل
شعور میں کبھی احساس میں بساؤں اسے
ضبط کا عالم جب اس حد تک تہ وبالا نہ تھا
۶؍ ستمبر
کشمیر
کارواں بہاروں کا
مروں تو میں کسی چہرے میں رنگ بھر جاؤں
میں وہ شاعر ہوں، جو شاہوں کا ثنا خواں نہ ہوا
عمر بھر اس نے اسی طرح لبھایا ہے مجھے
بیسویں صدی
بھونچال
اب تو کچھ اور ہی اعجاز دکھایا جائے
میری طرح، کسی کو تو اپنا بنا کے دیکھ
تو کعبۂ دل میں تھا تو پتھر کا صنم تھا
اس وقت وہ حدّت ہے امانت مرے فن کی
ہجر کی رات کا انجام تو پیارا نکلا
وقفہ
پھولوں سے تو لد رہی ہے ڈالی
تقاضے
سب نے انسان کو معبود بنا رکھا ہے
دلوں سے آرزوئے عمر جاوداں نہ گئی
کرب
ماورائے سماعت
کمال دانش
روشنی کی تلاش
دوری
کسی کی چاپ نہ تھی، چند خشک پتے تھے
اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
قیامت
ابدیّت
انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا
حکم
عشق کرو
نہ ظلمت شب میں کچھ کمی ہے، نہ کوئی آثار ہیں سحر کے
احباب کے حصّے میں ہزاروں ہنر آئے
اس طرف سے ترا اک پل کو گزر ہونے تک
کل رات عجیب خواب دیکھا
اشعار
میں زندۂ جاوید بانداز دگر ہوں
کوہ کاٹیں گے کبھی، دشت کبھی چھانیں گے
چھن گئے تم تو حسینوں کے یہ میلے کیوں ہیں
ہیں میرے قلب ونظر، لعل اور گہر میرے
میں تیرے ساتھ رواں تھا، مگر اکیلا تھا
محنت کش
خوئے اظہار نہیں بدلیں گے
اشعار
اندھیرے نے کہا
گوزر وسیم کے انبار ہیں اغیار کے پاس
میرا ذوق دید، تیرا روئے زیبا جل گیا
اب تک تو نور ونگہت و رنگ وصدا کہوں
کیا جرم ہے شوق خودنمائی؟
بجا کہ یوں تو سکوں تیری بارگاہ میں ہے
ہیولیٰ
جو شوق ہے، کہ اضافہ ہو نکتہ چینوں میں
کھنڈر
اب کے یوں موسم بہار آیا
کسے معلوم تھا، اس شے کی بھی تجھ میں کمی ہوگی
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
صفر
یوں تو کہنے کو ہے بدن بھی یہی
اے دیوتا
عشق کے امتحاں
جو ہری جنگ کے بعد کا ایک منظر
آئینہ دیکھ کے ، ایک اور تماشا دیکھو
چہل پہل
چاند سورج نگراں رہتے ہیں باطل کی طرف
فرد جرم
اعتماد
اشک تھا، چشم تر کے کام آیا
ہوا کے روپ
نامناسب
شکستہ پائی کے مرحلے، دشت ہجر میں اس لیے نہ آئے
ابلاغ
برباد کر گیا مرا دست دعا مجھے
عبادت
مرجاتا ہوں، جب یہ سوچتا ہوں
اے خدا
شب گزرنے سے تو انکار نہیں
امیر وغریب
گیا جو میں کسی محفل میں التجا بن کر
مستقبل
میری آنکھیں ہیں کہ پڑتے ہیں بھنور پانی میں
ویت نام کا دعوت نامہ
یہ لمحہ
نشانات سفر
وہی نقش رو برو ہے، وہی عکس چار سو ہے
ایک پہاڑی گاؤں کے کنوئیں پر
جب یہ طے ہے، میں کبھی تجھ کو نہیں پاسکتا
اردن
یارب، تو اگر اب بھی گریزاں رہا ہم سے
پیش گوئی
چھپا کے سر میں جو تہذیب کے کھنڈر نکلے
سرمایہ
اس سے پہلے کہ حشر آنے لگے
تم یہ کیا معجزے دکھانے لگے
کب تک آخر میں بھرے شہر کو صحرا سمجھوں
اپنے چہروں کو گل فشاں دیکھو
ہم اندھیروں سے بچ کے چلتے ہیں
اشعار
کس کو دلدار کہیں کس کو دلآزار کہیں
اجنبی لفظ کی تلاش
دل میں ہم ایک ہی جذبے کو سموئیں کیسے
سیّاح کی ڈائری کا ایک ورق
موت وحیات کا مقصد کیا ہے، آخر کچھ معلوم تو ہو
اتنی بلندیوں سے ، تہوں میں اتر نہ جا
بیسویں صدی کا انسان
چھپے جو راز، مری قدرت بیاں بن کر
غرور ذات
بہت مشکل ہے ترک عاشقی کا درد سہنا بھی
میں روتا ہوں
ایک ہی رنگ ہے
پتلی
سقوط کے بعد
باقی ہے
لخت لخت چہروں کو، آئینوں میں کیا دیکھیں
کیا خبر تھی، یہ زمانے بھی ہیں آنے والے
دوستو، آؤ
دعا
بچوں کا کھیل
طوفان ہے ہمرکاب میرا
دوہے
قانون فطرت
جب سے ہم تقسیم ہوے ہیں نسلوں اور زبانوں میں
چارہ گرو، کیوں الجھاتے ہو غنچہ وگل کے فسانوں میں
اگر ہے جذبۂ تعمیر زندہ
شبنم کے ساتھ حادثہ
ایک ذاتی نظم
خلا میں پرتو آدم دکھائی دیتا ہے
۲۵۔ الفاظ
نئے انساں کی جو رعنائی ہے
موت کی انجمن آرائی ہے
چاک گریباں
آنکھیں تری، کیوں لٹی ہوئی ہیں
میں حقائق میں گرفتار ہوں، وہموں میں نہیں
یہ ہو رہی ہیں جو سرگوشیاں ہواؤں میں
جانے، کون رہزن ہیں، جانے، کون رہبر ہیں
یار لوگ
تجھ سے ملتے ہی، بچھڑنا ترا یاد آتا ہے
کہیں تو میری محبت میں گھل رہا ہی نہ ہو
میں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا
میں ہوں تیرا کہ تو شیدا میرا
بیسویں صدی کے نصف آخر کا انسان
اک بت مجھے بھی گوشۂ دل میں پڑا ملا
چوگا
فنا کی سمت ہے رخ زندگی کے دھارے کا
ابتلا
ببول کوہ پہ تھی، دشت میں صنوبر تھے
کھڑا تھا کب سے، زمیں پیٹھ پر اٹھائے ہوئے
کتنے بہت سے روپ ہیں، حضرت آدمی کے بھی
جب ترا حکم ملا، ترک محبت کر دی
غرق ہو کر ابھرنے کی ایک کہانی
مجھے تلاش کرو
میں دوستوں سے تھکا، دشمنوں میں جا بیٹھا
یہ جب تیری مشیت ہے تو کیا تقصیر میری ہے
یہ کیا، کہ لمحۂ موجود کا ادب نہ کریں
پس آئینہ
مستقبل پڑھنے والے تصویر ہوے
حمد
نفی
میرے صحرا بھی ترے، میرا چمن بھی تیرا
نعت
عرش سے پار پہنچتی مری پرواز خیال
میں اس فریب ہی میں رہا مبتلا سدا
کتنے سر تھے جو پروئے گئے تلواروں میں
تخلیقی لمحے کی دعا
نند
تحریر
مغرب کے افق پہ جو شفق ہے
لڑکیو!
بخدمت اقبال
میں ایک ذرّہ سہی، کائنات بھر میں رہوں
عرفان کا حادثہ
دن آگئے
افریقہ
کھیل اور کھلونا
در گزر کرنے کی عادت سیکھو
فصیل
کچھ غلط بھی تو نہیں تھا مرا تنہا ہونا
زخم نگاہ کے لیے مرہم اندمال تھے
خدا سے ایک سوال
نہ دل میں درد، نہ آنکھوں میں نور ربط قدیم
کیوں ایک ہی بار آپ انھیں رخصت نہیں کرتے
محنت کش لڑکیاں
پس شفق مجھے خون جگر نظر آئے
تمھیں جو حسن فقط فتنہ گر نظر آئے
کیا ہوا!
صحرا ہوں، مجھے چمن بنا دے
شاعری
نئی بارش
تیرے لبوں کی سرخی، میرے لہو جیسی تھی
انسان اور آسمان
جی چاہتا ہے فلک پہ جاؤں
تاریخ کا موڑ
بارشوں کے موسموں میں
وفا میری متاع ناخریدہ
نہ سہی اور کہیں گھر میرا
ا۔ب
پھول بھی کاغذ کے ہیں، مانگے کی ہے مہکار بھی
۱۹۷۵ء
ستارہ شام کا
جو انقلاب مرے دوستوں کے ذہن میں ہے
اگر ہجوم ہو اذہان پر عقاید کا
قطعات
ہوا کی نرم خرامی بھی کیا قیامت تھی
بہت عجیب سے لہجے میں تم نے پوچھا ہے
اب اور کس کے لیے اہتمام رخت کروں
نہیں قبول ادھورا صلہ پرستش کا
یوں تو جوہر نے الاؤ سا لگا رکھا ہے
بات کہنے کا جو ڈھب ہو، تو ہزاروں باتیں
اب ترے پیار میں پہلا سا نہیں اجلا پن
موت ہی موت ہے محیط مگر
ظالموں کی یہ عجب منطق ہے
رنگ وحرف وصدا کی دنیا میں
چپ تو ہو جاؤں، مگر میرا ضمیر
یہ دیکھ کے، رہبران حق پر
شب مجھے کچھ یوں لگا، جیسے نجوم
اے کشتیٔ اعتقاد کھینے والے!
ہر زخم میں ڈوب کر ابھرنا ہے مجھے
رباعیات
قدرت کا دکھا نیا تماشا، یارب!
ملتا جو خدا کہیں، تو اس سے کہتے
انسان میں کیوں زوال پیدا ہوگا
متفرق اشعار
سرورق
ترتیب
خاک پر خلد بریں کی باتیں
بے وفا وقت نہ تیرا ہے، نہ میرا ہوگا
عام ہو جائے نہ اس پیکر مے فام کا نام
دشت میں ساتھ چلے تو ہزاروں، جو بھی چلا بیگانہ چلا
ہوا
ہوا کی بات سنائی نہ دے سکی سب کو
گو میں سکوں کی خاطر اتراہوں آسماں سے
دوسرا رخ
مجھے سے کافر کو ترے عشق نے یوں شرمایا
آج تک حسن کا معیار ہے عشق آزاری
معیار
اشعار
تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں، جہاں تک دیکھوں
تو بعنوان حیا یاد آیا
ہوائے دشت میں کیفیت بہار بھی ہے
پتھر
جنگل
ذہنوں میں خیال جل رہے ہیں
ہر لمحہ اگر گریز پا ہے
جو اپنی جڑوں کو کاٹتا ہے
لمحے اور صدیاں
یہ دوپہر، یہ خموشی کے لب پہ سائیں سائیں
یوں تو سب پھول کھلے سائے میں تلواروں کے
مجبوری
احساس میں پھول کھل رہے ہیں
محبت
دیار یار میں دیدار یار ہی نہ ہوا
اظہار
تجھے اظہار محبت سے اگر نفرت ہے
اذان صبح سے شب کا علاج کیا ہوگا
یہ عجب شب ہے
یوں تمھارا طرز محبوبی تو معصومانہ تھا
نیلام
صدائے بے صدا
آج کی شب تم نہ آپائے، مگر اچھا ہوا
حصار فصل گل
شعور میں کبھی احساس میں بساؤں اسے
ضبط کا عالم جب اس حد تک تہ وبالا نہ تھا
۶؍ ستمبر
کشمیر
کارواں بہاروں کا
مروں تو میں کسی چہرے میں رنگ بھر جاؤں
میں وہ شاعر ہوں، جو شاہوں کا ثنا خواں نہ ہوا
عمر بھر اس نے اسی طرح لبھایا ہے مجھے
بیسویں صدی
بھونچال
اب تو کچھ اور ہی اعجاز دکھایا جائے
میری طرح، کسی کو تو اپنا بنا کے دیکھ
تو کعبۂ دل میں تھا تو پتھر کا صنم تھا
اس وقت وہ حدّت ہے امانت مرے فن کی
ہجر کی رات کا انجام تو پیارا نکلا
وقفہ
پھولوں سے تو لد رہی ہے ڈالی
تقاضے
سب نے انسان کو معبود بنا رکھا ہے
دلوں سے آرزوئے عمر جاوداں نہ گئی
کرب
ماورائے سماعت
کمال دانش
روشنی کی تلاش
دوری
کسی کی چاپ نہ تھی، چند خشک پتے تھے
اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی
قیامت
ابدیّت
انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا
حکم
عشق کرو
نہ ظلمت شب میں کچھ کمی ہے، نہ کوئی آثار ہیں سحر کے
احباب کے حصّے میں ہزاروں ہنر آئے
اس طرف سے ترا اک پل کو گزر ہونے تک
کل رات عجیب خواب دیکھا
اشعار
میں زندۂ جاوید بانداز دگر ہوں
کوہ کاٹیں گے کبھی، دشت کبھی چھانیں گے
چھن گئے تم تو حسینوں کے یہ میلے کیوں ہیں
ہیں میرے قلب ونظر، لعل اور گہر میرے
میں تیرے ساتھ رواں تھا، مگر اکیلا تھا
محنت کش
خوئے اظہار نہیں بدلیں گے
اشعار
اندھیرے نے کہا
گوزر وسیم کے انبار ہیں اغیار کے پاس
میرا ذوق دید، تیرا روئے زیبا جل گیا
اب تک تو نور ونگہت و رنگ وصدا کہوں
کیا جرم ہے شوق خودنمائی؟
بجا کہ یوں تو سکوں تیری بارگاہ میں ہے
ہیولیٰ
جو شوق ہے، کہ اضافہ ہو نکتہ چینوں میں
کھنڈر
اب کے یوں موسم بہار آیا
کسے معلوم تھا، اس شے کی بھی تجھ میں کمی ہوگی
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
صفر
یوں تو کہنے کو ہے بدن بھی یہی
اے دیوتا
عشق کے امتحاں
جو ہری جنگ کے بعد کا ایک منظر
آئینہ دیکھ کے ، ایک اور تماشا دیکھو
چہل پہل
چاند سورج نگراں رہتے ہیں باطل کی طرف
فرد جرم
اعتماد
اشک تھا، چشم تر کے کام آیا
ہوا کے روپ
نامناسب
شکستہ پائی کے مرحلے، دشت ہجر میں اس لیے نہ آئے
ابلاغ
برباد کر گیا مرا دست دعا مجھے
عبادت
مرجاتا ہوں، جب یہ سوچتا ہوں
اے خدا
شب گزرنے سے تو انکار نہیں
امیر وغریب
گیا جو میں کسی محفل میں التجا بن کر
مستقبل
میری آنکھیں ہیں کہ پڑتے ہیں بھنور پانی میں
ویت نام کا دعوت نامہ
یہ لمحہ
نشانات سفر
وہی نقش رو برو ہے، وہی عکس چار سو ہے
ایک پہاڑی گاؤں کے کنوئیں پر
جب یہ طے ہے، میں کبھی تجھ کو نہیں پاسکتا
اردن
یارب، تو اگر اب بھی گریزاں رہا ہم سے
پیش گوئی
چھپا کے سر میں جو تہذیب کے کھنڈر نکلے
سرمایہ
اس سے پہلے کہ حشر آنے لگے
تم یہ کیا معجزے دکھانے لگے
کب تک آخر میں بھرے شہر کو صحرا سمجھوں
اپنے چہروں کو گل فشاں دیکھو
ہم اندھیروں سے بچ کے چلتے ہیں
اشعار
کس کو دلدار کہیں کس کو دلآزار کہیں
اجنبی لفظ کی تلاش
دل میں ہم ایک ہی جذبے کو سموئیں کیسے
سیّاح کی ڈائری کا ایک ورق
موت وحیات کا مقصد کیا ہے، آخر کچھ معلوم تو ہو
اتنی بلندیوں سے ، تہوں میں اتر نہ جا
بیسویں صدی کا انسان
چھپے جو راز، مری قدرت بیاں بن کر
غرور ذات
بہت مشکل ہے ترک عاشقی کا درد سہنا بھی
میں روتا ہوں
ایک ہی رنگ ہے
پتلی
سقوط کے بعد
باقی ہے
لخت لخت چہروں کو، آئینوں میں کیا دیکھیں
کیا خبر تھی، یہ زمانے بھی ہیں آنے والے
دوستو، آؤ
دعا
بچوں کا کھیل
طوفان ہے ہمرکاب میرا
دوہے
قانون فطرت
جب سے ہم تقسیم ہوے ہیں نسلوں اور زبانوں میں
چارہ گرو، کیوں الجھاتے ہو غنچہ وگل کے فسانوں میں
اگر ہے جذبۂ تعمیر زندہ
شبنم کے ساتھ حادثہ
ایک ذاتی نظم
خلا میں پرتو آدم دکھائی دیتا ہے
۲۵۔ الفاظ
نئے انساں کی جو رعنائی ہے
موت کی انجمن آرائی ہے
چاک گریباں
آنکھیں تری، کیوں لٹی ہوئی ہیں
میں حقائق میں گرفتار ہوں، وہموں میں نہیں
یہ ہو رہی ہیں جو سرگوشیاں ہواؤں میں
جانے، کون رہزن ہیں، جانے، کون رہبر ہیں
یار لوگ
تجھ سے ملتے ہی، بچھڑنا ترا یاد آتا ہے
کہیں تو میری محبت میں گھل رہا ہی نہ ہو
میں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا
میں ہوں تیرا کہ تو شیدا میرا
بیسویں صدی کے نصف آخر کا انسان
اک بت مجھے بھی گوشۂ دل میں پڑا ملا
چوگا
فنا کی سمت ہے رخ زندگی کے دھارے کا
ابتلا
ببول کوہ پہ تھی، دشت میں صنوبر تھے
کھڑا تھا کب سے، زمیں پیٹھ پر اٹھائے ہوئے
کتنے بہت سے روپ ہیں، حضرت آدمی کے بھی
جب ترا حکم ملا، ترک محبت کر دی
غرق ہو کر ابھرنے کی ایک کہانی
مجھے تلاش کرو
میں دوستوں سے تھکا، دشمنوں میں جا بیٹھا
یہ جب تیری مشیت ہے تو کیا تقصیر میری ہے
یہ کیا، کہ لمحۂ موجود کا ادب نہ کریں
پس آئینہ
مستقبل پڑھنے والے تصویر ہوے
حمد
نفی
میرے صحرا بھی ترے، میرا چمن بھی تیرا
نعت
عرش سے پار پہنچتی مری پرواز خیال
میں اس فریب ہی میں رہا مبتلا سدا
کتنے سر تھے جو پروئے گئے تلواروں میں
تخلیقی لمحے کی دعا
نند
تحریر
مغرب کے افق پہ جو شفق ہے
لڑکیو!
بخدمت اقبال
میں ایک ذرّہ سہی، کائنات بھر میں رہوں
عرفان کا حادثہ
دن آگئے
افریقہ
کھیل اور کھلونا
در گزر کرنے کی عادت سیکھو
فصیل
کچھ غلط بھی تو نہیں تھا مرا تنہا ہونا
زخم نگاہ کے لیے مرہم اندمال تھے
خدا سے ایک سوال
نہ دل میں درد، نہ آنکھوں میں نور ربط قدیم
کیوں ایک ہی بار آپ انھیں رخصت نہیں کرتے
محنت کش لڑکیاں
پس شفق مجھے خون جگر نظر آئے
تمھیں جو حسن فقط فتنہ گر نظر آئے
کیا ہوا!
صحرا ہوں، مجھے چمن بنا دے
شاعری
نئی بارش
تیرے لبوں کی سرخی، میرے لہو جیسی تھی
انسان اور آسمان
جی چاہتا ہے فلک پہ جاؤں
تاریخ کا موڑ
بارشوں کے موسموں میں
وفا میری متاع ناخریدہ
نہ سہی اور کہیں گھر میرا
ا۔ب
پھول بھی کاغذ کے ہیں، مانگے کی ہے مہکار بھی
۱۹۷۵ء
ستارہ شام کا
جو انقلاب مرے دوستوں کے ذہن میں ہے
اگر ہجوم ہو اذہان پر عقاید کا
قطعات
ہوا کی نرم خرامی بھی کیا قیامت تھی
بہت عجیب سے لہجے میں تم نے پوچھا ہے
اب اور کس کے لیے اہتمام رخت کروں
نہیں قبول ادھورا صلہ پرستش کا
یوں تو جوہر نے الاؤ سا لگا رکھا ہے
بات کہنے کا جو ڈھب ہو، تو ہزاروں باتیں
اب ترے پیار میں پہلا سا نہیں اجلا پن
موت ہی موت ہے محیط مگر
ظالموں کی یہ عجب منطق ہے
رنگ وحرف وصدا کی دنیا میں
چپ تو ہو جاؤں، مگر میرا ضمیر
یہ دیکھ کے، رہبران حق پر
شب مجھے کچھ یوں لگا، جیسے نجوم
اے کشتیٔ اعتقاد کھینے والے!
ہر زخم میں ڈوب کر ابھرنا ہے مجھے
رباعیات
قدرت کا دکھا نیا تماشا، یارب!
ملتا جو خدا کہیں، تو اس سے کہتے
انسان میں کیوں زوال پیدا ہوگا
متفرق اشعار
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔