انتساب
ٹوٹا طلسم ہستی فانی کے راز کا
ردیف الف
بے اجل کام نہ اپنا کسی عنواں نکلا
خلق کہتی جسے دل ترے دیوانے کا
ہل گیا زنداں برا ہونالۂ شب گیر کا
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
یہ کس قیامت کی بیکسی ہے نہ میں ہی اپنا نہ یار میرا
قربان عشق موت بھی آئی تو کیا ہوا
مجھ کو مرے نصیب نے وز ازل نہ کیا یاد
یہ ضبط بھی ادب آموز امتحاں نہ ہوا
کچھ اس طرح تڑپ کر میں بے قرار رویا
کہتا ہے غم یار میں ہوں جان تمنا
کچھ کم تو ہوا رنج فراوان تمنا
مدت سے ہے دل خانۂ ویران تمنا
وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا
آسماں گرم تلافی چاہیے کیسا قفس!
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچہ دل ہی چھوٹ گیا
حاصل علم بشر جہل کا عرفاں ہونا
وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گذر گیا
سایہ بھی جس پہ میرے نشیمن کا پڑ گیا
جب ترا ذکر آگیا ہم وفعت چپ ہوگئے
ان کو شباب کا نہ مجھے دل کا ہوش تھا
خون ناحق کا گلہ تھا کچھ ادب کا جوش تھا
خوشی سے رنج کا بدلا یہاں نہیں ملتا
بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
نذر درد دل غم دنیا کیا
جلوۂ عشق حقیقت تھی حسن مجاز بہانہ تھا
جمال خود رخ بے پردہ کا نقاب ہوا
بوئے خزاں سے مست ہیں یاد ہمیں بہار کیا
جمال بے حجاب تھا کہ جلوہ تھا حجاب کا
میں ندامت جان کر خوش ہوں یہ منظر دیکھنا
کمال ہوش ہے یوں بے نیاز ہوش ہو جانا
جلوہ گاہ ناز جانا جب مرا دل ہوگیا
یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں جاتا
تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکیگا
وحشت عشق نے جب ہوش میں لانا چاہا
سرہوش برق گرتی وہ ہجوم ناز ہوتا ہے
جگر خراش ہے حال ان تباہ حالوں کا
حجاب اگر من و تو کانہ درمیاں ہوتا
محتاج اجل کیوں ہے خو داپنی قضا ہو جا
ردیف ب
پھر دل بیتاب ہے آرام جان اضطراب
عشق ہے پر تو حسن محبوب
فغاں کے پردے میں سن میری داستاں صیاد
ردیف د
حیراں ہوں رنگ عالم تصویر دیکھ کر
کیا کہیئے کہ بیداد ہے تیری بیداد
ردیف ر
عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہوکر
دل مایوس کو اے عہد کرم شاد نہ کر
کرنہ فریاد خموشی میں اثر پیدا کر
کون اٹھائے مری وفا کے ناز
ردیف ز
اللہ اللہ یہ شان کشتۂ ناز
ردیف ش
دل چرا کر نگاہ ہے حاموش
میں ہوں اک مرکز ہنگامۂ ہوش ورم ہوش
برہم ہے میری ذات سے سارا نظام عیش
لب منزل فغاں ہے نہ پہلو مکاں داغ
ردیف غ
سیکھیئے دل کے چھیننے کے ڈھنگ
ردیف گ
ردیف م
وادی شوق میں دارفتۂ رفتار ہیں ہم
کیا کہیں کیوں خاموش ہوئے ہیں شن کے تری فرقت کی خبر ہم
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
زندگی کا ہے امتحاں انجام
مری آنکھوں سے بہنا چاہئے دل کا لہو برسوں
ردیف ن
آور نہ جانتا ہوں فریب نظر کو میں
خراب لذت دیدار یار ہم بھی ہیں
خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں
مرکر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
فصل خبر بڑھاگئی عمر کے باب راز میں
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
فرقت میں تار اشک ہے ہر تار آستیں
جو تاب دلنوازی درماں نہ لا سکے
مآل سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
اب آنکھ اٹھتی ہے وہ جنبش ہوئی ہلکی سی مژگاں کو
اثر پا بند بیتابی نہیں تو ضبط بھی کیو ں ہو 56
تو جان مدعائے دل اور دل جگہ جگہ
ردیف ھ
نہیں کہ وحشت دل چارہ گر نہیں ہے مجھے
ردیف ی
مشتاق خبر دار ہیں دل سے جگر سے
ہوش رہے نہ دوش کا فکر مآل رہ نہ جائے
عیش جہاں باعث نشاط نہیں ہے
ہر تصور جلوۂ صورت کا کفر انگیز ہے
رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے
گردش وہی یہاں بھی سپہر کہن میں تھی
ہم اپنے جی سے گذرے یوں سحر کی
کم ہے یا بڑھ گئی وحشت ترے دیوانوں کی
مانا حجاب دید مری بے خودی ہوئی
چمکا دیا ہے رنگ چمن لالہ زار نیں
بشر میں عکس موجودات عالم ہم نے دیکھا ہے
نظر آتے ہیں دل میں آج پھرآثار بیتابی
کیا ہوا باندھی ہے صدقے نالۂ شب گیر کے
تاکید ہے کہ دیدۂ دل وا کرے کوئی
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کوہے
یہ ہستی دوروزہ گویا کہ نہیں فانی
متاع جلوہ تجرہے مجھ کو سکتا ہے
عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
مرکز مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی
اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے
مانا کہ بات وعدہ فردا پہ ٹل گئی
امید التفات کو رسوا نہ کیجئے
کارواں گذر کیا ہم رہگزر دیکھا کئے
ذرہ ذرہ تربت فانیؔ کا شیون جوش ہے
ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے
مجھے قسم ہے ترے صبر آزمانے کی
رابطۂ جسم وجاں دیکھئے کب تک رہے
نصیب ہو بھی تو کیا لطف وصل یار میں ہے
غم مجسم نظر آیا تو ہم انساں سمجھے
کیا کیا نہ اس نے کام لیا اک حجاب سے
دشمن جاں تھے تو جان مدعا کیوں ہوگئے
محشر میں وقت عذروں بھی ہے خوں بہا بھی ہے
فانی سے دل کے ساتھ تقاضا ہے جان کا
جاتا ہے صبر بے سرو ساماں کئے ہوئے
دل کی لحد پہ خاک اڑانے چلا عشق
شکوہ کیا کیجئے نگاہ یار خود غم دیدہ ہے
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یاسستی ہے
تو شمع آئینہ خانہ ہے آئینہ کیا ہے
سمائیں آنکھ میں کیا شعبدے قیامت کے
ابھری ہوئی ہے چوٹ دل درد مند کی
دیا اک جان کے دشمن کو دل جان نذر دلبر کی
ہر ستم کا یہ تقاضا ہے کہ ہو فریاد بھی
اجل جو آئے تو اپنا بھی کام ہو جائے
جنس دل مفت پھنسا کر کوئی دیوانہ بنے
کی وفا یار سے ایک ایک جفا کے بدلے
فانیؔ کف قاتل میں شمشیر نظر آئی
دل کی لگی نہیں تو خیر اب کوئی دل لگی سہی
شباب ہوش کی فی الجملہ یاد گار ہوئی
ہر چند کہ ہے لیکن ملتا ہے نشاں کوئی
جب دل میں ترے غم نے حسرت کی بنا ڈالی
اب انھیں اپنی اداؤں سے حجاب آنا ہے
قطرہ دریائے آشنائی ہے
کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قرباں ہوجائے
اے کاش شہادت کے ارمان نکل جاتے
جس قدر چاہئیے جلوے کو فراوانی دے
وہ مشق خوئے تغافل پھر ایک بار رہے
ہر چند کچھ اور ہے حقیقت
اس نور مجسم کے افسانے کو کیا کہئیے
رگ رگ میں انداز بسمل نظر آتا ہے
ہر دل ہے ترے غم کی امانت لئے ہوئے
کترے ہیں یہ گل تیری اک جنبش دامن نے
مشتاق نگاہوں کی اللہ رے رسوائی
متفرق اشعار
انتساب
ٹوٹا طلسم ہستی فانی کے راز کا
ردیف الف
بے اجل کام نہ اپنا کسی عنواں نکلا
خلق کہتی جسے دل ترے دیوانے کا
ہل گیا زنداں برا ہونالۂ شب گیر کا
کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
یہ کس قیامت کی بیکسی ہے نہ میں ہی اپنا نہ یار میرا
قربان عشق موت بھی آئی تو کیا ہوا
مجھ کو مرے نصیب نے وز ازل نہ کیا یاد
یہ ضبط بھی ادب آموز امتحاں نہ ہوا
کچھ اس طرح تڑپ کر میں بے قرار رویا
کہتا ہے غم یار میں ہوں جان تمنا
کچھ کم تو ہوا رنج فراوان تمنا
مدت سے ہے دل خانۂ ویران تمنا
وائے نادانی یہ حسرت تھی کہ ہوتا در کھلا
آسماں گرم تلافی چاہیے کیسا قفس!
شوق سے ناکامی کی بدولت کوچہ دل ہی چھوٹ گیا
حاصل علم بشر جہل کا عرفاں ہونا
وہ جی گیا جو عشق میں جی سے گذر گیا
سایہ بھی جس پہ میرے نشیمن کا پڑ گیا
جب ترا ذکر آگیا ہم وفعت چپ ہوگئے
ان کو شباب کا نہ مجھے دل کا ہوش تھا
خون ناحق کا گلہ تھا کچھ ادب کا جوش تھا
خوشی سے رنج کا بدلا یہاں نہیں ملتا
بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا
نذر درد دل غم دنیا کیا
جلوۂ عشق حقیقت تھی حسن مجاز بہانہ تھا
جمال خود رخ بے پردہ کا نقاب ہوا
بوئے خزاں سے مست ہیں یاد ہمیں بہار کیا
جمال بے حجاب تھا کہ جلوہ تھا حجاب کا
میں ندامت جان کر خوش ہوں یہ منظر دیکھنا
کمال ہوش ہے یوں بے نیاز ہوش ہو جانا
جلوہ گاہ ناز جانا جب مرا دل ہوگیا
یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں جاتا
تری ترچھی نظر کا تیر ہے مشکل سے نکیگا
وحشت عشق نے جب ہوش میں لانا چاہا
سرہوش برق گرتی وہ ہجوم ناز ہوتا ہے
جگر خراش ہے حال ان تباہ حالوں کا
حجاب اگر من و تو کانہ درمیاں ہوتا
محتاج اجل کیوں ہے خو داپنی قضا ہو جا
ردیف ب
پھر دل بیتاب ہے آرام جان اضطراب
عشق ہے پر تو حسن محبوب
فغاں کے پردے میں سن میری داستاں صیاد
ردیف د
حیراں ہوں رنگ عالم تصویر دیکھ کر
کیا کہیئے کہ بیداد ہے تیری بیداد
ردیف ر
عشق عشق ہو شاید حسن میں فنا ہوکر
دل مایوس کو اے عہد کرم شاد نہ کر
کرنہ فریاد خموشی میں اثر پیدا کر
کون اٹھائے مری وفا کے ناز
ردیف ز
اللہ اللہ یہ شان کشتۂ ناز
ردیف ش
دل چرا کر نگاہ ہے حاموش
میں ہوں اک مرکز ہنگامۂ ہوش ورم ہوش
برہم ہے میری ذات سے سارا نظام عیش
لب منزل فغاں ہے نہ پہلو مکاں داغ
ردیف غ
سیکھیئے دل کے چھیننے کے ڈھنگ
ردیف گ
ردیف م
وادی شوق میں دارفتۂ رفتار ہیں ہم
کیا کہیں کیوں خاموش ہوئے ہیں شن کے تری فرقت کی خبر ہم
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
زندگی کا ہے امتحاں انجام
مری آنکھوں سے بہنا چاہئے دل کا لہو برسوں
ردیف ن
آور نہ جانتا ہوں فریب نظر کو میں
خراب لذت دیدار یار ہم بھی ہیں
خود مسیحا خود ہی قاتل ہیں تو وہ بھی کیا کریں
مرکر ترے خیال کو ٹالے ہوئے تو ہیں
فصل خبر بڑھاگئی عمر کے باب راز میں
زندگی جبر ہے اور جبر کے آثار نہیں
فرقت میں تار اشک ہے ہر تار آستیں
جو تاب دلنوازی درماں نہ لا سکے
مآل سوز غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ
اب آنکھ اٹھتی ہے وہ جنبش ہوئی ہلکی سی مژگاں کو
اثر پا بند بیتابی نہیں تو ضبط بھی کیو ں ہو 56
تو جان مدعائے دل اور دل جگہ جگہ
ردیف ھ
نہیں کہ وحشت دل چارہ گر نہیں ہے مجھے
ردیف ی
مشتاق خبر دار ہیں دل سے جگر سے
ہوش رہے نہ دوش کا فکر مآل رہ نہ جائے
عیش جہاں باعث نشاط نہیں ہے
ہر تصور جلوۂ صورت کا کفر انگیز ہے
رہ جائے یا بلا سے یہ جان رہ نہ جائے
گردش وہی یہاں بھی سپہر کہن میں تھی
ہم اپنے جی سے گذرے یوں سحر کی
کم ہے یا بڑھ گئی وحشت ترے دیوانوں کی
مانا حجاب دید مری بے خودی ہوئی
چمکا دیا ہے رنگ چمن لالہ زار نیں
بشر میں عکس موجودات عالم ہم نے دیکھا ہے
نظر آتے ہیں دل میں آج پھرآثار بیتابی
کیا ہوا باندھی ہے صدقے نالۂ شب گیر کے
تاکید ہے کہ دیدۂ دل وا کرے کوئی
ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کوہے
یہ ہستی دوروزہ گویا کہ نہیں فانی
متاع جلوہ تجرہے مجھ کو سکتا ہے
عشق نے دل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
مرکز مریض غم کی وہ حالت نہیں رہی
اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے
مانا کہ بات وعدہ فردا پہ ٹل گئی
امید التفات کو رسوا نہ کیجئے
کارواں گذر کیا ہم رہگزر دیکھا کئے
ذرہ ذرہ تربت فانیؔ کا شیون جوش ہے
ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے
مجھے قسم ہے ترے صبر آزمانے کی
رابطۂ جسم وجاں دیکھئے کب تک رہے
نصیب ہو بھی تو کیا لطف وصل یار میں ہے
غم مجسم نظر آیا تو ہم انساں سمجھے
کیا کیا نہ اس نے کام لیا اک حجاب سے
دشمن جاں تھے تو جان مدعا کیوں ہوگئے
محشر میں وقت عذروں بھی ہے خوں بہا بھی ہے
فانی سے دل کے ساتھ تقاضا ہے جان کا
جاتا ہے صبر بے سرو ساماں کئے ہوئے
دل کی لحد پہ خاک اڑانے چلا عشق
شکوہ کیا کیجئے نگاہ یار خود غم دیدہ ہے
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یاسستی ہے
تو شمع آئینہ خانہ ہے آئینہ کیا ہے
سمائیں آنکھ میں کیا شعبدے قیامت کے
ابھری ہوئی ہے چوٹ دل درد مند کی
دیا اک جان کے دشمن کو دل جان نذر دلبر کی
ہر ستم کا یہ تقاضا ہے کہ ہو فریاد بھی
اجل جو آئے تو اپنا بھی کام ہو جائے
جنس دل مفت پھنسا کر کوئی دیوانہ بنے
کی وفا یار سے ایک ایک جفا کے بدلے
فانیؔ کف قاتل میں شمشیر نظر آئی
دل کی لگی نہیں تو خیر اب کوئی دل لگی سہی
شباب ہوش کی فی الجملہ یاد گار ہوئی
ہر چند کہ ہے لیکن ملتا ہے نشاں کوئی
جب دل میں ترے غم نے حسرت کی بنا ڈالی
اب انھیں اپنی اداؤں سے حجاب آنا ہے
قطرہ دریائے آشنائی ہے
کیوں نہ نیرنگ جنوں پر کوئی قرباں ہوجائے
اے کاش شہادت کے ارمان نکل جاتے
جس قدر چاہئیے جلوے کو فراوانی دے
وہ مشق خوئے تغافل پھر ایک بار رہے
ہر چند کچھ اور ہے حقیقت
اس نور مجسم کے افسانے کو کیا کہئیے
رگ رگ میں انداز بسمل نظر آتا ہے
ہر دل ہے ترے غم کی امانت لئے ہوئے
کترے ہیں یہ گل تیری اک جنبش دامن نے
مشتاق نگاہوں کی اللہ رے رسوائی
متفرق اشعار
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔