سرورق
نالہ موزوں سے مصرع آہ کا چسپاں ہوا
غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا
محمد ہے نبی ممدوح ذات کبریائی کا
گزر اس حجرۂ گردوں سے ہو کیونکر اپنا
پوچھتے کیا ہو وہ محبوب ہے دلبر اپنا
درد فرقت کا الم ہر دم ہمیں گھیرے رہا
اب گزارا نہیں اس شوخ کے درپر اپنا
کھد جاے دل پہ نقش اگر اس نگار کا
جو اس گلی میں کسی آشنا کا گھر ہوتا ہے
کیسا پیام آکے یہ تونے صبا دیا
رخ جو پردے سے مرے رشک قمر کا نکلا
ہرآہ سے جو شعلہ نمایاں ہے آگ کا
وحشت میں سوز دل سے جو طغیاں ہے آگ کا
کب کوئی تجھ سا آئینہ رو یاں ہے دوسرا
یاں اس گلی سا کب کوئی بستان ہے دوسرا
پیام جلد صبا وصل یار کا پہنچا
حیراں نہ کیوں دیکھ اسے چاہنے والے
دے جام کہ ساقی کریں سیر گل دلالا
اپنے پہلو سے وہ جانی جو گیا پھر نہ پھرا
دور آتش کی طرح یانسے نہ ٹل جاؤنگا
ہیں جو دل کھولکے گریاں نہ ہوا تھا سو ہوا
گو ہوں وحشی پہ ترے سے در نہ ٹل جاؤں گا
بصد آرزو جو وہ آیا تو یہ تو یہ حجاب عشق سے حال تھا
شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ نگار تھا
جو دل وحشت زدہ پھرتا تھا آوارا پڑا
اب نہ ٹھہرے گی زمیں ایشوخ پر فن زیر پا
آئے گر اس رشک گل بن صحن گلشن زیر پا
لا کبھی تو جاکی ظالم اسکا مدفن زیر پا
یہ دل کو صدمہ درد وغم نہاں پہونچا
جو درد آہ جگر اپنا تازباں پہونچا
پراز گوہر سرشک چشم سے دامان ترپایا
ہے اشک گرم سے جون چشم کان آتش و آب
بحر غم میں کوئی تاچند غمیں جاوے ڈوب
ہو گیا مجھ سے وہ برہم آہ وزاری کے سبب
جادو ہے نگہ چھپ ہے غضب قہر ہے مکھڑا اور قد ہے قیامت
جز بیکسی و یاس نہیں ہے کوئی جس جا ہے اپنی وہ تربت
گر کہوں کرتے ہو ہر اک سے ملاقات عبث
سخت ہمپر غضب عشق ہے آج
کیا اس بغیر بات کریں انجمن کے بیچ
یار کے پیش خرام ناز کیا توقیر موج
کیفی ہے چشم یار سفید و سیاہ سرخ
چین وقت شام ہے بستر نے آرام صبح
پڑ گئے یوں مری آہوں سے جگر میں سوراخ
زور آپ کے تو ہاتھ لگا ہے حسین بند
اشک چشم ایسے دم رخصت یار اے نظر
رخش بیتابی پہ ہم دو ہیں سوار اے نظر
اشک گلرنگ نے بیرنگ نچھوڑے پتھر
ہم انھیں واںسے اور اس در کو نچھوڑے پتھر
ہم نے چھاتی پہ لگا گو کئی پھوڑے پتھر
نظر پڑی ہے کب اس آب و رنگ پر تصویر
کر سکے پاؤں بھلا کیونکہ وہ رنجور دراز
غم بٹانیکو جو بیٹھوں کسی غمخوار کے پاس
بسردوکرم زمانہ ہے دل گہے بآب و گہے آتش
سرشک وسوز جگر سے ہے دل بآب و گہے آتش
بدگمانی سے نہ لیجاؤ گمان اور طرف
جانتے ہیں تجھے اے رشک قمر لاکھوں ایک
موے جعد صنم آتے ہٰں نظر لاکھوں ایک
چشم و دل یوں طپش داغ نے کر ڈالے خشک
سخت گھبراے ہے اب سبکی ملاقات سے دل
آج تک سنتے ہی بس ہم تو رہے نام وصال
بدریاے محبت زورق آسا غم کے مارے ہم
ہے یہ مشکل جو ملیں اس بت مغرور سے ہم
تصویر باندھتے ہیں اسکا جب وحشت کے مارے ہم
بغیر اس کے یہ حیراں ہیں بغل دیکھ اپنی خالی ہم
کب شکوۂ قاتل دم تکبیر کریں ہم
ہو گئے وصل کا ہم سنتے ہی پیغام تمام
یہ کیا آنکھوں سے یوں اپنے دل زار تمام
جذبۂ عشق عجب سر دکھاتا ہے ہمیں
بھلا دیکھو تو ہم تم ایک ہی بستی میں بستے ہیں
شکل دو دن سے جو تم نے ہم کو دکھلائی نہیں
دام ہیں ہمکو لاتے ہو تم دل انکا ہے اور کہیں
سو بات اسکی الفت کا بڑھانا اس کو کہتے ہیں
کچھ بن آتی نہیں اس امر میں لاچار ہوں میں
دیا تنہا ہو جی دل نے دوانا اسکو کہتے ہیں
ہم نے جانا تھا تمہیں ربط نہیں یار کہیں
زبس تھیں سوزشیں من پر ہزاروں
ایک جارہ نہیں سکتے ہیں ہم اے یار کہیں
صورت بلبل دل نالاں نے سنائی مجھ کو
اتنا بتلا مجھے ہرجائی ہوں میں یار کہ تو
کیوں دلا ہم ہوے پابند غم یار کہ تو
بچے وہاں جان کیونکر بت جہاں تیغ آزمائی ہو
خدا ناکروہ گر اس بت سے اور مجھ سے لڑائی ہو
ہمارے آنے پہ تم ناک بھوں ہزار چڑھاؤ
دیکھ کر کل لیلی و مجنوں کی وہ تصویر کو
نہ چھوڑینگے ہم تمہارے در کو ادھر کی دنیا اگر ادھر ہو
دلمیں آتا نہیں اسکے مرے گھر آنے کو
یوں یاد زلف یارہے مجھ بیقرار کو
کچھ منہ سے دو کہ تکتے ہیں ہم بار بار منہ
یاں کیا وہ تکے باغ کے انگور کا خوشہ
اشک جو شان کے نہ طوفان سے چھوٹی وہ آنکھ
حسن ںظارہ کونین نہ لوٹے وہ آنکھ
نہ دیکھو نبض میری آہ مت لگاؤ ہاتھ
مقابل اسکے چشم ورخ سے ہو کر جام و آئینہ
اجل گر اپنی خیال جمال یار میں آئے
سنا ہے وہ خدا ناکر وہ ہے بیمار کیا کیجئے
وہ غصہ میں جو کچھ کچھ کھینچ کر شمشیر بولے ہے
یوں گوری سی چھاتی پہ ہے زنجیر طلا کی
کب خاک نشین سنتے ہیں تقریر طلا کی
گو رونے کا تار ابر اب افلاک سے باندھے
آج کل رونا کچھ ایسا ہم دل افگاروں کا ہے
جو مکان قید اب تیرے گرفتاروں کا ہے
اب تو ہر ہر بات میں آزردگی آنے لگی
شب کو اس بن تن سے میری جان جو جانے لگی
ہجوم داغ نے کی جسم پر یہ گلکاری
جس جگہ جانی نظر آجا شتابی تو مجھے
بیکلی ایسی گیا ہے سونپ وہ گلرو مجھے
نہ تنہا دل خرام ناز پر ہر آن لوٹے ہے
تھی یہ سرکوبی کہ جوں بجتی ہے نوبت صبح کی
یہ نقش اپنے دل کے نگینے پہ حرف ہے
تربت وہ رشک گل جو ذرا جاے چھومری
لب وہ کہ لعل کے بھی نگینے پہ حرف ہے
بیکس ہوں وہ کہ نکلی نہ حسرت کبھو مری
بوند ہیریکی کنی سے بھی کڑی منہ کی لگی
صورت اخگر ہمیں جز سوختن کیا چاہئے
مت رکو گر سوز غم سے دل میان چلاے ہے
گئے رودنیل سے بحر اب جو یہ چشم پل میں بہاے ہے
جب نظر بجلی کو وہ چشم فسوں ناز آگئی
چمکی جب برق طپندہ اور دل تڑپا گئی
مرنا ہی نظر آیا انجام گرفتاری
ہے غضب اپنی طبیعت اس پہ ہے آئی ہوئی
چاہ کی چتوں میں آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
بر میں یار اور شمع گل فانوس میں شیشے کی ہے
کیا خوشی خاک اس دل مایوس میں شیشے کی ہے
تنہا نہ اسکا شعلہ رخسار گرم ہے
دلامت منزل گیسو میں جا خواہش میں بوسوں کی
سرگرم قتل وہ ہے جو خونخوار گرم ہے
اب یوں بخار غم سے تن زار گرم ہے
بوجھ اٹھاتے ہیں وہ غم کا ترے مائل بھاری
پڑ گئے منہ میں جو مجھ سوختہ تن کے کانٹے
کب وہ صیاد اسیروں کی خبر لیتا ہے
کیوں نہ ہر دم برہ عشق کردن دل بھاری
آئینہ سامنے بن ٹھن کے جو دھر لیتا ہے
ندی جو تونے اسے شوخ دل شکن مٹی
جلوں بلوں کی گئی اب اوجاغ بن مٹی
اسکی محرم پہ یہ کہتی ہے نبت نرگس کی
کھاؤں یارب غم عشق تو غم کھاے مجھے
ہوا جب مطبع دیوان جرات
ازمنشی انوار حسین تسلیم
خاتمہ الطبع
مخمس دلپذیر کلام نی نظیر مرزا محمد زکی خان شاگرد رشید ……
کہتا ہے دل زباں سے حق ہے گواہ
نعت سرور عالم محمد مصطفی ﷺ
حمد ہے زیب و زینت عنوان
چھوڑ کر فکر دنیوی اک روز
سبب تالیف
راوی معتبر ہمایوں فال
پیغام آدردن دایہ
سرورق
نالہ موزوں سے مصرع آہ کا چسپاں ہوا
غم رو رو کے کہتا ہوں کچھ اس سے اگر اپنا
محمد ہے نبی ممدوح ذات کبریائی کا
گزر اس حجرۂ گردوں سے ہو کیونکر اپنا
پوچھتے کیا ہو وہ محبوب ہے دلبر اپنا
درد فرقت کا الم ہر دم ہمیں گھیرے رہا
اب گزارا نہیں اس شوخ کے درپر اپنا
کھد جاے دل پہ نقش اگر اس نگار کا
جو اس گلی میں کسی آشنا کا گھر ہوتا ہے
کیسا پیام آکے یہ تونے صبا دیا
رخ جو پردے سے مرے رشک قمر کا نکلا
ہرآہ سے جو شعلہ نمایاں ہے آگ کا
وحشت میں سوز دل سے جو طغیاں ہے آگ کا
کب کوئی تجھ سا آئینہ رو یاں ہے دوسرا
یاں اس گلی سا کب کوئی بستان ہے دوسرا
پیام جلد صبا وصل یار کا پہنچا
حیراں نہ کیوں دیکھ اسے چاہنے والے
دے جام کہ ساقی کریں سیر گل دلالا
اپنے پہلو سے وہ جانی جو گیا پھر نہ پھرا
دور آتش کی طرح یانسے نہ ٹل جاؤنگا
ہیں جو دل کھولکے گریاں نہ ہوا تھا سو ہوا
گو ہوں وحشی پہ ترے سے در نہ ٹل جاؤں گا
بصد آرزو جو وہ آیا تو یہ تو یہ حجاب عشق سے حال تھا
شب وصل دیکھی جو خواب میں تو سحر کو سینہ نگار تھا
جو دل وحشت زدہ پھرتا تھا آوارا پڑا
اب نہ ٹھہرے گی زمیں ایشوخ پر فن زیر پا
آئے گر اس رشک گل بن صحن گلشن زیر پا
لا کبھی تو جاکی ظالم اسکا مدفن زیر پا
یہ دل کو صدمہ درد وغم نہاں پہونچا
جو درد آہ جگر اپنا تازباں پہونچا
پراز گوہر سرشک چشم سے دامان ترپایا
ہے اشک گرم سے جون چشم کان آتش و آب
بحر غم میں کوئی تاچند غمیں جاوے ڈوب
ہو گیا مجھ سے وہ برہم آہ وزاری کے سبب
جادو ہے نگہ چھپ ہے غضب قہر ہے مکھڑا اور قد ہے قیامت
جز بیکسی و یاس نہیں ہے کوئی جس جا ہے اپنی وہ تربت
گر کہوں کرتے ہو ہر اک سے ملاقات عبث
سخت ہمپر غضب عشق ہے آج
کیا اس بغیر بات کریں انجمن کے بیچ
یار کے پیش خرام ناز کیا توقیر موج
کیفی ہے چشم یار سفید و سیاہ سرخ
چین وقت شام ہے بستر نے آرام صبح
پڑ گئے یوں مری آہوں سے جگر میں سوراخ
زور آپ کے تو ہاتھ لگا ہے حسین بند
اشک چشم ایسے دم رخصت یار اے نظر
رخش بیتابی پہ ہم دو ہیں سوار اے نظر
اشک گلرنگ نے بیرنگ نچھوڑے پتھر
ہم انھیں واںسے اور اس در کو نچھوڑے پتھر
ہم نے چھاتی پہ لگا گو کئی پھوڑے پتھر
نظر پڑی ہے کب اس آب و رنگ پر تصویر
کر سکے پاؤں بھلا کیونکہ وہ رنجور دراز
غم بٹانیکو جو بیٹھوں کسی غمخوار کے پاس
بسردوکرم زمانہ ہے دل گہے بآب و گہے آتش
سرشک وسوز جگر سے ہے دل بآب و گہے آتش
بدگمانی سے نہ لیجاؤ گمان اور طرف
جانتے ہیں تجھے اے رشک قمر لاکھوں ایک
موے جعد صنم آتے ہٰں نظر لاکھوں ایک
چشم و دل یوں طپش داغ نے کر ڈالے خشک
سخت گھبراے ہے اب سبکی ملاقات سے دل
آج تک سنتے ہی بس ہم تو رہے نام وصال
بدریاے محبت زورق آسا غم کے مارے ہم
ہے یہ مشکل جو ملیں اس بت مغرور سے ہم
تصویر باندھتے ہیں اسکا جب وحشت کے مارے ہم
بغیر اس کے یہ حیراں ہیں بغل دیکھ اپنی خالی ہم
کب شکوۂ قاتل دم تکبیر کریں ہم
ہو گئے وصل کا ہم سنتے ہی پیغام تمام
یہ کیا آنکھوں سے یوں اپنے دل زار تمام
جذبۂ عشق عجب سر دکھاتا ہے ہمیں
بھلا دیکھو تو ہم تم ایک ہی بستی میں بستے ہیں
شکل دو دن سے جو تم نے ہم کو دکھلائی نہیں
دام ہیں ہمکو لاتے ہو تم دل انکا ہے اور کہیں
سو بات اسکی الفت کا بڑھانا اس کو کہتے ہیں
کچھ بن آتی نہیں اس امر میں لاچار ہوں میں
دیا تنہا ہو جی دل نے دوانا اسکو کہتے ہیں
ہم نے جانا تھا تمہیں ربط نہیں یار کہیں
زبس تھیں سوزشیں من پر ہزاروں
ایک جارہ نہیں سکتے ہیں ہم اے یار کہیں
صورت بلبل دل نالاں نے سنائی مجھ کو
اتنا بتلا مجھے ہرجائی ہوں میں یار کہ تو
کیوں دلا ہم ہوے پابند غم یار کہ تو
بچے وہاں جان کیونکر بت جہاں تیغ آزمائی ہو
خدا ناکروہ گر اس بت سے اور مجھ سے لڑائی ہو
ہمارے آنے پہ تم ناک بھوں ہزار چڑھاؤ
دیکھ کر کل لیلی و مجنوں کی وہ تصویر کو
نہ چھوڑینگے ہم تمہارے در کو ادھر کی دنیا اگر ادھر ہو
دلمیں آتا نہیں اسکے مرے گھر آنے کو
یوں یاد زلف یارہے مجھ بیقرار کو
کچھ منہ سے دو کہ تکتے ہیں ہم بار بار منہ
یاں کیا وہ تکے باغ کے انگور کا خوشہ
اشک جو شان کے نہ طوفان سے چھوٹی وہ آنکھ
حسن ںظارہ کونین نہ لوٹے وہ آنکھ
نہ دیکھو نبض میری آہ مت لگاؤ ہاتھ
مقابل اسکے چشم ورخ سے ہو کر جام و آئینہ
اجل گر اپنی خیال جمال یار میں آئے
سنا ہے وہ خدا ناکر وہ ہے بیمار کیا کیجئے
وہ غصہ میں جو کچھ کچھ کھینچ کر شمشیر بولے ہے
یوں گوری سی چھاتی پہ ہے زنجیر طلا کی
کب خاک نشین سنتے ہیں تقریر طلا کی
گو رونے کا تار ابر اب افلاک سے باندھے
آج کل رونا کچھ ایسا ہم دل افگاروں کا ہے
جو مکان قید اب تیرے گرفتاروں کا ہے
اب تو ہر ہر بات میں آزردگی آنے لگی
شب کو اس بن تن سے میری جان جو جانے لگی
ہجوم داغ نے کی جسم پر یہ گلکاری
جس جگہ جانی نظر آجا شتابی تو مجھے
بیکلی ایسی گیا ہے سونپ وہ گلرو مجھے
نہ تنہا دل خرام ناز پر ہر آن لوٹے ہے
تھی یہ سرکوبی کہ جوں بجتی ہے نوبت صبح کی
یہ نقش اپنے دل کے نگینے پہ حرف ہے
تربت وہ رشک گل جو ذرا جاے چھومری
لب وہ کہ لعل کے بھی نگینے پہ حرف ہے
بیکس ہوں وہ کہ نکلی نہ حسرت کبھو مری
بوند ہیریکی کنی سے بھی کڑی منہ کی لگی
صورت اخگر ہمیں جز سوختن کیا چاہئے
مت رکو گر سوز غم سے دل میان چلاے ہے
گئے رودنیل سے بحر اب جو یہ چشم پل میں بہاے ہے
جب نظر بجلی کو وہ چشم فسوں ناز آگئی
چمکی جب برق طپندہ اور دل تڑپا گئی
مرنا ہی نظر آیا انجام گرفتاری
ہے غضب اپنی طبیعت اس پہ ہے آئی ہوئی
چاہ کی چتوں میں آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
بر میں یار اور شمع گل فانوس میں شیشے کی ہے
کیا خوشی خاک اس دل مایوس میں شیشے کی ہے
تنہا نہ اسکا شعلہ رخسار گرم ہے
دلامت منزل گیسو میں جا خواہش میں بوسوں کی
سرگرم قتل وہ ہے جو خونخوار گرم ہے
اب یوں بخار غم سے تن زار گرم ہے
بوجھ اٹھاتے ہیں وہ غم کا ترے مائل بھاری
پڑ گئے منہ میں جو مجھ سوختہ تن کے کانٹے
کب وہ صیاد اسیروں کی خبر لیتا ہے
کیوں نہ ہر دم برہ عشق کردن دل بھاری
آئینہ سامنے بن ٹھن کے جو دھر لیتا ہے
ندی جو تونے اسے شوخ دل شکن مٹی
جلوں بلوں کی گئی اب اوجاغ بن مٹی
اسکی محرم پہ یہ کہتی ہے نبت نرگس کی
کھاؤں یارب غم عشق تو غم کھاے مجھے
ہوا جب مطبع دیوان جرات
ازمنشی انوار حسین تسلیم
خاتمہ الطبع
مخمس دلپذیر کلام نی نظیر مرزا محمد زکی خان شاگرد رشید ……
کہتا ہے دل زباں سے حق ہے گواہ
نعت سرور عالم محمد مصطفی ﷺ
حمد ہے زیب و زینت عنوان
چھوڑ کر فکر دنیوی اک روز
سبب تالیف
راوی معتبر ہمایوں فال
پیغام آدردن دایہ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔