سرورق
مژدہ اے دل کہ مری پاس وہ یار آیگا
مقدور کسکو حمد خدای جلیل کا
آیا نہ اگر نامۂ و پیغام کسی کا
اس درپہ جو مسرمار کی روتا کوئی ہوتا
زلف میں بل اور کاکل پر خم پیچ کی اوپر پیچ پڑا
اشک کا قطرہ فقط کیا صاف گوہر سانبا
سر تلک دست ستم جو ہیں ترا قاتل بڑھا
زلف کی سیاتی تلے وہ رخ اگر چھپ جائیگا
وہ بے حجاب جو کل پی کے یان شراب آیا
چشم میں دنیا لہ کو دیکھ اس بت گمرا ہ کا
نہ درد یشو نکا خرقہ چاہئے نہ تاج شاہانہ
رات بھر مجھکو غم یار نے سونے نہ دیا
آیا نہ اگر نامۂ و پیغام کسی کا
اس در پہ جو مسرمار کی روتا کوئی ہوتا
کون سی میلس کیا صاف گو ہر سابنا
زلف میں بل اور کاکل پر خم پیچ کی اوپر پیچ پڑا
سر تلک دست ستم جو ہیں ترا قاتل بڑھا
زلف کی سیاتی تلے رخ اگر چھپ جائیگا
چشم میں دنیالہ کو دیکھ اوس بت گمراہ کا
وہ بے حجاب جو کل پی کے یان شراب آیا
رات بھر مجکو غم یار نے سونے نہ دیا
نہ درویشوں کا خرقہ چاہتئے نہ تاج شاہانہ
جب کہ وہ خط پڑھکے بھڑکا اور بھڑک کر رہ گیا
نہیں عشق میں اسکا تو رنج کہ قرارہ شکیب ذرا نرہا
خدا جانے کہاں بیٹھا ہے وہ اور ہے کدھر پھرتا
دنبالہ دیکھکر تری چشم سیاہ کا
ہمنے شبد یز قلم کو اپنے جب جو لان کیا
کہوں کیا رنگ اس گل کا اہا ہا ہا اہا ہا ہا
ہے پسینے میں کہاں خاں لب ڈوبا ہوا
کیا کہو کیوں کہ تری کوچی میں ہو کر آیا
میں ہوں سوختہ جان جہاں بت گمراہوں کا
دست صبا دسے ہے کیا پر بلبل ٹوٹا
جلا جی نہ دل مفت لیکر کسیکا
مرے جانے سے غیروں نے لگا یا کچھ نہ کچھ ہوگا
ہووے تمھارے در تک اپنا کہاں سے آنا
دیکھکر حالت مری گردوں اگر غمناک تھا
مارا عاشق کو تو کیا کام تمھارا نکلا
قارون اوٹھا کے سر پہ سنا گنج لیچلا
لاغری سے حال اپنا کیا کہوں کیا ہوگیا
یوں تو جانا تمھیں منظور جہاں ہوجانا
وہ نہ آیا یار لائے یوں نتھا تو یوں ہوا
آبلہ داغ میں ہے یہ سر سینا اونچا
کیا کہوں دل مامل زلف دوتاکیوں کر ہوا
ہزار طرحسے کھولا وہ دلربا نہ کھلا
شاباش دلاارشدک اللہ تعالی
عشق کے میدان میں ہمنے دیا سر کٹا
ادھر تو دست وحشت نے گریباں کھینچکر پھاڑا
روز گھر غیر کے جانا ترا معمول پڑا
کیا کہوں ہے کیا بتوں کی آسنائی میں مزا
رخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آجائیگا
اے تصور تو ہے اوس جان جہان تک جائیگا
جو دلکو کا کل زلف دوتانے بھناّیا
حرف اوس پہ نہ آئی جو ہو تحریر کا سانچا
علم کرتیغ کو سوبا اوس قاتل کا ہاتھ اوٹھا
اے یاروں نے جاک رمیرا ارقعہ دیدیا ہوتا
اس تیکدہ میں جس نے کہ اے بت تجھے تاکا
عارض کا صاف رنگ ترے گل میں آگیا
شمع کا داغ جگر ہے بزم میں کیا گل بنا
انہیں جب پیار سے گود میں کولی کے بھر لیلونگا
چھا ہوا ہے جگر میں میری یہ نیش مژگان یار کیسا
ڈھبا نہ رونے کا ترے نرم میں اک آن بنا
اگر مرے دل سوز ان کا داغ گل ہوتا
تونے جو گل کیطرف غیرت گلشن دیکھا
پاس عارض کے ترے کان کا گوہر چمکا
ظالم ترے چپ رہنے کا عقدہ نہیں کھلتا
جسکو کہ ڈھونڈھتا ہوا میں ہر لین گیا
جب چراغ گل چمن میں یک بیک گل ہوگیا
بکتے بکتے ناصحا تیرا تو بھیجا پک گیا
گرچہ وہ خنجر بکف آکر مکان پھر گیا
نا وسکا بھید یاری سے نہ عیاری سے ہاتھ آیا
ہمنے روضہ کو ترے روضہ رضوان پایا
حال دل سب لکھا نہیں جاتا
کوئی صنم اوسے سمجھا کوئی خدا سمجھا
اے ستمگر کسنے ایسا تجکو نٹ گھٹ کردیا
غلط ہے جو کہی یہ چپکے رہنا کچھ نہیں اچھا
گر فامک تک بہ ہمارا انالۂ دل جائیگا
ہمارا انکا ہے جسدم مقابلا پڑتا
ہوگا کیا دشمن اگر سارا جہان ہو جائیگا
نہ تھا وہ آئی تھی کچھ بھی قابو رات پڑجاتا
ساقی ہے نشہ آنکھوں میں معمول سے ہلکا
کدورت دل میں ہے ظاہر صفائی گرہوتی تو کیا
جب آکے میری قتل کو قاتل الٹ گیا
غلط گوہے کہی جو چپ رہے سے کچھ نہیں ہوتا
جو مطلب ہے کتاب عشق میں سب یاد ہو جاتا
وہاں یار کاراز تھان معلوم کیا ہوگا
ہے مرتبہ ہر ایک بشر کا جدا جدا
تو مری لاش پہ قاتل نہیں دم بھر روتا
کب آتا ابرسیہ نظر ہے زمین سے اونچا فلک سے نیچا
ہم روے ایسا تونے جو ہمکو رلادیا
جو لیکے وہاں سے خط وپیغام ہے آتا
سرومہری سے تری دل ہوا ایسا ٹھنڈا
لب نازک پہ نہیں رنگ مسی کا اوہ
نہ تحقیق ایک مگر عاشق دلگیر کا دن تھا
وہ نہ ہے مے میں نہ ہے وہ مے پرستی میں مزا
ذرا بھی تارجو ساقی شراب کا ٹوٹا
ابرو کایتری شب جو اوسے کچھ خیال تھا
کیا ہم سے کیا نباہ کیا خوب
نیست ازانجم نشب تاب چراغان شب
دل تیرا کسلیے نہوا شوخ وشنگ آب
خال رخ سے تیرے قطرے ہیں پسینے کے دیپ
گر ہو بھر سرمہ چشم اسکی خاک در نصیب
جہاں ہے دل لگی باہمدگرد دنونکی دو جانب
ہمارا اور عالم ہمکو اس عالم سے کیا مطلب
کبھی جو بھیجتے بھی ہیں وہ مدتو ں میں جواب
کیا ہوا مجھسے کشیدہ ہے وہ گر آپ سے آپ
بے سپبب حرخ ہے اک برسرکین آپس میں
جانتے ہیں جب سے ہمکو خواہندں میں
مست سب جان گئی ساقی مخمور کی بات
پسند طبع جو ہو میری اک حبان کو بات
خواہ ہو جمعے کی اور خواہ ہوا توار کی رات
گو نظر بازی میں طاق اے ہمنشین دیکھے بہت
جواب دے مجھے مو سنو طبیب کی بات
بنا جو تجھسے بنے اپنا کاردست بدست
وہ تجھے حق نے دے صنم صورت
ہے عجب اس بوسۂ لعل لب شیریں کی چاٹ
ساتھ غیروں کے پیے تو بادۂ عشرتکے گھونٹ
ہیں یہاں رنج کے آثار خوشی کے باعث
کہدوناصح سے کہ پھر جاے نہ یان اے عبث
اے دل دہان اور کسی نامہ بر کو بھیج
میں کیا کہوں اس بت کی جدائی کا غم ورنج
دل مرا اولجھا ہوا ہے یار کی بانونکے بیچ
ارگیا گل کا جو یوں رنگ گلستان کے بیچ
دل ہوا ناوک مژگاں کا نشاناسچ مچ
تجھ بن جو کائے میں نے پھر تین چار پانچ
ہم مانتے ہیں کب کسی غمخوار کی صلاح
سوز غم پیچھے پڑا دلکے ہمارے بیطرح
دل ہے مکدرانکا صفائی ہو کس طرح
ہے سوز غم سے یہ دل بیتاب کی طرح
جب کہ ہو تجھ بن مجھے حواب د خوار وآرام تلح
عجب طرح کا ہے دن رات آسماں کو چرخ
خون دل سے میرے لکھوا سکو خط میں حرف سرخ
قدر اے عشق رہیگی تیری کیا میرے بعد
یارسے عیارگی ہے گرچہ یاری سے بعید
کیا دہن میں ہیں ترے اے لعل لب دندان سفید
چھپا یا تونے ہے کسکا کواژمیں کاغذ
کیونکہ خسرو کو لگیں اسکی نہ دشنام لذیذ
خدنگ عشق ہوا کیا جگر کو توڑ کے پار
وقت غفلت اور ہے ہنگام ہوشیاری ہے اور
یا تو وہ رکھتی تھی سر گوشی ہمیں اسے اسقدر
بلا سے گر کوئی دنیا میں ہو خفا دلگیر
گردن میں گریہ اگر اپنی ناتوانی پر
بخرانگور کب راضی ہوں ہم خبت کے جانے پر
وفور گریہ نے چشم پر اب کے اندر
دکھائی لاکھ دہ شاہ دوزیر کا محضر
تمھاری گالیاں کھاتا ہوں میں بوسہ کے لالچ پر
دن اور ہے رات اور زمین اور زمان اور
دیکھ دل کو مرے اوکافر بے پیر نہ توڑ
بلا سے گر نہیں رکھتی تو ہم زر ہتھیلی پر
بشر کو کیوں نہ ہو در پیش یان نشیب و فراز
سنگ سرمہ نے کیا بون نگہ یار کو تیز
اگر چہ منزل رشک قمر ہے دور دراز
جس طرح کھینچے ہے دلسے آہ یہ دلگیر تیز
رہیگا تابہ دم واپین نشیب و فراز
خموش کیوں نہ مرغ فلک دماغ قفس
آبلہ پیدا ہوا داغ دل مضطر کے پاس
لب شیریں کو تری چاٹ کے رس چشم مگس
چاہیے درویش کو کیا بادشاہانہ لباس
بھولا نہ تجھے یہ کبھی اس باد کو شاباش
ہمیشہ باندھے ہیں شاعر شراب کو آتش
بھری تھی ساغر میں رات ساقی نے ایسی خوشبو شراب خالص
لب نکا لینگے تری لعل میں پرا اعتراض
زلف سے اولجھے یہ کیا اس مبتلا کو ہے غرض
ابھی کیجے نہ پارا پارا خط
یوں ہے جنبش ابروسے تری دل مضبوط
ہمدموعشق کی نہ بوجھو شرط
شمع سے گلیگر کیا ہو تاج زر کی احتیاط
رہیوے دل تو اب اس زلف رسا سے محفوظ
گلی میں یار کی ہمنے رکھا قدم یہ لحاظ
گرچہ غرق اشک تر ہے گریے کی شدت میں سمع
کم نہیں ہے سوزش داغ دل دلگیر وسمع
کسلیے ڈھونڈھیں آہ ہم غنچہ و گل چراغ وسمع
دل مرا لینے کو اسطرح سے دلدار ہوں جمع
ہر کام کا اک وقت ہے ہر بات کا موقع
ہے پاس اپنے اس رخ پر نور سے چراغ
کچھ بات کسدین مصلحتاً سمجھے ہم دروغ
چاہیے نے شمع مجکو نے سر مدفن چراغ
چیچک کا ہے جو کوئی رخ گلبدن پہ داغ
گر ہے دل دنیا مطا کر بت بے پیر معاف
وصل کی ہونے نہیں دیتے جو تدبیر حریف
دیکھکر اوس قاتل سفاک کو خنجر بہ کف
ہر رقم میں اوسکا انداز رقم مختلف
تجھ بن شراب عیش کے پینے پہ چار حرف
ٹپک پڑا نہیں اوس زلف کی شکن سے عرق
ہر نفس حسرت دہر دم قلق
ہوگا تہ خاک بھی ساتھ جو دل کا قلق
کھاتا نگاہ سے بت سبمبر کا فرق
ہے عاشق دلسوز سراپا شجر عشق
حال اپنا کرے کیا ترا بیمار بیان خاک
لگی ہے اس ترے وحشی کے یہ ندیسے خاک
میری اور مجنو تکی کیا تصویر ہے دونو نکے ایک
خطاوارونکا خط کیا لیکے جائے نامہ وابرن تک
کہو نمیں داستان غم اگر دونکی دورن تک
کیا تجھسے حسن میں ہو کوئی اے صنم شریک
آگے تو ہمسے اسقدر تھا نہ کبھو الگ الگ
سوزش عشق کی ہے یون دل بیتاب سے لاگ
کیونکر رہی نہ ہمسے وہ ماہ جبین الگ تھلگ
واہ کیا زلف تب لے پیر کے حلقے ہیں گول
مانگ اوسکی جبکہ نکلی متصل کا کل کے گل
سوز غم میں ملا ادمن بت بے پیر کے پھل
مرگئے اے واہ انکے ناز برداری میں ہم
نکلیں گر یہ سے اگر تیرے خزینوں کے کام
جوان بوے گل رفیق نسیم چمن ہیں ہم
اس بیوفا سے اسکو بھڑا ہے تو دینگے ہم
اب کہاں وہ دن کہ تھے دن رات میرے پاس تم
دوستی جو تجھ سے جاہل سے دلی رکھتی ہیں ہم
انھیں دیواز ہم سمجھیں ہیں جو تھی ہنستے ہیں
بھلا انکو کہیں کیونکر نہ ہم یک جان دلب وفا ہیں
یا تو اپنے پاس تھے یا وہ فریب اورونکے ہیں
فدا ہونے سے تیرے کوئی آنکھیں ہم چوراتے ہیں
کیونکر ہم دنیا میں آئے کچھ سبب کھلتا نہیں
لگے ہیں دل پہ بہت زلف یار کے قسمیں
کفر سے ایمان بلا اس ملک ہستی میں ہمیں
ڈھگئے بن بنکے دنیا میں مکان بہتو نکے ہیں
ابھی زاہد نہیں آیا ہے میخوار دن کے قابو میں
لاغری سے یوں ترے اندوہگین کی ہڈیاں
جو سر سے تا قدم اوس میرے مہ جبین کو تکیں
نہ پوچھو اوس مہ نامہربان کی باتیں
گر کام تیرا دہم کے بھٹکاؤ پر نہیں
ناصافیون سے دل کے باصاف صافیون میں
گاہ بیگاہ ادھر جو گذر کرتے ہیں
کون دان جائے جہاں تفتہ جگر جلتی ہیں
قمار عشق میں دیکھا جو کامل ہیں تو آپے ہیں
بلا سے گرچہ ہوتا راز دل افشا ہے روانے میں
یوں شعلہ سوز غم سے اٹھا دل کی داغ میں
آپ کیا اوروں سے لینگے اور وہ کیا دینگے تمھیں
ہمدم جانی بجز غم دوسرا کوئی نہیں
ہیں اب کہاں ہمارے وہ سیر چمن کے دن
ہم سے شرماؤ نہ تم چشم حیا کو کھولو
ہمارے دیکھ کے دریاے دل کا یار چڑھا
گر قتل کا ہےعزم تو شمشیر دکھادو
شعلہ جو سوز دل سے گلو گیر آہ ہو
جو دل میں ہو سو کہو تم نہ گفتگو سے ہو
بھری دماغ میں کس زلف پر شکن کی بو
نہیں کہہ سکتا کہ اللہ صنم تم ہے تو ہو
وہا کی مخلصی اے اداے قسمت تو کیونکر ہو
کہتا ہے کون تمسے کہ خنجر بہ کف نہ ہو
اگر ہو دل میں محبت کا داغ اچھا ہو
دوست اچھی ہو تو پوری دوستی کی ہو رہو
گر ناز سے وہ صحن میں رکھی چمن کے پانو
کیا دیکھی کوئی اوس رخ روشن کی تابکو
بڑھا دے گر نہ جو ہر غرت و تو قیر آہن کو
نصیب وصل تمھارا کہو تو کیونکر ہو
عجب ہے مصحف رخ سے ہو گر اخلاص گیسو کو
میکژہ تم نوش کوئی ساغر مل تو کرو
قتل عام کو کرو تم اور قضا کا نام لو
یوں ہیں گرا بتوں پر ہم فدا ہونگی تو ہونے دو
تصور زلف مشکین کا ہے یہ کسکی بندھا مجکو
دیکھکر رخ پر کھلی زلف چلیپا رات کو
دیکھو بوسہ نہ بت ہو شرباسے مانگو
نہ دکھلا مجکو پانی کھینچکر اوراق میں غنچہ
ہے حنا کا رنگ بھی دست بت پر فن یہ بوجھ
کہاں نگہ پہ ہو سرمہ کا رنگ پیوستہ
خجل ہے دیکھ کے ابرو ہلال کیسا کچھ
تونے کیا جانے نکالا ہے کدھر کا رستہ
کھنچا عجب تر روے جبین کا ہے نقشہ
اسکے کو چبھن کہاں سے اٹھکانے کی جگہ
سینے پہ دھر کے دیکھ ذرا ایک بار ہاتھ
نہ کر ہر ایک سے تو وہ کلام بیہودہ
نشے میں کس نے اتارا تھا طاق سے شیشہ
پر اشک مژہ یان ہے آہ دل سوزان ہے
نہیں کہیں ہے ترے چشم فتنہ زاکی پناہ
اے غنچہ دہن میرے تو سروگلستان ہے
سچ کہو آئے کہاں سے ہو صنم بھولے ہوئے
کیوں مے کشی سے ہر دم کیجے حجاب ساقی
پاس داغ دلکے سوز غم ہیں پھلکے پڑے
جوش گریہ سے نہ کچھ یدۂ تر بیٹھ گئے
چاندنی کی سیر خوبان تا سحر دیکھا کیے
جب سے وہ چھٹا ہاتھ سے دامان ہمارے
ہو رہا ہے نشہ جام مے گلگوں بجھتی
شاخ مژگان میری کب اشکون سے پانی میں ہے
کسکے ابرو کی مری تصویر آنکھوں میں پھرے
مہاسہ کب خط رخسارہ دلبر کے نیچے ہے
جسو وقت اوسکی زلف گر ہگر کھل پڑی
کسی عاشق کا ترا اشکوں سے یہ بیخواب دیدہ ہے
شعلہ ہے وہی شمع وہی ماہ وہی ہے
جلوہ جب اوسنے دکھایا مراحی جانتا ہے
شمشیر برہنہ مانگ غضب بالونکی چمک پھر ویسی ہے
صبا گر چراغ چمن گل کرے
ہزار کوس اگر کوئی ایک دم دورے
دیر کیوں کر رہے تھے وہ تو شابی والے
لڑکپن کا وہ تیرے سن یاد ہے
مسلمان چاہیں گر سارے کہ چھوڑے
گینگا ساقیا کیا مجھسے دیوانے کے پیمانے
آْج بوسے پر لڑائی ہوتی ہوتی رہ گئی
بزم میں آکر تمہیں چپکے نہ رہنا چاہیے
نصیب اچھی اگر ہوتے مصیبت کیلئے پڑتی
وہ اور ہیں جو عشق کا دم بھر کے رہگئے
جو تیری یاد جلوۂ قامت میں سوگئی
وہ تو اے قاصد نہ آئینگے کہیں نے جائینگے
بال زلفوں کے جووہ منھ پر دیکھیرے آئینگے
جمال گلرخان دیکھو گلستان الٰہی ہے
نہ پوچھو کیا بتان جو و نما کا کار خانہ ہے
صحبت منافقانہ ہے ہر جا نقاق سے
خوش آتی کب ہمیں بھو پونکی باغ میں بو ہی
زلفوں پہ تری آئینہ میں یہ گمان ہے
اعجاز نما جلوۂ موسای فلک ہے
پلا مجھے مے گلرنگ ساقیا اچھی
اس جہاں میں آکے ہم کیا کر چلے
دنیا ہزار رنج و مصیبت کی جاے ہے
کام جو کوشش سے ہو تدبیر اسکا نام ہے
نہ کر خیال کہ آئی گھٹا بہت سی ہے
ناز دادا میں کیا بت گمراہ ایک ہے
ہو جاتی آہ سے مژۂ تر بھی خشک ہے
کیا جانے کسکے پاس وہ گل راتکو گئے
واہ کیا طرز ستم تجھکو ستمگر یاد ہے
آج کیا جانیں کہ میخانہ میں کیا پتھر پڑے
کیا بولوں آگے ادس صنم نکتہ چین کے
نہ سمجھو سر بہ فلک نالہ وفغاں یہ ہے
گر نہ لکھوں حال دل میں ہانہ اپنا تھام کے
ہم نئے ہیں آج اے صیاد کیا پکڑی گئی
ہم جو ہیں یاد ترا جلوۂ قامت کرتی
دشت الفت میں جلے گر خار وخش کو توڑ کے
نظر پھر آج شکل تابہ کردودن کے بعد آئی
رکھکے تم زلف میں شانہ جو ہو پیارے پھرے
فدا ہونا بتوں پر محض نادانی کا تمغا ہے
خواب تھا جو زندگی جاہ وحشم میں کٹ گئی
کردن کیا یادزلف دلربا جانی نہیں جاتی
نہ تونے دوستی اغیار سے اے ناز نین چھوڑی
چشم و گلو ہو تم جنھیں جاتا ناجانتے
ہم نے فقط نہ جلوہ نمائی کی سیر کی
کسی کی شکل تمھارے نہیں برابر کی
دکھاتی ہے جو شمشیر قضا اپنی زبر دستی
ہو گیا زلف سیہ کا کسکی یہ سودا مجھے
باندھی کمر ہے شہ نے شادت کیواسطے
سرورق
مژدہ اے دل کہ مری پاس وہ یار آیگا
مقدور کسکو حمد خدای جلیل کا
آیا نہ اگر نامۂ و پیغام کسی کا
اس درپہ جو مسرمار کی روتا کوئی ہوتا
زلف میں بل اور کاکل پر خم پیچ کی اوپر پیچ پڑا
اشک کا قطرہ فقط کیا صاف گوہر سانبا
سر تلک دست ستم جو ہیں ترا قاتل بڑھا
زلف کی سیاتی تلے وہ رخ اگر چھپ جائیگا
وہ بے حجاب جو کل پی کے یان شراب آیا
چشم میں دنیا لہ کو دیکھ اس بت گمرا ہ کا
نہ درد یشو نکا خرقہ چاہئے نہ تاج شاہانہ
رات بھر مجھکو غم یار نے سونے نہ دیا
آیا نہ اگر نامۂ و پیغام کسی کا
اس در پہ جو مسرمار کی روتا کوئی ہوتا
کون سی میلس کیا صاف گو ہر سابنا
زلف میں بل اور کاکل پر خم پیچ کی اوپر پیچ پڑا
سر تلک دست ستم جو ہیں ترا قاتل بڑھا
زلف کی سیاتی تلے رخ اگر چھپ جائیگا
چشم میں دنیالہ کو دیکھ اوس بت گمراہ کا
وہ بے حجاب جو کل پی کے یان شراب آیا
رات بھر مجکو غم یار نے سونے نہ دیا
نہ درویشوں کا خرقہ چاہتئے نہ تاج شاہانہ
جب کہ وہ خط پڑھکے بھڑکا اور بھڑک کر رہ گیا
نہیں عشق میں اسکا تو رنج کہ قرارہ شکیب ذرا نرہا
خدا جانے کہاں بیٹھا ہے وہ اور ہے کدھر پھرتا
دنبالہ دیکھکر تری چشم سیاہ کا
ہمنے شبد یز قلم کو اپنے جب جو لان کیا
کہوں کیا رنگ اس گل کا اہا ہا ہا اہا ہا ہا
ہے پسینے میں کہاں خاں لب ڈوبا ہوا
کیا کہو کیوں کہ تری کوچی میں ہو کر آیا
میں ہوں سوختہ جان جہاں بت گمراہوں کا
دست صبا دسے ہے کیا پر بلبل ٹوٹا
جلا جی نہ دل مفت لیکر کسیکا
مرے جانے سے غیروں نے لگا یا کچھ نہ کچھ ہوگا
ہووے تمھارے در تک اپنا کہاں سے آنا
دیکھکر حالت مری گردوں اگر غمناک تھا
مارا عاشق کو تو کیا کام تمھارا نکلا
قارون اوٹھا کے سر پہ سنا گنج لیچلا
لاغری سے حال اپنا کیا کہوں کیا ہوگیا
یوں تو جانا تمھیں منظور جہاں ہوجانا
وہ نہ آیا یار لائے یوں نتھا تو یوں ہوا
آبلہ داغ میں ہے یہ سر سینا اونچا
کیا کہوں دل مامل زلف دوتاکیوں کر ہوا
ہزار طرحسے کھولا وہ دلربا نہ کھلا
شاباش دلاارشدک اللہ تعالی
عشق کے میدان میں ہمنے دیا سر کٹا
ادھر تو دست وحشت نے گریباں کھینچکر پھاڑا
روز گھر غیر کے جانا ترا معمول پڑا
کیا کہوں ہے کیا بتوں کی آسنائی میں مزا
رخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آجائیگا
اے تصور تو ہے اوس جان جہان تک جائیگا
جو دلکو کا کل زلف دوتانے بھناّیا
حرف اوس پہ نہ آئی جو ہو تحریر کا سانچا
علم کرتیغ کو سوبا اوس قاتل کا ہاتھ اوٹھا
اے یاروں نے جاک رمیرا ارقعہ دیدیا ہوتا
اس تیکدہ میں جس نے کہ اے بت تجھے تاکا
عارض کا صاف رنگ ترے گل میں آگیا
شمع کا داغ جگر ہے بزم میں کیا گل بنا
انہیں جب پیار سے گود میں کولی کے بھر لیلونگا
چھا ہوا ہے جگر میں میری یہ نیش مژگان یار کیسا
ڈھبا نہ رونے کا ترے نرم میں اک آن بنا
اگر مرے دل سوز ان کا داغ گل ہوتا
تونے جو گل کیطرف غیرت گلشن دیکھا
پاس عارض کے ترے کان کا گوہر چمکا
ظالم ترے چپ رہنے کا عقدہ نہیں کھلتا
جسکو کہ ڈھونڈھتا ہوا میں ہر لین گیا
جب چراغ گل چمن میں یک بیک گل ہوگیا
بکتے بکتے ناصحا تیرا تو بھیجا پک گیا
گرچہ وہ خنجر بکف آکر مکان پھر گیا
نا وسکا بھید یاری سے نہ عیاری سے ہاتھ آیا
ہمنے روضہ کو ترے روضہ رضوان پایا
حال دل سب لکھا نہیں جاتا
کوئی صنم اوسے سمجھا کوئی خدا سمجھا
اے ستمگر کسنے ایسا تجکو نٹ گھٹ کردیا
غلط ہے جو کہی یہ چپکے رہنا کچھ نہیں اچھا
گر فامک تک بہ ہمارا انالۂ دل جائیگا
ہمارا انکا ہے جسدم مقابلا پڑتا
ہوگا کیا دشمن اگر سارا جہان ہو جائیگا
نہ تھا وہ آئی تھی کچھ بھی قابو رات پڑجاتا
ساقی ہے نشہ آنکھوں میں معمول سے ہلکا
کدورت دل میں ہے ظاہر صفائی گرہوتی تو کیا
جب آکے میری قتل کو قاتل الٹ گیا
غلط گوہے کہی جو چپ رہے سے کچھ نہیں ہوتا
جو مطلب ہے کتاب عشق میں سب یاد ہو جاتا
وہاں یار کاراز تھان معلوم کیا ہوگا
ہے مرتبہ ہر ایک بشر کا جدا جدا
تو مری لاش پہ قاتل نہیں دم بھر روتا
کب آتا ابرسیہ نظر ہے زمین سے اونچا فلک سے نیچا
ہم روے ایسا تونے جو ہمکو رلادیا
جو لیکے وہاں سے خط وپیغام ہے آتا
سرومہری سے تری دل ہوا ایسا ٹھنڈا
لب نازک پہ نہیں رنگ مسی کا اوہ
نہ تحقیق ایک مگر عاشق دلگیر کا دن تھا
وہ نہ ہے مے میں نہ ہے وہ مے پرستی میں مزا
ذرا بھی تارجو ساقی شراب کا ٹوٹا
ابرو کایتری شب جو اوسے کچھ خیال تھا
کیا ہم سے کیا نباہ کیا خوب
نیست ازانجم نشب تاب چراغان شب
دل تیرا کسلیے نہوا شوخ وشنگ آب
خال رخ سے تیرے قطرے ہیں پسینے کے دیپ
گر ہو بھر سرمہ چشم اسکی خاک در نصیب
جہاں ہے دل لگی باہمدگرد دنونکی دو جانب
ہمارا اور عالم ہمکو اس عالم سے کیا مطلب
کبھی جو بھیجتے بھی ہیں وہ مدتو ں میں جواب
کیا ہوا مجھسے کشیدہ ہے وہ گر آپ سے آپ
بے سپبب حرخ ہے اک برسرکین آپس میں
جانتے ہیں جب سے ہمکو خواہندں میں
مست سب جان گئی ساقی مخمور کی بات
پسند طبع جو ہو میری اک حبان کو بات
خواہ ہو جمعے کی اور خواہ ہوا توار کی رات
گو نظر بازی میں طاق اے ہمنشین دیکھے بہت
جواب دے مجھے مو سنو طبیب کی بات
بنا جو تجھسے بنے اپنا کاردست بدست
وہ تجھے حق نے دے صنم صورت
ہے عجب اس بوسۂ لعل لب شیریں کی چاٹ
ساتھ غیروں کے پیے تو بادۂ عشرتکے گھونٹ
ہیں یہاں رنج کے آثار خوشی کے باعث
کہدوناصح سے کہ پھر جاے نہ یان اے عبث
اے دل دہان اور کسی نامہ بر کو بھیج
میں کیا کہوں اس بت کی جدائی کا غم ورنج
دل مرا اولجھا ہوا ہے یار کی بانونکے بیچ
ارگیا گل کا جو یوں رنگ گلستان کے بیچ
دل ہوا ناوک مژگاں کا نشاناسچ مچ
تجھ بن جو کائے میں نے پھر تین چار پانچ
ہم مانتے ہیں کب کسی غمخوار کی صلاح
سوز غم پیچھے پڑا دلکے ہمارے بیطرح
دل ہے مکدرانکا صفائی ہو کس طرح
ہے سوز غم سے یہ دل بیتاب کی طرح
جب کہ ہو تجھ بن مجھے حواب د خوار وآرام تلح
عجب طرح کا ہے دن رات آسماں کو چرخ
خون دل سے میرے لکھوا سکو خط میں حرف سرخ
قدر اے عشق رہیگی تیری کیا میرے بعد
یارسے عیارگی ہے گرچہ یاری سے بعید
کیا دہن میں ہیں ترے اے لعل لب دندان سفید
چھپا یا تونے ہے کسکا کواژمیں کاغذ
کیونکہ خسرو کو لگیں اسکی نہ دشنام لذیذ
خدنگ عشق ہوا کیا جگر کو توڑ کے پار
وقت غفلت اور ہے ہنگام ہوشیاری ہے اور
یا تو وہ رکھتی تھی سر گوشی ہمیں اسے اسقدر
بلا سے گر کوئی دنیا میں ہو خفا دلگیر
گردن میں گریہ اگر اپنی ناتوانی پر
بخرانگور کب راضی ہوں ہم خبت کے جانے پر
وفور گریہ نے چشم پر اب کے اندر
دکھائی لاکھ دہ شاہ دوزیر کا محضر
تمھاری گالیاں کھاتا ہوں میں بوسہ کے لالچ پر
دن اور ہے رات اور زمین اور زمان اور
دیکھ دل کو مرے اوکافر بے پیر نہ توڑ
بلا سے گر نہیں رکھتی تو ہم زر ہتھیلی پر
بشر کو کیوں نہ ہو در پیش یان نشیب و فراز
سنگ سرمہ نے کیا بون نگہ یار کو تیز
اگر چہ منزل رشک قمر ہے دور دراز
جس طرح کھینچے ہے دلسے آہ یہ دلگیر تیز
رہیگا تابہ دم واپین نشیب و فراز
خموش کیوں نہ مرغ فلک دماغ قفس
آبلہ پیدا ہوا داغ دل مضطر کے پاس
لب شیریں کو تری چاٹ کے رس چشم مگس
چاہیے درویش کو کیا بادشاہانہ لباس
بھولا نہ تجھے یہ کبھی اس باد کو شاباش
ہمیشہ باندھے ہیں شاعر شراب کو آتش
بھری تھی ساغر میں رات ساقی نے ایسی خوشبو شراب خالص
لب نکا لینگے تری لعل میں پرا اعتراض
زلف سے اولجھے یہ کیا اس مبتلا کو ہے غرض
ابھی کیجے نہ پارا پارا خط
یوں ہے جنبش ابروسے تری دل مضبوط
ہمدموعشق کی نہ بوجھو شرط
شمع سے گلیگر کیا ہو تاج زر کی احتیاط
رہیوے دل تو اب اس زلف رسا سے محفوظ
گلی میں یار کی ہمنے رکھا قدم یہ لحاظ
گرچہ غرق اشک تر ہے گریے کی شدت میں سمع
کم نہیں ہے سوزش داغ دل دلگیر وسمع
کسلیے ڈھونڈھیں آہ ہم غنچہ و گل چراغ وسمع
دل مرا لینے کو اسطرح سے دلدار ہوں جمع
ہر کام کا اک وقت ہے ہر بات کا موقع
ہے پاس اپنے اس رخ پر نور سے چراغ
کچھ بات کسدین مصلحتاً سمجھے ہم دروغ
چاہیے نے شمع مجکو نے سر مدفن چراغ
چیچک کا ہے جو کوئی رخ گلبدن پہ داغ
گر ہے دل دنیا مطا کر بت بے پیر معاف
وصل کی ہونے نہیں دیتے جو تدبیر حریف
دیکھکر اوس قاتل سفاک کو خنجر بہ کف
ہر رقم میں اوسکا انداز رقم مختلف
تجھ بن شراب عیش کے پینے پہ چار حرف
ٹپک پڑا نہیں اوس زلف کی شکن سے عرق
ہر نفس حسرت دہر دم قلق
ہوگا تہ خاک بھی ساتھ جو دل کا قلق
کھاتا نگاہ سے بت سبمبر کا فرق
ہے عاشق دلسوز سراپا شجر عشق
حال اپنا کرے کیا ترا بیمار بیان خاک
لگی ہے اس ترے وحشی کے یہ ندیسے خاک
میری اور مجنو تکی کیا تصویر ہے دونو نکے ایک
خطاوارونکا خط کیا لیکے جائے نامہ وابرن تک
کہو نمیں داستان غم اگر دونکی دورن تک
کیا تجھسے حسن میں ہو کوئی اے صنم شریک
آگے تو ہمسے اسقدر تھا نہ کبھو الگ الگ
سوزش عشق کی ہے یون دل بیتاب سے لاگ
کیونکر رہی نہ ہمسے وہ ماہ جبین الگ تھلگ
واہ کیا زلف تب لے پیر کے حلقے ہیں گول
مانگ اوسکی جبکہ نکلی متصل کا کل کے گل
سوز غم میں ملا ادمن بت بے پیر کے پھل
مرگئے اے واہ انکے ناز برداری میں ہم
نکلیں گر یہ سے اگر تیرے خزینوں کے کام
جوان بوے گل رفیق نسیم چمن ہیں ہم
اس بیوفا سے اسکو بھڑا ہے تو دینگے ہم
اب کہاں وہ دن کہ تھے دن رات میرے پاس تم
دوستی جو تجھ سے جاہل سے دلی رکھتی ہیں ہم
انھیں دیواز ہم سمجھیں ہیں جو تھی ہنستے ہیں
بھلا انکو کہیں کیونکر نہ ہم یک جان دلب وفا ہیں
یا تو اپنے پاس تھے یا وہ فریب اورونکے ہیں
فدا ہونے سے تیرے کوئی آنکھیں ہم چوراتے ہیں
کیونکر ہم دنیا میں آئے کچھ سبب کھلتا نہیں
لگے ہیں دل پہ بہت زلف یار کے قسمیں
کفر سے ایمان بلا اس ملک ہستی میں ہمیں
ڈھگئے بن بنکے دنیا میں مکان بہتو نکے ہیں
ابھی زاہد نہیں آیا ہے میخوار دن کے قابو میں
لاغری سے یوں ترے اندوہگین کی ہڈیاں
جو سر سے تا قدم اوس میرے مہ جبین کو تکیں
نہ پوچھو اوس مہ نامہربان کی باتیں
گر کام تیرا دہم کے بھٹکاؤ پر نہیں
ناصافیون سے دل کے باصاف صافیون میں
گاہ بیگاہ ادھر جو گذر کرتے ہیں
کون دان جائے جہاں تفتہ جگر جلتی ہیں
قمار عشق میں دیکھا جو کامل ہیں تو آپے ہیں
بلا سے گرچہ ہوتا راز دل افشا ہے روانے میں
یوں شعلہ سوز غم سے اٹھا دل کی داغ میں
آپ کیا اوروں سے لینگے اور وہ کیا دینگے تمھیں
ہمدم جانی بجز غم دوسرا کوئی نہیں
ہیں اب کہاں ہمارے وہ سیر چمن کے دن
ہم سے شرماؤ نہ تم چشم حیا کو کھولو
ہمارے دیکھ کے دریاے دل کا یار چڑھا
گر قتل کا ہےعزم تو شمشیر دکھادو
شعلہ جو سوز دل سے گلو گیر آہ ہو
جو دل میں ہو سو کہو تم نہ گفتگو سے ہو
بھری دماغ میں کس زلف پر شکن کی بو
نہیں کہہ سکتا کہ اللہ صنم تم ہے تو ہو
وہا کی مخلصی اے اداے قسمت تو کیونکر ہو
کہتا ہے کون تمسے کہ خنجر بہ کف نہ ہو
اگر ہو دل میں محبت کا داغ اچھا ہو
دوست اچھی ہو تو پوری دوستی کی ہو رہو
گر ناز سے وہ صحن میں رکھی چمن کے پانو
کیا دیکھی کوئی اوس رخ روشن کی تابکو
بڑھا دے گر نہ جو ہر غرت و تو قیر آہن کو
نصیب وصل تمھارا کہو تو کیونکر ہو
عجب ہے مصحف رخ سے ہو گر اخلاص گیسو کو
میکژہ تم نوش کوئی ساغر مل تو کرو
قتل عام کو کرو تم اور قضا کا نام لو
یوں ہیں گرا بتوں پر ہم فدا ہونگی تو ہونے دو
تصور زلف مشکین کا ہے یہ کسکی بندھا مجکو
دیکھکر رخ پر کھلی زلف چلیپا رات کو
دیکھو بوسہ نہ بت ہو شرباسے مانگو
نہ دکھلا مجکو پانی کھینچکر اوراق میں غنچہ
ہے حنا کا رنگ بھی دست بت پر فن یہ بوجھ
کہاں نگہ پہ ہو سرمہ کا رنگ پیوستہ
خجل ہے دیکھ کے ابرو ہلال کیسا کچھ
تونے کیا جانے نکالا ہے کدھر کا رستہ
کھنچا عجب تر روے جبین کا ہے نقشہ
اسکے کو چبھن کہاں سے اٹھکانے کی جگہ
سینے پہ دھر کے دیکھ ذرا ایک بار ہاتھ
نہ کر ہر ایک سے تو وہ کلام بیہودہ
نشے میں کس نے اتارا تھا طاق سے شیشہ
پر اشک مژہ یان ہے آہ دل سوزان ہے
نہیں کہیں ہے ترے چشم فتنہ زاکی پناہ
اے غنچہ دہن میرے تو سروگلستان ہے
سچ کہو آئے کہاں سے ہو صنم بھولے ہوئے
کیوں مے کشی سے ہر دم کیجے حجاب ساقی
پاس داغ دلکے سوز غم ہیں پھلکے پڑے
جوش گریہ سے نہ کچھ یدۂ تر بیٹھ گئے
چاندنی کی سیر خوبان تا سحر دیکھا کیے
جب سے وہ چھٹا ہاتھ سے دامان ہمارے
ہو رہا ہے نشہ جام مے گلگوں بجھتی
شاخ مژگان میری کب اشکون سے پانی میں ہے
کسکے ابرو کی مری تصویر آنکھوں میں پھرے
مہاسہ کب خط رخسارہ دلبر کے نیچے ہے
جسو وقت اوسکی زلف گر ہگر کھل پڑی
کسی عاشق کا ترا اشکوں سے یہ بیخواب دیدہ ہے
شعلہ ہے وہی شمع وہی ماہ وہی ہے
جلوہ جب اوسنے دکھایا مراحی جانتا ہے
شمشیر برہنہ مانگ غضب بالونکی چمک پھر ویسی ہے
صبا گر چراغ چمن گل کرے
ہزار کوس اگر کوئی ایک دم دورے
دیر کیوں کر رہے تھے وہ تو شابی والے
لڑکپن کا وہ تیرے سن یاد ہے
مسلمان چاہیں گر سارے کہ چھوڑے
گینگا ساقیا کیا مجھسے دیوانے کے پیمانے
آْج بوسے پر لڑائی ہوتی ہوتی رہ گئی
بزم میں آکر تمہیں چپکے نہ رہنا چاہیے
نصیب اچھی اگر ہوتے مصیبت کیلئے پڑتی
وہ اور ہیں جو عشق کا دم بھر کے رہگئے
جو تیری یاد جلوۂ قامت میں سوگئی
وہ تو اے قاصد نہ آئینگے کہیں نے جائینگے
بال زلفوں کے جووہ منھ پر دیکھیرے آئینگے
جمال گلرخان دیکھو گلستان الٰہی ہے
نہ پوچھو کیا بتان جو و نما کا کار خانہ ہے
صحبت منافقانہ ہے ہر جا نقاق سے
خوش آتی کب ہمیں بھو پونکی باغ میں بو ہی
زلفوں پہ تری آئینہ میں یہ گمان ہے
اعجاز نما جلوۂ موسای فلک ہے
پلا مجھے مے گلرنگ ساقیا اچھی
اس جہاں میں آکے ہم کیا کر چلے
دنیا ہزار رنج و مصیبت کی جاے ہے
کام جو کوشش سے ہو تدبیر اسکا نام ہے
نہ کر خیال کہ آئی گھٹا بہت سی ہے
ناز دادا میں کیا بت گمراہ ایک ہے
ہو جاتی آہ سے مژۂ تر بھی خشک ہے
کیا جانے کسکے پاس وہ گل راتکو گئے
واہ کیا طرز ستم تجھکو ستمگر یاد ہے
آج کیا جانیں کہ میخانہ میں کیا پتھر پڑے
کیا بولوں آگے ادس صنم نکتہ چین کے
نہ سمجھو سر بہ فلک نالہ وفغاں یہ ہے
گر نہ لکھوں حال دل میں ہانہ اپنا تھام کے
ہم نئے ہیں آج اے صیاد کیا پکڑی گئی
ہم جو ہیں یاد ترا جلوۂ قامت کرتی
دشت الفت میں جلے گر خار وخش کو توڑ کے
نظر پھر آج شکل تابہ کردودن کے بعد آئی
رکھکے تم زلف میں شانہ جو ہو پیارے پھرے
فدا ہونا بتوں پر محض نادانی کا تمغا ہے
خواب تھا جو زندگی جاہ وحشم میں کٹ گئی
کردن کیا یادزلف دلربا جانی نہیں جاتی
نہ تونے دوستی اغیار سے اے ناز نین چھوڑی
چشم و گلو ہو تم جنھیں جاتا ناجانتے
ہم نے فقط نہ جلوہ نمائی کی سیر کی
کسی کی شکل تمھارے نہیں برابر کی
دکھاتی ہے جو شمشیر قضا اپنی زبر دستی
ہو گیا زلف سیہ کا کسکی یہ سودا مجھے
باندھی کمر ہے شہ نے شادت کیواسطے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.