فہرست
احوال واقعی
انٹروڈکشن ۔ازمصنف
خوشادہ دل کہ ہو جس دل میں آرزو تیری
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
ردیف الف
ہوتا بسم اللہ سے آغاز ہے دیوان کا
کھیل سمجھا ہے سفر بھر واعدم آباد کا
سراپا عصمت ہیں اور حیاہیں ہے شرم باجی شعار اپنا
تذکرہ
بیٹھا تھا کہ ہوا ہوگیا توسن ان کا
پھر گیا طبلہ بجانے آج گوہر جان کا
تم نے کیا کیا نہیں بوا دیکھا
خلاف کہتی ہیں حوریں کہ ہے قمر کا سا
دام تو دے نہ گئے چھوٹتا مالا کیسا
دیکھنا امی تما شا پیر کا
جس سر زمیں پہ جائے ہے آسماں نصیب
ردیف ب
ردیف پ
تیسری چوتھے بھی آتے نہیں گھر آپ سے آپ
کوئی مرجاے یا ہو جان بلب
چھان بین
ردیف ت
یونتو دنیا میں دلدار بہت
کرتے ہیں کیا کیا چبا کر سرخ ہو جا ے کی بات
بھولے وہی ہیں جنکی ہمیں یاد ہے بہت
ذرا دیکھیے قبلہ چلمن الٹ
ردیف ٹ
میں بھی آخر سنوں تو کیا باعث
پیشگی دل کو جو دے لے وہ اسے تحصیلے
ردیف ث
بیتابی دل۔ ہان بوا دکھلا دے اثر آج
ردیف جیم
کیو ں کر لگے نہ آگ جو اجی بدن میں آج
شب ہجراں میں جو دم تھا وہ گویا واپس دم تھا
کس پہ جھپٹا ہوا شکاری آج
ردیف چ
آج دی تعلیم گت گت کی مجھے تالو نکے بیچ
ردیف ح
کیوں پیچ وتاب ہو نہ بوامار کی طرح
لال کمرے کا آج سامان سرخ
ردیف خ
دربدر بھیک ہی مانگے گا موا میرے بعد
ردیف دال
ردیف ذال
ردیف ڈال
بند ی کیو نکر کہے گوئیان نہیں سرکار لذیذ
ناز الفت کے ہیں تو پیار کے لاڈ
ردیف ر
ابر اٹھا ہے گرے قطرۂ باران سرپر
عجب بلا میں پھنسی ہوں گوئیان میں اس نگوڑے سے دل لگا کر
وہ الٹے الٹے سبق سنائے کہ مار ڈالا جلا جلا کر
ہے جو مکیں خانہ دل میں خیال یار
ہے دل میں حسرت کمال گوہر ہون عاشق خستہ حال گوہر
ناچنا رنڈیون کے سامنے ننگا ہوکر
جون کلی وہ کھل گئیں بخت سکندر دیکھ کر
کہاں کا جوش نگوڑی ہوس ہے دامنگیر
ردیف ڑ
بیگم خدارا مان لے مرزا کا گھر نہ چھوڑ
ردیف ز
آیا کئے وہ بہر ملاقات چند روز
پڑے نگوڑی چمار کے بس۔کھمار کے بس ۔کہار کے بس
چال ہے مجھ ناتواں کی مرغ بسمل کی تڑپ
ردیف س
لگی ہے تن کے چمن میں باجی یہ کس شمعرو کی پیاری آتش
ردیف ش
وہ کرتے خاک ہیں مجھ دلفگار سے اخلاص
ردیف ص
ردیف ط
بہار جانفرا ہے یار کاخط
آئے جو تار موت کے ماؤ شمار کو کیا غرض
ردیف ض
ردیف ظ
کریگا خاک موا بیوفا ۔ وفا کا لحاظ
رنڈی نگوڑی کے ہے فقط گھات کا لحاظ
ردیف ع
پھر باجی جان بھڑوے نے جھگڑا کیا شروع
آتشؔ کا فن
خانۂ دل میں کیا ہے عشق نے روشن چراغ
ردیف غ
بغل میں لیکے یوسف کو اکیلا واں سے میں گزرا
ردیف ف
جسقدر کوشش ہوئی سب ہوگئی بیکار حیف
ردیف ق
ہے تمنا کہ پکڑ کر تری چوکھٹ عاشق
ردیف ک
چمن میں جا جا کے رنڈیوں کو پلاؤ گے یوں شرب کب تک
ردیف گ
اشنان کے بہانیسے اوئی ایسی دن میں آگ
ردیف ل
نہ پوچھو مرد ہ دل سے کیا ہوا دل
ردیف م
نہ ہم پیالہ شراب میں ہم۔ نہ ہم نوالہ کباب میں ہم
مکیں ہر معنئ روشن مکاں ہر بیت موزوں ہے
ردیف نون
چپتیں کھا کھا کے بواچور ہوے بیٹھے ہیں
ابھی سیف زباں سے لوں میں کارذوالفقار آتش
ہوئے ہیں فعلوں سے اپنے نادم۔ بوا وہ اب قول ہارتے ہیں
کھینچ دیتا ہے شبیہہ شعر کا خاکہ خیال
دل تو کہیں پھرتا ہی بوا بیٹھے ہیں
بل عجب چہل سے جبیں پردہ چڑھا لیتے ہیں
حاجت بناؤ کی نہیں تم کو شباب میں
ہے یہ دعا کریم تیری بار گاہ میں
کہیے تو ہچکچا ئیں وہ کیوں پھر گناہ میں
کیوں کر وہ بیلتے نہیں پاپڑ یہاں کے ہیں
پڑھے جو نہ یہ نظم سرکار میں
غزل دعا ے محسن بدر گاہ مجیب الدعوات
ردیف و
جھاڑ کر پڑاٹھ کھڑا جب ہم سے ہارارات کو
پھر دانت آج شیخ سے لگوا کے آئیں نہ
ردیف ہ
آسماں شوق سے تلواروں کا مینھ برسادے
پیتا نگوڑا رات کو گوئیان شراب ہے
ردیف یائے
موسم گل میں خزاں سے مجھے بو آتی ہے
طریق عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط
ڈاڑھی بنا کے شیخ جی مونچھیں سوار کے
خار کا کھٹکا نہیں رکھتے ہیں ہم آتش قدم
سوبات میں جو ایک بھی گرمان جائیے
شب ہجر شعلۂ نار ہے مرابھن رہا دل زار ہے
ہوائے دور مئے خوشگوار راہ میں ہے
مجھے بے وجہ بھڑوا مارتا ہے
دکھاؤ تن تن گھڑی نہ موہن گھڑی میں کچھ ہے گھڑی میں کچھ ہے
بہار آے الہی طبع ہری ہو جائے
بات سن لیں جو شیخ جی دل کی
آئینہ سینۂ رہ داماں نہ ہوا تھا سو ہوا
گوئیاں وہ لطف بادہ کشی اب کہاں رہے
فکر میری اسے اسوقت بوا ہوتی ہے
جب بو الکہہ چکی میں راگ کی سرگت کیا ہے
قربان فتنہ باز یوں کی چال ڈھال کے
یک سالہ راہ سے چلی آئی ہے باغ میں
یہ شاعر ہیں الٰہی یا مصور پیشہ ہیں کوئی
سنتی ہوں سوت سے اب تکرار ہوگئی ہے
کافی اردو بردھن تلنگ سندھڑا ملتانی زبان لکھنؤ بطرز ریختی
ہوا یاد چمن میں گل باجی
کیا برپا فتنہ نے شر خالہ
آتش عشق سے ہے داغ سراپا میرا
معذرت
نہیں کسی کے مدارالمہام کی خاطر
غلط ہے جاتے ہیں تفریح شام کی خاطر
غزل محسن خانپوری
عشقیہ شاعری
تمہارے جوروستم نے کیا ہے چو مجھے
معذرت دومی
عنقا بیگم دماغ کس کا ہے
قطعۂ تاریخ طبعزاد مصنف
التماس
تجھ سا حسیں ہو یار تو کیوں کر نہ اس کے پھر
نازک دلوں کو شرط ہے آتش خیال یار
واہ کیا کہنا ہے محسنؔ فن میں اپنے فرد ہو
تاریخ دیگراز مصنف
خزانۂ ادب
ذرے اس کوچے میں جاسکتے نہیں روزن تک
جب دیکھئے کچھ اور ہی عالم ہے تمھارا
کل ہمارا اور اس کا امتحاں ہو جائے گا
راہ میں تیری شب وروز بسر کرتا ہوں
دشت مشتاق میں قزاق کا پاتا ہوں ہنر
ایسی رسائی کیجئے پیدا کہ کھینچ کر
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
آگے یک یار نہ تھا یار ترے یار تھے ہم
خمریات
دختر زر کے لئے ہونا ہے اک دن کشت وخوں
کوچۂ دلبر میں میں بلبل چمن میں مست ہے
خون دل آنکھوں میں اس طرح سے بھر آتا ہے
شیشے شراب کے رہیں آٹھوں پہر کھلے
بادباں کا کام کرتی ہے گھٹا برسات کی
خم فلک سے بھروں وہ شراب شیشے میں
فصل گل ہے لوٹئے کیفیت میخانہ آج
کون سی جاہے جہاں تیرے نہیں اے یار مست
بہار آئی چمن میں چلی ہوائے قدح
تصوف
منزل فقروفنا جائے ادب ہے غافل
قید مذہب کی نہیں حسن پرستوں کے لئے
آج تک آہ کے کوڑوں سے بدن نیلا ہے
مغرور ہو نہ حسن جوانی پہ آدمی
دنیا کو آتش ایک کے اوپر نہیں قرار
دو روزہ ہے یہ لطف عیش ونشاط دنیا
کالے کوسوں نظر آتی ہے دلا منزل گور
آئینہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
پا ر اترا جو کہ غرق ہوا بحر عشق میں
ثابت قدم فقر کو ہے نفس کشی شرط
سمجھے آتشؔ نہ کوئی آدم خاکی حقیر
مسائل حیات
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
ایک شب بلبل بیتاب کے جاگے نہ نصیب
چپ رہو دور کرو منھ نہ مرا کھلواؤ
خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں پڑتے
دل سے آتی ہے محبت کے جوئے میں یہ صدا
آرزو رہ گئی اس کوچے میں پامالی کی
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو برو کرتے
فہرست
احوال واقعی
انٹروڈکشن ۔ازمصنف
خوشادہ دل کہ ہو جس دل میں آرزو تیری
پیامبر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
ردیف الف
ہوتا بسم اللہ سے آغاز ہے دیوان کا
کھیل سمجھا ہے سفر بھر واعدم آباد کا
سراپا عصمت ہیں اور حیاہیں ہے شرم باجی شعار اپنا
تذکرہ
بیٹھا تھا کہ ہوا ہوگیا توسن ان کا
پھر گیا طبلہ بجانے آج گوہر جان کا
تم نے کیا کیا نہیں بوا دیکھا
خلاف کہتی ہیں حوریں کہ ہے قمر کا سا
دام تو دے نہ گئے چھوٹتا مالا کیسا
دیکھنا امی تما شا پیر کا
جس سر زمیں پہ جائے ہے آسماں نصیب
ردیف ب
ردیف پ
تیسری چوتھے بھی آتے نہیں گھر آپ سے آپ
کوئی مرجاے یا ہو جان بلب
چھان بین
ردیف ت
یونتو دنیا میں دلدار بہت
کرتے ہیں کیا کیا چبا کر سرخ ہو جا ے کی بات
بھولے وہی ہیں جنکی ہمیں یاد ہے بہت
ذرا دیکھیے قبلہ چلمن الٹ
ردیف ٹ
میں بھی آخر سنوں تو کیا باعث
پیشگی دل کو جو دے لے وہ اسے تحصیلے
ردیف ث
بیتابی دل۔ ہان بوا دکھلا دے اثر آج
ردیف جیم
کیو ں کر لگے نہ آگ جو اجی بدن میں آج
شب ہجراں میں جو دم تھا وہ گویا واپس دم تھا
کس پہ جھپٹا ہوا شکاری آج
ردیف چ
آج دی تعلیم گت گت کی مجھے تالو نکے بیچ
ردیف ح
کیوں پیچ وتاب ہو نہ بوامار کی طرح
لال کمرے کا آج سامان سرخ
ردیف خ
دربدر بھیک ہی مانگے گا موا میرے بعد
ردیف دال
ردیف ذال
ردیف ڈال
بند ی کیو نکر کہے گوئیان نہیں سرکار لذیذ
ناز الفت کے ہیں تو پیار کے لاڈ
ردیف ر
ابر اٹھا ہے گرے قطرۂ باران سرپر
عجب بلا میں پھنسی ہوں گوئیان میں اس نگوڑے سے دل لگا کر
وہ الٹے الٹے سبق سنائے کہ مار ڈالا جلا جلا کر
ہے جو مکیں خانہ دل میں خیال یار
ہے دل میں حسرت کمال گوہر ہون عاشق خستہ حال گوہر
ناچنا رنڈیون کے سامنے ننگا ہوکر
جون کلی وہ کھل گئیں بخت سکندر دیکھ کر
کہاں کا جوش نگوڑی ہوس ہے دامنگیر
ردیف ڑ
بیگم خدارا مان لے مرزا کا گھر نہ چھوڑ
ردیف ز
آیا کئے وہ بہر ملاقات چند روز
پڑے نگوڑی چمار کے بس۔کھمار کے بس ۔کہار کے بس
چال ہے مجھ ناتواں کی مرغ بسمل کی تڑپ
ردیف س
لگی ہے تن کے چمن میں باجی یہ کس شمعرو کی پیاری آتش
ردیف ش
وہ کرتے خاک ہیں مجھ دلفگار سے اخلاص
ردیف ص
ردیف ط
بہار جانفرا ہے یار کاخط
آئے جو تار موت کے ماؤ شمار کو کیا غرض
ردیف ض
ردیف ظ
کریگا خاک موا بیوفا ۔ وفا کا لحاظ
رنڈی نگوڑی کے ہے فقط گھات کا لحاظ
ردیف ع
پھر باجی جان بھڑوے نے جھگڑا کیا شروع
آتشؔ کا فن
خانۂ دل میں کیا ہے عشق نے روشن چراغ
ردیف غ
بغل میں لیکے یوسف کو اکیلا واں سے میں گزرا
ردیف ف
جسقدر کوشش ہوئی سب ہوگئی بیکار حیف
ردیف ق
ہے تمنا کہ پکڑ کر تری چوکھٹ عاشق
ردیف ک
چمن میں جا جا کے رنڈیوں کو پلاؤ گے یوں شرب کب تک
ردیف گ
اشنان کے بہانیسے اوئی ایسی دن میں آگ
ردیف ل
نہ پوچھو مرد ہ دل سے کیا ہوا دل
ردیف م
نہ ہم پیالہ شراب میں ہم۔ نہ ہم نوالہ کباب میں ہم
مکیں ہر معنئ روشن مکاں ہر بیت موزوں ہے
ردیف نون
چپتیں کھا کھا کے بواچور ہوے بیٹھے ہیں
ابھی سیف زباں سے لوں میں کارذوالفقار آتش
ہوئے ہیں فعلوں سے اپنے نادم۔ بوا وہ اب قول ہارتے ہیں
کھینچ دیتا ہے شبیہہ شعر کا خاکہ خیال
دل تو کہیں پھرتا ہی بوا بیٹھے ہیں
بل عجب چہل سے جبیں پردہ چڑھا لیتے ہیں
حاجت بناؤ کی نہیں تم کو شباب میں
ہے یہ دعا کریم تیری بار گاہ میں
کہیے تو ہچکچا ئیں وہ کیوں پھر گناہ میں
کیوں کر وہ بیلتے نہیں پاپڑ یہاں کے ہیں
پڑھے جو نہ یہ نظم سرکار میں
غزل دعا ے محسن بدر گاہ مجیب الدعوات
ردیف و
جھاڑ کر پڑاٹھ کھڑا جب ہم سے ہارارات کو
پھر دانت آج شیخ سے لگوا کے آئیں نہ
ردیف ہ
آسماں شوق سے تلواروں کا مینھ برسادے
پیتا نگوڑا رات کو گوئیان شراب ہے
ردیف یائے
موسم گل میں خزاں سے مجھے بو آتی ہے
طریق عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط
ڈاڑھی بنا کے شیخ جی مونچھیں سوار کے
خار کا کھٹکا نہیں رکھتے ہیں ہم آتش قدم
سوبات میں جو ایک بھی گرمان جائیے
شب ہجر شعلۂ نار ہے مرابھن رہا دل زار ہے
ہوائے دور مئے خوشگوار راہ میں ہے
مجھے بے وجہ بھڑوا مارتا ہے
دکھاؤ تن تن گھڑی نہ موہن گھڑی میں کچھ ہے گھڑی میں کچھ ہے
بہار آے الہی طبع ہری ہو جائے
بات سن لیں جو شیخ جی دل کی
آئینہ سینۂ رہ داماں نہ ہوا تھا سو ہوا
گوئیاں وہ لطف بادہ کشی اب کہاں رہے
فکر میری اسے اسوقت بوا ہوتی ہے
جب بو الکہہ چکی میں راگ کی سرگت کیا ہے
قربان فتنہ باز یوں کی چال ڈھال کے
یک سالہ راہ سے چلی آئی ہے باغ میں
یہ شاعر ہیں الٰہی یا مصور پیشہ ہیں کوئی
سنتی ہوں سوت سے اب تکرار ہوگئی ہے
کافی اردو بردھن تلنگ سندھڑا ملتانی زبان لکھنؤ بطرز ریختی
ہوا یاد چمن میں گل باجی
کیا برپا فتنہ نے شر خالہ
آتش عشق سے ہے داغ سراپا میرا
معذرت
نہیں کسی کے مدارالمہام کی خاطر
غلط ہے جاتے ہیں تفریح شام کی خاطر
غزل محسن خانپوری
عشقیہ شاعری
تمہارے جوروستم نے کیا ہے چو مجھے
معذرت دومی
عنقا بیگم دماغ کس کا ہے
قطعۂ تاریخ طبعزاد مصنف
التماس
تجھ سا حسیں ہو یار تو کیوں کر نہ اس کے پھر
نازک دلوں کو شرط ہے آتش خیال یار
واہ کیا کہنا ہے محسنؔ فن میں اپنے فرد ہو
تاریخ دیگراز مصنف
خزانۂ ادب
ذرے اس کوچے میں جاسکتے نہیں روزن تک
جب دیکھئے کچھ اور ہی عالم ہے تمھارا
کل ہمارا اور اس کا امتحاں ہو جائے گا
راہ میں تیری شب وروز بسر کرتا ہوں
دشت مشتاق میں قزاق کا پاتا ہوں ہنر
ایسی رسائی کیجئے پیدا کہ کھینچ کر
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
آگے یک یار نہ تھا یار ترے یار تھے ہم
خمریات
دختر زر کے لئے ہونا ہے اک دن کشت وخوں
کوچۂ دلبر میں میں بلبل چمن میں مست ہے
خون دل آنکھوں میں اس طرح سے بھر آتا ہے
شیشے شراب کے رہیں آٹھوں پہر کھلے
بادباں کا کام کرتی ہے گھٹا برسات کی
خم فلک سے بھروں وہ شراب شیشے میں
فصل گل ہے لوٹئے کیفیت میخانہ آج
کون سی جاہے جہاں تیرے نہیں اے یار مست
بہار آئی چمن میں چلی ہوائے قدح
تصوف
منزل فقروفنا جائے ادب ہے غافل
قید مذہب کی نہیں حسن پرستوں کے لئے
آج تک آہ کے کوڑوں سے بدن نیلا ہے
مغرور ہو نہ حسن جوانی پہ آدمی
دنیا کو آتش ایک کے اوپر نہیں قرار
دو روزہ ہے یہ لطف عیش ونشاط دنیا
کالے کوسوں نظر آتی ہے دلا منزل گور
آئینہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
پا ر اترا جو کہ غرق ہوا بحر عشق میں
ثابت قدم فقر کو ہے نفس کشی شرط
سمجھے آتشؔ نہ کوئی آدم خاکی حقیر
مسائل حیات
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
ایک شب بلبل بیتاب کے جاگے نہ نصیب
چپ رہو دور کرو منھ نہ مرا کھلواؤ
خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں پڑتے
دل سے آتی ہے محبت کے جوئے میں یہ صدا
آرزو رہ گئی اس کوچے میں پامالی کی
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو برو کرتے
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔