سر ورق
حسن یکتائی پہ لاشے کا ہے زیور تیرا
قائل تو پہلے ہو دل نادان وجود کا
سوز فراق سے دلِ بیتاب جل گیا
مجکو انسان خدایا نہ بنایا ہوتا
جو تذکرہ ہے طور کے برق و شرار کا
آپ آتے تو علاجِ غمِ پنہان ہوتا
دل تو مانا کسی صورت پہ ہے آیا آیا
جو نالۂ رک رہا وہ پیام فنا رہا
خوش ہون کہ یار نے مجھے لاغر بنا دیا
وہ رنگ نیا کونسا محشر میں رہے گا
میری تقدیر میں عاشق ہی اگر ہونا تھا
غیر سے تم نے گلا سیرا کیا
یار مصروف کسی غیر کی توقیر میں تھا
رنگ فریبِ عشق جمایا نہ جائےگا
لطف آئے یار سے تکرار کا
گریہ جب در خور اظہار ِ تمنا ہوگا
یہ نہ سمجھے سوزِ دل آزارِ جان ہو جائے گا
زلف کا کھیل ہے عارض پہ پریشان ہونا
کس کی بیتابی دل حال پریشان کس کا
نکلتا نہیں دم کو کیا ہو گیا
مژدہ اے دل خلشِ درد کا سامان نکلا
دم نکلنے کو ہے اور یار کا آنا ٹھہرا
گر تیرِ جگر کے پار ہو گا
درد کیوں دل میں ناگہان اٹھا
سہل چھوٹے مرضِ غم کا مداوا نہ ہوا
اچھا ہے نہ آئے وہ آتے تو برا ہوتا
سر بکف سامنے قاتل کے وہ انسان ہوگا
باتوں ہی میں جلا دیا اعجاز دیکھنا
تم چھپایا ہی کئے حسن نظر آہی گیا
کیوں خامہ میراگرم نوا ہو نہیں سکتا
اظہار کرتے کرتے ہم تھک گئے وفا کا
واں پرسش گہنہ نہ خیالِ قصور تھا
قیامت تک نہ چھوڑے گا ہمیں آزار فرقت کا
دل پہ بن ہی گئی کیوں ہوش ربا کو دیکھا
پوچھا ہے مزاج آپ نے آہا مرے دل کا
یہ عشق وہ ہی کہ جس کا شجر نہیں ہوتا
میں نے پوچھا مجھے کیا تو نے مری جان چھوڑا
دل تھما گیا گیا وہ ہمیں جان تو گیا
بیجا گلہ ہے ہجر میں غم جان پر رہا
وہ ایسے دل میں آگئے میں بے خبر رہا
بعد مجنوں کے کوئی عشق کے قابل نہ ہوا
نالہ جو دل سے کہچا قسمت سے کہچ کر رہ گیا
غم و اندوہ نے سب کو دیا سامان دل کا
عالم فریب حسن رخ یار ہی رہا
کہا کرتے ہیں بعد مرگ عاشق کا نشان کیسا
رونے سے فائدہ تری کیا چشم تر ہوا
طور ہے بے طور فریاد دل ناشاد کا
رنگ لائے گیہ آخر طرب جام شراب
آئینہ حسن نما کاش مرا دل ہوتا
آجاؤ بے طلب تمہیں کس کا گمان ہے اب
روز رکھ رکھ کے ایک نیا مطلب
بڑھ گئی دوست کی کیا عشق نظر آپ ہی آپ
کچھ شبِ ہجر سے ملتی ہے مگر وصل کی رات
جب چشم خون فشاں نہیں پھر مدعا عبث
بیطور جھکی ہے نگہہ ناز اثر آج
لو آؤ دیکھیں دیتے ہو آزار کس طرح
ہم نہ کرتے کبھی کہاں کا رخ
آج چپ چپ سے ہیں ارباب جفا میرے بعد
تھا مرا جلوہ نما شوق کا پیکر کاغذ
مارنا مدِ نظر ہے آو سامان تھام کر
یاد ہیں مجھ کو کسی اور کے انکار کے ناز
ایک میں ہی نہیں دلدادہ گزار ہوس
یاد ہے مجھ کو ترا روٹھ کے جانا شب عیش
مانگتے ہو جو دل ہمارا قرض
کرتا ہے وہی زلفِ گرہ گیر سے اخلاص
جب نہیں ہے میری تدبیر کو تقدیر سے ربط
تمہیں بڑہاؤ گے کچھ دل کی اضطرار میں حظ
ہوتا نہیں ہے گریہ کبھی سازگارِ شمع
وحشت ہوئی تو صحن بیاباں نہیں دریغ
آنا جانا ہو چکا اوس آفتِ جان کی طرف
رہتا ہے رنگ رنگ سے سینہ میں راز عشق
روئیں قسمت کو ہم خدا کب تک
رہتا ہے آج کل دلِ مضطر الگ الگ
بزم میں آئیو تو آض مقرر بلبل
کیا اچھے ہوں گے چارہ گر دن کی دوا سے ہم
دل ہے مضطر گلہ یار کروں یا نہ کروں
کوئی عبث ہے وہ سامان کئے شیوں کے بیٹے ہیں
دل دکھا کر تم تو رکتے فتنہ زائی سے نہیں
کوئی نہیں ہے یار میسری میں
جس سے سنتے برائی کی خبر سنتے ہیں
کونسا شغل ہے جو خانہ ویران میں نہیں
ہوا ہوں سر فرازِ عشق میں او سدن سے دوران میں
قیامت ہے قیامت ہے کہ وہ ہم کو بلاتے ہیں
عام ٹھہرے جب جفا لطف جفا کچھ بھی نہیں
جب وہ مل جاتے ہیں تنہا سرِ بازار کہیں
غضب ہے ہے ادا چشم دو اثر میں
میں ہی ایک دست ستمگر کے سزا اور نہیں
وابستہ دام یار نہ بندِ قفس میں ہوں
ایمائے ستم چشمِ صنم یوں ہی ہوئے جائیں
دل بد گمان نہ کہ مکان اور مکیں نہیں
کہتے تھے آپ عشق کا خوگر نہیں ہوں میں
ہمیں کیوں یہ اہل حرم دیکھتے ہیں
مشق جفائے نازشِ اہلِ جفا ہوں میں
قیامت سی قباحت ہے بلاسی ہے بلا گہر میں
کیا امید ان سے یہ کیا اہل جفا دیتے ہیں
اس آسمان سے ہم کو وفا کا گمان نہیں
جی میں ۃے بات یار سے ہم دو بدو کریں
ازل میں یہی مگر حرف غلط تقدیر ہونے میں
مل جائے تم کو خضر اگر کارواں کہیں
شکایت ہے اور پھر شکایت نہیں
مضطرب وصل میں یہی ہم تو رہا کرتے ہیں
نہیں بنتی بنا دیکھے یہ شکل نازنین برسون
بے بلائے مرے مہماں چلے آتے ہیں
پہونچائے ہم کو دیکھئے عزم سفر کہاں
مرے دل سے کوئی پوچھے کہ تم ہو اور کیا ہو
ترکیب درد کہتی ہے زخمِ نہاں نہ ہو
کیوں کرتے ہو خراب دل وصل خواہ کو
کچھ تو شرماؤ کہ اکثر تم کو
طرز گر یہ کی نئی دیدہ تر ہونے دو
رونے کا مزا دیدہ خونبار سے پوچھو
کوئی فرقت میں نہیں درد کے بہلانے کو
ادھر دربان مرا دشمن رسائی ہو تو کیوں کر ہو
مرے ارمان نکلنے دے ابھی سونے دے جاناں کو
کس منہ سے کہوں تم دب بیتاب میں آؤ
بند در ہے خیال ہے مجکو
پیمان شکن سے شکوہ پیمان زبان سے ہو
خوشامد سے بگاڑ آپ ہم نے اوس کی عادت کو
یار سے پھر چھیڑ شکوہ کی دل دیوانہ ہو
تمنا محرمِ اسرار سے پوچھ
صلائے عید ہے ساقی کھلا رکھ آج میخانہ
مژدہ اے میکشو بادل سوے جو آتاہے
خوبگاڑے یار کی یہ روز محشر آئینہ
یاد ہے کس کا کیا خون تمنا کس نے
کچھ کام نکلتا ہے تدبیر نو کی ہوتی
کیا علاجِ دلِ بیمار مسیحا کرتے
الفتِ دل کی نشانی اور ہے
آرزو وصل کی اوس دن دل مضطر نکلے
آج کس کے سات کہئےبزم آرائے ہو
آج خوش خوش جو نسیم سحری آتی ہے
دی تہی ازل میں الفت اہل جفا مجھے
سنا فریاد دل کی نالہ شب گیر تھوڑی سی
ہے اگر فرقت یہی اور ہجر کا آزار بھی
عشق کا داغ نشان غم جان ہوتاہے
گر ان ہیں ان کی خاطر پر زبان کی شوخیاں میری
رقیبوں سے ہنسنا ہنسانا برا ہے
کہتے ہیں آنے کو وہ آئیں نہ آئیں دیکھئے
آج کیوں خاطر ہے بر ہم بے قراری دل میں ہے
عیش کی رات مقدر سے اگر ہوتی ہے
رات بھر تکرار ان سے دو بدو ہوتی رہی
اتنا تو گن نہ ہو صحن بیابان ہم سے
جم گئی یار کے سینہ پہ کدورت میری
کیا سب کے دہر سے ہم اہل جہاں جائیں گے
دیکھیں تو قدم اب بڑھیں اغیار کے آگے
خطا کی اے دلِ ناداں خطا کی
وصل میں چشم تر نہ ہوجائے
حسینوں سے نکر الفت دل ناشاد کہتے تھے
آنے کو میرے پاس وہ سو بار آئیں گے
دل تشنہ بےداد دل آرام بہت ہے
جدھر یار کی کچھ نظر ہو گئی
فصل گل اور سرگرانی ہے
دیکھ کر ناز شوخ طینت کے
شکایت دردو غم کی دل ستاں سے
دل سے سن لی وہ گفتگو میری
دی تھی گر الفت ستم ایجاد کی
جب تک کہ میکدہ کا جہاں میں نشان ہے
آسماں تھا جو آشنا پہلے
تیز کر رکھا ہے خنجر آزمانے کے لئے
تھم ہجوم نا امیدی اب جو اب آنے کو ہے
وہ مری عرض تمنا کو کچھ ایسا سمجھے
عشق کرنا تھا جو قسمت میں مقدر پہلے
اس طرح گردن پہ خنجر کو لگاتے جائے
کس کی تصویر نگاہوں میں پڑی پھرتی ہے
عدو کو لاد محبت کا امتحان ہو جائے
آج پھر ان کی ہے خونبار قیامت آئی
چھٹے وہ چٹکی سے تیر قاتل تڑپ کے بیٹھے تڑپ کے نکلے
مجھ سے دل دل سے تو ان رخصت فانی گے
گر اشارے نگہہ ناز اثر کے ہوتے
برابر ہو گئے ہم تم شکایت میں برائی کی
ڈریں کیوں نہ چشم فسوں کار سے
اڑتی سی پہر سنی ہے خبر وصل یار کی
وہ تو آتے نہیں اسے دل تجھے ظن کس کا ہے
چونک اٹھتا ہوں کہ یکتائی یکتا کیا ہے
دل میں اپنے امنگ کیا نہ رہی
غرض کیا اوس کو ایسے درد سر سے
آنکہ پھر پھڑکی میری تقدیر کچھ کہتی تو ہے
کہتے ہو تم کہ تیری نظر حسن پر لگی
یہ وعدہ جو تم نے کیا چلتے چلتے
میں سمجھتا ہوں کہ وہ دل میں نہاں رہتا ہے
قیامت ہے خرام یار کی تکرار دامن سے
حسن کا سودا ہے ، کافر زلف دلالوں میں ہے
ایک دن سر پر ہمارے سائبان بن جائینگے
فرقت کے صدمے جان پہ وہ آج کل پڑے
کل ملو گے یہ انتظار کسے
سو ستم سو جفا کرے کوئی
آراستگی حسن وہ کیا کیا نہیں کرتے
ملنی تھی جس کو مل گئی تقدیر ہو چکی
ہم آکے اگر دہر میں آباد نہ ہوتے
نشاط عمر ہے خضر اور آسمان کے لئے
ایک تم ہو نہ کہی دیدہ پرنم میں رہے
موت کے طور میں سارے شبِ ہجراں تیرے
میں سامنے ہوتا تو یہ تقدیر نہ ہوتی
خاموش رہیونالہ شورش فزا ابھی
انتظار یار میں عاشق کو کیا کیا چاہتے
درد کا قصد ہے فریاد کا سامان کیجئے
مقدر تھا دم فرہاد نکلے اور یوں نکلے
فروغ لا کہہ تجلی کا آتشیں ہو جائے
لوگ کہتے ہیں جسے کوئی قیامت ہو گی
زبان جو ہر دکھا تجھ میں اگر ہے
اوس کی میری دم تقریر بگڑ جاتی ہے
دل میں ہمارے گہر بت خود سر بنائیں گے
دم بھر کو آپ آئے ملے یہی تو کیا ملے
مقتل میں آج او چہری سے گلا ملے
زندگی میں نہ گئی خیر یہ آفت نہ گئی
امید بر آئی کوئی دل کی نہ جگر کی
واعظ ڈر انہ تو ہمیں روز حسب سے
کھلتی ہے روز زلف دوتا کس کے واسطے
سمجھتے ہیں اشارات نہاں کی
اوٹھ زندگی کی عمر کی آخر سحر ہوئی
خضر کوویکی یارب عمر کیوں کی رائیگاں تو نے
نو اسنجان گلشن گل کا اب موسم نکلتا ہے
کہاں حسرتیں لے کے جائیں تمہاری
شوخ رخ بے نقاب دیکھئے کب تک رہے
جب وہ بت سنگ دل خفا ہے
رباعیات
قطعہ تاریخ وفات خواجہ بدرالدین خان۔۔۔۔
قطعہ تاریخ وفات فخرالدولہ نواب ۔۔۔۔
قطعہ تاریخ وفات نواب ضیاء الدین احمد۔۔۔۔
سلام
تضمین بر غزل نعیتہ۔۔۔۔
تضمین بر غزل نواب یوسف علی خان۔۔۔
قطعہ تاریخ بہ گل باری قلم اعجاز ۔۔۔
گلدستہ بدن معانی نقش طراز سخندانی۔۔۔
قطعہ تاریخ طوطی شکر ۔۔۔
قطعہ تاریخ ترا نہ ریزی قلم ۔۔۔۔۔
قطعہ تاریخ بہ آہنگ دلربا نوای۔۔۔۔۔
قطعہ تاریخ بہ نقش طرازی خامہ معجز بیان۔۔۔۔
عذب البیانی و رطب اللسانی۔۔۔۔
قطعات سال طبع دیوان بزمزمہ گفتار۔۔۔۔
قطعہ تاریخ طبع دیوان بہ ۔۔۔۔
ترانہ گفتار بشیرین زبانی و نغمہ بہ ہنجار۔۔۔۔
گہر فشانی خامہ بلاغت۔۔۔۔
بہ آہنگ عنبر ریزو نوای ۔۔۔۔
قطعہ تاریخ نیتجہ فکر بلند۔۔۔۔
ختم کلیات راقم دہلوی
مرقع نعت
غزلیات نعت شریف
آج دن مولود کا آیا رسول پاک کا
واللہ تمہیں تھے تھیں شایان نبوت
ہاں دیدہ مشتاق نظر سوی محمد
ہاں جمال احمدی جلوہ بڑھا انوار پر
تمناے خالق بتا جانتے ہیں
وہ مقدر نہیں جو سید ابرار کے پاس
کس شان میں شان اپنی دکھائی ہے نبی نے
منقبت حضرت محبوب سبحانی شاہ نظام اولیا
تضمین بر غزل خود
بیان معراج رسول مقبول ﷺ
سر ورق
حسن یکتائی پہ لاشے کا ہے زیور تیرا
قائل تو پہلے ہو دل نادان وجود کا
سوز فراق سے دلِ بیتاب جل گیا
مجکو انسان خدایا نہ بنایا ہوتا
جو تذکرہ ہے طور کے برق و شرار کا
آپ آتے تو علاجِ غمِ پنہان ہوتا
دل تو مانا کسی صورت پہ ہے آیا آیا
جو نالۂ رک رہا وہ پیام فنا رہا
خوش ہون کہ یار نے مجھے لاغر بنا دیا
وہ رنگ نیا کونسا محشر میں رہے گا
میری تقدیر میں عاشق ہی اگر ہونا تھا
غیر سے تم نے گلا سیرا کیا
یار مصروف کسی غیر کی توقیر میں تھا
رنگ فریبِ عشق جمایا نہ جائےگا
لطف آئے یار سے تکرار کا
گریہ جب در خور اظہار ِ تمنا ہوگا
یہ نہ سمجھے سوزِ دل آزارِ جان ہو جائے گا
زلف کا کھیل ہے عارض پہ پریشان ہونا
کس کی بیتابی دل حال پریشان کس کا
نکلتا نہیں دم کو کیا ہو گیا
مژدہ اے دل خلشِ درد کا سامان نکلا
دم نکلنے کو ہے اور یار کا آنا ٹھہرا
گر تیرِ جگر کے پار ہو گا
درد کیوں دل میں ناگہان اٹھا
سہل چھوٹے مرضِ غم کا مداوا نہ ہوا
اچھا ہے نہ آئے وہ آتے تو برا ہوتا
سر بکف سامنے قاتل کے وہ انسان ہوگا
باتوں ہی میں جلا دیا اعجاز دیکھنا
تم چھپایا ہی کئے حسن نظر آہی گیا
کیوں خامہ میراگرم نوا ہو نہیں سکتا
اظہار کرتے کرتے ہم تھک گئے وفا کا
واں پرسش گہنہ نہ خیالِ قصور تھا
قیامت تک نہ چھوڑے گا ہمیں آزار فرقت کا
دل پہ بن ہی گئی کیوں ہوش ربا کو دیکھا
پوچھا ہے مزاج آپ نے آہا مرے دل کا
یہ عشق وہ ہی کہ جس کا شجر نہیں ہوتا
میں نے پوچھا مجھے کیا تو نے مری جان چھوڑا
دل تھما گیا گیا وہ ہمیں جان تو گیا
بیجا گلہ ہے ہجر میں غم جان پر رہا
وہ ایسے دل میں آگئے میں بے خبر رہا
بعد مجنوں کے کوئی عشق کے قابل نہ ہوا
نالہ جو دل سے کہچا قسمت سے کہچ کر رہ گیا
غم و اندوہ نے سب کو دیا سامان دل کا
عالم فریب حسن رخ یار ہی رہا
کہا کرتے ہیں بعد مرگ عاشق کا نشان کیسا
رونے سے فائدہ تری کیا چشم تر ہوا
طور ہے بے طور فریاد دل ناشاد کا
رنگ لائے گیہ آخر طرب جام شراب
آئینہ حسن نما کاش مرا دل ہوتا
آجاؤ بے طلب تمہیں کس کا گمان ہے اب
روز رکھ رکھ کے ایک نیا مطلب
بڑھ گئی دوست کی کیا عشق نظر آپ ہی آپ
کچھ شبِ ہجر سے ملتی ہے مگر وصل کی رات
جب چشم خون فشاں نہیں پھر مدعا عبث
بیطور جھکی ہے نگہہ ناز اثر آج
لو آؤ دیکھیں دیتے ہو آزار کس طرح
ہم نہ کرتے کبھی کہاں کا رخ
آج چپ چپ سے ہیں ارباب جفا میرے بعد
تھا مرا جلوہ نما شوق کا پیکر کاغذ
مارنا مدِ نظر ہے آو سامان تھام کر
یاد ہیں مجھ کو کسی اور کے انکار کے ناز
ایک میں ہی نہیں دلدادہ گزار ہوس
یاد ہے مجھ کو ترا روٹھ کے جانا شب عیش
مانگتے ہو جو دل ہمارا قرض
کرتا ہے وہی زلفِ گرہ گیر سے اخلاص
جب نہیں ہے میری تدبیر کو تقدیر سے ربط
تمہیں بڑہاؤ گے کچھ دل کی اضطرار میں حظ
ہوتا نہیں ہے گریہ کبھی سازگارِ شمع
وحشت ہوئی تو صحن بیاباں نہیں دریغ
آنا جانا ہو چکا اوس آفتِ جان کی طرف
رہتا ہے رنگ رنگ سے سینہ میں راز عشق
روئیں قسمت کو ہم خدا کب تک
رہتا ہے آج کل دلِ مضطر الگ الگ
بزم میں آئیو تو آض مقرر بلبل
کیا اچھے ہوں گے چارہ گر دن کی دوا سے ہم
دل ہے مضطر گلہ یار کروں یا نہ کروں
کوئی عبث ہے وہ سامان کئے شیوں کے بیٹے ہیں
دل دکھا کر تم تو رکتے فتنہ زائی سے نہیں
کوئی نہیں ہے یار میسری میں
جس سے سنتے برائی کی خبر سنتے ہیں
کونسا شغل ہے جو خانہ ویران میں نہیں
ہوا ہوں سر فرازِ عشق میں او سدن سے دوران میں
قیامت ہے قیامت ہے کہ وہ ہم کو بلاتے ہیں
عام ٹھہرے جب جفا لطف جفا کچھ بھی نہیں
جب وہ مل جاتے ہیں تنہا سرِ بازار کہیں
غضب ہے ہے ادا چشم دو اثر میں
میں ہی ایک دست ستمگر کے سزا اور نہیں
وابستہ دام یار نہ بندِ قفس میں ہوں
ایمائے ستم چشمِ صنم یوں ہی ہوئے جائیں
دل بد گمان نہ کہ مکان اور مکیں نہیں
کہتے تھے آپ عشق کا خوگر نہیں ہوں میں
ہمیں کیوں یہ اہل حرم دیکھتے ہیں
مشق جفائے نازشِ اہلِ جفا ہوں میں
قیامت سی قباحت ہے بلاسی ہے بلا گہر میں
کیا امید ان سے یہ کیا اہل جفا دیتے ہیں
اس آسمان سے ہم کو وفا کا گمان نہیں
جی میں ۃے بات یار سے ہم دو بدو کریں
ازل میں یہی مگر حرف غلط تقدیر ہونے میں
مل جائے تم کو خضر اگر کارواں کہیں
شکایت ہے اور پھر شکایت نہیں
مضطرب وصل میں یہی ہم تو رہا کرتے ہیں
نہیں بنتی بنا دیکھے یہ شکل نازنین برسون
بے بلائے مرے مہماں چلے آتے ہیں
پہونچائے ہم کو دیکھئے عزم سفر کہاں
مرے دل سے کوئی پوچھے کہ تم ہو اور کیا ہو
ترکیب درد کہتی ہے زخمِ نہاں نہ ہو
کیوں کرتے ہو خراب دل وصل خواہ کو
کچھ تو شرماؤ کہ اکثر تم کو
طرز گر یہ کی نئی دیدہ تر ہونے دو
رونے کا مزا دیدہ خونبار سے پوچھو
کوئی فرقت میں نہیں درد کے بہلانے کو
ادھر دربان مرا دشمن رسائی ہو تو کیوں کر ہو
مرے ارمان نکلنے دے ابھی سونے دے جاناں کو
کس منہ سے کہوں تم دب بیتاب میں آؤ
بند در ہے خیال ہے مجکو
پیمان شکن سے شکوہ پیمان زبان سے ہو
خوشامد سے بگاڑ آپ ہم نے اوس کی عادت کو
یار سے پھر چھیڑ شکوہ کی دل دیوانہ ہو
تمنا محرمِ اسرار سے پوچھ
صلائے عید ہے ساقی کھلا رکھ آج میخانہ
مژدہ اے میکشو بادل سوے جو آتاہے
خوبگاڑے یار کی یہ روز محشر آئینہ
یاد ہے کس کا کیا خون تمنا کس نے
کچھ کام نکلتا ہے تدبیر نو کی ہوتی
کیا علاجِ دلِ بیمار مسیحا کرتے
الفتِ دل کی نشانی اور ہے
آرزو وصل کی اوس دن دل مضطر نکلے
آج کس کے سات کہئےبزم آرائے ہو
آج خوش خوش جو نسیم سحری آتی ہے
دی تہی ازل میں الفت اہل جفا مجھے
سنا فریاد دل کی نالہ شب گیر تھوڑی سی
ہے اگر فرقت یہی اور ہجر کا آزار بھی
عشق کا داغ نشان غم جان ہوتاہے
گر ان ہیں ان کی خاطر پر زبان کی شوخیاں میری
رقیبوں سے ہنسنا ہنسانا برا ہے
کہتے ہیں آنے کو وہ آئیں نہ آئیں دیکھئے
آج کیوں خاطر ہے بر ہم بے قراری دل میں ہے
عیش کی رات مقدر سے اگر ہوتی ہے
رات بھر تکرار ان سے دو بدو ہوتی رہی
اتنا تو گن نہ ہو صحن بیابان ہم سے
جم گئی یار کے سینہ پہ کدورت میری
کیا سب کے دہر سے ہم اہل جہاں جائیں گے
دیکھیں تو قدم اب بڑھیں اغیار کے آگے
خطا کی اے دلِ ناداں خطا کی
وصل میں چشم تر نہ ہوجائے
حسینوں سے نکر الفت دل ناشاد کہتے تھے
آنے کو میرے پاس وہ سو بار آئیں گے
دل تشنہ بےداد دل آرام بہت ہے
جدھر یار کی کچھ نظر ہو گئی
فصل گل اور سرگرانی ہے
دیکھ کر ناز شوخ طینت کے
شکایت دردو غم کی دل ستاں سے
دل سے سن لی وہ گفتگو میری
دی تھی گر الفت ستم ایجاد کی
جب تک کہ میکدہ کا جہاں میں نشان ہے
آسماں تھا جو آشنا پہلے
تیز کر رکھا ہے خنجر آزمانے کے لئے
تھم ہجوم نا امیدی اب جو اب آنے کو ہے
وہ مری عرض تمنا کو کچھ ایسا سمجھے
عشق کرنا تھا جو قسمت میں مقدر پہلے
اس طرح گردن پہ خنجر کو لگاتے جائے
کس کی تصویر نگاہوں میں پڑی پھرتی ہے
عدو کو لاد محبت کا امتحان ہو جائے
آج پھر ان کی ہے خونبار قیامت آئی
چھٹے وہ چٹکی سے تیر قاتل تڑپ کے بیٹھے تڑپ کے نکلے
مجھ سے دل دل سے تو ان رخصت فانی گے
گر اشارے نگہہ ناز اثر کے ہوتے
برابر ہو گئے ہم تم شکایت میں برائی کی
ڈریں کیوں نہ چشم فسوں کار سے
اڑتی سی پہر سنی ہے خبر وصل یار کی
وہ تو آتے نہیں اسے دل تجھے ظن کس کا ہے
چونک اٹھتا ہوں کہ یکتائی یکتا کیا ہے
دل میں اپنے امنگ کیا نہ رہی
غرض کیا اوس کو ایسے درد سر سے
آنکہ پھر پھڑکی میری تقدیر کچھ کہتی تو ہے
کہتے ہو تم کہ تیری نظر حسن پر لگی
یہ وعدہ جو تم نے کیا چلتے چلتے
میں سمجھتا ہوں کہ وہ دل میں نہاں رہتا ہے
قیامت ہے خرام یار کی تکرار دامن سے
حسن کا سودا ہے ، کافر زلف دلالوں میں ہے
ایک دن سر پر ہمارے سائبان بن جائینگے
فرقت کے صدمے جان پہ وہ آج کل پڑے
کل ملو گے یہ انتظار کسے
سو ستم سو جفا کرے کوئی
آراستگی حسن وہ کیا کیا نہیں کرتے
ملنی تھی جس کو مل گئی تقدیر ہو چکی
ہم آکے اگر دہر میں آباد نہ ہوتے
نشاط عمر ہے خضر اور آسمان کے لئے
ایک تم ہو نہ کہی دیدہ پرنم میں رہے
موت کے طور میں سارے شبِ ہجراں تیرے
میں سامنے ہوتا تو یہ تقدیر نہ ہوتی
خاموش رہیونالہ شورش فزا ابھی
انتظار یار میں عاشق کو کیا کیا چاہتے
درد کا قصد ہے فریاد کا سامان کیجئے
مقدر تھا دم فرہاد نکلے اور یوں نکلے
فروغ لا کہہ تجلی کا آتشیں ہو جائے
لوگ کہتے ہیں جسے کوئی قیامت ہو گی
زبان جو ہر دکھا تجھ میں اگر ہے
اوس کی میری دم تقریر بگڑ جاتی ہے
دل میں ہمارے گہر بت خود سر بنائیں گے
دم بھر کو آپ آئے ملے یہی تو کیا ملے
مقتل میں آج او چہری سے گلا ملے
زندگی میں نہ گئی خیر یہ آفت نہ گئی
امید بر آئی کوئی دل کی نہ جگر کی
واعظ ڈر انہ تو ہمیں روز حسب سے
کھلتی ہے روز زلف دوتا کس کے واسطے
سمجھتے ہیں اشارات نہاں کی
اوٹھ زندگی کی عمر کی آخر سحر ہوئی
خضر کوویکی یارب عمر کیوں کی رائیگاں تو نے
نو اسنجان گلشن گل کا اب موسم نکلتا ہے
کہاں حسرتیں لے کے جائیں تمہاری
شوخ رخ بے نقاب دیکھئے کب تک رہے
جب وہ بت سنگ دل خفا ہے
رباعیات
قطعہ تاریخ وفات خواجہ بدرالدین خان۔۔۔۔
قطعہ تاریخ وفات فخرالدولہ نواب ۔۔۔۔
قطعہ تاریخ وفات نواب ضیاء الدین احمد۔۔۔۔
سلام
تضمین بر غزل نعیتہ۔۔۔۔
تضمین بر غزل نواب یوسف علی خان۔۔۔
قطعہ تاریخ بہ گل باری قلم اعجاز ۔۔۔
گلدستہ بدن معانی نقش طراز سخندانی۔۔۔
قطعہ تاریخ طوطی شکر ۔۔۔
قطعہ تاریخ ترا نہ ریزی قلم ۔۔۔۔۔
قطعہ تاریخ بہ آہنگ دلربا نوای۔۔۔۔۔
قطعہ تاریخ بہ نقش طرازی خامہ معجز بیان۔۔۔۔
عذب البیانی و رطب اللسانی۔۔۔۔
قطعات سال طبع دیوان بزمزمہ گفتار۔۔۔۔
قطعہ تاریخ طبع دیوان بہ ۔۔۔۔
ترانہ گفتار بشیرین زبانی و نغمہ بہ ہنجار۔۔۔۔
گہر فشانی خامہ بلاغت۔۔۔۔
بہ آہنگ عنبر ریزو نوای ۔۔۔۔
قطعہ تاریخ نیتجہ فکر بلند۔۔۔۔
ختم کلیات راقم دہلوی
مرقع نعت
غزلیات نعت شریف
آج دن مولود کا آیا رسول پاک کا
واللہ تمہیں تھے تھیں شایان نبوت
ہاں دیدہ مشتاق نظر سوی محمد
ہاں جمال احمدی جلوہ بڑھا انوار پر
تمناے خالق بتا جانتے ہیں
وہ مقدر نہیں جو سید ابرار کے پاس
کس شان میں شان اپنی دکھائی ہے نبی نے
منقبت حضرت محبوب سبحانی شاہ نظام اولیا
تضمین بر غزل خود
بیان معراج رسول مقبول ﷺ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.