انتساب
پیش لفظ
یہ کار زندگی تھا تو کرنا پڑا مجھے
یوں مرے مرنے کو مجھ پر آشکار اس نے کیا
روز اپنے ہی تعاقب کا بہانا چاہوں
دل میں ہر وقت کوئی خوف بکھر جانے کا
گزرتے وقت کے تیروں کا جب نشانہ ہوا
تھکے ہوئے تھے کہاں آب ودانہ چاہتے تھے
لوٹ کر صحرائے جاں سے دیدۂ تر آگئے تھے
ذرا سی دیر کو خوابوں کے رو برو ہونا
چھپ جاتا ہے پھر سورج جس وقت نکلتا ہے
فضا میں اڑتے ہوئے دور تک شرارے گئے
جہاں پر ختم ہوں میں اس نشان سے آگے
میں نے روکا بھی مگر اشک نہ مانے میرے
لفظ مبہم ہیں قرطاس ہستی پہ ہم اور نہاں وقت کے قید خانوں میں ہیں
دیار دل میں مدھم سی ہوا ئیں
سفر میں رہنا سفر کی مسافتوں کے بغیر
بدن میں رہنا ہے محصور بن کے جاں کب تک؟
برف بن کر خامشیٔ شب کو سہہ جانا میرا
ہوئی ہے شام ترے ساتھ شغل بادہ کروں
ہے فقط اس جسم کی مٹی اڑا لے جائے گی
بن کے سایہ ہی سہی سات تو ہوتی ہوگی
صبح، دوپہر، شام، رات میں ضم ہو جاتے ہیں
کبھی تو بنتے ہوئے اور کبھی بگڑتے ہوئے
خود کو اس بات پہ تیار نہیں کر پائے
اک خلا ہے جہاں دیوار نہ در کچھ بھی نہیں
ریت کے ذروں پہ پانی کا گماں رہنے دیا
وہ دور صحرائے جاں میں اٹھتا غبار نزدیک آرہا ہے
یہ زمیں گردش میں ہے اور آسماں ٹھہرا ہوا
رک گئی شام کے اس پار کہاں تک آتی
وہ میری ذات میں یکجا ہی انتشار میں تھا
گزرتا وقت ادھر پیچھے چھوڑ آئے ہیں
اسی جہان میں پیہم تلاش کرتی رہی
مرے خلاف گئیں سب گواہیاں میری
خود کو ہر آرزو کے اس پار کر لیا ہے
میں تو آباد ہی ہوتا ہوں اجڑنے کے لیے
بھٹک رہا تھا پناہوں میں لوٹ آنا پڑا
ہیں بہت بے خواب نیندیں خواب لوٹا دے مجھے
خود کو بھی معتبر بنا منھ کو بھی باوقار کر
زندگی سے کبھی تاریک حوالے نہ گئے
تمہارے بعد گزاری بڑے ملال کے ساتھ
اک اذیت ہے وہ رنج مستقل جانے کے بعد
لہو لہو سبھی لشکر تمام ہوتے ہیں
سانسوں میں بسے زہر کو پینے میں رہیں گے
میرے حصار ذات میں کچھ بھی نہیں بچا
لہو میں جیسے شرارے اٹھائے پھرتے ہیں
مزید اک بار پر بار گراں رکھا گیا ہے
جو حقیقت بن چکا اس خواب کی باتیں ہوئیں
شہر میں سارے چراغوں کی ضیا خاموش ہے
جس جگہ آنا تھا بالآخر وہاں تک آگیا
لوح نظر پہ حرف مؤخر لکھا ہوا
وہ معرکہ کہ آج بھی سر ہو نہیں سکا
سیاہیوں کا فقط میرے گرد ہالہ تھا
کاندھوں سے زندگی کو اترنے نہیں دیا
پھر ایک بار جُرآت آغاز دی مجھے
جہاں زمیں شروع پھر سے تھی وہاں چلا گیا
زندگی کے سبھی گرداب کنارے ہوئے ہیں
مجھ کو یہ سارے عکس دکھانا اسی کا ہے
پیروں کا سبک خرام ہونا
پھر ایک بار حقیقت وہ خواب ہونے لگی
نئے نئے سفروں کی طرف پلٹتے ہوئے
سنی سبھی نے لگائی تھی جو صدا تم کو
میرے جیسا کبھی ہونے نہیں دیتا مجھ کو
اب اسے اک نیا ادراک ہوا چاہتا ہے
ہوا بدن کی گواہی سے کچھ اعادہ نہیں
منظر وہی ابھرنا ہر دفر بین دل پر
ہر مستقبل اک دن ماضی میں کھو جانا ہے
روشنیوں سے کوئی وار کیا جائے گا
اب ٹھہرنا کہیں یہ آبلہ پا چاہتی ہے
میرا قصور کوئی بھی اس کے سوا نہ تھا
اس طرف یا کہ میں اس پار کہاں ہیں جانے
چاند تاروں کی تب وتاب میں گم ہو تے ہوئے
قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوگی
آگ کی سمت اک ڈھلان پہ وہ
تیری یادوں کا تو صرف بہانہ ہوتا ہے
روز ہوتی ہے سیہ رات تماشائی مری
کتنی بے چہرہ صداؤں کا میں کارندہ ہوں
ختم ہوتا نہیں فاصلوں میں جو اک فاصلہ رک گیا ہے
کرچکی ہیں مجھے محبوس صدائیں میری
اب اس جہان برہنہ کا استعارہ ہوا
تجربوں کے لئے یہ ذات بہانہ کرکے
ہے خوف ایسا نشیب جاں میں سمٹ گیا ہوں
سرمئی دھند سے سرخ ہوتی ہوئی دھوپ کے سلسلے جوڑ دو
تری تھکن، تری سانسوں کا کارواں لے جاؤں
رات کاندھوں پر اٹھائے صبح تک جانا پڑے گا
ذرا شدید جو سورج کی ضوفشانی ہوئی
میں زمیں پر اداس آسماں میں خجل ماہ رنجور تھا
آْسمانوں می رہنا والے خدا
ہماری ذات کی وجہ شناسائی کو رہنے دو
ٹکڑے جو یہ ذات ہو گئی ہے
اب زیادہ تشنگی کے سلسلے پیہم ملیں گے
سیل دنیا میں کناروں کی طرف جاتے ہیں
کہ جیسے کوئی مسافر وطن میں لوٹ آئے
مقتل آفتاب میں مطلع ماہتاب وہ
تمہیں کیسے دکھے ہم سے بھی وہ پوشیدہ رہتی ہے
رقصاں اسی کے گرد مری زندگی رہے
لہو لہو سبھی کردار دھیان میں رہنا
میان حبس درازیٔ شب ابھرتے مہتاب دیکھتا ہے
ہر ایک شام کا منظر دھواں اگلنے لگا
ان بریدہ پاسبانوں تک پہنچتی ہے
گئے سفر پہ تو رخت سفر نہیں بھولے
شہر جاں میں نئے انجان سے ڈر آگئے ہیں
ہر اک سفر سے نیا اک سفر نکل آیا
شام غریباں
بلا عنوان
ایک سوال
ایک اور رات
جو ہو سکے تو
AUTHORامیر امام
YEAR2013
CONTRIBUTORامیر امام
PUBLISHER عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی
AUTHORامیر امام
YEAR2013
CONTRIBUTORامیر امام
PUBLISHER عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی
انتساب
پیش لفظ
یہ کار زندگی تھا تو کرنا پڑا مجھے
یوں مرے مرنے کو مجھ پر آشکار اس نے کیا
روز اپنے ہی تعاقب کا بہانا چاہوں
دل میں ہر وقت کوئی خوف بکھر جانے کا
گزرتے وقت کے تیروں کا جب نشانہ ہوا
تھکے ہوئے تھے کہاں آب ودانہ چاہتے تھے
لوٹ کر صحرائے جاں سے دیدۂ تر آگئے تھے
ذرا سی دیر کو خوابوں کے رو برو ہونا
چھپ جاتا ہے پھر سورج جس وقت نکلتا ہے
فضا میں اڑتے ہوئے دور تک شرارے گئے
جہاں پر ختم ہوں میں اس نشان سے آگے
میں نے روکا بھی مگر اشک نہ مانے میرے
لفظ مبہم ہیں قرطاس ہستی پہ ہم اور نہاں وقت کے قید خانوں میں ہیں
دیار دل میں مدھم سی ہوا ئیں
سفر میں رہنا سفر کی مسافتوں کے بغیر
بدن میں رہنا ہے محصور بن کے جاں کب تک؟
برف بن کر خامشیٔ شب کو سہہ جانا میرا
ہوئی ہے شام ترے ساتھ شغل بادہ کروں
ہے فقط اس جسم کی مٹی اڑا لے جائے گی
بن کے سایہ ہی سہی سات تو ہوتی ہوگی
صبح، دوپہر، شام، رات میں ضم ہو جاتے ہیں
کبھی تو بنتے ہوئے اور کبھی بگڑتے ہوئے
خود کو اس بات پہ تیار نہیں کر پائے
اک خلا ہے جہاں دیوار نہ در کچھ بھی نہیں
ریت کے ذروں پہ پانی کا گماں رہنے دیا
وہ دور صحرائے جاں میں اٹھتا غبار نزدیک آرہا ہے
یہ زمیں گردش میں ہے اور آسماں ٹھہرا ہوا
رک گئی شام کے اس پار کہاں تک آتی
وہ میری ذات میں یکجا ہی انتشار میں تھا
گزرتا وقت ادھر پیچھے چھوڑ آئے ہیں
اسی جہان میں پیہم تلاش کرتی رہی
مرے خلاف گئیں سب گواہیاں میری
خود کو ہر آرزو کے اس پار کر لیا ہے
میں تو آباد ہی ہوتا ہوں اجڑنے کے لیے
بھٹک رہا تھا پناہوں میں لوٹ آنا پڑا
ہیں بہت بے خواب نیندیں خواب لوٹا دے مجھے
خود کو بھی معتبر بنا منھ کو بھی باوقار کر
زندگی سے کبھی تاریک حوالے نہ گئے
تمہارے بعد گزاری بڑے ملال کے ساتھ
اک اذیت ہے وہ رنج مستقل جانے کے بعد
لہو لہو سبھی لشکر تمام ہوتے ہیں
سانسوں میں بسے زہر کو پینے میں رہیں گے
میرے حصار ذات میں کچھ بھی نہیں بچا
لہو میں جیسے شرارے اٹھائے پھرتے ہیں
مزید اک بار پر بار گراں رکھا گیا ہے
جو حقیقت بن چکا اس خواب کی باتیں ہوئیں
شہر میں سارے چراغوں کی ضیا خاموش ہے
جس جگہ آنا تھا بالآخر وہاں تک آگیا
لوح نظر پہ حرف مؤخر لکھا ہوا
وہ معرکہ کہ آج بھی سر ہو نہیں سکا
سیاہیوں کا فقط میرے گرد ہالہ تھا
کاندھوں سے زندگی کو اترنے نہیں دیا
پھر ایک بار جُرآت آغاز دی مجھے
جہاں زمیں شروع پھر سے تھی وہاں چلا گیا
زندگی کے سبھی گرداب کنارے ہوئے ہیں
مجھ کو یہ سارے عکس دکھانا اسی کا ہے
پیروں کا سبک خرام ہونا
پھر ایک بار حقیقت وہ خواب ہونے لگی
نئے نئے سفروں کی طرف پلٹتے ہوئے
سنی سبھی نے لگائی تھی جو صدا تم کو
میرے جیسا کبھی ہونے نہیں دیتا مجھ کو
اب اسے اک نیا ادراک ہوا چاہتا ہے
ہوا بدن کی گواہی سے کچھ اعادہ نہیں
منظر وہی ابھرنا ہر دفر بین دل پر
ہر مستقبل اک دن ماضی میں کھو جانا ہے
روشنیوں سے کوئی وار کیا جائے گا
اب ٹھہرنا کہیں یہ آبلہ پا چاہتی ہے
میرا قصور کوئی بھی اس کے سوا نہ تھا
اس طرف یا کہ میں اس پار کہاں ہیں جانے
چاند تاروں کی تب وتاب میں گم ہو تے ہوئے
قطرہ قطرہ پگھل رہی ہوگی
آگ کی سمت اک ڈھلان پہ وہ
تیری یادوں کا تو صرف بہانہ ہوتا ہے
روز ہوتی ہے سیہ رات تماشائی مری
کتنی بے چہرہ صداؤں کا میں کارندہ ہوں
ختم ہوتا نہیں فاصلوں میں جو اک فاصلہ رک گیا ہے
کرچکی ہیں مجھے محبوس صدائیں میری
اب اس جہان برہنہ کا استعارہ ہوا
تجربوں کے لئے یہ ذات بہانہ کرکے
ہے خوف ایسا نشیب جاں میں سمٹ گیا ہوں
سرمئی دھند سے سرخ ہوتی ہوئی دھوپ کے سلسلے جوڑ دو
تری تھکن، تری سانسوں کا کارواں لے جاؤں
رات کاندھوں پر اٹھائے صبح تک جانا پڑے گا
ذرا شدید جو سورج کی ضوفشانی ہوئی
میں زمیں پر اداس آسماں میں خجل ماہ رنجور تھا
آْسمانوں می رہنا والے خدا
ہماری ذات کی وجہ شناسائی کو رہنے دو
ٹکڑے جو یہ ذات ہو گئی ہے
اب زیادہ تشنگی کے سلسلے پیہم ملیں گے
سیل دنیا میں کناروں کی طرف جاتے ہیں
کہ جیسے کوئی مسافر وطن میں لوٹ آئے
مقتل آفتاب میں مطلع ماہتاب وہ
تمہیں کیسے دکھے ہم سے بھی وہ پوشیدہ رہتی ہے
رقصاں اسی کے گرد مری زندگی رہے
لہو لہو سبھی کردار دھیان میں رہنا
میان حبس درازیٔ شب ابھرتے مہتاب دیکھتا ہے
ہر ایک شام کا منظر دھواں اگلنے لگا
ان بریدہ پاسبانوں تک پہنچتی ہے
گئے سفر پہ تو رخت سفر نہیں بھولے
شہر جاں میں نئے انجان سے ڈر آگئے ہیں
ہر اک سفر سے نیا اک سفر نکل آیا
شام غریباں
بلا عنوان
ایک سوال
ایک اور رات
جو ہو سکے تو
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔