حرف چند بطور معذرت
پیش لفظ
قصایدات در منقت وغیرہ
مقدمہ
کلیات میر کے مطبوعہ نسخے
دیباچہ
استفادہ
گل و بلبل بہار میں دیکھا
غالب
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
غالب
چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
غالب
اس کا خرام دیکھ کے دجایا نہ جائے گا
غالب
واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا
غالب
غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا
غالب
یاد ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا
غالب
گر چہ سردار مزوں کا ہے امیری کا مزا
غالب
اے دوست کوئی مجھسا رسوانہ ہواہوگا
غالب
کیا مر ے آنے پہ تو اے بت مغرور گیا
غالب
خواہ مجھ سے لڑگیا اب خواہ اس سے مل گیا
غالب
دکھ اب فراق کا ہم سے سہا نہیں جاتا
غالب
سمجھے تھے میر ہم کہ یہ ناسور کم ہوا
غالب
شب تھا نالاں عزیز کوئی تھا
غالب
دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
غالب
جیتے جی کوچہ دلدار سے جایا نہ گیا
غالب
موا میں سجدہ میں پر نقش میرا بار رہا
غالب
گل میں اس کی سی جو بو آئی سو آیا نہ گیا
غالب
دل کے تئیں آتش ہجراں سے بچا یا نہ گیا
غالب
غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا
غالب
محبت کا جب زور بازار ہوگا
غالب
کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا
غالب
جو یہ دل ہے تو کیا سرا انجام ہوگا
غالب
ترا رخ مخطط قرآن ہے ہمارا
غالب
نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یارکھینچا
غالب
وہ جوپی کر شراب نکلے گا
غالب
ہو رہتا ہے جہاں میں اک روز شب تماشا
غالب
جی اپنا میں نے تیرے لیے خوار ہو دیا
غالب
خط نہہ پہ آئے جاناں خوبی پہ جان دے گا
غالب
کیا دن تھے دے کہ یاں بھی دل آرمیدہ تھا
غالب
کل چمن میں گل و سمن دیکھا
غالب
اے نکیلے یہ تھی کہاں کی ادا
غالب
مارا زمیں میں گاڑا تب اس کو صبر آیا
غالب
شکوہ کروں میں کب تک اس اپنے مہرباں کا
غالب
ہمارے آگے تیرا جب کنہی نے نام لیا
غالب
سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخپیر کا
غالب
دل میں ہزار بسکہ خیال شراب تھا
غالب
شب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا
غالب
کیا طرح ہے آشنا اسگا ہے ‘گہے نا آشنا
غالب
دیکھے گا جو تجھ رو کو سو حیران رہے گا
غالب
مانند شمع آتش غم سے پگھل گیا
غالب
سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کا
غالب
گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا
غالب
میں بھی دنیا میں ہوں اک نالہ پریشاں یکجا
غالب
دل پہنچا ہلاکت نپٹ کھینچ کسالا
غالب
کثرت داغ سے دل رشک گلستاں نہ ہوا
غالب
پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا
غالب
تیرے قدم سے جا لگے جس پہ مرا ہے سر لگا
غالب
قابو خزاں سے ضعف کا گلشن میں بن گیا
غالب
لخت جگر تو اپنے یک لخت رو چکا تھا
غالب
سر فور فلک بھی دکھوں اپنے روبرو ٹوٹا
غالب
آنکھوں میں جی مرا ہے ایدھریار دیکھنا
غالب
نئے طرز سے میخانے میں رنگ مے چھلکتا تھا
غالب
تجھ سے ہر آن میرے پاس کا آنا ہی گیا
غالب
جو اس شور شے میر روتا رہے گا
غالب
گئے قیدی ہوہم آواز جب صیاد آٹوٹا
غالب
رہا میں تو عزت کو اعزاز کرتا
غالب
برقع اٹھا تھا رخ سے میرے بدگمان کا
غالب
اس آستان داغ سے میں زر لیا کیا
غالب
مناں مجھ مست بن پھر خندۂ قلقل نہ ہوے گا
غالب
مجھے زنہار خوش آتا نہیں کعبہ کا ہمسایا
غالب
نقش بیٹھے ہی کہاں خواہش آزادی کا
غالب
کام پل میں میرا تمام کیا
غالب
رات پیاسا تھا میرے لو ہو کا
غالب
بے تا بیول کے جور سے میں جبکہ مر گیا
غالب
صحرا میں سیل اشک مراجا بجا پھرا
غالب
تیرے عشق سے آگے سودا ہوا تھا
غالب
نہیں ایسا کوئی مریا جو ماتم دار ہوئے گا
غالب
یہ حسرت ہے مروں اس میں لیے لبریز پیمانا
غالب
خیال چھوڑ دے واعظ تو بیگنا ہی کا
غالب
طوف مشہد کے تئیں جو آؤں گا
غالب
حال دل میر کا رورو کے سب اے ماہ سنا
غالب
کل شب ہجراں تھی لب نالہ بیمارانہ تھا
غالب
پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
غالب
کب تلک پہ ستم اٹھائیے گا
غالب
اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا
غالب
ہنگام گرم کن جو دل ناصبور تھا
غالب
مغت آبروئے زاہد علامہ لے گیا
غالب
اے تو کہ یاں سے عاقبت کارجائے گا
غالب
مت ہودشمن اے فلک مجھ پائمال راو کا
غالب
ایسی گلی اک شہر اسلام نہیں رکھتا
غالب
تیر جو اس کمان سے نکلا
غالب
جو اے قاصدوہ پوچھے میر بھی ایدھر کو چلتا تھا
غالب
ہر جا پھر اغبار یہ میرا اڑ ا ہوا
غالب
قصہ تمام میر کا شب کو سنا کیا
غالب
جب جنوں سے ہمیں تو سل تھا
غالب
کیا کہیے عشق و حسن کا آپ ہی طرف ہوا
غالب
مجھے تو نور نظر نے تنک بھی تن نہ دیا
غالب
مے گلگوں کی بو سے بسکہ میخانہ مہکتا تھا
غالب
جب کہ تا بوت میرا جائے شہادت سے اٹھا
غالب
تھا زعفراں پہ ہنسی کو دل جس کی گرد کا
غالب
نظر میں آوے گا جب جی کو کھونا
غالب
دل گیا مفت اور دکھ پایا
غالب
عید آیندہ تک رہے گا گلا
غالب
سمندر کا میں کیوں احساں سہوں گا
غالب
سنیو جب وہ کبھو سوار ہوا
غالب
چاک کر سینہ دل میں پھینک دیا
غالب
ہو بلبل گلگشت کہ اک دن ہے خزاں کا
غالب
یکبارہ جیب کا بھی بچا میں نہیں سیا
غالب
گرچہ امید اسیری پہ میں نا شاد آیا
غالب
کام میرا بھی تیرے غم میں کہوں ہو جائے گا
غالب
آٹھوں نہ خاک سے کشتہ میں کم نگاہی کا
غالب
چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
غالب
شرمندہ ترے مونہ سے ہے رخسار پری کا
غالب
مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا
غالب
آگے جمال یار کے معذور ہوگیا
غالب
آیا تھا خانقاہ میں وہ نور دیدہ گاں کا
غالب
ہاتھ سے تیرے اگر میں ناتواں مارا گیا
غالب
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
غالب
شب ہجر میں کم تظلم کیا
غالب
تاگور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا
غالب
یار عجب طرح نگہ کر گیا
غالب
جدا جو پہلو سے وہ دلبر یگانہ ہوا
غالب
تابہ مقدور انتظار کیا
غالب
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
غالب
سینہ دشنوں سے چاک تانہ ہوا
غالب
دل سے شوق رخ نکو نہ گیا
غالب
بیکسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا
غالب
بار ہا گور دل جھکا لایا
غالب
کئی دن سلوک و وداع کے میرے روپے دل زار تھا
غالب
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
غالب
سحر گاہ عہد مے‘دور سبو تھا
غالب
گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا
غالب
تو کہاں اس کی کمر کیدھر نہ کر یو اضطراب
غالب
ہوتا نہ پائے سروجود جائے چمن میں آب
غالب
دیکھ خورشید تجھ کو اے محبوب
غالب
پلکوں پہ تھے پارۂ جگر رات
غالب
جیتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت
غالب
ہر صبحدم کروں ہوں الحاح اور انابت
غالب
جی میں ہے یاور خ زلف سیہ فام بہت
غالب
نہ پایا دل ہوا روز سیہ سے جس کا جالٹ پٹ
غالب
ردیف تائے ہندی
غالب
ردیف جیم فارسی
غالب
کر نہ تا خیر تو اک شب کی ملاقات کے بیچ
غالب
خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح
غالب
اے بوئے گل کے مہکیو پون کے بیچ
غالب
ردیف خائے معجمہ
غالب
ہونے لگا گداز غم یار بے طرح
غالب
ردیف دال مہملہ
غالب
کیا ہے یہ جو آؤتی ہے گا ہے آندھی کوئی زرد
غالب
آؤ گی میری قبر سے آواز میرے بعد
غالب
نہ پڑھا خط کو یا پڑھا قاصد
غالب
قفس تو یاں سے گئے پر مدام ہے صیاد
غالب
اودھر تلک ہے چرخ کے مشکل ہی ٹک گزر
غالب
دیکھوں میں اپنی آنکھوں سے آوے مجھے قرار
غالب
نہ ہو ہر زہ درا اتنا خموشی اے جرس بہتر
غالب
یہ عشق بے اجل کش ہے بس اے دل اب تو کل کر
غالب
کر رحم ٹک کب تک ستم مجھ پر جفا کا راس قدر
غالب
دل دماغ اور جگریہ سب ایک بار
غالب
شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور
غالب
خندہ بجائے گریہ و اندوہ و آہ کر
غالب
ہو آدمی اے چرخ ترک گردش ایام کر
غالب
مرتے ہیں تیری نرگس بیمار دیکھ کر
غالب
دل جو اپنا ہوا تھا زخمی چور
غالب
پاس رہنے کا نہیں ایک بھی تار آخر کار
غالب
پشت پاماری بسکہ دنیا پر
غالب
سعی سے اس کی ہوا مائل گریباں چاک پر
غالب
داڑھی سفید شیخ کی تومت نظر میں کر
غالب
قیامت تھاسماں اس خشمگیں پر
غالب
ہم بھی پھرتے ہیں یک حشم لے کر
غالب
باقی نہیں ہے دل میں یہ غم ہے بجا ہنوز
غالب
ضبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز
غالب
مرگیا میں پہ میرے باقی ہیں آثار ہنوز
غالب
مجھ کو پوچھا بھی نہ یہ کون ہے غمناک ہنوز
غالب
اے ابر تو اور کسی سمت کو برس
غالب
ردیف شین
غالب
مرگیا میں ملا نہ یار افسوس
غالب
ردیف طائے
غالب
ردیف ضاد
غالب
ردیف ظائے
غالب
ردیف عین
غالب
ردیف فا
غالب
غالب ہے تیرے عہد میں بیداد کی طرف
غالب
ردیف غین
غالب
ردیف کاف
غالب
ردیف قاف
غالب
کب دستر س ہے لعل کو تیرے سخن تلک
غالب
شوق ہوتو ہے اس کا گھر نزدیک
غالب
جاتے ہیں لے خرابہ کو سیل آسماں تلک
غالب
ردیف لام
غالب
سیر کر عندلیب کا احوال
غالب
شرط ہے ابر میں اور ہم میں کہ رودینگے کل
غالب
فصل خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گا
غالب
ردیف میم
غالب
کیا کہوں رکھتے تھے تجھ ترے بیمار چشم
غالب
کرتے نہیں ہیں دوری سے اب اسکی باک ہم
غالب
گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
غالب
حذرکہ آہ جگر تفتگاں بلا ہے گرم
غالب
آیا کمال نقص میرے دل کی تاب میں
غالب
ردیف نون
غالب
نہ گیا خیال زلف سیہ جفا شعاراں
غالب
کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں
غالب
راضی ہوں گو کہ بعداز صد سال و ماہ دیکھوں
غالب
مستو جب ظلم وستم وجور و جفا ہوں
غالب
گرٹک ہو درد آئینہ گوں چرغ زشت میں
غالب
درد واندو میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں
غالب
کوئی نہیں جہاں میں جو اندوہگیں نہیں
غالب
زباں رکھ غنچہ ساں اپنے ذہن میں
غالب
تو گلی میں اس کی جا آوے اے صبانہ چنداں
غالب
تلوار غرق خوں ہے آنکھیں گلا بیاں ہیں
غالب
سن گوش دل سے اب کو سمجھ بے خبر کہیں
غالب
کیا جو عرض میں دل سا شکار لایا ہوں
غالب
خوش قداں جب سوار ہوتے ہیں
غالب
دیکھیں تو تیری کب تک یہ کج ادائیں ہیں
غالب
نپٹ ہی اپنے تئیں ہم تو خوار پاتے ہیں
غالب
کیا میں نے کرفشار گریباں
غالب
عام حکم شراب کرتا ہوں
غالب
ہم تو مطرب پسر کے جاتے ہیں
غالب
آتا ہے دل میں حال بد اپنا بھلا کہوں
غالب
میرے آگونہ شاعر نام پاویں
غالب
نہ ایک یعقوب رویا ا س الم میں
غالب
مثال سا یہ محبت میں جال اپنا ہوں
غالب
ہمیشہ دل میں کہتا ہوں یہاں جاؤں وہاں جاؤں
غالب
جب درد دل کا کہنا میں دل میں ٹھانتا ہوں
غالب
چاہتے ہیں یہ بتاں ہم پہ کہ بیدار کریں
غالب
تجھ عشق میں تو مرے کو طیار بہت ہیں
غالب
ملنے لگے ہو دیرد یر دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
غالب
خوب رو سب کی جان ہوتے ہیں
غالب
جنوں میرے کی باتیں دشت اور گلشن میں جب چلیاں
غالب
بزم میں جو تیرا ظہور نہیں
غالب
ایسے محروم گئے ہم تو گرفتا ر چمن
غالب
دامن پہ تیرے گرد کا کیو نگر اثر نہیں
غالب
تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں
غالب
مجھ کو مارا بھلا کیا تو نیں
غالب
ایک پرواز کو بھی رخصت صیاد نہیں
غالب
سمجھتا تنک نہ اپنے تو سود و زیاں کو میں
غالب
آہ وہ عاشق ستم ترک جفا کرتا نہیں
غالب
یوں ہی حیراں و خفا جوں غنچہ تصویر میں
غالب
آہ اور اشک ہی سدا ہے یہاں
غالب
کہے ہے کو ہکن کر فکر میری خستہ حالی میں
غالب
یہ شیخ کیوں نہ تو کل کو اختیار کریں
غالب
ہر گھڑی دیکھتے ہو جو ایدھر
غالب
یہ غلط کہ میں پیاہوں قدح شراب تجھ بن
غالب
تکلیف باغ کن نے کی تجھ خوش وہاں کے تئیں
غالب
کیا ظلم کیا تعدی کیا جور کیا جفائیں
غالب
سب خوبیاں میں شیخ مشخیت پناہ میں
غالب
موئے سہتے سہتے جفا کاریاں
غالب
بے کلی بے خود ی کچھ آج نہیں
غالب
صد تمنا اے یار رکھتے ہیں
غالب
لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں
غالب
سوزش دل میں مفت گلتے ہیں
غالب
دعویٰ کو یار آگے معیوب کر چکے ہیں
غالب
نکلے ہے جنس حسن کسو کاروان میں
غالب
عشق کرنے کو جگر چاہیے آساں نہیں
غالب
میں کون ہوں اے ہمنفساں سوختہ جاں ہوں
غالب
ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
غالب
فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو
غالب
آرام ہو چکا میری چشم نزار کو
غالب
نسیم مصر کد آئی سواد شہر کنعاں کو
غالب
آنکھوں سے دل تلک ہیں چنے خوان آرزو
غالب
دن گزرتا ہے مجھے فکر ہی میں تاکیا ہو
غالب
اے چرخ مت حریف اندوہ بیکساں ہو
غالب
خوش آدتی ہے تجھ بن گلگشت باغ کس کو
غالب
نالہ میرا اگر ا سبب شو و شر نہ ہو
غالب
وہی جانے جو حیا کشتہ وفا رکھتا ہو
غالب
کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو
غالب
نہ آدام میں مرغ فریاد کیجو
غالب
دیکھتا ہوں دھوپ میں جلنے ہی کے آچار کو
غالب
کرتا بیاں جو ہوتے خریدار ایک دو
غالب
نالۂ شب نے کیا ہے جو اثر مت پوچھو
غالب
حال دل میر کا اے اہل وفامت پوچھو
غالب
کیا فرض ہستی کی رخصت ہے مجھ کو
غالب
فرصت نہیں تنک بھی کہیں اضطراب کو
غالب
محرمان بیدمی کا میری سبب مت پوچھو
غالب
کیا ہے گر بدنامی و حالت تباہی بھی نہ ہو
غالب
اجرت میں نامہ کی دیتے ہیں جاں تلک تو
غالب
اس بیگنہ کے قتل میں اب دیر مت کرو
غالب
اس کی طرز نگاہ مت پوچھو
غالب
گرچہ کب دیکھتے ہو‘ دیکھو
غالب
وہی مجھ پہ غصہ وہی یاں سے جاتو
غالب
دل پر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ
غالب
سو ظلم کے رہتے ہیں سزا وار ہمیشہ
غالب
قطعہ
غالب
جگر لو ہو کو ترسے ہے میں سچ کہتا ہوں دل خستہ
غالب
جو ہو شیار ہو سو آج ہو شراب زدہ
غالب
ہم سے ٹک آگے زمانے میں ہو ا کیا کیا کچھ
غالب
جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ
غالب
کرو تو کل عاشقی میں نہ یوں کرو گے تو کیا کروگے
غالب
کہتے ہیں اڑ بھی گئے جل کے پر پروانہ
غالب
ہے غزل میر یہ شفائی کی
غالب
اس اسیری کے نہ کوئی اے صبا پالے پڑے
غالب
صبح ہے کوئی آہ کر لیجے
غالب
یکسو کشادہ روئی پر چیں نہیں جبیں بھی
غالب
خوب ہے اے ابریک شب آؤ با ہم رویتے
غالب
گئی چھا نہہ تیغ اس کی سر سے جب کی
غالب
نہیں وہ قید الفت میں گرفتاری کو کیا جانے
غالب
ایسے قدم سے تیری گل میں صبا گئی
غالب
دل کو تسکیں نہیں اشک و مادم سے بھی
غالب
جوش دل آکے بہم دیدۂ گریان ہوئے
غالب
یارب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے
غالب
فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی
غالب
خرابی کچھ نہ پوچھو مملکت دل کی عمارت کی
غالب
کروں جو آہ زمین و زمان جل جاوے
غالب
دیکھ تو دل کی جاں سے اٹھتا ہے
غالب
میں نے جو بیکسا نہ مجلس میں جان کھوٹی
غالب
برقع کو اٹھا چہرہ سے وہ بت اگر آوے
غالب
جب نام تیرا لیجے تب چشم بھر آوے
غالب
اپنا شعار پوچھو تو مہرباں وفا ہے
غالب
گزار خوش نگاہاں جس میں ہے میرا ساماں ہے
غالب
الم سے یہاں تئیں میں مشق نا توانی کی
غالب
مشہور چمن میں تری گل پیر ہنی ہے
غالب
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
غالب
ترا اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے
غالب
توجہ تیری اے حیرت میری آنکھوں پہ کیا کم ہے
غالب
بند قبا کو خوباں جس وقت وکریں گے
غالب
ہم تو اس کے ظلم سے ہمدم چلے
غالب
کیا مرے سرورواں کا کوئی مائل ایک ہے
غالب
بن اس کے ترے حق میں کوئی کیا دعا کرے
غالب
صبح سے بن علاج تو خوش ہے
غالب
نہ رہ دنیا میں دلجمعی سے اے انساں جو دانا ہے
غالب
رشک گلشن اگر تو ناز کرے
غالب
شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خوں کی راہ ہے
غالب
تا چند ترے غم میں یوں زار رہا کیجے
غالب
مشکل ہو ہونا روکش رخسار کی جھلک کے
غالب
طاقت نہیں ہے جی کو نے اب جگر رہا ہے
غالب
مری جاویں گے بہت ہجر میں ناشادر ہے
غالب
نالہ تا آسمان جاتا ہے
غالب
تجھ بن خراب و خستہ زبوں خوار ہوگئے
غالب
اچنبھا ہے اگر چپکارہوں مجھ پر عتاب آدے
غالب
گوننگ آوتا ہے اسے میرے نام سے
غالب
میرے درد دل کا تو یہ جوش ہے
غالب
بسکہ دیوانگی حال میں چالاک ہوئے
غالب
صیدا فگنوں سے ملنے کی تدبیر کریں گے
غالب
بے یار شہر دل کا ویران ہورہا ہے
غالب
سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے
غالب
دوں سونپ دود دل کو مجھ بعد یہ نشاں ہے
غالب
تجھ سے دو چار ہوگا جو کوئی راہ جاتے
غالب
آہ میری زبان پر آئی
غالب
ہمسایہ چمن یہ نپٹ زار کون ہے
غالب
گرم میں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی
غالب
دیکھا کروں تجھ ہی کو منظور ہے تو یہ ہے
غالب
مجھ سوز بعد مرگ سے آگا ہ کون ہے
غالب
ہو عاجز کہ جم اس قدر زور سے
غالب
سوائے سنگہ لی اور کچھ ہنر بھی ہے
غالب
وعدہ وعید پیارے کچھ تو قرار ہوئے
غالب
سن کے صفت ہم سے خرابات کی
غالب
نالہ عجز نقص الفت ہے
غالب
میری پرستش پہ تیری طبع اگر آوے گی
غالب
تیرا خرام دیکھے تو جا سے نہ ہل سکے
غالب
کیا غم میں ویسے خاک فتادہ ہے ہو سکے
غالب
خورشید تیرے چہرہ کے آگے نہ آسکے
غالب
ڈھونڈا پنا یئے جو اس وقت میں سوز رہے
غالب
اے حب جاہ والو جو ٓاج تاجور ہے
غالب
شب شمع پرتپنک کے آنے کو عشق ہے
غالب
ملو کوئی دن ہم سے ہر رات جانی
غالب
ہنس دے ہے دیکھتے ہی کیا خوب آدمی ہے
غالب
یک مژہ اے دم آخر مجھے فرصت دیجے
غالب
یاں جو وہ نو نہال آتا ہے
غالب
نہ تنہا داغ تو سینے پہ میرے صد چمن نکلے
غالب
یہ رات ہجر کی یاں تک تو دکھ دکھاتی ہے
غالب
چمن کو یاد کر مرغ قفس فریاد کرتا ہے
غالب
ہم رو رو کے درد دل دیوانہ کہیں گے
غالب
سیر کی ہم نے کہیں پیارے
غالب
کیا خط لکھوں میں اشک سے فرصت نہیں رہی
غالب
جب تک کہ تیرا گزر نہ ہوئے
غالب
جوں جوں ساقی تو جام بھرتا ہے
غالب
ہم جنوں میں جو خاک اڑاویں گے
غالب
وصل کی جب سے گئی ہے چھوڑ دلدار ی مجھے
غالب
کیوں گردن ہلال ابھی سے ڈھلک چلی
غالب
تو گلے ملتا نہیں ہم سے تو کیسی خرمی
غالب
قصہ اگر امتحان ہے پیارے
غالب
قبر عاشق پر مقرر روز آنا کیجئے
غالب
آہ جس وقت سر اٹھاتی ہے
غالب
نہ بک شیخ اتنا بھی واہی تباہی
غالب
ہوگئی شہر شہر رسوائی
غالب
مجھ سا بیتاب ہووے جب کوئی
غالب
تڑپتا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے
غالب
آگو ہمارے عہد سے وحشت کو جانہ تھی
غالب
ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں غل کے
غالب
سبھوں کے خط لیے پوشیدہ قاصد آج جاتا ہے
غالب
اڑ ا برگ گل کو دیکھاتی ہے وادی
غالب
رات گزری ہے مجھے ہجر میں روتے روتے
غالب
یعقوب کے نہ کلبۂ احزاں تلک گئے
غالب
شوخ عاشق قد کو تیرے سر و یا طوبیٰ کہے
غالب
راہ آنسو کی کب تلک تکیے
غالب
چھن گیا دل بھی اور کلیجا بھی
غالب
میرے رنگ شکستہ پہ ہنستے ہیں مرد ماں سارے
غالب
تمام اس کے قد میں سنان کی طرح ہے
غالب
چلی جاتی ہی نکلی جان ہے تدبیر کیا کریئے
غالب
محمل تیرے کے ساتھ زبس شور میں کیے
غالب
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مرگئے
غالب
کہاں تک غیر جاسوسی کے لینے کو لگا آوے
غالب
آتش کے عسعلے سر سے ہمارے گزر گئے
غالب
یہ راہ و رسم دل شدگاں گفتنی نہیں
غالب
ترے ہاتھ جب تک کہ تیرو کماں ہے
غالب
دل کو نہیں ہے چین نہ ہے خواب شب مجھے
غالب
میرے اس رک کے مرجانے سے وہ غافل ہے کیا جانے
غالب
کاتب کہاں دماغ جو اب شکوہ ٹھانئے
غالب
بات شکوہ کی ہم نے گاہ نہ کی
غالب
کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
غالب
کب تلک جی رکے خفا ہووے
غالب
کیا کروں شرح خستہ جانی کی
غالب
غیر سے اب یار ہوا چاہیے
غالب
ہے یہ بازار جنوں منڈی ہے دیوانوں کی
غالب
مصنف ہو تو ہی کب تئیں یہ دکھ اٹھایئے
غالب
نہیں وسواس جی گنوانے کے
غالب
چل قلم غم کی رقم کوئی حکایت کیجے
غالب
تن ہجر میں اس یار کے رنجور ہوا ہے
غالب
غافل میں رہا تجھ سے نپٹ تا بہ جوانی
غالب
رہی نہفتہ میرے دل میں داستاں میری
غالب
دل جو پر بے قرار رہتا ہے
غالب
بسکہ ہے گردون دوں پر و ردنی
غالب
جانگداز اتنی کہاں آواز عود و چنگ ہے
غالب
اس ستم دیدہ کی صحبت سے جگر لو ہو ہے
غالب
دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے
غالب
آج پر بے قرار ہیں ہم بھی
غالب
ساقی گھر چاروں اور آیا ہے
غالب
خنجر بکف وہ جب سے سفا ک ہو گیا
غالب
کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہوگئی
غالب
خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتار میں تھے
غالب
جس جگہ دور جام ہوتا ہے
غالب
بیتا بیوں میں تنگ ہم آتے ہیں جان سے
غالب
غم سے یہ میں نے طرح نکالی نجات کی
غالب
اب دل کو دھوری آہ کی صبح و مسالگی
غالب
کس حسن سے کہوں میں اس کی خوش اختر کی
غالب
نے صبر ہے نہ ہوش ہے گل بن نہ تاب ہے
غالب
بوکہ ہو طرف باغ نکلے ہے
غالب
ایدھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے
غالب
دن دوریٔ چمن میں جو ہم شام کریں گے
غالب
برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے
غالب
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
غالب
زندگی ہوتی ہے اپنی غم کے مارے دیکھیے
غالب
چمن یار تیر ہوا خوا ہ ہے
غالب
عشق میں بے خوف و خطر چاہیے
غالب
اب ظلم ہے اس خاطر تا غیر بھلا مانے
غالب
شمع صفت جب کبھو مرجائینگے
غالب
گئے جی سے چھوٹے بتوں کی جفا سے
غالب
رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
غالب
کل وعدہ گاہ میں سے جوں تو ں کے ہم کو لائے
غالب
کر ے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
غالب
خوش سرانجام تھے وے جلد جو ہشیار ہوئے
غالب
بغیر دل کے یہ قیمت ہے سارے عالم کی
غالب
فقیر انہ آئے صدا کر چلے
غالب
کیوں کر کے ہمیں کوئی فریبندہ لبھا لے
غالب
چاک پر چاک ہوا جوں جوں سلایا ہم نے
غالب
فردیات متفرقہ
غالب
رباعیات
غالب
مخمسات
غالب
مثنویاں
غالب
اشعارات
غالب
پیش لفظ
مقدمہ
دیوان اول
میر
فرہنگ کلیات میر
مثلث بطور نو
غالب
YEAR1980
CONTRIBUTORمظہر امام
PUBLISHER محمد طفیل
YEAR1980
CONTRIBUTORمظہر امام
PUBLISHER محمد طفیل
حرف چند بطور معذرت
پیش لفظ
قصایدات در منقت وغیرہ
مقدمہ
کلیات میر کے مطبوعہ نسخے
دیباچہ
استفادہ
گل و بلبل بہار میں دیکھا
غالب
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
غالب
چوری میں دل کی وہ ہنر کر گیا
غالب
اس کا خرام دیکھ کے دجایا نہ جائے گا
غالب
واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا
غالب
غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا
غالب
یاد ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا
غالب
گر چہ سردار مزوں کا ہے امیری کا مزا
غالب
اے دوست کوئی مجھسا رسوانہ ہواہوگا
غالب
کیا مر ے آنے پہ تو اے بت مغرور گیا
غالب
خواہ مجھ سے لڑگیا اب خواہ اس سے مل گیا
غالب
دکھ اب فراق کا ہم سے سہا نہیں جاتا
غالب
سمجھے تھے میر ہم کہ یہ ناسور کم ہوا
غالب
شب تھا نالاں عزیز کوئی تھا
غالب
دل و دماغ ہے اب کس کو زندگانی کا
غالب
جیتے جی کوچہ دلدار سے جایا نہ گیا
غالب
موا میں سجدہ میں پر نقش میرا بار رہا
غالب
گل میں اس کی سی جو بو آئی سو آیا نہ گیا
غالب
دل کے تئیں آتش ہجراں سے بچا یا نہ گیا
غالب
غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا
غالب
محبت کا جب زور بازار ہوگا
غالب
کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا
غالب
جو یہ دل ہے تو کیا سرا انجام ہوگا
غالب
ترا رخ مخطط قرآن ہے ہمارا
غالب
نقاش دیکھ تو میں کیا نقش یارکھینچا
غالب
وہ جوپی کر شراب نکلے گا
غالب
ہو رہتا ہے جہاں میں اک روز شب تماشا
غالب
جی اپنا میں نے تیرے لیے خوار ہو دیا
غالب
خط نہہ پہ آئے جاناں خوبی پہ جان دے گا
غالب
کیا دن تھے دے کہ یاں بھی دل آرمیدہ تھا
غالب
کل چمن میں گل و سمن دیکھا
غالب
اے نکیلے یہ تھی کہاں کی ادا
غالب
مارا زمیں میں گاڑا تب اس کو صبر آیا
غالب
شکوہ کروں میں کب تک اس اپنے مہرباں کا
غالب
ہمارے آگے تیرا جب کنہی نے نام لیا
غالب
سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اس نخپیر کا
غالب
دل میں ہزار بسکہ خیال شراب تھا
غالب
شب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا
غالب
کیا طرح ہے آشنا اسگا ہے ‘گہے نا آشنا
غالب
دیکھے گا جو تجھ رو کو سو حیران رہے گا
غالب
مانند شمع آتش غم سے پگھل گیا
غالب
سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کا
غالب
گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا
غالب
میں بھی دنیا میں ہوں اک نالہ پریشاں یکجا
غالب
دل پہنچا ہلاکت نپٹ کھینچ کسالا
غالب
کثرت داغ سے دل رشک گلستاں نہ ہوا
غالب
پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا
غالب
تیرے قدم سے جا لگے جس پہ مرا ہے سر لگا
غالب
قابو خزاں سے ضعف کا گلشن میں بن گیا
غالب
لخت جگر تو اپنے یک لخت رو چکا تھا
غالب
سر فور فلک بھی دکھوں اپنے روبرو ٹوٹا
غالب
آنکھوں میں جی مرا ہے ایدھریار دیکھنا
غالب
نئے طرز سے میخانے میں رنگ مے چھلکتا تھا
غالب
تجھ سے ہر آن میرے پاس کا آنا ہی گیا
غالب
جو اس شور شے میر روتا رہے گا
غالب
گئے قیدی ہوہم آواز جب صیاد آٹوٹا
غالب
رہا میں تو عزت کو اعزاز کرتا
غالب
برقع اٹھا تھا رخ سے میرے بدگمان کا
غالب
اس آستان داغ سے میں زر لیا کیا
غالب
مناں مجھ مست بن پھر خندۂ قلقل نہ ہوے گا
غالب
مجھے زنہار خوش آتا نہیں کعبہ کا ہمسایا
غالب
نقش بیٹھے ہی کہاں خواہش آزادی کا
غالب
کام پل میں میرا تمام کیا
غالب
رات پیاسا تھا میرے لو ہو کا
غالب
بے تا بیول کے جور سے میں جبکہ مر گیا
غالب
صحرا میں سیل اشک مراجا بجا پھرا
غالب
تیرے عشق سے آگے سودا ہوا تھا
غالب
نہیں ایسا کوئی مریا جو ماتم دار ہوئے گا
غالب
یہ حسرت ہے مروں اس میں لیے لبریز پیمانا
غالب
خیال چھوڑ دے واعظ تو بیگنا ہی کا
غالب
طوف مشہد کے تئیں جو آؤں گا
غالب
حال دل میر کا رورو کے سب اے ماہ سنا
غالب
کل شب ہجراں تھی لب نالہ بیمارانہ تھا
غالب
پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
غالب
کب تلک پہ ستم اٹھائیے گا
غالب
اس کا خیال چشم سے شب خواب لے گیا
غالب
ہنگام گرم کن جو دل ناصبور تھا
غالب
مغت آبروئے زاہد علامہ لے گیا
غالب
اے تو کہ یاں سے عاقبت کارجائے گا
غالب
مت ہودشمن اے فلک مجھ پائمال راو کا
غالب
ایسی گلی اک شہر اسلام نہیں رکھتا
غالب
تیر جو اس کمان سے نکلا
غالب
جو اے قاصدوہ پوچھے میر بھی ایدھر کو چلتا تھا
غالب
ہر جا پھر اغبار یہ میرا اڑ ا ہوا
غالب
قصہ تمام میر کا شب کو سنا کیا
غالب
جب جنوں سے ہمیں تو سل تھا
غالب
کیا کہیے عشق و حسن کا آپ ہی طرف ہوا
غالب
مجھے تو نور نظر نے تنک بھی تن نہ دیا
غالب
مے گلگوں کی بو سے بسکہ میخانہ مہکتا تھا
غالب
جب کہ تا بوت میرا جائے شہادت سے اٹھا
غالب
تھا زعفراں پہ ہنسی کو دل جس کی گرد کا
غالب
نظر میں آوے گا جب جی کو کھونا
غالب
دل گیا مفت اور دکھ پایا
غالب
عید آیندہ تک رہے گا گلا
غالب
سمندر کا میں کیوں احساں سہوں گا
غالب
سنیو جب وہ کبھو سوار ہوا
غالب
چاک کر سینہ دل میں پھینک دیا
غالب
ہو بلبل گلگشت کہ اک دن ہے خزاں کا
غالب
یکبارہ جیب کا بھی بچا میں نہیں سیا
غالب
گرچہ امید اسیری پہ میں نا شاد آیا
غالب
کام میرا بھی تیرے غم میں کہوں ہو جائے گا
غالب
آٹھوں نہ خاک سے کشتہ میں کم نگاہی کا
غالب
چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
غالب
شرمندہ ترے مونہ سے ہے رخسار پری کا
غالب
مانند شمع مجلس شب اشکبار پایا
غالب
آگے جمال یار کے معذور ہوگیا
غالب
آیا تھا خانقاہ میں وہ نور دیدہ گاں کا
غالب
ہاتھ سے تیرے اگر میں ناتواں مارا گیا
غالب
اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
غالب
شب ہجر میں کم تظلم کیا
غالب
تاگور کے اوپر وہ گل اندام نہ آیا
غالب
یار عجب طرح نگہ کر گیا
غالب
جدا جو پہلو سے وہ دلبر یگانہ ہوا
غالب
تابہ مقدور انتظار کیا
غالب
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
غالب
سینہ دشنوں سے چاک تانہ ہوا
غالب
دل سے شوق رخ نکو نہ گیا
غالب
بیکسانہ جی گرفتاری سے شیون میں رہا
غالب
بار ہا گور دل جھکا لایا
غالب
کئی دن سلوک و وداع کے میرے روپے دل زار تھا
غالب
آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
غالب
سحر گاہ عہد مے‘دور سبو تھا
غالب
گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا
غالب
تو کہاں اس کی کمر کیدھر نہ کر یو اضطراب
غالب
ہوتا نہ پائے سروجود جائے چمن میں آب
غالب
دیکھ خورشید تجھ کو اے محبوب
غالب
پلکوں پہ تھے پارۂ جگر رات
غالب
جیتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت
غالب
ہر صبحدم کروں ہوں الحاح اور انابت
غالب
جی میں ہے یاور خ زلف سیہ فام بہت
غالب
نہ پایا دل ہوا روز سیہ سے جس کا جالٹ پٹ
غالب
ردیف تائے ہندی
غالب
ردیف جیم فارسی
غالب
کر نہ تا خیر تو اک شب کی ملاقات کے بیچ
غالب
خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح
غالب
اے بوئے گل کے مہکیو پون کے بیچ
غالب
ردیف خائے معجمہ
غالب
ہونے لگا گداز غم یار بے طرح
غالب
ردیف دال مہملہ
غالب
کیا ہے یہ جو آؤتی ہے گا ہے آندھی کوئی زرد
غالب
آؤ گی میری قبر سے آواز میرے بعد
غالب
نہ پڑھا خط کو یا پڑھا قاصد
غالب
قفس تو یاں سے گئے پر مدام ہے صیاد
غالب
اودھر تلک ہے چرخ کے مشکل ہی ٹک گزر
غالب
دیکھوں میں اپنی آنکھوں سے آوے مجھے قرار
غالب
نہ ہو ہر زہ درا اتنا خموشی اے جرس بہتر
غالب
یہ عشق بے اجل کش ہے بس اے دل اب تو کل کر
غالب
کر رحم ٹک کب تک ستم مجھ پر جفا کا راس قدر
غالب
دل دماغ اور جگریہ سب ایک بار
غالب
شیخی کا اب کمال ہے کچھ اور
غالب
خندہ بجائے گریہ و اندوہ و آہ کر
غالب
ہو آدمی اے چرخ ترک گردش ایام کر
غالب
مرتے ہیں تیری نرگس بیمار دیکھ کر
غالب
دل جو اپنا ہوا تھا زخمی چور
غالب
پاس رہنے کا نہیں ایک بھی تار آخر کار
غالب
پشت پاماری بسکہ دنیا پر
غالب
سعی سے اس کی ہوا مائل گریباں چاک پر
غالب
داڑھی سفید شیخ کی تومت نظر میں کر
غالب
قیامت تھاسماں اس خشمگیں پر
غالب
ہم بھی پھرتے ہیں یک حشم لے کر
غالب
باقی نہیں ہے دل میں یہ غم ہے بجا ہنوز
غالب
ضبط کرتا نہیں کنارہ ہنوز
غالب
مرگیا میں پہ میرے باقی ہیں آثار ہنوز
غالب
مجھ کو پوچھا بھی نہ یہ کون ہے غمناک ہنوز
غالب
اے ابر تو اور کسی سمت کو برس
غالب
ردیف شین
غالب
مرگیا میں ملا نہ یار افسوس
غالب
ردیف طائے
غالب
ردیف ضاد
غالب
ردیف ظائے
غالب
ردیف عین
غالب
ردیف فا
غالب
غالب ہے تیرے عہد میں بیداد کی طرف
غالب
ردیف غین
غالب
ردیف کاف
غالب
ردیف قاف
غالب
کب دستر س ہے لعل کو تیرے سخن تلک
غالب
شوق ہوتو ہے اس کا گھر نزدیک
غالب
جاتے ہیں لے خرابہ کو سیل آسماں تلک
غالب
ردیف لام
غالب
سیر کر عندلیب کا احوال
غالب
شرط ہے ابر میں اور ہم میں کہ رودینگے کل
غالب
فصل خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گا
غالب
ردیف میم
غالب
کیا کہوں رکھتے تھے تجھ ترے بیمار چشم
غالب
کرتے نہیں ہیں دوری سے اب اسکی باک ہم
غالب
گرچہ آوارہ جوں صبا ہیں ہم
غالب
حذرکہ آہ جگر تفتگاں بلا ہے گرم
غالب
آیا کمال نقص میرے دل کی تاب میں
غالب
ردیف نون
غالب
نہ گیا خیال زلف سیہ جفا شعاراں
غالب
کہیو قاصد جو وہ پوچھے ہمیں کیا کرتے ہیں
غالب
راضی ہوں گو کہ بعداز صد سال و ماہ دیکھوں
غالب
مستو جب ظلم وستم وجور و جفا ہوں
غالب
گرٹک ہو درد آئینہ گوں چرغ زشت میں
غالب
درد واندو میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں
غالب
کوئی نہیں جہاں میں جو اندوہگیں نہیں
غالب
زباں رکھ غنچہ ساں اپنے ذہن میں
غالب
تو گلی میں اس کی جا آوے اے صبانہ چنداں
غالب
تلوار غرق خوں ہے آنکھیں گلا بیاں ہیں
غالب
سن گوش دل سے اب کو سمجھ بے خبر کہیں
غالب
کیا جو عرض میں دل سا شکار لایا ہوں
غالب
خوش قداں جب سوار ہوتے ہیں
غالب
دیکھیں تو تیری کب تک یہ کج ادائیں ہیں
غالب
نپٹ ہی اپنے تئیں ہم تو خوار پاتے ہیں
غالب
کیا میں نے کرفشار گریباں
غالب
عام حکم شراب کرتا ہوں
غالب
ہم تو مطرب پسر کے جاتے ہیں
غالب
آتا ہے دل میں حال بد اپنا بھلا کہوں
غالب
میرے آگونہ شاعر نام پاویں
غالب
نہ ایک یعقوب رویا ا س الم میں
غالب
مثال سا یہ محبت میں جال اپنا ہوں
غالب
ہمیشہ دل میں کہتا ہوں یہاں جاؤں وہاں جاؤں
غالب
جب درد دل کا کہنا میں دل میں ٹھانتا ہوں
غالب
چاہتے ہیں یہ بتاں ہم پہ کہ بیدار کریں
غالب
تجھ عشق میں تو مرے کو طیار بہت ہیں
غالب
ملنے لگے ہو دیرد یر دیکھیے کیا ہے کیا نہیں
غالب
خوب رو سب کی جان ہوتے ہیں
غالب
جنوں میرے کی باتیں دشت اور گلشن میں جب چلیاں
غالب
بزم میں جو تیرا ظہور نہیں
غالب
ایسے محروم گئے ہم تو گرفتا ر چمن
غالب
دامن پہ تیرے گرد کا کیو نگر اثر نہیں
غالب
تجھے بھی یار اپنا یوں تو ہم ہر بار کہتے ہیں
غالب
مجھ کو مارا بھلا کیا تو نیں
غالب
ایک پرواز کو بھی رخصت صیاد نہیں
غالب
سمجھتا تنک نہ اپنے تو سود و زیاں کو میں
غالب
آہ وہ عاشق ستم ترک جفا کرتا نہیں
غالب
یوں ہی حیراں و خفا جوں غنچہ تصویر میں
غالب
آہ اور اشک ہی سدا ہے یہاں
غالب
کہے ہے کو ہکن کر فکر میری خستہ حالی میں
غالب
یہ شیخ کیوں نہ تو کل کو اختیار کریں
غالب
ہر گھڑی دیکھتے ہو جو ایدھر
غالب
یہ غلط کہ میں پیاہوں قدح شراب تجھ بن
غالب
تکلیف باغ کن نے کی تجھ خوش وہاں کے تئیں
غالب
کیا ظلم کیا تعدی کیا جور کیا جفائیں
غالب
سب خوبیاں میں شیخ مشخیت پناہ میں
غالب
موئے سہتے سہتے جفا کاریاں
غالب
بے کلی بے خود ی کچھ آج نہیں
غالب
صد تمنا اے یار رکھتے ہیں
غالب
لیتے ہیں سانس یوں ہم جوں تار کھینچتے ہیں
غالب
سوزش دل میں مفت گلتے ہیں
غالب
دعویٰ کو یار آگے معیوب کر چکے ہیں
غالب
نکلے ہے جنس حسن کسو کاروان میں
غالب
عشق کرنے کو جگر چاہیے آساں نہیں
غالب
میں کون ہوں اے ہمنفساں سوختہ جاں ہوں
غالب
ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
غالب
فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو
غالب
آرام ہو چکا میری چشم نزار کو
غالب
نسیم مصر کد آئی سواد شہر کنعاں کو
غالب
آنکھوں سے دل تلک ہیں چنے خوان آرزو
غالب
دن گزرتا ہے مجھے فکر ہی میں تاکیا ہو
غالب
اے چرخ مت حریف اندوہ بیکساں ہو
غالب
خوش آدتی ہے تجھ بن گلگشت باغ کس کو
غالب
نالہ میرا اگر ا سبب شو و شر نہ ہو
غالب
وہی جانے جو حیا کشتہ وفا رکھتا ہو
غالب
کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو
غالب
نہ آدام میں مرغ فریاد کیجو
غالب
دیکھتا ہوں دھوپ میں جلنے ہی کے آچار کو
غالب
کرتا بیاں جو ہوتے خریدار ایک دو
غالب
نالۂ شب نے کیا ہے جو اثر مت پوچھو
غالب
حال دل میر کا اے اہل وفامت پوچھو
غالب
کیا فرض ہستی کی رخصت ہے مجھ کو
غالب
فرصت نہیں تنک بھی کہیں اضطراب کو
غالب
محرمان بیدمی کا میری سبب مت پوچھو
غالب
کیا ہے گر بدنامی و حالت تباہی بھی نہ ہو
غالب
اجرت میں نامہ کی دیتے ہیں جاں تلک تو
غالب
اس بیگنہ کے قتل میں اب دیر مت کرو
غالب
اس کی طرز نگاہ مت پوچھو
غالب
گرچہ کب دیکھتے ہو‘ دیکھو
غالب
وہی مجھ پہ غصہ وہی یاں سے جاتو
غالب
دل پر خوں ہے یہاں تجھ کو گماں ہے شیشہ
غالب
سو ظلم کے رہتے ہیں سزا وار ہمیشہ
غالب
قطعہ
غالب
جگر لو ہو کو ترسے ہے میں سچ کہتا ہوں دل خستہ
غالب
جو ہو شیار ہو سو آج ہو شراب زدہ
غالب
ہم سے ٹک آگے زمانے میں ہو ا کیا کیا کچھ
غالب
جز جرم عشق کوئی بھی ثابت کیا گناہ
غالب
کرو تو کل عاشقی میں نہ یوں کرو گے تو کیا کروگے
غالب
کہتے ہیں اڑ بھی گئے جل کے پر پروانہ
غالب
ہے غزل میر یہ شفائی کی
غالب
اس اسیری کے نہ کوئی اے صبا پالے پڑے
غالب
صبح ہے کوئی آہ کر لیجے
غالب
یکسو کشادہ روئی پر چیں نہیں جبیں بھی
غالب
خوب ہے اے ابریک شب آؤ با ہم رویتے
غالب
گئی چھا نہہ تیغ اس کی سر سے جب کی
غالب
نہیں وہ قید الفت میں گرفتاری کو کیا جانے
غالب
ایسے قدم سے تیری گل میں صبا گئی
غالب
دل کو تسکیں نہیں اشک و مادم سے بھی
غالب
جوش دل آکے بہم دیدۂ گریان ہوئے
غالب
یارب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے
غالب
فکر ہے ماہ کے جو شہر بدر کرنے کی
غالب
خرابی کچھ نہ پوچھو مملکت دل کی عمارت کی
غالب
کروں جو آہ زمین و زمان جل جاوے
غالب
دیکھ تو دل کی جاں سے اٹھتا ہے
غالب
میں نے جو بیکسا نہ مجلس میں جان کھوٹی
غالب
برقع کو اٹھا چہرہ سے وہ بت اگر آوے
غالب
جب نام تیرا لیجے تب چشم بھر آوے
غالب
اپنا شعار پوچھو تو مہرباں وفا ہے
غالب
گزار خوش نگاہاں جس میں ہے میرا ساماں ہے
غالب
الم سے یہاں تئیں میں مشق نا توانی کی
غالب
مشہور چمن میں تری گل پیر ہنی ہے
غالب
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
غالب
ترا اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے
غالب
توجہ تیری اے حیرت میری آنکھوں پہ کیا کم ہے
غالب
بند قبا کو خوباں جس وقت وکریں گے
غالب
ہم تو اس کے ظلم سے ہمدم چلے
غالب
کیا مرے سرورواں کا کوئی مائل ایک ہے
غالب
بن اس کے ترے حق میں کوئی کیا دعا کرے
غالب
صبح سے بن علاج تو خوش ہے
غالب
نہ رہ دنیا میں دلجمعی سے اے انساں جو دانا ہے
غالب
رشک گلشن اگر تو ناز کرے
غالب
شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خوں کی راہ ہے
غالب
تا چند ترے غم میں یوں زار رہا کیجے
غالب
مشکل ہو ہونا روکش رخسار کی جھلک کے
غالب
طاقت نہیں ہے جی کو نے اب جگر رہا ہے
غالب
مری جاویں گے بہت ہجر میں ناشادر ہے
غالب
نالہ تا آسمان جاتا ہے
غالب
تجھ بن خراب و خستہ زبوں خوار ہوگئے
غالب
اچنبھا ہے اگر چپکارہوں مجھ پر عتاب آدے
غالب
گوننگ آوتا ہے اسے میرے نام سے
غالب
میرے درد دل کا تو یہ جوش ہے
غالب
بسکہ دیوانگی حال میں چالاک ہوئے
غالب
صیدا فگنوں سے ملنے کی تدبیر کریں گے
غالب
بے یار شہر دل کا ویران ہورہا ہے
غالب
سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے
غالب
دوں سونپ دود دل کو مجھ بعد یہ نشاں ہے
غالب
تجھ سے دو چار ہوگا جو کوئی راہ جاتے
غالب
آہ میری زبان پر آئی
غالب
ہمسایہ چمن یہ نپٹ زار کون ہے
غالب
گرم میں شور سے تجھ حسن کے بازار کئی
غالب
دیکھا کروں تجھ ہی کو منظور ہے تو یہ ہے
غالب
مجھ سوز بعد مرگ سے آگا ہ کون ہے
غالب
ہو عاجز کہ جم اس قدر زور سے
غالب
سوائے سنگہ لی اور کچھ ہنر بھی ہے
غالب
وعدہ وعید پیارے کچھ تو قرار ہوئے
غالب
سن کے صفت ہم سے خرابات کی
غالب
نالہ عجز نقص الفت ہے
غالب
میری پرستش پہ تیری طبع اگر آوے گی
غالب
تیرا خرام دیکھے تو جا سے نہ ہل سکے
غالب
کیا غم میں ویسے خاک فتادہ ہے ہو سکے
غالب
خورشید تیرے چہرہ کے آگے نہ آسکے
غالب
ڈھونڈا پنا یئے جو اس وقت میں سوز رہے
غالب
اے حب جاہ والو جو ٓاج تاجور ہے
غالب
شب شمع پرتپنک کے آنے کو عشق ہے
غالب
ملو کوئی دن ہم سے ہر رات جانی
غالب
ہنس دے ہے دیکھتے ہی کیا خوب آدمی ہے
غالب
یک مژہ اے دم آخر مجھے فرصت دیجے
غالب
یاں جو وہ نو نہال آتا ہے
غالب
نہ تنہا داغ تو سینے پہ میرے صد چمن نکلے
غالب
یہ رات ہجر کی یاں تک تو دکھ دکھاتی ہے
غالب
چمن کو یاد کر مرغ قفس فریاد کرتا ہے
غالب
ہم رو رو کے درد دل دیوانہ کہیں گے
غالب
سیر کی ہم نے کہیں پیارے
غالب
کیا خط لکھوں میں اشک سے فرصت نہیں رہی
غالب
جب تک کہ تیرا گزر نہ ہوئے
غالب
جوں جوں ساقی تو جام بھرتا ہے
غالب
ہم جنوں میں جو خاک اڑاویں گے
غالب
وصل کی جب سے گئی ہے چھوڑ دلدار ی مجھے
غالب
کیوں گردن ہلال ابھی سے ڈھلک چلی
غالب
تو گلے ملتا نہیں ہم سے تو کیسی خرمی
غالب
قصہ اگر امتحان ہے پیارے
غالب
قبر عاشق پر مقرر روز آنا کیجئے
غالب
آہ جس وقت سر اٹھاتی ہے
غالب
نہ بک شیخ اتنا بھی واہی تباہی
غالب
ہوگئی شہر شہر رسوائی
غالب
مجھ سا بیتاب ہووے جب کوئی
غالب
تڑپتا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے
غالب
آگو ہمارے عہد سے وحشت کو جانہ تھی
غالب
ڈھب ہیں تیرے سے باغ میں غل کے
غالب
سبھوں کے خط لیے پوشیدہ قاصد آج جاتا ہے
غالب
اڑ ا برگ گل کو دیکھاتی ہے وادی
غالب
رات گزری ہے مجھے ہجر میں روتے روتے
غالب
یعقوب کے نہ کلبۂ احزاں تلک گئے
غالب
شوخ عاشق قد کو تیرے سر و یا طوبیٰ کہے
غالب
راہ آنسو کی کب تلک تکیے
غالب
چھن گیا دل بھی اور کلیجا بھی
غالب
میرے رنگ شکستہ پہ ہنستے ہیں مرد ماں سارے
غالب
تمام اس کے قد میں سنان کی طرح ہے
غالب
چلی جاتی ہی نکلی جان ہے تدبیر کیا کریئے
غالب
محمل تیرے کے ساتھ زبس شور میں کیے
غالب
جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مرگئے
غالب
کہاں تک غیر جاسوسی کے لینے کو لگا آوے
غالب
آتش کے عسعلے سر سے ہمارے گزر گئے
غالب
یہ راہ و رسم دل شدگاں گفتنی نہیں
غالب
ترے ہاتھ جب تک کہ تیرو کماں ہے
غالب
دل کو نہیں ہے چین نہ ہے خواب شب مجھے
غالب
میرے اس رک کے مرجانے سے وہ غافل ہے کیا جانے
غالب
کاتب کہاں دماغ جو اب شکوہ ٹھانئے
غالب
بات شکوہ کی ہم نے گاہ نہ کی
غالب
کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
غالب
کب تلک جی رکے خفا ہووے
غالب
کیا کروں شرح خستہ جانی کی
غالب
غیر سے اب یار ہوا چاہیے
غالب
ہے یہ بازار جنوں منڈی ہے دیوانوں کی
غالب
مصنف ہو تو ہی کب تئیں یہ دکھ اٹھایئے
غالب
نہیں وسواس جی گنوانے کے
غالب
چل قلم غم کی رقم کوئی حکایت کیجے
غالب
تن ہجر میں اس یار کے رنجور ہوا ہے
غالب
غافل میں رہا تجھ سے نپٹ تا بہ جوانی
غالب
رہی نہفتہ میرے دل میں داستاں میری
غالب
دل جو پر بے قرار رہتا ہے
غالب
بسکہ ہے گردون دوں پر و ردنی
غالب
جانگداز اتنی کہاں آواز عود و چنگ ہے
غالب
اس ستم دیدہ کی صحبت سے جگر لو ہو ہے
غالب
دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے
غالب
آج پر بے قرار ہیں ہم بھی
غالب
ساقی گھر چاروں اور آیا ہے
غالب
خنجر بکف وہ جب سے سفا ک ہو گیا
غالب
کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہوگئی
غالب
خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتار میں تھے
غالب
جس جگہ دور جام ہوتا ہے
غالب
بیتا بیوں میں تنگ ہم آتے ہیں جان سے
غالب
غم سے یہ میں نے طرح نکالی نجات کی
غالب
اب دل کو دھوری آہ کی صبح و مسالگی
غالب
کس حسن سے کہوں میں اس کی خوش اختر کی
غالب
نے صبر ہے نہ ہوش ہے گل بن نہ تاب ہے
غالب
بوکہ ہو طرف باغ نکلے ہے
غالب
ایدھر سے ابر اٹھ کر جو گیا ہے
غالب
دن دوریٔ چمن میں جو ہم شام کریں گے
غالب
برنگ بوئے گل اس باغ کے ہم آشنا ہوتے
غالب
عمر بھر ہم رہے شرابی سے
غالب
زندگی ہوتی ہے اپنی غم کے مارے دیکھیے
غالب
چمن یار تیر ہوا خوا ہ ہے
غالب
عشق میں بے خوف و خطر چاہیے
غالب
اب ظلم ہے اس خاطر تا غیر بھلا مانے
غالب
شمع صفت جب کبھو مرجائینگے
غالب
گئے جی سے چھوٹے بتوں کی جفا سے
غالب
رنج کھینچے تھے داغ کھائے تھے
غالب
کل وعدہ گاہ میں سے جوں تو ں کے ہم کو لائے
غالب
کر ے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
غالب
خوش سرانجام تھے وے جلد جو ہشیار ہوئے
غالب
بغیر دل کے یہ قیمت ہے سارے عالم کی
غالب
فقیر انہ آئے صدا کر چلے
غالب
کیوں کر کے ہمیں کوئی فریبندہ لبھا لے
غالب
چاک پر چاک ہوا جوں جوں سلایا ہم نے
غالب
فردیات متفرقہ
غالب
رباعیات
غالب
مخمسات
غالب
مثنویاں
غالب
اشعارات
غالب
پیش لفظ
مقدمہ
دیوان اول
میر
فرہنگ کلیات میر
مثلث بطور نو
غالب
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔