پہچان کا شاعر ایک تعارف
کیے ہیں اتنے جہاں، اور اک کرم کر دے
کسی امیر کو کوئی فقیر کیا دے گا
دعا دو ہمیں بھی ٹھکانہ ملے
کیوں اتنے خفا آپ ہیں اب تک نہیں معلوم
کچھ تو انداز لبھانے کاستم گر بدلو
یہاں کسی کو کوئی عقل دے نہیں سکتا
کہیں دکھا کوئی بادل تو سائبان لگا
کتنی صدیوں کے تراشے ہوئے پیکر اپنے
دل تری چاہ میں یہ سوچ کے رویا بھی کہاں
ہر آئینے میں بدن اپنا بے لباس ہوا
ہر اک ہنسی میں چھپی خوف کی اداسی ہے
ریت کی لہروں سے دریا کی روانی مانگے
اب اپنے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں
چلو ملے نہ ملے کچھ سوال کر دیکھو
یہی نہیں ہے کہ سب سے جدا سا لگتا ہے
جائے گا بھی تو کہاں جائے گا پاؤں والا
پکارتی ہے جو تجھ کو تری صدا ہی نہ ہو
یقیں مجھے بھی تو اس بات کا دلانے آ
جسموں کو چھپائے ہوئے کاغذ کی ردا سے
سمجھے ہوئے لوگوں کو بھی ہر بار سمجھنا
اندر کا سکوت کہہ رہا ہے
زمانے بھر میں شرمندہ رکھے گا
تھوڑی ہی دیر میں تحلیل تو ہو جانا ہے
ظالم کو میں تسکین دہائی نہیں دوں گا
روح کو قید کیے جسم کے ہالوں میں رہے
زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا
یہ بھی سچ ہے کہ یہاں ایک زمانے سے رہے
ہر کوئی سوچ میں ہے کیسے نکالے مجھ کو
جب بھی کوئی خورشید بجھا ہے تو جلا ہے
جس کو دیکھو کھڑا قطار میں ہے
تنہا ہدف ہوں شہر میں سنگ نگاہ کا
اس قدر جھک کے گزرنے کو مقدر نہ بنا
نیند سے آنکھ کھلی ہے ابھی دیکھا کیا ہے
جو لوگ عیش میں ہنستے نہ غم میں روتے ہیں
کیا ہے موسم کا تقاضا نہیں دیکھا جاتا
کیا فرض ہے یہ جسم کے زنداں میں سزادے
اک سفر ہے جو ہر نگاہ میں ہے
خود کوئی کب تلک لڑے گا
ہاتھ اٹھتے ہی بدن پر کی طرح کھلتا ہے
کرب چہرے سے مہ وسال کا دھویا جائے
تمام عمر میں آسیب کے اثر میں رہا
پیڑ ڈھونڈو نہ کوئی راہ کا پتھر دیکھو
نہ جانے ہم پہ پڑا وقت ہے کہ ناؤ پر
کچھ تو اپنی بھی طبیعت کا پتا دینا تھا
وہ بدگماں ہے کہ کنکر اسے گہر میں ملا
آج اس کے بھی وجود کا پیکر اتر گیا
کسی سلوک کا اس پر اثر ذرا نہ ہوا
تیرے بدن کی آنچ میں تپ کر اڑ جاؤں گا
منہ میں دبا کے اب کوئی کنکر نہ آئے گا
تنگ دھرتی پہ قدم اپنے جمائے رکھنا
حقیقتوں کا سبھی کو پتا نہیں ہوتا
زمانے بھر میں افسانے بہت ہیں
پانی کا پتھروں پہ اثر کچھ نہیں ہوا
خود اپنے سے سہمے ہوئے انسان بہت ہیں
دریدہ تن تھا تری کھوج میں مگر نکلا
کتنا عجیب گھر سے نکل کر لگا مجھے
بھول بیٹھے ہیں ترے شہر میں گھر کو اپنے
جاکے ملتا ہوں نہ اپنا ہی پتا دیتا ہوں
ہو کے مایوس ہی لوٹا جو سوالی نکلا
کیسی بستی ہے کہ آواز نہ آہٹ کوئی
اس کو یہ ضد ہے کہ انسان بنائے گا مجھے
آج کا دن تو بیت چکا ہے آج کی شب بھی کٹ جائے گی
گرچہ گردش میں تھے اے دوست ستارے میرے
وہ اپنے طور پہ دیتا رہا سزا مجھ کو
فرق سب کے دلوں میں ہوتے ہیں
کبھی جو ٹوٹ کے بکھروں تو اطمینان ملے
جو جتنا ہے حسب حوصلہ ہے
کچھ دیر کالی رات کے پہلو میں لیٹ کے
ان کو بلوانے کی صورت یہ نکالی جائے
پانی سے بچنے ٹھہرا تھا وہ سائبان میں
دھوپ ہی اس رت کی چمکیلی نہیں
ہمارے درپہ بھی ڈیرے کسی نے ڈالے تھے
تھک کے بیٹھے گا جس گھڑی جوگی
نظروں میں ابھی تک وہ بچھڑنے کی گھڑی ہے
صحرا میں رایگاں بھی کہاں جائے گی صدا
بلاؤں کا جنگل میں ڈیرا ہوا
پیاسی آنکھ کا سپنا ہوں
پھر خود پہ گمان ہو رہا ہے
محرومیوں کی فصل ہی اب کاٹتے چلو
دن کا وہ سایہ بھی اک پیکر کھلا
بارہا سینے میں اتری ہے مگر
مری تشنگی کا صلہ لے گئی
ایک لمحے کے لیے دل میں وہ ٹھہرا ہوگا
ایسا نہیں کہ ایسا کوئی دہر میں نہیں
کمرے میں کھویا کھویا سا ایک اجنبی بیٹھا ہے
جتنا کھنچو گے اسے اور اکڑ جائے گا
اپنا ہی وہم کو بکو بولا
اب کوئی سایہ دریچوں میں نہیں
بلندیاں تھیں نہ تھا فاصلہ زمانوں کا
تمہارے شہر میں بھٹکے ہیں اجنبی کی طرح
کھول کر زلف ذرا راہ کو مہکا دینا
کس طرح داستاں بنائیں اسے
بے رخی سے کچھ تو اندازہ لگا
پھولوں کی برسات ہوئی انگنائی میں
فاصلے ٹوٹیں تو آسیب نظر سے نکلیں
ایسا بھی اکثر لگتا ہے
اس دشمن جاں کو پست کردے
جسم پر چہرہ نہیں ہے کیا کریں
یہاں سے شہر ستمگر دکھائی دیتا ہے
ہر بات سے انحراف مت کر
شام آئی سنور گئے چہرے
اپنے کو میں داغ جانتا ہوں
روکو گے کب تلک اسے اینٹوں کو جوڑ کے
منزل کی سمت رخ ہے ادھر بادبان کا
بستے ہیں کہاں جا کے صدا کیوں نہیں دیتے
سب کی آنکھوں میں سپنے ہیں تجھ کو اب سمجھائے کون
رقص جنوں پہ کوئی تعجب نہ شور ہے
ہو منتخب نہ کہیں میرا انتخاب ہے وہ
ہے کون شہر میں جو مجھے جانتا نہیں
بے گانۂ درد ہوگیا ہے
کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے دھواں گہرا ہے
جھونکا ہوں میں جو کہاں نہیں ہے
گھٹ کے مرجانے کا لوگوں کو گماں بھی ہوگا
پل بھر میں بدل جاتے ہیں حالات مگر وہ
پایا نہیں جو وہ کھو رہا ہوں
دستک ہے کہ پتا کوئی کھڑ کا ہے کہ تم ہو
زندگی کے لوازمات کےساتھ
فطرت میں قناعت ہو تو اچھا سا لگے ہے
کیا کروں عذر جو تاخیر ترے سات ہوئی
گھر میں کبھی مفلس کے لٹیرے نہیں آتے
سفر طویل ہے رستے میں کیا نہ آجائے
جتنے چہرے تھے سب میں آپ لگے
پابند نہیں آپ کی مرضی کا کوئی فن
ہم راہوں میں تکتے ہیں ہر انجان کی صورت
لپک رہے ہیں اندھیرے ہوا سراغ میں ہے
پیچ وخم راہ کے چل کر دیکھو
دیوانہ پن جوگ نہیں ہے
ملتے ہی یوں بچھڑنے پہ مجبور ہوگئے
مٹ گئے سارے نقش پا میرے
آج بھی آنگن سونا ہوگا
دور کوئی بادل کا ٹکڑا
میں مشت خاکر تھا شمس وقمر پہ کیا جاتا
بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
ٹھکراؤاب کہ پیار کرو میں نشے میں ہوں
آپ کتنا ہی سنور جائیں کمی رہتی ہے
غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
وہ لڑکپن میں مرے ساتھ کی کھیلی نکلی
زمانے بھر سے میں کیوں لڑ پڑا ہوں سوچنا ہوگا
ہمراہ مرے سایہ یہ سوچ کے چلتا ہے
اس ڈر سے کہ یہ شخص کہیں گاؤں نہ چھوڑے
اک اک ادا سے ہیں وابستہ چاہتیں کتنی
مٹنے کا کوئی خوف نہ غم نام و نشاں کا
پھر رہا ہوں جسم پر کپڑا نہیں
زندگی کے ہزار رستے ہیں
نام کیوں دے دیا محبت کا
زلف میں پیچ وطول ہوتے ہیں
تم سے ملتے بھی بچھڑنے کے وسیلے ہوگئے
وہ بولتا تھا تو کھلتا تھا بخت لہجے کا
پہچان کا شاعر ایک تعارف
کیے ہیں اتنے جہاں، اور اک کرم کر دے
کسی امیر کو کوئی فقیر کیا دے گا
دعا دو ہمیں بھی ٹھکانہ ملے
کیوں اتنے خفا آپ ہیں اب تک نہیں معلوم
کچھ تو انداز لبھانے کاستم گر بدلو
یہاں کسی کو کوئی عقل دے نہیں سکتا
کہیں دکھا کوئی بادل تو سائبان لگا
کتنی صدیوں کے تراشے ہوئے پیکر اپنے
دل تری چاہ میں یہ سوچ کے رویا بھی کہاں
ہر آئینے میں بدن اپنا بے لباس ہوا
ہر اک ہنسی میں چھپی خوف کی اداسی ہے
ریت کی لہروں سے دریا کی روانی مانگے
اب اپنے ساتھ بھی کچھ دور جا کر دیکھ لیتا ہوں
چلو ملے نہ ملے کچھ سوال کر دیکھو
یہی نہیں ہے کہ سب سے جدا سا لگتا ہے
جائے گا بھی تو کہاں جائے گا پاؤں والا
پکارتی ہے جو تجھ کو تری صدا ہی نہ ہو
یقیں مجھے بھی تو اس بات کا دلانے آ
جسموں کو چھپائے ہوئے کاغذ کی ردا سے
سمجھے ہوئے لوگوں کو بھی ہر بار سمجھنا
اندر کا سکوت کہہ رہا ہے
زمانے بھر میں شرمندہ رکھے گا
تھوڑی ہی دیر میں تحلیل تو ہو جانا ہے
ظالم کو میں تسکین دہائی نہیں دوں گا
روح کو قید کیے جسم کے ہالوں میں رہے
زمیں پہ چل نہ سکا آسمان سے بھی گیا
یہ بھی سچ ہے کہ یہاں ایک زمانے سے رہے
ہر کوئی سوچ میں ہے کیسے نکالے مجھ کو
جب بھی کوئی خورشید بجھا ہے تو جلا ہے
جس کو دیکھو کھڑا قطار میں ہے
تنہا ہدف ہوں شہر میں سنگ نگاہ کا
اس قدر جھک کے گزرنے کو مقدر نہ بنا
نیند سے آنکھ کھلی ہے ابھی دیکھا کیا ہے
جو لوگ عیش میں ہنستے نہ غم میں روتے ہیں
کیا ہے موسم کا تقاضا نہیں دیکھا جاتا
کیا فرض ہے یہ جسم کے زنداں میں سزادے
اک سفر ہے جو ہر نگاہ میں ہے
خود کوئی کب تلک لڑے گا
ہاتھ اٹھتے ہی بدن پر کی طرح کھلتا ہے
کرب چہرے سے مہ وسال کا دھویا جائے
تمام عمر میں آسیب کے اثر میں رہا
پیڑ ڈھونڈو نہ کوئی راہ کا پتھر دیکھو
نہ جانے ہم پہ پڑا وقت ہے کہ ناؤ پر
کچھ تو اپنی بھی طبیعت کا پتا دینا تھا
وہ بدگماں ہے کہ کنکر اسے گہر میں ملا
آج اس کے بھی وجود کا پیکر اتر گیا
کسی سلوک کا اس پر اثر ذرا نہ ہوا
تیرے بدن کی آنچ میں تپ کر اڑ جاؤں گا
منہ میں دبا کے اب کوئی کنکر نہ آئے گا
تنگ دھرتی پہ قدم اپنے جمائے رکھنا
حقیقتوں کا سبھی کو پتا نہیں ہوتا
زمانے بھر میں افسانے بہت ہیں
پانی کا پتھروں پہ اثر کچھ نہیں ہوا
خود اپنے سے سہمے ہوئے انسان بہت ہیں
دریدہ تن تھا تری کھوج میں مگر نکلا
کتنا عجیب گھر سے نکل کر لگا مجھے
بھول بیٹھے ہیں ترے شہر میں گھر کو اپنے
جاکے ملتا ہوں نہ اپنا ہی پتا دیتا ہوں
ہو کے مایوس ہی لوٹا جو سوالی نکلا
کیسی بستی ہے کہ آواز نہ آہٹ کوئی
اس کو یہ ضد ہے کہ انسان بنائے گا مجھے
آج کا دن تو بیت چکا ہے آج کی شب بھی کٹ جائے گی
گرچہ گردش میں تھے اے دوست ستارے میرے
وہ اپنے طور پہ دیتا رہا سزا مجھ کو
فرق سب کے دلوں میں ہوتے ہیں
کبھی جو ٹوٹ کے بکھروں تو اطمینان ملے
جو جتنا ہے حسب حوصلہ ہے
کچھ دیر کالی رات کے پہلو میں لیٹ کے
ان کو بلوانے کی صورت یہ نکالی جائے
پانی سے بچنے ٹھہرا تھا وہ سائبان میں
دھوپ ہی اس رت کی چمکیلی نہیں
ہمارے درپہ بھی ڈیرے کسی نے ڈالے تھے
تھک کے بیٹھے گا جس گھڑی جوگی
نظروں میں ابھی تک وہ بچھڑنے کی گھڑی ہے
صحرا میں رایگاں بھی کہاں جائے گی صدا
بلاؤں کا جنگل میں ڈیرا ہوا
پیاسی آنکھ کا سپنا ہوں
پھر خود پہ گمان ہو رہا ہے
محرومیوں کی فصل ہی اب کاٹتے چلو
دن کا وہ سایہ بھی اک پیکر کھلا
بارہا سینے میں اتری ہے مگر
مری تشنگی کا صلہ لے گئی
ایک لمحے کے لیے دل میں وہ ٹھہرا ہوگا
ایسا نہیں کہ ایسا کوئی دہر میں نہیں
کمرے میں کھویا کھویا سا ایک اجنبی بیٹھا ہے
جتنا کھنچو گے اسے اور اکڑ جائے گا
اپنا ہی وہم کو بکو بولا
اب کوئی سایہ دریچوں میں نہیں
بلندیاں تھیں نہ تھا فاصلہ زمانوں کا
تمہارے شہر میں بھٹکے ہیں اجنبی کی طرح
کھول کر زلف ذرا راہ کو مہکا دینا
کس طرح داستاں بنائیں اسے
بے رخی سے کچھ تو اندازہ لگا
پھولوں کی برسات ہوئی انگنائی میں
فاصلے ٹوٹیں تو آسیب نظر سے نکلیں
ایسا بھی اکثر لگتا ہے
اس دشمن جاں کو پست کردے
جسم پر چہرہ نہیں ہے کیا کریں
یہاں سے شہر ستمگر دکھائی دیتا ہے
ہر بات سے انحراف مت کر
شام آئی سنور گئے چہرے
اپنے کو میں داغ جانتا ہوں
روکو گے کب تلک اسے اینٹوں کو جوڑ کے
منزل کی سمت رخ ہے ادھر بادبان کا
بستے ہیں کہاں جا کے صدا کیوں نہیں دیتے
سب کی آنکھوں میں سپنے ہیں تجھ کو اب سمجھائے کون
رقص جنوں پہ کوئی تعجب نہ شور ہے
ہو منتخب نہ کہیں میرا انتخاب ہے وہ
ہے کون شہر میں جو مجھے جانتا نہیں
بے گانۂ درد ہوگیا ہے
کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے دھواں گہرا ہے
جھونکا ہوں میں جو کہاں نہیں ہے
گھٹ کے مرجانے کا لوگوں کو گماں بھی ہوگا
پل بھر میں بدل جاتے ہیں حالات مگر وہ
پایا نہیں جو وہ کھو رہا ہوں
دستک ہے کہ پتا کوئی کھڑ کا ہے کہ تم ہو
زندگی کے لوازمات کےساتھ
فطرت میں قناعت ہو تو اچھا سا لگے ہے
کیا کروں عذر جو تاخیر ترے سات ہوئی
گھر میں کبھی مفلس کے لٹیرے نہیں آتے
سفر طویل ہے رستے میں کیا نہ آجائے
جتنے چہرے تھے سب میں آپ لگے
پابند نہیں آپ کی مرضی کا کوئی فن
ہم راہوں میں تکتے ہیں ہر انجان کی صورت
لپک رہے ہیں اندھیرے ہوا سراغ میں ہے
پیچ وخم راہ کے چل کر دیکھو
دیوانہ پن جوگ نہیں ہے
ملتے ہی یوں بچھڑنے پہ مجبور ہوگئے
مٹ گئے سارے نقش پا میرے
آج بھی آنگن سونا ہوگا
دور کوئی بادل کا ٹکڑا
میں مشت خاکر تھا شمس وقمر پہ کیا جاتا
بے سبب بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے
ٹھکراؤاب کہ پیار کرو میں نشے میں ہوں
آپ کتنا ہی سنور جائیں کمی رہتی ہے
غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی
وہ لڑکپن میں مرے ساتھ کی کھیلی نکلی
زمانے بھر سے میں کیوں لڑ پڑا ہوں سوچنا ہوگا
ہمراہ مرے سایہ یہ سوچ کے چلتا ہے
اس ڈر سے کہ یہ شخص کہیں گاؤں نہ چھوڑے
اک اک ادا سے ہیں وابستہ چاہتیں کتنی
مٹنے کا کوئی خوف نہ غم نام و نشاں کا
پھر رہا ہوں جسم پر کپڑا نہیں
زندگی کے ہزار رستے ہیں
نام کیوں دے دیا محبت کا
زلف میں پیچ وطول ہوتے ہیں
تم سے ملتے بھی بچھڑنے کے وسیلے ہوگئے
وہ بولتا تھا تو کھلتا تھا بخت لہجے کا
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.