سر ورق
خواہش خواب دیدہ ان کے حضور
بخشا ہے اس نگاہ نے ایسا یقیں مجھے
سات دریاؤں کا پانی ہے مرے کوزے میں
درون خواب نیا اک جہاں نکلتا ہے
آزر رہا ہے تیشہ مرے خاندان میں
دیکھ لو پھر یہ ستارہ نہیں روشن ہونا
گزرا ہے کوئی عہد قرینے سے ہمارا
منظر سے ادھر خواب کی پسپائی سے آگے
یک بہ یک خواب کھلے خواب میں ہو نیل پری
کب تک پھروں گا ہاتھ میں کاسہ اٹھا کے میں
سلطنت جس کو میسر ہو فراوانی کی
بے کار بیٹھنے سے تو بہتر ہے یوں نہ ہو
اور کیا خاک مری خاک سے نکلا ہوگا
یا قوت جڑے اور کہیں الماس اتارے
لمحہ لمحہ وسعت کون ومکاں کی سیر کی
جس احتیاط سے مصرع رفو کیا گیا ہے
دیکھیے صاحب کہاں تک آگ روشن ہے مری
مجھ کو کیا کیا گماں یقیں پر تھا
شام ہوتے ہی یہ افتاد نکل آتی ہے
ہر طرف جا بجا کیا ہے مجھے
تمام رات انہی طاقچوں میں جلتے رہے
چھوڑ کر جسم و جاں چلا جاؤں
زمیں سے کوئی تعلق نہ آسمان سے ہے
خواب کھلنے لگا آغاز نمو میں اپنے
عجیب رنگ عجب حال میں پڑے ہوئے ہیں
زندگی راکھ سے تعبیر چراغوں کی نہ ہو
میں اکیلا تھا زمیں پر کہکشاں تک لے گیا
یہ اک فقیر کا حجرہ ہے آکے چلتے بنو
حالت حال دل زار کوئی سنتا ہے
اس آئنہ خانے میں رسد چاہیے میری
دشت بے آب ہے یاں، پھول نہیں کھل سکتے
ہمارا گھر ہے ویرانی ہماری
دیکھتے غش جس کو آتا ہے مجھے
اپنے اپنے حساب سے ہے میاں
نئی ترتیب میں لایا گیا میں
ہم کو پڑتا ہے ہمارے راستے میں راستہ
تہہ زمین پس آسماں چلا جائے
نقش پا تو ہے کجا نقش دگر بھی مل جائے
نجانے وقت تھا یا وقت کا تقاضا تھا
کیا جانے کہاں شام و سحر جاتے ہیں صاحب
کیسی عجیب رات ہے میں خواب میں نہیں
جس طرف لے جائے مجھ کو راستہ جاتا ہوں میں
اندر سے سخن کیجیے یہ دم سخنی ہے
ہوانے اسم کچھ ایسا پڑھا تھا
درد اٹھّا تو سم نے کھینچ لیا
کارگر ہے آئینہ آئنے میں پانی ہے
مہتاب کی سیاہی یہ منظر حیات کا
سخن کی ذیل میں کیا ہاتھ پاؤں مارتے ہیں
ہمیشہ حد میں ہی رہتا ہوں حد سے دیکھتا ہوں
کچھ بھی نہیں ہے خاک کے آزار سے پرے
کیا کیا جائے بھلا دشت میں عریانی کا
ہونے تھے ہو رہے ہیں خسارے مرے بہت
دیوار کوئی اور ہے دیوار سے ہٹ کر
میں چل رہا ہوں کہ اب ختم ہونے والا ہے
بخت ایسا سیاہ پایا ہے
خبر تو ہے ابھی تصدیق کرنے والا ہوں
اب کسی آنکھ کا جادو نہ فسوں ہے مجھ پر
کوئی تو کام بہ طرز قلندرانہ کیا
سبھی کو بس یہی خطرہ ہے صاحب
خواب کے سحر سے بچا لیا جائے
کچھ تو ہوگا سخن سے ہٹ کر بھی
بنا رہا تھا کوئی آب و خاک سے کچھ اور
گو کہ ا س دشت نہ املاک سے آگے کچھ ہے
جگنو بھی اک چراغ ہے مہتاب بھی چراغ
دیکھیے کیسے ستاروں پہ جلا جاتا ہے
رات دن رنج سے آزار سے کیا ملتا ہے
بدلے کوئی آکر مری پوشاک سر خاک
میں ڈر رہا تھا بہت اعتبار اس نے کیا
جہاں وہ ہوتا ہے ہوتا نہیں سراغ اس کا
کیا اسم ہے کیا لحن ہے کیا جادو گری ہے
ستارے چاند سورج آسماں سب دیکھ سکتے ہیں
لہجہ و لفظ کو اک سات بدل سکتا ہوں
یہ نکتۂ دقیق ہماری نظر میں ہے
تمہارے حسن کا جب استعارہ بننے لگتا ہے
مجھ کو اس سطح پر بھی لایا گیا
پھول خوشبو چراغ ہات میں تھے
آئینہ مجھ سے یوں ڈرا ہوا ہے
بوجھ اٹھائے ہوئے دن رات کہاں تک جاتا
لحظہ بہ لحظہ دیدنی نام ونشاں تمام شد
خوشبو و رنگ ہیچ ہیں گل رو اگر نہ ہو
اک خواب عجب خواب ہے کھل کر نہیں کھلتا
چلے گا اور کوئی اس پہ آگے آتے ہوئے
نیند میں کھلتے ہوئے خواب کی عریانی پر
سر ورق
خواہش خواب دیدہ ان کے حضور
بخشا ہے اس نگاہ نے ایسا یقیں مجھے
سات دریاؤں کا پانی ہے مرے کوزے میں
درون خواب نیا اک جہاں نکلتا ہے
آزر رہا ہے تیشہ مرے خاندان میں
دیکھ لو پھر یہ ستارہ نہیں روشن ہونا
گزرا ہے کوئی عہد قرینے سے ہمارا
منظر سے ادھر خواب کی پسپائی سے آگے
یک بہ یک خواب کھلے خواب میں ہو نیل پری
کب تک پھروں گا ہاتھ میں کاسہ اٹھا کے میں
سلطنت جس کو میسر ہو فراوانی کی
بے کار بیٹھنے سے تو بہتر ہے یوں نہ ہو
اور کیا خاک مری خاک سے نکلا ہوگا
یا قوت جڑے اور کہیں الماس اتارے
لمحہ لمحہ وسعت کون ومکاں کی سیر کی
جس احتیاط سے مصرع رفو کیا گیا ہے
دیکھیے صاحب کہاں تک آگ روشن ہے مری
مجھ کو کیا کیا گماں یقیں پر تھا
شام ہوتے ہی یہ افتاد نکل آتی ہے
ہر طرف جا بجا کیا ہے مجھے
تمام رات انہی طاقچوں میں جلتے رہے
چھوڑ کر جسم و جاں چلا جاؤں
زمیں سے کوئی تعلق نہ آسمان سے ہے
خواب کھلنے لگا آغاز نمو میں اپنے
عجیب رنگ عجب حال میں پڑے ہوئے ہیں
زندگی راکھ سے تعبیر چراغوں کی نہ ہو
میں اکیلا تھا زمیں پر کہکشاں تک لے گیا
یہ اک فقیر کا حجرہ ہے آکے چلتے بنو
حالت حال دل زار کوئی سنتا ہے
اس آئنہ خانے میں رسد چاہیے میری
دشت بے آب ہے یاں، پھول نہیں کھل سکتے
ہمارا گھر ہے ویرانی ہماری
دیکھتے غش جس کو آتا ہے مجھے
اپنے اپنے حساب سے ہے میاں
نئی ترتیب میں لایا گیا میں
ہم کو پڑتا ہے ہمارے راستے میں راستہ
تہہ زمین پس آسماں چلا جائے
نقش پا تو ہے کجا نقش دگر بھی مل جائے
نجانے وقت تھا یا وقت کا تقاضا تھا
کیا جانے کہاں شام و سحر جاتے ہیں صاحب
کیسی عجیب رات ہے میں خواب میں نہیں
جس طرف لے جائے مجھ کو راستہ جاتا ہوں میں
اندر سے سخن کیجیے یہ دم سخنی ہے
ہوانے اسم کچھ ایسا پڑھا تھا
درد اٹھّا تو سم نے کھینچ لیا
کارگر ہے آئینہ آئنے میں پانی ہے
مہتاب کی سیاہی یہ منظر حیات کا
سخن کی ذیل میں کیا ہاتھ پاؤں مارتے ہیں
ہمیشہ حد میں ہی رہتا ہوں حد سے دیکھتا ہوں
کچھ بھی نہیں ہے خاک کے آزار سے پرے
کیا کیا جائے بھلا دشت میں عریانی کا
ہونے تھے ہو رہے ہیں خسارے مرے بہت
دیوار کوئی اور ہے دیوار سے ہٹ کر
میں چل رہا ہوں کہ اب ختم ہونے والا ہے
بخت ایسا سیاہ پایا ہے
خبر تو ہے ابھی تصدیق کرنے والا ہوں
اب کسی آنکھ کا جادو نہ فسوں ہے مجھ پر
کوئی تو کام بہ طرز قلندرانہ کیا
سبھی کو بس یہی خطرہ ہے صاحب
خواب کے سحر سے بچا لیا جائے
کچھ تو ہوگا سخن سے ہٹ کر بھی
بنا رہا تھا کوئی آب و خاک سے کچھ اور
گو کہ ا س دشت نہ املاک سے آگے کچھ ہے
جگنو بھی اک چراغ ہے مہتاب بھی چراغ
دیکھیے کیسے ستاروں پہ جلا جاتا ہے
رات دن رنج سے آزار سے کیا ملتا ہے
بدلے کوئی آکر مری پوشاک سر خاک
میں ڈر رہا تھا بہت اعتبار اس نے کیا
جہاں وہ ہوتا ہے ہوتا نہیں سراغ اس کا
کیا اسم ہے کیا لحن ہے کیا جادو گری ہے
ستارے چاند سورج آسماں سب دیکھ سکتے ہیں
لہجہ و لفظ کو اک سات بدل سکتا ہوں
یہ نکتۂ دقیق ہماری نظر میں ہے
تمہارے حسن کا جب استعارہ بننے لگتا ہے
مجھ کو اس سطح پر بھی لایا گیا
پھول خوشبو چراغ ہات میں تھے
آئینہ مجھ سے یوں ڈرا ہوا ہے
بوجھ اٹھائے ہوئے دن رات کہاں تک جاتا
لحظہ بہ لحظہ دیدنی نام ونشاں تمام شد
خوشبو و رنگ ہیچ ہیں گل رو اگر نہ ہو
اک خواب عجب خواب ہے کھل کر نہیں کھلتا
چلے گا اور کوئی اس پہ آگے آتے ہوئے
نیند میں کھلتے ہوئے خواب کی عریانی پر
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.