ترتیب
خدا ایک آنسو مرا بارشوں میں بہادے!
منظر کو بدلنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
تم نے اسے کہاں دیکھا ہے!
نظم کے لیے نظم
میں خوابوں کے اشجار بناؤں گا
خواب اور نیند کے درمیان صدائے مرگ
فاتح دشمن کے سامنے نغمۂ جاں گزا
پانی میں گم خواب
گلاس ہاؤس
ایک پرندہ نظم
بہت دور ایک گاؤں
نیند ساحل پر جاگتی سمندر عورت
مجھے اک خواب لکھنا ہے
وال چاکنگ
ہوا موت سے ماورا ہے
کنبدوں کے درمیاں
نیند سے باہر گرا خواب
انہماک جاود
ایک ساحلی دن
سمندر راز داں میرا اگر ہوتا
انیقہ کے لیے ایک نظم
بارش
دکھی لفظوں کی اک نظم
جدائی راستوں اور موسموں کے ساتھ چلتی ہے
بچھڑے ہوؤں کے لیے ایک نظم
پھیلتے فاصلوں کی نظم
دسمبر اب مت آنا!
دسمبر کی آخری نظم
SNAPSHOT
کتبہ
بے خوابی کی آکاس بیل پر کھلی خواہش
بے چہرہ پورٹر یٹ
منظر منظر معدوم ہوتی نظم
ممنوعہ وصیت
آموختہ
گیان بھری خاموشی میں اکلا پا کیوں روتا ہے
ایک بے ارادہ نظم
خاموشی کے جنگل میں اک لا یعنی بات
آرکیا لوجی
آخری کہانی
ابھی اک خواب باقی ہے
پت جھڑ میں یادوں کا ساون
گرد آلودہ راستے میں شام
لفظوں کی انا
شام
زمانے کی آنکھیں غلط کہہ رہی ہیں
کاسنی پھولو کہو!
میں آنکھوں میں چہرے رکھ لیتا ہوں
بچھڑنے سے پہلے
برسوں بعد ایک ملاقات
لڑکپن کتنا اچھا تھا!
خالی پن میں مشورہ
دکھ کا کوئی نام نہیں ہوتا!
سمندر اوک میں بھر لو !
سمندر تھک گیا ہے
ایک طویل کہانی کا کلائمیکس
جن کے سروں پر سورج ہاتھ نہیں رکھتا
انتباہ
صدائے بے صدا
ایک غیر یقینی صورت حال پر رواں تبصرہ
گمشدہ نسلوں کی لوری
ہمیں معلوم تھا
نشان اعزاز
ایک ضبط شدہ پوسٹر
شاعر
دھند کے پار
خواب آشوب
آگ سے مکالمہ
بے چہرہ خواب
اک بے لفظ کہانی کی چند سطریں
محبت کے عجب غم ہیں
تلاش رائگاں
ہمارے خواب کی راہوں میں نیندیں گھومتی ہیں
ناسٹلجیا
فریم میں قید منظر
ایک پہاڑی یاد
کون جانے!
کلاس فیلو
آخری رقص
مردہ خوابوں کے میوزیم میں
ایک نیم مردہ نظم
خواب میں ہمیشہ بے بسی ہی کیوں ہوتی ہے!
رات کے شہر میں
مجھے صدا کے دائرے نہ دو!
سیاح
ہم دونوں کے بیچ
سوچتا ہوں اک نظم لکھوں
ترتیب
خدا ایک آنسو مرا بارشوں میں بہادے!
منظر کو بدلنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
تم نے اسے کہاں دیکھا ہے!
نظم کے لیے نظم
میں خوابوں کے اشجار بناؤں گا
خواب اور نیند کے درمیان صدائے مرگ
فاتح دشمن کے سامنے نغمۂ جاں گزا
پانی میں گم خواب
گلاس ہاؤس
ایک پرندہ نظم
بہت دور ایک گاؤں
نیند ساحل پر جاگتی سمندر عورت
مجھے اک خواب لکھنا ہے
وال چاکنگ
ہوا موت سے ماورا ہے
کنبدوں کے درمیاں
نیند سے باہر گرا خواب
انہماک جاود
ایک ساحلی دن
سمندر راز داں میرا اگر ہوتا
انیقہ کے لیے ایک نظم
بارش
دکھی لفظوں کی اک نظم
جدائی راستوں اور موسموں کے ساتھ چلتی ہے
بچھڑے ہوؤں کے لیے ایک نظم
پھیلتے فاصلوں کی نظم
دسمبر اب مت آنا!
دسمبر کی آخری نظم
SNAPSHOT
کتبہ
بے خوابی کی آکاس بیل پر کھلی خواہش
بے چہرہ پورٹر یٹ
منظر منظر معدوم ہوتی نظم
ممنوعہ وصیت
آموختہ
گیان بھری خاموشی میں اکلا پا کیوں روتا ہے
ایک بے ارادہ نظم
خاموشی کے جنگل میں اک لا یعنی بات
آرکیا لوجی
آخری کہانی
ابھی اک خواب باقی ہے
پت جھڑ میں یادوں کا ساون
گرد آلودہ راستے میں شام
لفظوں کی انا
شام
زمانے کی آنکھیں غلط کہہ رہی ہیں
کاسنی پھولو کہو!
میں آنکھوں میں چہرے رکھ لیتا ہوں
بچھڑنے سے پہلے
برسوں بعد ایک ملاقات
لڑکپن کتنا اچھا تھا!
خالی پن میں مشورہ
دکھ کا کوئی نام نہیں ہوتا!
سمندر اوک میں بھر لو !
سمندر تھک گیا ہے
ایک طویل کہانی کا کلائمیکس
جن کے سروں پر سورج ہاتھ نہیں رکھتا
انتباہ
صدائے بے صدا
ایک غیر یقینی صورت حال پر رواں تبصرہ
گمشدہ نسلوں کی لوری
ہمیں معلوم تھا
نشان اعزاز
ایک ضبط شدہ پوسٹر
شاعر
دھند کے پار
خواب آشوب
آگ سے مکالمہ
بے چہرہ خواب
اک بے لفظ کہانی کی چند سطریں
محبت کے عجب غم ہیں
تلاش رائگاں
ہمارے خواب کی راہوں میں نیندیں گھومتی ہیں
ناسٹلجیا
فریم میں قید منظر
ایک پہاڑی یاد
کون جانے!
کلاس فیلو
آخری رقص
مردہ خوابوں کے میوزیم میں
ایک نیم مردہ نظم
خواب میں ہمیشہ بے بسی ہی کیوں ہوتی ہے!
رات کے شہر میں
مجھے صدا کے دائرے نہ دو!
سیاح
ہم دونوں کے بیچ
سوچتا ہوں اک نظم لکھوں
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.