سرورق
کلیم احمد عاجز
فہرست
حف آغاز
مقدمہ
نعت
نعت
پیش لفظ
قدم قدم پہ فریب وفا دیا تم نے
وہ محو ناز ہے قدر نیاز کون کرے
لٹی آبروئے محبت جہاں
ہم اگر چہ اپنے منہ سے نہ کسی کا نام لیں گے
شعور آتے ہی تم یہ کمال کر بیٹھے
قدم بڑھاؤ کہ راہ نجات باقی ہے
مجھی سے آج بل کھائے ہوئے ہیں
مجھے اور کیا دے گئے دینے والے
ہم نے بھی محبت کی تھی مگر کچھ لطف محبت پانہ سکے
عشق اک راز ہے افشا کہیں یہ راز نہ ہو
خانماں برباد وننگ زندگی بن کر رہے
بغیر عشق دل پر اعتبار دل نہیں ہوتا
الگ مقام ہیں دونوں کے امتحاں کے لیے
میخانے میں چھوڑ آئے کہ گھر بھول گئے ہم
غم سے بلبل تو جلے سینۂ گلشن نہ جلے
کعبہ کے رو برو حرم دل بنا دیا
شام گلستاں نہ ہو سکا
کام کے قابل ہیں یا بے کام کے
میری بلا سے تابہ قیامت سحر نہ ہو
محبت میں کہیں آسودگی دیکھی نہیں جاتی
ہجر کے خوف کبھی وصل کے ارماں میں رہے
طبیعت قیامت کی خوددار نکلی
ساقی کہیں ہے آج نہ پیمانہ آج ہے
ساقی تھا ابر باد تھا شیشہ تھا مئے تھی جام تھا
ستم کی انتہا بھی اوبت بے دین ہوتی ہے
اکتا کے اب بہت ستم باغباں سے ہم
چھری چلے گی تو نکلے گی آرزو تیری
غنیمت ہے گنہ گاروں کو اتنا بھی صلہ دینا
ادھر کچھ ماسوائے گیسو و شانہ نہیں آتا
نظر جب ااپ کی کچھ مہرباں معلوم ہوتی ہے
لہو سے آستیں جب تر ہوئی دامن بھگوئے ہیں
بت بھی دعویٰ کری خدائی کا
رہ رہ کے یہ کھٹک سی جو خار وطن کی ہے
طبع ستم رسیدہ آمادۂ فغاں ہے
اک رسم نغمہ و لحن ساز رہ گئی
خود ہو کے چاک چاک گریباں ترے لیے
نہ مئے کم ہے نہ اپنے ظرف سے کچھ پیش ہے ساقی
غلط الزام ےہے آلودۂ جرم فغاں ہم ہیں
کب خانہ خرابی میں اپنی تاخیر گوارا کرتے ہیں
ہم بیٹھے ہیں اب درد کی روداد سنانے
نہیں نہیں کہ مجھے جرأت کلام نہیں
فغان بے اثر تک یا اک آہ آتشیں تک ہے
دل سے لگائے بیٹھا ہوں زخم جگر کو میں
کوشش اظہار غم ہائے نہاں جاری ہے
اب کسے حوصلۂ عرض وفا ہوتا ہے
آہ اب منزل تاثیر تک آپہنچی ہے
زباں پر جب کسی کی ذکر عقل و ہوش آتا ہے
پہلے تجربات کو داستاں بنانا ہے
تھرّا دیا پھولوں کی غم انگیز ہنسی نے
بچشم تر سہی لیکن فغاں بلب تو نہیں
ستم بقدر ستم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
تم اس دل غم نادیدہ کو ساماں یہ کیا کیا بخش گئیں
جہاں ہم ہیں فغاں ہے اور کیا ہے
ان کی تعریف کرم کے ماسوا اور کیا رہا
دشمنی آہ میں اور آہ کی تاثیر میں ہے
دل بیتاب تک ہے یا جہاں تم ہو وہاں تک ہے
حشر دنیا میں یونہی مل کے بہم آپ کریں
عشق کی مستی ہو تو ہر غم خوشی بن کر رہے
مرے کاہے امکان نہ جینے کا یقیں ہے
غم عیاں اے دل ناشاد نہ ہونے پائے
جہاں درد سے باخبر ہو نہ جائے
نہ آئیں جو وہ آنے والے نہیں ہیں
مان لیتے ہیں ستم کی تمھیں عادت ہوگی
دل عشق میں آزاد غم دنیا و دیں ہے
پیتا ہوں دل کے جام میں بھر کر شراب عشق
اسیران قفس کی کیا طبیعت میں ابھار آئے
تم تو کرتے ہو دل لگی دل کی
مجھکو یہ خوف ہے کہیں ایسا نہ کیجئے
پھرتی تھی آسماں پہ جو کل چیختی ہوئی
رموز عشق جہاں کو سکھائے جاتے ہیں
کہاں چھوڑ آیا ہم کو دل بے قرار اپنا
عروس مرگ پہ یوں دل نثار میں نے کیا
اس نے مٹایا یوں مجھے خون جگر کے بعد
نظمیں
دیباچہ
الوداع
الوداع
اٹھو رمضان والو رمضاں سے گلے مل لو
چاند رات
عید
عید
آہ صبح گاہی
حمید عظیم آبادی کے پاکستان ہجرت کے وقت
خلیل اک گل کھلا باغ جہاں میں
صبا تیرا انداز کتنا حسیں ہے
قطعہ برائے علی حیدر نیّرؔ مرحوم
کیا تھے ہم اور ہوگئے کیا ہم
بھائی صابر کو ملے بندۂ عاجزؔ کا سلام
ہری مہتا
ہری مہتا
زاہدہ
زاہدہ
کیا دوں تم کو
خالدہؔ میں نے بہت سوچا کہ کیا دوں تم کو
پلا ساقی کہ موسم ولولہ انگیز ہے ساقی
پلا ساقی کہ موسم ولولہ انگیز ہے ساقی
فخر الہدیٰ صاحب نے سینئر ایس۔ پی فضل احمد صاحب کی تبدیلی کے موقع پر لکھوائی تھی
سہرا
دیباچہ
سہرا
فروری کی شب آخر ہے ہوا چلتی ہے
ڈاکٹر اسرار عالم ملک کے لڑکے کی شادی
خوشی سے دوست اور احباب کے چہرے نکھر آئے
ہر پھول کا ہے دل یہ تمنا لیے ہوئے
کس چمن سے آئے ہے کس گلستاں سے آئے ہے؟
نیلماؔ اور اشوک چشم و چراغ
دور سے آیا ہے پیغام بہار اب کے برس
کہو فلک سے ستاروں کا شامیانہ بنائے
یہ کس ملک سے شام آئی ہے آج
نہ کر اے حسیں شام اتنا ٹھٹھول
یہ سن کر حسیں شام گانے لگی
مبارک ہو منظور سہرا تمھیں
نہ کیوں کر ہوں شاداں جناب ولیؔ
مبارک تمھیں یہ نظارے ولیؔ
نغمۂ لالہ وگل
نور برساتی ہوئی تاروں بھری رات ہے آج
ڈاکٹر خالد جو سر سے باندھ کر سہرا چلے
یہ دوستوں کی رات ہے یاروں کی رات ہے
یہ میری لینڈ نہیں شالامار کہیے اسے
شمعوں سے جگمفگائی ہوئی ہر گلی ہے آج
پیش کر کے مؤدبانہ سلام
یہ خوشی سب کو مبارک ہو کہ دنیا ہے یہی
شراب آج تو ساقی نہ رکھ چھپائے ہوئے
ہنسی خوشی کی یہ حسیں رات دیکھتے چلو
نہ کوئی بھید ہے سہرا نہ راز ہے سہرا
اٹھا باد صبا گھونگھٹ اٹھا روئے گلستاں سے
جس طرف جائیے بات پھولوں کی ہے
زلف ہر رنگ کے تاروں سے بنی سہرے کی
سھرا
ادھر ہے باغباں کو فکر دامن گیر پھولوں کی
بزم میں صدر نشیں ہے کوئی نوشہ دیکھو
تو نے نوشاہ جو باندھا ہے جبیں پر سہرا
معجزہ اے خدا یہ تیری خدائی کا ہے
محفل شادی آئے جس کا جی چاہے
ریحان سر سے باندھ کے سہرا جو آئے ہے
یہ کس کی آرزو کرتے ہیں پھول سہرے کے
تمنائیں سراپا بن کے رحمت خواہ جاتی ہیں
مظہر الحق! تم عزیزوں میں تھے پر بات ہے یہ
سہرا شعیب کا ہے کھلائے گئے ہیں پھول
یہ کس کے نکلنے کا ساماں ہے آج
اے نسیم آؤ دعاؤں کا یہ سہرا باندھو
سہرے میں کس چمن کی بہاروں کے پھول ہیں
کسی کے واسطے رحمت کا جب فیضان ہوتا ہے
اے قلم اک نیا عالم تاثیر بنا
کہاں چھپے ہوئے ہو سامنے تو آؤ نسیم
ہر دکھ کی ہر مرض کی دوا لے کے آئی ہے
یہ فروری کی رات ہے موسم یہ ہوائیں
بہار کے موسم آرہے ہیں خزاں کے اب دور جارہے ہیں
پیار کا رستہ ہے یہ، جو پیار کا رستہ چلے
اے صبا چل، ذرا انداز دکھاتی ہوئی چل
افضال کی ہے شادی میرے گھر میں عید ہے
یہ دلہن!
شام غم ختم ہوئی ساز اٹھا آج کی رات
سلیم معینیؔ
حیدر آباد ہم آئے تو کدھر آئے ہیں
دیباچہ
رباعی
متفرق اشعار
متفرق اشعار
یہ مئے تند غم دہر جسے کہتے ہیں
مزاج کج کلہی کو بدل رہے ہیں ہم
سرورق
کلیم احمد عاجز
فہرست
حف آغاز
مقدمہ
نعت
نعت
پیش لفظ
قدم قدم پہ فریب وفا دیا تم نے
وہ محو ناز ہے قدر نیاز کون کرے
لٹی آبروئے محبت جہاں
ہم اگر چہ اپنے منہ سے نہ کسی کا نام لیں گے
شعور آتے ہی تم یہ کمال کر بیٹھے
قدم بڑھاؤ کہ راہ نجات باقی ہے
مجھی سے آج بل کھائے ہوئے ہیں
مجھے اور کیا دے گئے دینے والے
ہم نے بھی محبت کی تھی مگر کچھ لطف محبت پانہ سکے
عشق اک راز ہے افشا کہیں یہ راز نہ ہو
خانماں برباد وننگ زندگی بن کر رہے
بغیر عشق دل پر اعتبار دل نہیں ہوتا
الگ مقام ہیں دونوں کے امتحاں کے لیے
میخانے میں چھوڑ آئے کہ گھر بھول گئے ہم
غم سے بلبل تو جلے سینۂ گلشن نہ جلے
کعبہ کے رو برو حرم دل بنا دیا
شام گلستاں نہ ہو سکا
کام کے قابل ہیں یا بے کام کے
میری بلا سے تابہ قیامت سحر نہ ہو
محبت میں کہیں آسودگی دیکھی نہیں جاتی
ہجر کے خوف کبھی وصل کے ارماں میں رہے
طبیعت قیامت کی خوددار نکلی
ساقی کہیں ہے آج نہ پیمانہ آج ہے
ساقی تھا ابر باد تھا شیشہ تھا مئے تھی جام تھا
ستم کی انتہا بھی اوبت بے دین ہوتی ہے
اکتا کے اب بہت ستم باغباں سے ہم
چھری چلے گی تو نکلے گی آرزو تیری
غنیمت ہے گنہ گاروں کو اتنا بھی صلہ دینا
ادھر کچھ ماسوائے گیسو و شانہ نہیں آتا
نظر جب ااپ کی کچھ مہرباں معلوم ہوتی ہے
لہو سے آستیں جب تر ہوئی دامن بھگوئے ہیں
بت بھی دعویٰ کری خدائی کا
رہ رہ کے یہ کھٹک سی جو خار وطن کی ہے
طبع ستم رسیدہ آمادۂ فغاں ہے
اک رسم نغمہ و لحن ساز رہ گئی
خود ہو کے چاک چاک گریباں ترے لیے
نہ مئے کم ہے نہ اپنے ظرف سے کچھ پیش ہے ساقی
غلط الزام ےہے آلودۂ جرم فغاں ہم ہیں
کب خانہ خرابی میں اپنی تاخیر گوارا کرتے ہیں
ہم بیٹھے ہیں اب درد کی روداد سنانے
نہیں نہیں کہ مجھے جرأت کلام نہیں
فغان بے اثر تک یا اک آہ آتشیں تک ہے
دل سے لگائے بیٹھا ہوں زخم جگر کو میں
کوشش اظہار غم ہائے نہاں جاری ہے
اب کسے حوصلۂ عرض وفا ہوتا ہے
آہ اب منزل تاثیر تک آپہنچی ہے
زباں پر جب کسی کی ذکر عقل و ہوش آتا ہے
پہلے تجربات کو داستاں بنانا ہے
تھرّا دیا پھولوں کی غم انگیز ہنسی نے
بچشم تر سہی لیکن فغاں بلب تو نہیں
ستم بقدر ستم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
تم اس دل غم نادیدہ کو ساماں یہ کیا کیا بخش گئیں
جہاں ہم ہیں فغاں ہے اور کیا ہے
ان کی تعریف کرم کے ماسوا اور کیا رہا
دشمنی آہ میں اور آہ کی تاثیر میں ہے
دل بیتاب تک ہے یا جہاں تم ہو وہاں تک ہے
حشر دنیا میں یونہی مل کے بہم آپ کریں
عشق کی مستی ہو تو ہر غم خوشی بن کر رہے
مرے کاہے امکان نہ جینے کا یقیں ہے
غم عیاں اے دل ناشاد نہ ہونے پائے
جہاں درد سے باخبر ہو نہ جائے
نہ آئیں جو وہ آنے والے نہیں ہیں
مان لیتے ہیں ستم کی تمھیں عادت ہوگی
دل عشق میں آزاد غم دنیا و دیں ہے
پیتا ہوں دل کے جام میں بھر کر شراب عشق
اسیران قفس کی کیا طبیعت میں ابھار آئے
تم تو کرتے ہو دل لگی دل کی
مجھکو یہ خوف ہے کہیں ایسا نہ کیجئے
پھرتی تھی آسماں پہ جو کل چیختی ہوئی
رموز عشق جہاں کو سکھائے جاتے ہیں
کہاں چھوڑ آیا ہم کو دل بے قرار اپنا
عروس مرگ پہ یوں دل نثار میں نے کیا
اس نے مٹایا یوں مجھے خون جگر کے بعد
نظمیں
دیباچہ
الوداع
الوداع
اٹھو رمضان والو رمضاں سے گلے مل لو
چاند رات
عید
عید
آہ صبح گاہی
حمید عظیم آبادی کے پاکستان ہجرت کے وقت
خلیل اک گل کھلا باغ جہاں میں
صبا تیرا انداز کتنا حسیں ہے
قطعہ برائے علی حیدر نیّرؔ مرحوم
کیا تھے ہم اور ہوگئے کیا ہم
بھائی صابر کو ملے بندۂ عاجزؔ کا سلام
ہری مہتا
ہری مہتا
زاہدہ
زاہدہ
کیا دوں تم کو
خالدہؔ میں نے بہت سوچا کہ کیا دوں تم کو
پلا ساقی کہ موسم ولولہ انگیز ہے ساقی
پلا ساقی کہ موسم ولولہ انگیز ہے ساقی
فخر الہدیٰ صاحب نے سینئر ایس۔ پی فضل احمد صاحب کی تبدیلی کے موقع پر لکھوائی تھی
سہرا
دیباچہ
سہرا
فروری کی شب آخر ہے ہوا چلتی ہے
ڈاکٹر اسرار عالم ملک کے لڑکے کی شادی
خوشی سے دوست اور احباب کے چہرے نکھر آئے
ہر پھول کا ہے دل یہ تمنا لیے ہوئے
کس چمن سے آئے ہے کس گلستاں سے آئے ہے؟
نیلماؔ اور اشوک چشم و چراغ
دور سے آیا ہے پیغام بہار اب کے برس
کہو فلک سے ستاروں کا شامیانہ بنائے
یہ کس ملک سے شام آئی ہے آج
نہ کر اے حسیں شام اتنا ٹھٹھول
یہ سن کر حسیں شام گانے لگی
مبارک ہو منظور سہرا تمھیں
نہ کیوں کر ہوں شاداں جناب ولیؔ
مبارک تمھیں یہ نظارے ولیؔ
نغمۂ لالہ وگل
نور برساتی ہوئی تاروں بھری رات ہے آج
ڈاکٹر خالد جو سر سے باندھ کر سہرا چلے
یہ دوستوں کی رات ہے یاروں کی رات ہے
یہ میری لینڈ نہیں شالامار کہیے اسے
شمعوں سے جگمفگائی ہوئی ہر گلی ہے آج
پیش کر کے مؤدبانہ سلام
یہ خوشی سب کو مبارک ہو کہ دنیا ہے یہی
شراب آج تو ساقی نہ رکھ چھپائے ہوئے
ہنسی خوشی کی یہ حسیں رات دیکھتے چلو
نہ کوئی بھید ہے سہرا نہ راز ہے سہرا
اٹھا باد صبا گھونگھٹ اٹھا روئے گلستاں سے
جس طرف جائیے بات پھولوں کی ہے
زلف ہر رنگ کے تاروں سے بنی سہرے کی
سھرا
ادھر ہے باغباں کو فکر دامن گیر پھولوں کی
بزم میں صدر نشیں ہے کوئی نوشہ دیکھو
تو نے نوشاہ جو باندھا ہے جبیں پر سہرا
معجزہ اے خدا یہ تیری خدائی کا ہے
محفل شادی آئے جس کا جی چاہے
ریحان سر سے باندھ کے سہرا جو آئے ہے
یہ کس کی آرزو کرتے ہیں پھول سہرے کے
تمنائیں سراپا بن کے رحمت خواہ جاتی ہیں
مظہر الحق! تم عزیزوں میں تھے پر بات ہے یہ
سہرا شعیب کا ہے کھلائے گئے ہیں پھول
یہ کس کے نکلنے کا ساماں ہے آج
اے نسیم آؤ دعاؤں کا یہ سہرا باندھو
سہرے میں کس چمن کی بہاروں کے پھول ہیں
کسی کے واسطے رحمت کا جب فیضان ہوتا ہے
اے قلم اک نیا عالم تاثیر بنا
کہاں چھپے ہوئے ہو سامنے تو آؤ نسیم
ہر دکھ کی ہر مرض کی دوا لے کے آئی ہے
یہ فروری کی رات ہے موسم یہ ہوائیں
بہار کے موسم آرہے ہیں خزاں کے اب دور جارہے ہیں
پیار کا رستہ ہے یہ، جو پیار کا رستہ چلے
اے صبا چل، ذرا انداز دکھاتی ہوئی چل
افضال کی ہے شادی میرے گھر میں عید ہے
یہ دلہن!
شام غم ختم ہوئی ساز اٹھا آج کی رات
سلیم معینیؔ
حیدر آباد ہم آئے تو کدھر آئے ہیں
دیباچہ
رباعی
متفرق اشعار
متفرق اشعار
یہ مئے تند غم دہر جسے کہتے ہیں
مزاج کج کلہی کو بدل رہے ہیں ہم
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔