انتساب
ہندی گورکھپوری
تعارف
بغاوت کا نعرہ
غلامی میں لطف جوانی کہاں؟
مادر ہندو ستاں
سیتزۂ کار
پابند سلاسل
بہار غلام کی نظر میں
مجاہد وطن
مزدور بیچارہ
تعمیر نو
مقام عمل
لوٹ لو
آجا ہمری اور
امن کا ترانہ
بند کرو یہ فتنے
رنگ تباہی آہ نہ پوچھ
اپنی رہ پہچان
رجب اور راؤ
جاگا اجیارا
اب سمے ملن کا آیا
سویرا
آزادی کا پھل
ہم سپاہی وطن کے وفا دار ہیں
مسلمان اور ہندوستان
مہاتما کی روشنی
پیش لفظ
آج بھی
آنے بھی دو
میں باغی ہوں نظام زندگی کا
عزم
ولوے
آمد شاعر
شاعر جنگ جو
انقلاب آرہا ہے
ظلمت کے سوا کچھ بھی نہیں
شعر
آؤ چلو اس پار چلیں
سنسار بدلنے والا ہے
اے شہیدان وطن تم کو سلام
اپنا کشمیر جنت نشاں ہے
نئے منصوبہ پر ایک لمحۂ فکریہ
انتباہ
شاعر کا اعلان جنگ
گوا کے شہیدو امر ہو
ہمارا وطن
اردو زباں
ایشیا آج بیدار ہے
قطعات
قطعات کی صورت میں یہ بکھرے ہوئے
مجھے حیات کی رنگینیوں سے کام نہیں
قفس نصیب ہے دل آشیاں سے بیگانہ
کلیسا وحرم صبح وشام کچھ بھی نہیں
حیات مردہ ہے افسردہ تیرا سینا ہے
غریب وبے کس ومظلوم وخستہ کام سہی
بہار ہو کے ستم دیدۂ خزاں ہوں میں
قفس میں سر نگوں نظر یں جھکائے
قدموں پہ یہ آقا کے سلامی کیسی
ہوائے جوش عمل باغ میں چلی ہی نہیں
بساط دہر میں گم ہو کے کھو گیا ہوں میں
نوائے عزم اٹھی جنگ کا پیام اٹھا
بہار باغ مسرت سے کوسوں دور ہوں میں
رباب لطف کے تاروں کو کس نے چھیڑا ہے
یہ چاندنی یہ ستارے یہ کہکشاں یہ قمر
ترے کرم کا ہوں ممنوں ساقی عشرت
گم کردہ راہ غم ہستی ہوں میں
ہنوز منزل انسانیت سے محرومی
سن ! اور رباب مسرت بجانے والے سن
نوائے عزم ہوں میں رزم کا پیامی ہوں
ہے شان جرأت پیکار سر کٹانے میں
عدل نے تخریب کے ہاتھوں سے پھر
جام مے گل رنگ وطرب خیز کو چوموں
کہیں ہے قصرا مارت میں جشن لطف و سرور
جب گندم وجوہی پہ ہے جینے کا مداوا
اٹھو حیات کا نقشہ بدلنے والا ہے
پھر جنگ کے آثار نظر آتے ہیں
نہ تعلیم وعزت، دولت نہ زر ہے
انتساب
ہندی گورکھپوری
تعارف
بغاوت کا نعرہ
غلامی میں لطف جوانی کہاں؟
مادر ہندو ستاں
سیتزۂ کار
پابند سلاسل
بہار غلام کی نظر میں
مجاہد وطن
مزدور بیچارہ
تعمیر نو
مقام عمل
لوٹ لو
آجا ہمری اور
امن کا ترانہ
بند کرو یہ فتنے
رنگ تباہی آہ نہ پوچھ
اپنی رہ پہچان
رجب اور راؤ
جاگا اجیارا
اب سمے ملن کا آیا
سویرا
آزادی کا پھل
ہم سپاہی وطن کے وفا دار ہیں
مسلمان اور ہندوستان
مہاتما کی روشنی
پیش لفظ
آج بھی
آنے بھی دو
میں باغی ہوں نظام زندگی کا
عزم
ولوے
آمد شاعر
شاعر جنگ جو
انقلاب آرہا ہے
ظلمت کے سوا کچھ بھی نہیں
شعر
آؤ چلو اس پار چلیں
سنسار بدلنے والا ہے
اے شہیدان وطن تم کو سلام
اپنا کشمیر جنت نشاں ہے
نئے منصوبہ پر ایک لمحۂ فکریہ
انتباہ
شاعر کا اعلان جنگ
گوا کے شہیدو امر ہو
ہمارا وطن
اردو زباں
ایشیا آج بیدار ہے
قطعات
قطعات کی صورت میں یہ بکھرے ہوئے
مجھے حیات کی رنگینیوں سے کام نہیں
قفس نصیب ہے دل آشیاں سے بیگانہ
کلیسا وحرم صبح وشام کچھ بھی نہیں
حیات مردہ ہے افسردہ تیرا سینا ہے
غریب وبے کس ومظلوم وخستہ کام سہی
بہار ہو کے ستم دیدۂ خزاں ہوں میں
قفس میں سر نگوں نظر یں جھکائے
قدموں پہ یہ آقا کے سلامی کیسی
ہوائے جوش عمل باغ میں چلی ہی نہیں
بساط دہر میں گم ہو کے کھو گیا ہوں میں
نوائے عزم اٹھی جنگ کا پیام اٹھا
بہار باغ مسرت سے کوسوں دور ہوں میں
رباب لطف کے تاروں کو کس نے چھیڑا ہے
یہ چاندنی یہ ستارے یہ کہکشاں یہ قمر
ترے کرم کا ہوں ممنوں ساقی عشرت
گم کردہ راہ غم ہستی ہوں میں
ہنوز منزل انسانیت سے محرومی
سن ! اور رباب مسرت بجانے والے سن
نوائے عزم ہوں میں رزم کا پیامی ہوں
ہے شان جرأت پیکار سر کٹانے میں
عدل نے تخریب کے ہاتھوں سے پھر
جام مے گل رنگ وطرب خیز کو چوموں
کہیں ہے قصرا مارت میں جشن لطف و سرور
جب گندم وجوہی پہ ہے جینے کا مداوا
اٹھو حیات کا نقشہ بدلنے والا ہے
پھر جنگ کے آثار نظر آتے ہیں
نہ تعلیم وعزت، دولت نہ زر ہے
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔