رائیگاں
آنے والے منصفوں کے نام
رائیگاں
مسیحا
ازل تا ابد
تنہا رات سمندر
کوئی تنہائی سی تنہائی ہے
ہمیں چراغ ہمیں پروانے
آدم وآہن
پشیماں
ایک نظم
خواب ٹوٹنے پر
قرض
ہمزاد
اندھیروں کا راہی
ایک خواہش
تو ایسا کیوں نہیں کرتے
المیہ
دیدہ شنیدہ
سچ کی قیمت
دائرہ
ابدیت
ایک نظم اس کیلئے
پہلی بارش
رتوں کا جادو
وصال
جھوٹ تقدّس رشتوں کا
فاصلہ
لہو کی بوند چاند ہے
اس کا قتل
سچ کی عمر ہے اک لمحہ
مجھے کہنا ہے
بڑے شہر کا دن
یکر نگی
آنکھوں کی لو دلوں کی ضیالے گی ہوا
اک درد خوں کی طرح رگ وپے میں بس گیا
تاحد نظر سونی سڑک جس طرح ناگن کوئی مدہوش پڑی ہو
چپ چاپ سلگتا ہے دیا تم بھی تو دیکھو
کوئی صنم تو ہو کوئی اپنا خدا تو ہو
آہٹ پہ کان درپہ نظر اس طرح نہ تھی
ان نگاہوں کا اگر ساتھ اجالا ہوتا
اس کو پاکربھی اسی کیلئے رونا کیا ہے
ہر قدم پر نارسائی کا تماشہ کیجئے
ربط ہر بزم سے ٹوٹے تیری محفل کے سوا
اس شہر کی گلیوں میں چرچے ہیں مرے دل کے
رات کے سینے پہ اک شمع جلا کر دیکھیں
چھیڑا ذرا صبا نے تو گلنار ہوگئے
کیا کیا لوگ خوشی سے اپنی بکنے پر تیار ہوئے
یہ حسن ہے جھرنوں میں نہ ہے باد چمن میں
جب چھائی گھٹا لہرائی دھنک اک حسن مکمل یاد آیا
جب سے کسی کے رنگ حنا کے بند قبا کے چرچے ہیں
مہتاب سر آب رواں ڈول رہا ہے
یونہی نئ داستاں روز سنائے گی کیا
بازار زندگی میں جمے کیسے اپنا رنگ
تنہائی کے صحراؤں میں دل سوچ رہا ہے
روز کہاں سے کوئی نیا پن اپنے آپ میں لائینگے
برف سورج میں سمندر میں بیاباں دیکھا
عکس ہر روز کسی غم کا پڑا کرتا ہے
بن کے ہوا دربدر کوچہ بہ کوچہ سہی
جھوٹ کہتے ہو فقط دل میں نہاں ہے کوئی
کس لمحے کے ساتھ اچنبھے اور حیرت کی دھول نہیں
جز غم کوئی انعام وفا ہو تو کہیں بھی
کس کھیت پہ برسیں گے لرزتے ہوئے موتی
خواب کے نشے میں تعبیر کو جھٹلاؤں نہیں
دل کے ہردرد نے اشعار میں ڈھلنا چاہا
ہر چہرے کے رنگ کئی ہر رنگ کے سوا سرار
شکریہ کے مستحق ہیں
رائیگاں
آنے والے منصفوں کے نام
رائیگاں
مسیحا
ازل تا ابد
تنہا رات سمندر
کوئی تنہائی سی تنہائی ہے
ہمیں چراغ ہمیں پروانے
آدم وآہن
پشیماں
ایک نظم
خواب ٹوٹنے پر
قرض
ہمزاد
اندھیروں کا راہی
ایک خواہش
تو ایسا کیوں نہیں کرتے
المیہ
دیدہ شنیدہ
سچ کی قیمت
دائرہ
ابدیت
ایک نظم اس کیلئے
پہلی بارش
رتوں کا جادو
وصال
جھوٹ تقدّس رشتوں کا
فاصلہ
لہو کی بوند چاند ہے
اس کا قتل
سچ کی عمر ہے اک لمحہ
مجھے کہنا ہے
بڑے شہر کا دن
یکر نگی
آنکھوں کی لو دلوں کی ضیالے گی ہوا
اک درد خوں کی طرح رگ وپے میں بس گیا
تاحد نظر سونی سڑک جس طرح ناگن کوئی مدہوش پڑی ہو
چپ چاپ سلگتا ہے دیا تم بھی تو دیکھو
کوئی صنم تو ہو کوئی اپنا خدا تو ہو
آہٹ پہ کان درپہ نظر اس طرح نہ تھی
ان نگاہوں کا اگر ساتھ اجالا ہوتا
اس کو پاکربھی اسی کیلئے رونا کیا ہے
ہر قدم پر نارسائی کا تماشہ کیجئے
ربط ہر بزم سے ٹوٹے تیری محفل کے سوا
اس شہر کی گلیوں میں چرچے ہیں مرے دل کے
رات کے سینے پہ اک شمع جلا کر دیکھیں
چھیڑا ذرا صبا نے تو گلنار ہوگئے
کیا کیا لوگ خوشی سے اپنی بکنے پر تیار ہوئے
یہ حسن ہے جھرنوں میں نہ ہے باد چمن میں
جب چھائی گھٹا لہرائی دھنک اک حسن مکمل یاد آیا
جب سے کسی کے رنگ حنا کے بند قبا کے چرچے ہیں
مہتاب سر آب رواں ڈول رہا ہے
یونہی نئ داستاں روز سنائے گی کیا
بازار زندگی میں جمے کیسے اپنا رنگ
تنہائی کے صحراؤں میں دل سوچ رہا ہے
روز کہاں سے کوئی نیا پن اپنے آپ میں لائینگے
برف سورج میں سمندر میں بیاباں دیکھا
عکس ہر روز کسی غم کا پڑا کرتا ہے
بن کے ہوا دربدر کوچہ بہ کوچہ سہی
جھوٹ کہتے ہو فقط دل میں نہاں ہے کوئی
کس لمحے کے ساتھ اچنبھے اور حیرت کی دھول نہیں
جز غم کوئی انعام وفا ہو تو کہیں بھی
کس کھیت پہ برسیں گے لرزتے ہوئے موتی
خواب کے نشے میں تعبیر کو جھٹلاؤں نہیں
دل کے ہردرد نے اشعار میں ڈھلنا چاہا
ہر چہرے کے رنگ کئی ہر رنگ کے سوا سرار
شکریہ کے مستحق ہیں
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.