انتساب
ترتیب
زمانوں میں سفر کرتی شاعری
جدید نظم اور فہیم شناس کاظمی
من ہستم پس ہستم
نظم اور میں
حمد
اسم اعظم
آگ معبد سے نکل آئی ہے
صبر کی چادر تہہ کردی
ہر عہد کے عمر وعیار کے نام
محبت میں ہر اک جلدی میں ہوتا ہے
محبت کے روشن ساحل پر
چاند کے ساتھ کہیں چلتے ہیں
شب گردوں کے لیے اک نظم
درد بارش اور موت
تاریخ، آج اور نظم
دیر ہوگئی
ایک خواجہ سرا کا نوحہ
قصہ تمام
خواب کوئی پناہ دیتا نہیں
آہستہ سے گزرو
ناممکن کا دکھ
ہم بھی کتنے پاگل ہیں
مسافر
خواب گر لڑکی
ارتقا
ہارٹ اٹیک
ترک تعلق
مجھے کون بلاتا رہتا ہے
گرتا ہوا آسماں
خامشی گیت بنتی رہتی ہے۔۔
پھر کچھ بھی یاد نہیں رہتا
سمندر کی آدائیں سیکھ لینا
تمھارے گھلتی جاتی ہیں
اب تو کچھ بھی یاد نہیں
کیا تم گیت سنا سکتی ہو
اب رات ڈھل رہی ہے
خواب جو نسلیں نگل گیا
وصیت یاد تھی ہم کو
شیر شاہ کراچی میں ڈھلتی شام
روز تماشا ہوتا ہے
مہکتی یاد
سب کھیل تماشا ختم ہوا
ہم اور طرح کے شاعر تھے
رات آواز کے دریا میں
جو دھول ہوئے
دل سمندر کو یاد کرتا ہے
ابھی سب راستے میں ہیں
زندگی رکتی نہیں
سلیقہ اس کو آتا ہے
ساحلوں کو بھول جاؤ
بے بسی گیت بنتی رہتی ہے
خوش نہیں آئی یہ تنہائی ہمیں
یہ لوگ کیا ہیں
مائے ہم کو کون بتائے
مائے رات ہوئی جاتی ہے
محبت بھی اذیت ہے
اسٹوپڈ
سمندر خان ہنستا ہے
دل یزداں میں
ہر دائرے سے دور نکلو
بارش برسی
اے وہ۔۔۔۔۔
پر مشقت عمر کا حاصل
بھول جاتا ہوں میں
ہر ایک مسافر ہے
نصیحت
ایسا ہوتا ہے
خانہ بدوش
آئینہ دیکھتے ہو
دل مرا
ایک پرانی کہانی
تھر۔۔۔ اک تاثر
میں مر جاتا تو اچھا تھا
اے مبارز طلب۔۔۔۔۔
جس نے ترتیب سے کبھی نہ لکھا
شیر دریا کی پیاس کے نام
سورج نفرت سے گھورتا ہے
تمھاری نیند
وہ اور میں
اور مسافر مرجاتے ہیں
ہے ابد یہی ہے ازل یہی
یہ گھاس نہیں اگتی
اندھی گلی
الف لیلہ یہ نہیں
رات کے زینے پر بیٹھی تاریخ
سبز رتوں میں قدیم گھروں کی خوشبو
زندگی سے مکالمہ
سانس اب سانپ ہوئی جاتی ہے
اسے کہتا ہوں
تاریخ بریدہ مستقبل کی نظم
یاد کے نیلے ساحل پر
خوش نما زندگی لح سرحد پر
الہام
خواہشوں میں گم لوگ
سرمئی شام سی لڑکی
مجھے اس نے جنما تھا
محبت! خواب۔۔۔۔
مسئلہ
تری آنکھیں سمندر ہیں
خود کشی کے پُل پر
رلّی جیسا وجود ہے میرا
آنکھیں جھانکتی ہیں دور تک
سار باں
اب جہاں زاد کوئی گیت نہیں گا سکتی
لا بھی ہے ایک گماں
چل چلیں اور کہیں
اپنے بابا کے لیے ایک نظم
سانحہ
راہداری میں گونجتی نظم
امیر علی ٹھگ کی خدمت میں
علی بابا کوئی سم سم
سمندر جاگتا ہے
ہم کس شام کے خالی ورق پر نظم لکھیں
ہم سفر
داستانوں سے رات نکلی ہے
نیا عہد نامہ
عظمیٰ کے لیے ایک نظم
تمھارے لیے ایک نظم
شعور
ایک منظر
وجودیت
ادراک
غنیمت ہے
ڈریکو لاکلچر
نیا حاتم طائی
محبت
اور خدا خاموش تھا
حادثہ
خواب بکھرنے سے کچھ پہلے
آخر کیوں۔۔؟
بھگت سنگھ کے نام
دلّی کی شام
آل تیمور۔۔۔یہ قصہ کیا ہے۔۔۔؟
صدائیں گم نہیں ہوتیں
اک زندگی اک فسانہ
کوئی بادل سی لڑکی
تکلم دل کے منبر پہ
عبد اللہ شاہ غازی کے مزار پر
گلیوں میں موت رقص کرتی ہے
ہمارے شجرے بکھر گئے ہیں
وجود
زمانہ تم کو بلا رہا ہے
زندگی غیر شاعرانہ ہے
درندے اور شیطان لوٹ آتے ہیں
فصیلوں سے اُدھر
زندگی نامہ
ان سائیڈ فلیپ
بیک فلیپ
انتساب
ترتیب
زمانوں میں سفر کرتی شاعری
جدید نظم اور فہیم شناس کاظمی
من ہستم پس ہستم
نظم اور میں
حمد
اسم اعظم
آگ معبد سے نکل آئی ہے
صبر کی چادر تہہ کردی
ہر عہد کے عمر وعیار کے نام
محبت میں ہر اک جلدی میں ہوتا ہے
محبت کے روشن ساحل پر
چاند کے ساتھ کہیں چلتے ہیں
شب گردوں کے لیے اک نظم
درد بارش اور موت
تاریخ، آج اور نظم
دیر ہوگئی
ایک خواجہ سرا کا نوحہ
قصہ تمام
خواب کوئی پناہ دیتا نہیں
آہستہ سے گزرو
ناممکن کا دکھ
ہم بھی کتنے پاگل ہیں
مسافر
خواب گر لڑکی
ارتقا
ہارٹ اٹیک
ترک تعلق
مجھے کون بلاتا رہتا ہے
گرتا ہوا آسماں
خامشی گیت بنتی رہتی ہے۔۔
پھر کچھ بھی یاد نہیں رہتا
سمندر کی آدائیں سیکھ لینا
تمھارے گھلتی جاتی ہیں
اب تو کچھ بھی یاد نہیں
کیا تم گیت سنا سکتی ہو
اب رات ڈھل رہی ہے
خواب جو نسلیں نگل گیا
وصیت یاد تھی ہم کو
شیر شاہ کراچی میں ڈھلتی شام
روز تماشا ہوتا ہے
مہکتی یاد
سب کھیل تماشا ختم ہوا
ہم اور طرح کے شاعر تھے
رات آواز کے دریا میں
جو دھول ہوئے
دل سمندر کو یاد کرتا ہے
ابھی سب راستے میں ہیں
زندگی رکتی نہیں
سلیقہ اس کو آتا ہے
ساحلوں کو بھول جاؤ
بے بسی گیت بنتی رہتی ہے
خوش نہیں آئی یہ تنہائی ہمیں
یہ لوگ کیا ہیں
مائے ہم کو کون بتائے
مائے رات ہوئی جاتی ہے
محبت بھی اذیت ہے
اسٹوپڈ
سمندر خان ہنستا ہے
دل یزداں میں
ہر دائرے سے دور نکلو
بارش برسی
اے وہ۔۔۔۔۔
پر مشقت عمر کا حاصل
بھول جاتا ہوں میں
ہر ایک مسافر ہے
نصیحت
ایسا ہوتا ہے
خانہ بدوش
آئینہ دیکھتے ہو
دل مرا
ایک پرانی کہانی
تھر۔۔۔ اک تاثر
میں مر جاتا تو اچھا تھا
اے مبارز طلب۔۔۔۔۔
جس نے ترتیب سے کبھی نہ لکھا
شیر دریا کی پیاس کے نام
سورج نفرت سے گھورتا ہے
تمھاری نیند
وہ اور میں
اور مسافر مرجاتے ہیں
ہے ابد یہی ہے ازل یہی
یہ گھاس نہیں اگتی
اندھی گلی
الف لیلہ یہ نہیں
رات کے زینے پر بیٹھی تاریخ
سبز رتوں میں قدیم گھروں کی خوشبو
زندگی سے مکالمہ
سانس اب سانپ ہوئی جاتی ہے
اسے کہتا ہوں
تاریخ بریدہ مستقبل کی نظم
یاد کے نیلے ساحل پر
خوش نما زندگی لح سرحد پر
الہام
خواہشوں میں گم لوگ
سرمئی شام سی لڑکی
مجھے اس نے جنما تھا
محبت! خواب۔۔۔۔
مسئلہ
تری آنکھیں سمندر ہیں
خود کشی کے پُل پر
رلّی جیسا وجود ہے میرا
آنکھیں جھانکتی ہیں دور تک
سار باں
اب جہاں زاد کوئی گیت نہیں گا سکتی
لا بھی ہے ایک گماں
چل چلیں اور کہیں
اپنے بابا کے لیے ایک نظم
سانحہ
راہداری میں گونجتی نظم
امیر علی ٹھگ کی خدمت میں
علی بابا کوئی سم سم
سمندر جاگتا ہے
ہم کس شام کے خالی ورق پر نظم لکھیں
ہم سفر
داستانوں سے رات نکلی ہے
نیا عہد نامہ
عظمیٰ کے لیے ایک نظم
تمھارے لیے ایک نظم
شعور
ایک منظر
وجودیت
ادراک
غنیمت ہے
ڈریکو لاکلچر
نیا حاتم طائی
محبت
اور خدا خاموش تھا
حادثہ
خواب بکھرنے سے کچھ پہلے
آخر کیوں۔۔؟
بھگت سنگھ کے نام
دلّی کی شام
آل تیمور۔۔۔یہ قصہ کیا ہے۔۔۔؟
صدائیں گم نہیں ہوتیں
اک زندگی اک فسانہ
کوئی بادل سی لڑکی
تکلم دل کے منبر پہ
عبد اللہ شاہ غازی کے مزار پر
گلیوں میں موت رقص کرتی ہے
ہمارے شجرے بکھر گئے ہیں
وجود
زمانہ تم کو بلا رہا ہے
زندگی غیر شاعرانہ ہے
درندے اور شیطان لوٹ آتے ہیں
فصیلوں سے اُدھر
زندگی نامہ
ان سائیڈ فلیپ
بیک فلیپ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.