پیش لفظ
فہرست
محمد علوی کی شاعری اور احساس کا دوسرا پن
خالی مکان1963 ء
نظمیں
خالی مکان
تلاش
انتظار
دستک
تھکن
رد عمل
شکست
تنبیہہ
ایک شام مسجد میں
پربت
ابو الہول
واپسی
ہواؤں کے گھر
ایک اور برادن
آگے مت سوچو
ایک نظم
چاندنی
شہرت
رات اور چاند ستارے
خواب کا جزیرہ
نیند کا شہر
ہوا
دو دن
آوازیں
مجرم
اسٹیشن پر
نوحہ
جدائی کا غم
جرم وسزا
کا گا
تنہائی
وہ
پنچھی اور موجیں
ایک بچہ
میرا منا
گڑیوں کا بیاہ
علاج غم
انتقام
دھوپ
رستے میں اک گاؤں
موت
میرا دشمن
مشورہ
خدا
ایک سفر میں
تخلیق
امید
گونگی
شام کا منظر
پگڈنڈی
قرب وبعد
گگارین کے نام
قرب و بعد
اتفاق
بوڑھا آدمی
گھر
بستیاں
غزلیں
باتیں کہی کہی سی ہیں
سر سے گھٹنوں تک لہرائے رہتے ہیں
آیا ہے ایک شخص عجب آن بان کا
نیند راتوں کی اڑا دیتے ہیں
ایسا ہوا نہیں ہے، پر ایسا نہ ہو کہیں
سچ ہے کہ وہ برا تھا ہر اک سے لڑا کیا !
رات کا پہلا پہر ہے سور ہو
سوچتے رہتے ہیں اکثر رات میں
روشنی کچھ تو ملے جنگل میں
پتے پتے پہ ہے تحریر فسانہ گل کا
رات بیمار ستاروں سے بھری رہتی ہے
کل رات سونی چھت پہ عجب سانحہ ہوا
خواب میں ایک مکاں دیکھا تھا
کس لیے ہے یہ زندگی کچھ سوچ
نجانے دل کہاں رہنے لگا ہے
ایسے سیلاب اٹھے دریا میں
شور ساحل کا سمندر میں نہ تھا
گھر سے باہر کس بلا کا شور تھا
منہ زبانی قرآن پڑھتے تھے
سکھانے بال ہی کوٹھے پہ آگئے ہوتے
رات ہے ٹھنڈی تاروں میں
اب مرے دل میں کوئی تیر نہیں
رات بھر پی کے لڑکھڑا تے رہو
اٹھتے ہوئے قدموں کی دھمک آنے لگی ہے
رات کے منہ پر اجالا چاہئے
اشعار
نظمیں
آخری دن کی تلاش1968 ء
آخری دن کی تلاش
مجھے ان جزیروں میں لے جاؤ
ابن مریم
مچھلیاں کون کھا گیا
ایک منظر
کون
سورج
رات آرہی ہے!
نیند آئے تو
نیا دن
ہوا سرد ہے
چھاؤں
ریت
یکم جنوری
پہلا خدا
ادھر نہ آؤ
جھوٹ
پوسٹر
یہ سب کیا تھا
خوف ناک کمرہ
نئے سال کا سورج
چور ہوا
شاک
ایک نظم
ایک نظم
ایک نظم
مچھلی کی بو
اودے پور پیلیس
کبیرے
محی بنا کر
نیند
ایک بری خبر
ایک رات بارش کی
بائیں آنکھ میں تل والے کی زبانی
تحفہ
ایک نظم
خدا
عجیب خواہش
یادیں
اچانک تری یاد کا سلسلہ
غزلیں
برسوں گھسا پٹا ہوا دروازہ چھوڑ کر
گلی میں کھڑے ہیں کپٹ جھوٹ چھل
کل رات جگمگاتا ہوا چاند دیکھ کر
خرابے میں تنہائی کے کیوں پھروں
اس کی بات کا پاؤں نہ سر
زمین لوگوں سے ڈر گئی ہے
وہ میرے ساتھ آنے پہ تیار ہو گیا
اک اک مکان کہتا ہے اپنے مکین سے
ساتویں منزل سے کودا چاہئے
شریفے کے درختوں میں چھپا گھر دیکھ لیتا ہوں
شعر تو سب کہتے ہیں کیا ہے
دیکھ دریا میں پڑا ہے آسماں
کوئی بینڈ باجا سا کانوں میں تھا
دن بھر کے دہکتے ہوئے سورج سے لڑا ہوں
میں اپنے آپ سے ڈرنے لگا تھا
دن اک کے بعد ایک گزرتے ہوئے بھی دیکھ
نظمیں
تیسری کتاب1978 ء
صبح
دوپہر
شام
رات
بڑے بڑے پتھروں کو چن کر
جگمگ جگمگ کرتی لڑکی
میرے سامنے
کنارے پہ بھیگی ہوئی ریت ہے
کبھی کبھی
پاگل
خدا کہاں ہے
خدا
میں اور تو
مگر میں خدا سے کہوں گا
مٹی کا شیر
کانچ کی گڑیا
چابی کا بھالو
کاٹھ کا گھوڑا
کھلونے
وہ دن کتنے اچھے تھے
ڈریکولا
فرنکٹائن
ولف مین
نیا سال
صبح کی نشاندہی
مشورہ
ایر ہوسٹیس
خوش خبری
رات کے جنگل میں
ایسا ہوا
دن بارش کے
بڑا جاہل
خوف
گھوڑے پر اک لاش
خواب صحراؤں کے
چاند پر
خلل
خیالوں کے سمندر میں
یہ تتلی میری ہے
قبرستان میں
خلل
تیسری آنکھ
ویل کم
گندے خواب
کہاں دفن ہے وہ
ہوا کی دستک
ڈوبنے سے پہلے
نئی نسل
چیل کا سایا
میرا دشمن
نیا سال
اب جدھر بھی جاتے ہیں
غزلیں
دھوپ میں شجر چمکے
چاک کر لو اگر گر بیاں ہے
اب کے برسات میں پانی آئے
ہوا چلی تو مرے جسم نے کہا مجھ کو
اسے نہ دیکھ کے دیکھا تو کیا ملا مجھ کو
بنا برغے کے پر جھٹکتی ہیں
عجب خوف سا دل پہ چھا جائے گا
دھوپ میں سب رنگ گہرے ہوگئے
ہر اک دل میں اسی کی آرزو ہے
کتنا حسین تھا تو کبھی کچھ خیال کر
یقین کیسے دلاؤں کہ تجھ پہ مرتا ہوں
تھوہڑ کی شاخوں پر پھول گلابوں کے
میں نوحہ گر ہوں بھٹکتے ہوئے قبیلوں کا
یا ر آج میں نے بھی اک کمال کرنا ہے
رات ملی، تنہائی ملی اور جام ملا
ابھی تو اور بھی دن بارشوں کے آنے تھے
سفر میں سوچتے رہتے ہیں چھاؤں آئے کہیں
پتھروں میں تو نہیں تھا پر ترا سایا تو تھا
اے میرے خدا وندہ
گرہ میں رشوت کا مال رکھیے
تھوڑی سردی ذرا سا نزلہ ہے
ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں
دکھ کا احساس نہ مارا جائے
سایہ سایہ راہ میں بکھرا ہوا
سمندر جہازوں سے محروم تھے
ادھر رہا ہوں ادھر رہا ہوں
لوگ سڑکوں پہ کا رخانوں میں
نہ تھا آسماں کا سرا دور تک
نہ ہو کچھ اور لیکن جان تو ہے
شانتی کی دکانیں کھولی ہیں
نہ تم ہوئے ہو نہ ہم ہوئے ہیں
دن میں پریاں کیوں آتی ہیں
شگن لے کر نہ کیوں گھر سے چلا میں
عجب انجان لفظوں سے بھری ہے
چلی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا شام کی
پڑھ کے حیراں ہوں خبر اخبار میں
پہاڑیوں پہ ٹھہرتا ہوا سا منظر تھا
دروازے پر پنجرے میں طوطا ہوگا
ابھی رویا ، ابھی ہنسنے لگا ہوں
پکارتا ہوں پڑا ریگ زار میں اب بھی
یونہی ہم پر سب کے احساں ہیں بہت
جاتی ہوئی لڑکی کو صدا دینا چاہئیے
عجب نہیں کہ پھر اک بار میں بدل جاؤں
مرنے کی جی میں آئے تو رستہ دکھائی دے
بھید کیوں کھلتا نہیں دیوار و در میں کون ہے
جاتے جاتے دیکھنا پتھر میں جاں رکھ جاؤں گا
خونی آنکھ ستاروں کی
ایسا ویسا کیسا ہے
رات پڑے گھر جانا ہے
ایک سے اک حسین ہے چہرا
پڑے ہیں گھر میں اٹھانہ جائے
بھائی مرے گھر ساتھ نہ لے
کہاں رکھا ہے باسی مال کل کا
نئی نظمیں کہاں سے لاؤں گا میں
میں اپنا نام ترے جسم پر لکھا دیکھوں
تیسری آنکھ کھلے گی تو دکھائی دے گا
یکہ الٹ کے رہ گیا، گھوڑا بھڑک گیا
آنکھ میں دہشت نہ تھی، ہاتھ میں خنجر نہ تھا
زمیں کہیں بھی نہ تھی، چار سو سمندر تھا
آگ پانی سے ڈرتا ہوا میں ہی تھا!
ادھر ادھر کسی انجان دہگزر میں ہوں
اوروں کے گھر جلا کے قیامت نہ کر سکا
ہوا جنگلوں میں گزر ریل کا
اندھیروں میں سمندر بولتے ہیں
بھول کر بھی نہ پھر ملے گا تو!
پرندے سر پر دکھائی دیں گے
کبھی تو ایسا بھی ہو راہ بھول جاؤں میں
یہ آنکھ ہے تو اسے ایسی اب جلامل جائے
اور کوئی چارانہ تھا اور کوئی صورت نہ تھی
چاند کی کگر روشن
یوں تو کم کم تھی محبت اس کی
کچھ تو اس دل کی سزا دی جائے
اور بازار سے کیا لے جاؤں
اداس ہے دن ہنسا کے دیکھیں
ایک آنکھ سے کافی ہے
وہ دن کتنا اچھا تھا
ہوئی رات، میں اپنے اندر گرا
پرندے اڑے پھڑ پھڑاتے ہوئے
اب نہ غالب سے شکایت ہے نہ شکوہ میرؔ کا
نئی نظمیں کہا کرے کوئی
کیا کہتے کیا جی میں تھا
چوتھا آسمان1991 ء
نظمیں
پیش لفظ
پیشکش
بخشش
میرا نام
چوتھا آسمان
گھر جھروکہ دپہر
گرمی
ایک شام باغ میں
دونوں کا دوست
مقبرہ
ایک نظم
کشمیر ان نومبر
مقدس باپ
کتبہ
کوئی شام ایسی بھی آئے
چھتری دل کا ایک سپاہی
شرلاک ہومز
بند گھر اور چڑیا
موت
بھاگلپور
جنم دن
ایک نظم
التجا
التجا
ایک نظم
مزید ہتک
ایک رات بال روم میں
بھوت
آج بھی ایسا ہی ہوگا
شہر کا جادو
میز بان ساحل
روٹی
یہ رات اور دن
فروری
ہم زاد
دو یادیں
تنہائی
دلی
بھوپال
چور
ایک تصویر تجریدی
وقت جہاں رک جاتا ہے
ایک نظم
حادثہ
ایک نظم
ایک نظم
ایک نظم
ایک نظم
انتظار اور ابھی
شہر
ٹرین
صبح
دوپہر
شام
دعا
رات
ایک نظم
جانوروں سے معذرت کے ساتھ(چھ نظمیں)
ذکر اس پری وش کا
نیند کیوں رات بھر
آدمی کوئی ہمارا
مانگے ہے پھر کسی کو
ہرچند کہیں کہ
لرزتا ہے مرا دل
رو میں ہے رخش عمر
آئے ہے بے کسی عشق پہ
نیند اس کی ہے
ہوئی تاخیر تو
ابن مریم ہوا کرے
ساتویں منزل(چھ نظمیں)
بوڑھوں کا گھر
گھر سے دور
رشوت خوردہائی
آفڑ سکس ٹی
خونی ستر
کلمہ
غزلیں
صبح کی سرخی تری ، شام کے منظر ترے
سنو منہ اندھیرے کوئی بول اٹھا ہے
گھر نے اپنا ہوش سنبھالا دن نکلا
دل کے ساتھ لگا رہتا ہے
نیکھی دھوپ سے کیو ں گھبراؤں
ہر اک جھونکا نکیلا ہو گیا ہے
رہ رہ کے بلاتے ہیں مجھے دور کے منظر
سچ تو یہ ہے کہ گماں ہو ں میں بھی
اس شہر میں کہیں پہ ہمارا مکاں بھی ہو
بہت دور ہے یہ الگ بات ہے
کبھی اپنے اندر اتر کے تو دیکھو
علویؔ یار سویرا ہوگا
دوا کوئی کیا کام لکھوں
سردی میں دن سرد ملا
ہر چند جاگتے ہیں یہ سوئے ہوئے سے ہیں
کھڑکیوں سے جھانک کر گلیوں میں ڈر دیکھا کیے
دور سمندر پار اسے دیکھا میں نے
دن ڈوب گیا رات ہوئی جنگل میں
اچھے شعر کہاں ہوتے ہیں
جگہ جگہ حیرانی بھیج
کیوں نہ مہکیں گلاب آنکھوں میں
سوتے سوتے اچانک گلی ڈر گئی
اٹھی کچھ ایسے بدن کی خوشبو
اچھے دن کب آئیں گے
کبھی تجھ سے ایسا بھی یار انا تھا
دھوپ کی چادر بچھا کر لے گئی
دھوپ نے گذارش کی
اک غزل اور ابھی کہنی ہے
شکن ایک آدھ بستر کے لیے بھی
اندھیرا جس کے سراغ میں ہے
کوئی رشتہ نہ ہو سمندر سے
جنگل جنگل ایک پرندہ رولے گا
بھیگے تھے رات اوس میں پھر بھی سحر گئے
کیوں حال اپنا خراب دیکھوں
سچ کہاں کہتا ہے جانے والا
بجھے بجھے باہر رہتے ہیں
ہمیں ان کا مکاں اچھا لگا ہے
گلوں کے درمیاں اچھی لگی ہیں
غزل آنکھیں ، غزل چہرہ کروں گا
دیر تک دیکھا کیے پھر سوگئے
نئے شہر میں دن بیگانے ہوتے ہیں
تمام منظر کٹا ہوا ہے
لوگ بھی نا آشنا ہیں ، شہر بھی انجان ہے
آنکھوں میں نفرتوں کا سمندر لیے ہوئے
ارادہ ہے کسی جنگل میں جارہوں گا میں
مرا خیال ہے میں پھر یہاں نہ آؤں گا
سرا سردھا ندلی ہے
رات کے تین بجا چاہتے ہیں
مرے نہیں ہو تو مر کے دیکھو
دن یوں گزر رہے ہیں
خوش رہیں گھر میں عورتیں اپنی
کیسے آئے نظر اندھیرے میں
دکھ تو ہر گھر میں جاتا ہے
سوکھے پتوں سے بھر گیا رستہ
اک لڑکا تھا اک لڑکی تھی
محبتیں، الفتیں شکستہ
مقتل میں مے کدے میں کہیں تو ملا کرو
غیر مطبوعہ کلام1994
سان فرانسیسکو
پاگل لڑکی
ننگی لڑکی
تھا سفر شرط
اندھی لڑکی
جل مرنے سے پہلے
یوم آزادی
اچھی خبر
فالج زدہ شہر
فالج زدہ ہاتھ
بدن کا فیصلہ
گھر کی چنتا
ڈی پارچر
یونیورسل اسٹوڈیو
ڈزنی لینڈ
یہ لندن ہے
نیو یارک
بوسٹن
رونے کا مزا
شکا گو
بہت ہونے کا ڈر
وہ کون تھا
الھڑلڑکی
اور پھر یوں ہوگا
ڈپریشن
دوسرا خون
اسے غصہ کیوں آتا ہے
بھائی خدا سے ڈرو
بانجھ عورت اور ٹی وی
مشورہ
وہ کون ہے
اکیلی عورت اور ٹی وی
وسوسے
کش مکش
ایک منظر
جنگ جاری ہے
وقت
آنکھیں
بے چارہ چاند
فوٹو گرافر
بچے کی ہنسی
تحفہ
خزاں
بہت پرانی باتوں کا یاد آنا کیا
جزیروں کو پتہ ہے کیا ہے پانی
کوئی موسم ہو بھلے لگتے تھے
گہری تیز نشیلی خوشبو
پیش لفظ
فہرست
محمد علوی کی شاعری اور احساس کا دوسرا پن
خالی مکان1963 ء
نظمیں
خالی مکان
تلاش
انتظار
دستک
تھکن
رد عمل
شکست
تنبیہہ
ایک شام مسجد میں
پربت
ابو الہول
واپسی
ہواؤں کے گھر
ایک اور برادن
آگے مت سوچو
ایک نظم
چاندنی
شہرت
رات اور چاند ستارے
خواب کا جزیرہ
نیند کا شہر
ہوا
دو دن
آوازیں
مجرم
اسٹیشن پر
نوحہ
جدائی کا غم
جرم وسزا
کا گا
تنہائی
وہ
پنچھی اور موجیں
ایک بچہ
میرا منا
گڑیوں کا بیاہ
علاج غم
انتقام
دھوپ
رستے میں اک گاؤں
موت
میرا دشمن
مشورہ
خدا
ایک سفر میں
تخلیق
امید
گونگی
شام کا منظر
پگڈنڈی
قرب وبعد
گگارین کے نام
قرب و بعد
اتفاق
بوڑھا آدمی
گھر
بستیاں
غزلیں
باتیں کہی کہی سی ہیں
سر سے گھٹنوں تک لہرائے رہتے ہیں
آیا ہے ایک شخص عجب آن بان کا
نیند راتوں کی اڑا دیتے ہیں
ایسا ہوا نہیں ہے، پر ایسا نہ ہو کہیں
سچ ہے کہ وہ برا تھا ہر اک سے لڑا کیا !
رات کا پہلا پہر ہے سور ہو
سوچتے رہتے ہیں اکثر رات میں
روشنی کچھ تو ملے جنگل میں
پتے پتے پہ ہے تحریر فسانہ گل کا
رات بیمار ستاروں سے بھری رہتی ہے
کل رات سونی چھت پہ عجب سانحہ ہوا
خواب میں ایک مکاں دیکھا تھا
کس لیے ہے یہ زندگی کچھ سوچ
نجانے دل کہاں رہنے لگا ہے
ایسے سیلاب اٹھے دریا میں
شور ساحل کا سمندر میں نہ تھا
گھر سے باہر کس بلا کا شور تھا
منہ زبانی قرآن پڑھتے تھے
سکھانے بال ہی کوٹھے پہ آگئے ہوتے
رات ہے ٹھنڈی تاروں میں
اب مرے دل میں کوئی تیر نہیں
رات بھر پی کے لڑکھڑا تے رہو
اٹھتے ہوئے قدموں کی دھمک آنے لگی ہے
رات کے منہ پر اجالا چاہئے
اشعار
نظمیں
آخری دن کی تلاش1968 ء
آخری دن کی تلاش
مجھے ان جزیروں میں لے جاؤ
ابن مریم
مچھلیاں کون کھا گیا
ایک منظر
کون
سورج
رات آرہی ہے!
نیند آئے تو
نیا دن
ہوا سرد ہے
چھاؤں
ریت
یکم جنوری
پہلا خدا
ادھر نہ آؤ
جھوٹ
پوسٹر
یہ سب کیا تھا
خوف ناک کمرہ
نئے سال کا سورج
چور ہوا
شاک
ایک نظم
ایک نظم
ایک نظم
مچھلی کی بو
اودے پور پیلیس
کبیرے
محی بنا کر
نیند
ایک بری خبر
ایک رات بارش کی
بائیں آنکھ میں تل والے کی زبانی
تحفہ
ایک نظم
خدا
عجیب خواہش
یادیں
اچانک تری یاد کا سلسلہ
غزلیں
برسوں گھسا پٹا ہوا دروازہ چھوڑ کر
گلی میں کھڑے ہیں کپٹ جھوٹ چھل
کل رات جگمگاتا ہوا چاند دیکھ کر
خرابے میں تنہائی کے کیوں پھروں
اس کی بات کا پاؤں نہ سر
زمین لوگوں سے ڈر گئی ہے
وہ میرے ساتھ آنے پہ تیار ہو گیا
اک اک مکان کہتا ہے اپنے مکین سے
ساتویں منزل سے کودا چاہئے
شریفے کے درختوں میں چھپا گھر دیکھ لیتا ہوں
شعر تو سب کہتے ہیں کیا ہے
دیکھ دریا میں پڑا ہے آسماں
کوئی بینڈ باجا سا کانوں میں تھا
دن بھر کے دہکتے ہوئے سورج سے لڑا ہوں
میں اپنے آپ سے ڈرنے لگا تھا
دن اک کے بعد ایک گزرتے ہوئے بھی دیکھ
نظمیں
تیسری کتاب1978 ء
صبح
دوپہر
شام
رات
بڑے بڑے پتھروں کو چن کر
جگمگ جگمگ کرتی لڑکی
میرے سامنے
کنارے پہ بھیگی ہوئی ریت ہے
کبھی کبھی
پاگل
خدا کہاں ہے
خدا
میں اور تو
مگر میں خدا سے کہوں گا
مٹی کا شیر
کانچ کی گڑیا
چابی کا بھالو
کاٹھ کا گھوڑا
کھلونے
وہ دن کتنے اچھے تھے
ڈریکولا
فرنکٹائن
ولف مین
نیا سال
صبح کی نشاندہی
مشورہ
ایر ہوسٹیس
خوش خبری
رات کے جنگل میں
ایسا ہوا
دن بارش کے
بڑا جاہل
خوف
گھوڑے پر اک لاش
خواب صحراؤں کے
چاند پر
خلل
خیالوں کے سمندر میں
یہ تتلی میری ہے
قبرستان میں
خلل
تیسری آنکھ
ویل کم
گندے خواب
کہاں دفن ہے وہ
ہوا کی دستک
ڈوبنے سے پہلے
نئی نسل
چیل کا سایا
میرا دشمن
نیا سال
اب جدھر بھی جاتے ہیں
غزلیں
دھوپ میں شجر چمکے
چاک کر لو اگر گر بیاں ہے
اب کے برسات میں پانی آئے
ہوا چلی تو مرے جسم نے کہا مجھ کو
اسے نہ دیکھ کے دیکھا تو کیا ملا مجھ کو
بنا برغے کے پر جھٹکتی ہیں
عجب خوف سا دل پہ چھا جائے گا
دھوپ میں سب رنگ گہرے ہوگئے
ہر اک دل میں اسی کی آرزو ہے
کتنا حسین تھا تو کبھی کچھ خیال کر
یقین کیسے دلاؤں کہ تجھ پہ مرتا ہوں
تھوہڑ کی شاخوں پر پھول گلابوں کے
میں نوحہ گر ہوں بھٹکتے ہوئے قبیلوں کا
یا ر آج میں نے بھی اک کمال کرنا ہے
رات ملی، تنہائی ملی اور جام ملا
ابھی تو اور بھی دن بارشوں کے آنے تھے
سفر میں سوچتے رہتے ہیں چھاؤں آئے کہیں
پتھروں میں تو نہیں تھا پر ترا سایا تو تھا
اے میرے خدا وندہ
گرہ میں رشوت کا مال رکھیے
تھوڑی سردی ذرا سا نزلہ ہے
ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں
دکھ کا احساس نہ مارا جائے
سایہ سایہ راہ میں بکھرا ہوا
سمندر جہازوں سے محروم تھے
ادھر رہا ہوں ادھر رہا ہوں
لوگ سڑکوں پہ کا رخانوں میں
نہ تھا آسماں کا سرا دور تک
نہ ہو کچھ اور لیکن جان تو ہے
شانتی کی دکانیں کھولی ہیں
نہ تم ہوئے ہو نہ ہم ہوئے ہیں
دن میں پریاں کیوں آتی ہیں
شگن لے کر نہ کیوں گھر سے چلا میں
عجب انجان لفظوں سے بھری ہے
چلی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا شام کی
پڑھ کے حیراں ہوں خبر اخبار میں
پہاڑیوں پہ ٹھہرتا ہوا سا منظر تھا
دروازے پر پنجرے میں طوطا ہوگا
ابھی رویا ، ابھی ہنسنے لگا ہوں
پکارتا ہوں پڑا ریگ زار میں اب بھی
یونہی ہم پر سب کے احساں ہیں بہت
جاتی ہوئی لڑکی کو صدا دینا چاہئیے
عجب نہیں کہ پھر اک بار میں بدل جاؤں
مرنے کی جی میں آئے تو رستہ دکھائی دے
بھید کیوں کھلتا نہیں دیوار و در میں کون ہے
جاتے جاتے دیکھنا پتھر میں جاں رکھ جاؤں گا
خونی آنکھ ستاروں کی
ایسا ویسا کیسا ہے
رات پڑے گھر جانا ہے
ایک سے اک حسین ہے چہرا
پڑے ہیں گھر میں اٹھانہ جائے
بھائی مرے گھر ساتھ نہ لے
کہاں رکھا ہے باسی مال کل کا
نئی نظمیں کہاں سے لاؤں گا میں
میں اپنا نام ترے جسم پر لکھا دیکھوں
تیسری آنکھ کھلے گی تو دکھائی دے گا
یکہ الٹ کے رہ گیا، گھوڑا بھڑک گیا
آنکھ میں دہشت نہ تھی، ہاتھ میں خنجر نہ تھا
زمیں کہیں بھی نہ تھی، چار سو سمندر تھا
آگ پانی سے ڈرتا ہوا میں ہی تھا!
ادھر ادھر کسی انجان دہگزر میں ہوں
اوروں کے گھر جلا کے قیامت نہ کر سکا
ہوا جنگلوں میں گزر ریل کا
اندھیروں میں سمندر بولتے ہیں
بھول کر بھی نہ پھر ملے گا تو!
پرندے سر پر دکھائی دیں گے
کبھی تو ایسا بھی ہو راہ بھول جاؤں میں
یہ آنکھ ہے تو اسے ایسی اب جلامل جائے
اور کوئی چارانہ تھا اور کوئی صورت نہ تھی
چاند کی کگر روشن
یوں تو کم کم تھی محبت اس کی
کچھ تو اس دل کی سزا دی جائے
اور بازار سے کیا لے جاؤں
اداس ہے دن ہنسا کے دیکھیں
ایک آنکھ سے کافی ہے
وہ دن کتنا اچھا تھا
ہوئی رات، میں اپنے اندر گرا
پرندے اڑے پھڑ پھڑاتے ہوئے
اب نہ غالب سے شکایت ہے نہ شکوہ میرؔ کا
نئی نظمیں کہا کرے کوئی
کیا کہتے کیا جی میں تھا
چوتھا آسمان1991 ء
نظمیں
پیش لفظ
پیشکش
بخشش
میرا نام
چوتھا آسمان
گھر جھروکہ دپہر
گرمی
ایک شام باغ میں
دونوں کا دوست
مقبرہ
ایک نظم
کشمیر ان نومبر
مقدس باپ
کتبہ
کوئی شام ایسی بھی آئے
چھتری دل کا ایک سپاہی
شرلاک ہومز
بند گھر اور چڑیا
موت
بھاگلپور
جنم دن
ایک نظم
التجا
التجا
ایک نظم
مزید ہتک
ایک رات بال روم میں
بھوت
آج بھی ایسا ہی ہوگا
شہر کا جادو
میز بان ساحل
روٹی
یہ رات اور دن
فروری
ہم زاد
دو یادیں
تنہائی
دلی
بھوپال
چور
ایک تصویر تجریدی
وقت جہاں رک جاتا ہے
ایک نظم
حادثہ
ایک نظم
ایک نظم
ایک نظم
ایک نظم
انتظار اور ابھی
شہر
ٹرین
صبح
دوپہر
شام
دعا
رات
ایک نظم
جانوروں سے معذرت کے ساتھ(چھ نظمیں)
ذکر اس پری وش کا
نیند کیوں رات بھر
آدمی کوئی ہمارا
مانگے ہے پھر کسی کو
ہرچند کہیں کہ
لرزتا ہے مرا دل
رو میں ہے رخش عمر
آئے ہے بے کسی عشق پہ
نیند اس کی ہے
ہوئی تاخیر تو
ابن مریم ہوا کرے
ساتویں منزل(چھ نظمیں)
بوڑھوں کا گھر
گھر سے دور
رشوت خوردہائی
آفڑ سکس ٹی
خونی ستر
کلمہ
غزلیں
صبح کی سرخی تری ، شام کے منظر ترے
سنو منہ اندھیرے کوئی بول اٹھا ہے
گھر نے اپنا ہوش سنبھالا دن نکلا
دل کے ساتھ لگا رہتا ہے
نیکھی دھوپ سے کیو ں گھبراؤں
ہر اک جھونکا نکیلا ہو گیا ہے
رہ رہ کے بلاتے ہیں مجھے دور کے منظر
سچ تو یہ ہے کہ گماں ہو ں میں بھی
اس شہر میں کہیں پہ ہمارا مکاں بھی ہو
بہت دور ہے یہ الگ بات ہے
کبھی اپنے اندر اتر کے تو دیکھو
علویؔ یار سویرا ہوگا
دوا کوئی کیا کام لکھوں
سردی میں دن سرد ملا
ہر چند جاگتے ہیں یہ سوئے ہوئے سے ہیں
کھڑکیوں سے جھانک کر گلیوں میں ڈر دیکھا کیے
دور سمندر پار اسے دیکھا میں نے
دن ڈوب گیا رات ہوئی جنگل میں
اچھے شعر کہاں ہوتے ہیں
جگہ جگہ حیرانی بھیج
کیوں نہ مہکیں گلاب آنکھوں میں
سوتے سوتے اچانک گلی ڈر گئی
اٹھی کچھ ایسے بدن کی خوشبو
اچھے دن کب آئیں گے
کبھی تجھ سے ایسا بھی یار انا تھا
دھوپ کی چادر بچھا کر لے گئی
دھوپ نے گذارش کی
اک غزل اور ابھی کہنی ہے
شکن ایک آدھ بستر کے لیے بھی
اندھیرا جس کے سراغ میں ہے
کوئی رشتہ نہ ہو سمندر سے
جنگل جنگل ایک پرندہ رولے گا
بھیگے تھے رات اوس میں پھر بھی سحر گئے
کیوں حال اپنا خراب دیکھوں
سچ کہاں کہتا ہے جانے والا
بجھے بجھے باہر رہتے ہیں
ہمیں ان کا مکاں اچھا لگا ہے
گلوں کے درمیاں اچھی لگی ہیں
غزل آنکھیں ، غزل چہرہ کروں گا
دیر تک دیکھا کیے پھر سوگئے
نئے شہر میں دن بیگانے ہوتے ہیں
تمام منظر کٹا ہوا ہے
لوگ بھی نا آشنا ہیں ، شہر بھی انجان ہے
آنکھوں میں نفرتوں کا سمندر لیے ہوئے
ارادہ ہے کسی جنگل میں جارہوں گا میں
مرا خیال ہے میں پھر یہاں نہ آؤں گا
سرا سردھا ندلی ہے
رات کے تین بجا چاہتے ہیں
مرے نہیں ہو تو مر کے دیکھو
دن یوں گزر رہے ہیں
خوش رہیں گھر میں عورتیں اپنی
کیسے آئے نظر اندھیرے میں
دکھ تو ہر گھر میں جاتا ہے
سوکھے پتوں سے بھر گیا رستہ
اک لڑکا تھا اک لڑکی تھی
محبتیں، الفتیں شکستہ
مقتل میں مے کدے میں کہیں تو ملا کرو
غیر مطبوعہ کلام1994
سان فرانسیسکو
پاگل لڑکی
ننگی لڑکی
تھا سفر شرط
اندھی لڑکی
جل مرنے سے پہلے
یوم آزادی
اچھی خبر
فالج زدہ شہر
فالج زدہ ہاتھ
بدن کا فیصلہ
گھر کی چنتا
ڈی پارچر
یونیورسل اسٹوڈیو
ڈزنی لینڈ
یہ لندن ہے
نیو یارک
بوسٹن
رونے کا مزا
شکا گو
بہت ہونے کا ڈر
وہ کون تھا
الھڑلڑکی
اور پھر یوں ہوگا
ڈپریشن
دوسرا خون
اسے غصہ کیوں آتا ہے
بھائی خدا سے ڈرو
بانجھ عورت اور ٹی وی
مشورہ
وہ کون ہے
اکیلی عورت اور ٹی وی
وسوسے
کش مکش
ایک منظر
جنگ جاری ہے
وقت
آنکھیں
بے چارہ چاند
فوٹو گرافر
بچے کی ہنسی
تحفہ
خزاں
بہت پرانی باتوں کا یاد آنا کیا
جزیروں کو پتہ ہے کیا ہے پانی
کوئی موسم ہو بھلے لگتے تھے
گہری تیز نشیلی خوشبو
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।