ازل کے روز ہمیں دل تو کیا دیا تونے
فنا خدا کے حضور میں
عشق و ہوس کا فرق مٹایا نہ جائے گا
ردیف الف
ناکامیوں میں ترا تصور جب آگیا
غم مرے دل کے لئے غم کے لئے دل ہونا
جاکر یہاں سے ہم کو واپس نہیں ہے آنا
آپ کے اس سکوت نے مجھ کو عجب مزا دیا
کہیں بھی ہورداشفاق دوستاں نہ رہا
آپ کی اک نگاہ سے نظم جہاں بدل گیا
پردہ دل کو نگاہوں سے اٹھا کر بھو جا
اک اک نفس میں عالم دل کا بدل رہا تھا
جہاں بھر سے نرالا کیوں نہ ہو طرز رقم میرا
بام پر وہ بت برا فگندہ نقاب آہی گیا
تو نے نگاہ ڈال کے انساں بنا دیا
وحشت نے دل کی توڑا پیمانہ زندگی کا
عہد ماضی کی مسرت کا ترانہ بھول جا
رباعی
غضب ہے اے دل ناشاد بخت نار سا ہو کر
ہوئی بیمار پر ہے بھاری رات
ردیف بایئے موحدہ
برق کیا دیتی مرے دل کا جواب
ردیف تائے فوقانی
اب مذاق دل کا یہ معیار ہے تیرے بغیر
کون پھر ہو گا طالب گار جفا میرے بعد
ردیف دال مہملہ
ردیف رائے مہملہ
کروں کچھ تبصرہ پہلے تو میں حالات زنداں پر
اٹھا اور اٹھ کے چھایا آسماں پر
ردیف غ متفرق
کیا کروں اے دل غم سوز نہاں کو دیکھ کر
ردیف لام
خورشید بن کے چمکے گا محشر میں دیکھنا
الفت کسی کی سلسلہ جنباں ہے آجکل
ہے تمہارے شباب کا عالم
ردیف میم
ہوں حقیقت سے بہت دور تمہیں کیا معلوم
ردیف نون
مسلک عشق میں کہئے اسے کیا کہتے ہیں
رات تمام کٹ گئی دوست کے انتظار میں
رنگ لائی خودی کہیں نہ کہیں
ادا کی ہے نماز شوق دل سے با ضوبر سوں
لذت سوز و ساز کیا جانیں
جان غم کش تیرا کہنا کیا کروں
وہ بھی رنگیں شباب بھی رنگیں
رو کر بھی ان کے سامنے سرخرد نہیں
چلو حال دل چل کے انکو سنائیں
جان جانے کا تو ہیں کچھ غم نہیں
جی ہے نڈہال اسی طرح روح میں تازگی نہیں
قفس میں جب خیال خاطر نا شاد کرتے ہیں
وہیں عشق میں سر کو خم دیکھتے ہیں
جہاں میں غم کش آلام روز گار ہوں میں
گریۂ شب سے نکل جاتی ہے کچھ دل کی بھڑاس
ہجر کی راتوں میں کیف بیخودی پاتا ہوں میں
یہ ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی یہ بہاروں کے ہجوم
عشق کی دنیا میں یہ طرفہ ستم تو دیکھئے
کسی کی جستجو ہے اور میں ہوں
دیر و حرم کو چھوڑ کے جائے کہاں کہاں
جناب حسن میں میں کیا کہوں کیا لے کے آیا ہوں
یہی نہیں کہ نشیمن جلائے جاتے ہیں
بغیض سعئی ناممکن کا بھی امکاں سمجھتے ہیں
ایسے بھی وقت ہم پر گذرے ہیں زندگی میں
محبت کو اگر بیگانۂ سود و زیاں کر لوں
ہو گیا حسن یار بے پردہ
متفرق
ردیف واؤ
بجلیاں طور تصور پہ گراتے جاؤ
فنا کے بعد بھی آرام کی صورت کہاں مجھکو
اے دل ایذا طلب اے رتبہ دان آرزو
دے کر فنا کا درس دل بے قرار کو
متفرق اشعار
بہار لالہ دگل کو پریشاں دیکھنے والو
میں وہ لذت آشنائے جور پیہم ہو ں فنا
ردیف ہائے
جلوؤں کی ہے تلاش تو ہستی مٹا کے دیکھ
یہ جذب محبت کی تاثیر نظر آئی
دل نہیں ہے جلوہ گاہ ناز ہے
تبسم کی رعنائیاں کون جانے
ردیف یائے تحتانی
کیوں بیٹھے بٹھائے مفت میں آخر خود کو رسوا کون کرے
مشکل ہوئی ہے اپنی بھی آساں کبھی کبھی
ضعف سے ہے پست ہمت ہر سفر کے سامنے
ناشاد کروگے کہ مجھے شاد کروگے
نظر کا ان کی نشتر جو رگ جاں ہونیوالا ہے
سانس خورشید لب بام ہوئی جاتی ہے
مر کے میت جو مری زیر مزارآئی ہے
دم آخر پتہ دیتی ہیں یہ اکھڑی ہوئی سانسیں
رنگ دیکھے او چشم قاتل کے
زندگی ایسی زندگی نہ ہوئی
جو ہر گھڑی وہ تصور میں مست ناز رہے
وحشت ہے تو پابندی صحرانہ رہیگی
مشتاق نظر کی بیتابی پردے کا اٹھانا کیا جانے
جلوۂ بے کیفئ دنیا سے دل مغموم ہے
یہ کیا کہیں کہ غم میں کیا شان زندگی ہے
عشق میں ہاے کار گر نہ ہوئی
وہ دن گئے کہ کہیں تھے حالت خراب ہے
آمد کا فصل گل کی یہ ساماں ابھی سے ہے
صبح امیری جب جاکر شام غریبی ہوتی ہے
ہوگی یہ آنکھ خوں چکاں آج نہیں تو کل سہی
افتاد پہ یوں افتاد پڑی سب ہنسنا ہنسانا بھول گئے
تم اور دل میں آگ لگا کر چلے گئے
موت سے کچھ تو بات ہوتی ہے
صبا سوئے مزار آئے نہ آئے
اب کی فصل گل میں دہر اتہرا ساماں چاہئیے
راہ تسلیم میں خم سر کو جو کر دیتی ہے
چوٹ پر چوٹ ہم نے کھائی ہے
اسے بھی کھو دیا افسوس میں نے اپنی غفلت سے
گردش فلک کی ہو کہ ہوا انقلاب کی
کسی محفل میں جب ذکر دل ناشاد ہوتا ہے
وہ آجائیں ایسی تو قسمت نہیں ہے
آئیے تو دل کی دنیا کو پریشاں کیجئے
اس لئے اور نکلتی نہیں حسرت میری
دل عشرت طلب میں کیا بتاؤں زندگی کیا ہے
تصور میں بھی ان کے آہ یہ صورت رہی اپنی
نسیت ہے بجلیوں کو وہ مرے آشیاں سے
چمن کو دے کے ترے رخ کی تازگی میں نے
جو اٹھا کر دل بیتاب کا پروا دیکھے
درو پنہاں سوز پیہم، کاوش رنج فراق
پہلے مذاق دید تو پیدا کرے کوئی
خلش کو غم کی دل کا میاب کیا جانے
دل سے فریب جلوۂ جاناں نہ پوچھئے
لڑیں آنکھیں جو چشم سر مگیں سے
ہر نفس دیتا ہے اب موت کا پیغام مجھے
عشق میں یہ بات کچھ دستور ہو کر رہ گئی
تم نے کچھ قدر نہ کی سوختہ سامانوں کی
سر اس درپہ جھکا یا جارہا ہے
تم مل گئے تو جو بھی یہاں خشک و تر میں ہے
زباں سے کہنے والے بھول کر ایفا نہیں کرتے
نہ جانے بادۂ الفت کے مستانوں پہ کیا گذری
تصور کی رنگین محفل سجی ہے
خیال یار سے جو ہمکنار ہوتا ہے
یہ رو داد چمن اے مہرباں ہے
جھوم کر اٹھتی ہے جب مست گھٹا ساون کی
میں بھی کہوں گا اپنے غم دل کی داستاں
ہو چکی کم دل کی شورش پھر وہ عالم کیجئے
باغ عالم میں ہے ہر شے کا کام آنے کے لئے
ترا نام مبارک جب کیا دروز بال ہم نے
یکسوئی اسیری میں بھی صیاد رہے گی
تصور نے گو دل کے گوشے سجائے
ترے قربان ساقی کیا عطا کی
ہمیں سے رونق کعبہ ہمیں سے تبخانے
مرگ ظاہر میں نہاں شان مسیحائی ہے
بیتاب دل اہل نظر کس کے لئے ہے
تمناؤں کو دل ہی میں تڑپنے دو سسکنے دو
فنا کے بعد یہ کس کو خبر ساکن کہاں ہوں گے
حسن کے جلوے محیط دو جہاں سمجھا کئے
چھپ پری کی سی دکھاتی تہی جو پیمانے سے
ان کے جلوے سے یہ صورت ہو گئی
جو تم بیتابی دل کا تماشا دیکھنا چاہو
دور گلچیں ہے نہ اب صیاد کی بیدا د ہے
متفرق
ہماری رائے ناقص میں محبت کا یہ مطلب تھا
سوزو ساز عشق بھی ہے اے فنا تیرے لئے
اب میری جبیں اور وہ نقش کف پا ہے
وصال یاد حضرت فانی
قطعہ تاریخ
صحت نامہ
مطبوعات نظامی پریس بدایوں
AUTHORعابد سعید خاں لودی فنا
YEAR1959
CONTRIBUTORریختہ
PUBLISHER محمد احید الدین نظامی
AUTHORعابد سعید خاں لودی فنا
YEAR1959
CONTRIBUTORریختہ
PUBLISHER محمد احید الدین نظامی
ازل کے روز ہمیں دل تو کیا دیا تونے
فنا خدا کے حضور میں
عشق و ہوس کا فرق مٹایا نہ جائے گا
ردیف الف
ناکامیوں میں ترا تصور جب آگیا
غم مرے دل کے لئے غم کے لئے دل ہونا
جاکر یہاں سے ہم کو واپس نہیں ہے آنا
آپ کے اس سکوت نے مجھ کو عجب مزا دیا
کہیں بھی ہورداشفاق دوستاں نہ رہا
آپ کی اک نگاہ سے نظم جہاں بدل گیا
پردہ دل کو نگاہوں سے اٹھا کر بھو جا
اک اک نفس میں عالم دل کا بدل رہا تھا
جہاں بھر سے نرالا کیوں نہ ہو طرز رقم میرا
بام پر وہ بت برا فگندہ نقاب آہی گیا
تو نے نگاہ ڈال کے انساں بنا دیا
وحشت نے دل کی توڑا پیمانہ زندگی کا
عہد ماضی کی مسرت کا ترانہ بھول جا
رباعی
غضب ہے اے دل ناشاد بخت نار سا ہو کر
ہوئی بیمار پر ہے بھاری رات
ردیف بایئے موحدہ
برق کیا دیتی مرے دل کا جواب
ردیف تائے فوقانی
اب مذاق دل کا یہ معیار ہے تیرے بغیر
کون پھر ہو گا طالب گار جفا میرے بعد
ردیف دال مہملہ
ردیف رائے مہملہ
کروں کچھ تبصرہ پہلے تو میں حالات زنداں پر
اٹھا اور اٹھ کے چھایا آسماں پر
ردیف غ متفرق
کیا کروں اے دل غم سوز نہاں کو دیکھ کر
ردیف لام
خورشید بن کے چمکے گا محشر میں دیکھنا
الفت کسی کی سلسلہ جنباں ہے آجکل
ہے تمہارے شباب کا عالم
ردیف میم
ہوں حقیقت سے بہت دور تمہیں کیا معلوم
ردیف نون
مسلک عشق میں کہئے اسے کیا کہتے ہیں
رات تمام کٹ گئی دوست کے انتظار میں
رنگ لائی خودی کہیں نہ کہیں
ادا کی ہے نماز شوق دل سے با ضوبر سوں
لذت سوز و ساز کیا جانیں
جان غم کش تیرا کہنا کیا کروں
وہ بھی رنگیں شباب بھی رنگیں
رو کر بھی ان کے سامنے سرخرد نہیں
چلو حال دل چل کے انکو سنائیں
جان جانے کا تو ہیں کچھ غم نہیں
جی ہے نڈہال اسی طرح روح میں تازگی نہیں
قفس میں جب خیال خاطر نا شاد کرتے ہیں
وہیں عشق میں سر کو خم دیکھتے ہیں
جہاں میں غم کش آلام روز گار ہوں میں
گریۂ شب سے نکل جاتی ہے کچھ دل کی بھڑاس
ہجر کی راتوں میں کیف بیخودی پاتا ہوں میں
یہ ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی یہ بہاروں کے ہجوم
عشق کی دنیا میں یہ طرفہ ستم تو دیکھئے
کسی کی جستجو ہے اور میں ہوں
دیر و حرم کو چھوڑ کے جائے کہاں کہاں
جناب حسن میں میں کیا کہوں کیا لے کے آیا ہوں
یہی نہیں کہ نشیمن جلائے جاتے ہیں
بغیض سعئی ناممکن کا بھی امکاں سمجھتے ہیں
ایسے بھی وقت ہم پر گذرے ہیں زندگی میں
محبت کو اگر بیگانۂ سود و زیاں کر لوں
ہو گیا حسن یار بے پردہ
متفرق
ردیف واؤ
بجلیاں طور تصور پہ گراتے جاؤ
فنا کے بعد بھی آرام کی صورت کہاں مجھکو
اے دل ایذا طلب اے رتبہ دان آرزو
دے کر فنا کا درس دل بے قرار کو
متفرق اشعار
بہار لالہ دگل کو پریشاں دیکھنے والو
میں وہ لذت آشنائے جور پیہم ہو ں فنا
ردیف ہائے
جلوؤں کی ہے تلاش تو ہستی مٹا کے دیکھ
یہ جذب محبت کی تاثیر نظر آئی
دل نہیں ہے جلوہ گاہ ناز ہے
تبسم کی رعنائیاں کون جانے
ردیف یائے تحتانی
کیوں بیٹھے بٹھائے مفت میں آخر خود کو رسوا کون کرے
مشکل ہوئی ہے اپنی بھی آساں کبھی کبھی
ضعف سے ہے پست ہمت ہر سفر کے سامنے
ناشاد کروگے کہ مجھے شاد کروگے
نظر کا ان کی نشتر جو رگ جاں ہونیوالا ہے
سانس خورشید لب بام ہوئی جاتی ہے
مر کے میت جو مری زیر مزارآئی ہے
دم آخر پتہ دیتی ہیں یہ اکھڑی ہوئی سانسیں
رنگ دیکھے او چشم قاتل کے
زندگی ایسی زندگی نہ ہوئی
جو ہر گھڑی وہ تصور میں مست ناز رہے
وحشت ہے تو پابندی صحرانہ رہیگی
مشتاق نظر کی بیتابی پردے کا اٹھانا کیا جانے
جلوۂ بے کیفئ دنیا سے دل مغموم ہے
یہ کیا کہیں کہ غم میں کیا شان زندگی ہے
عشق میں ہاے کار گر نہ ہوئی
وہ دن گئے کہ کہیں تھے حالت خراب ہے
آمد کا فصل گل کی یہ ساماں ابھی سے ہے
صبح امیری جب جاکر شام غریبی ہوتی ہے
ہوگی یہ آنکھ خوں چکاں آج نہیں تو کل سہی
افتاد پہ یوں افتاد پڑی سب ہنسنا ہنسانا بھول گئے
تم اور دل میں آگ لگا کر چلے گئے
موت سے کچھ تو بات ہوتی ہے
صبا سوئے مزار آئے نہ آئے
اب کی فصل گل میں دہر اتہرا ساماں چاہئیے
راہ تسلیم میں خم سر کو جو کر دیتی ہے
چوٹ پر چوٹ ہم نے کھائی ہے
اسے بھی کھو دیا افسوس میں نے اپنی غفلت سے
گردش فلک کی ہو کہ ہوا انقلاب کی
کسی محفل میں جب ذکر دل ناشاد ہوتا ہے
وہ آجائیں ایسی تو قسمت نہیں ہے
آئیے تو دل کی دنیا کو پریشاں کیجئے
اس لئے اور نکلتی نہیں حسرت میری
دل عشرت طلب میں کیا بتاؤں زندگی کیا ہے
تصور میں بھی ان کے آہ یہ صورت رہی اپنی
نسیت ہے بجلیوں کو وہ مرے آشیاں سے
چمن کو دے کے ترے رخ کی تازگی میں نے
جو اٹھا کر دل بیتاب کا پروا دیکھے
درو پنہاں سوز پیہم، کاوش رنج فراق
پہلے مذاق دید تو پیدا کرے کوئی
خلش کو غم کی دل کا میاب کیا جانے
دل سے فریب جلوۂ جاناں نہ پوچھئے
لڑیں آنکھیں جو چشم سر مگیں سے
ہر نفس دیتا ہے اب موت کا پیغام مجھے
عشق میں یہ بات کچھ دستور ہو کر رہ گئی
تم نے کچھ قدر نہ کی سوختہ سامانوں کی
سر اس درپہ جھکا یا جارہا ہے
تم مل گئے تو جو بھی یہاں خشک و تر میں ہے
زباں سے کہنے والے بھول کر ایفا نہیں کرتے
نہ جانے بادۂ الفت کے مستانوں پہ کیا گذری
تصور کی رنگین محفل سجی ہے
خیال یار سے جو ہمکنار ہوتا ہے
یہ رو داد چمن اے مہرباں ہے
جھوم کر اٹھتی ہے جب مست گھٹا ساون کی
میں بھی کہوں گا اپنے غم دل کی داستاں
ہو چکی کم دل کی شورش پھر وہ عالم کیجئے
باغ عالم میں ہے ہر شے کا کام آنے کے لئے
ترا نام مبارک جب کیا دروز بال ہم نے
یکسوئی اسیری میں بھی صیاد رہے گی
تصور نے گو دل کے گوشے سجائے
ترے قربان ساقی کیا عطا کی
ہمیں سے رونق کعبہ ہمیں سے تبخانے
مرگ ظاہر میں نہاں شان مسیحائی ہے
بیتاب دل اہل نظر کس کے لئے ہے
تمناؤں کو دل ہی میں تڑپنے دو سسکنے دو
فنا کے بعد یہ کس کو خبر ساکن کہاں ہوں گے
حسن کے جلوے محیط دو جہاں سمجھا کئے
چھپ پری کی سی دکھاتی تہی جو پیمانے سے
ان کے جلوے سے یہ صورت ہو گئی
جو تم بیتابی دل کا تماشا دیکھنا چاہو
دور گلچیں ہے نہ اب صیاد کی بیدا د ہے
متفرق
ہماری رائے ناقص میں محبت کا یہ مطلب تھا
سوزو ساز عشق بھی ہے اے فنا تیرے لئے
اب میری جبیں اور وہ نقش کف پا ہے
وصال یاد حضرت فانی
قطعہ تاریخ
صحت نامہ
مطبوعات نظامی پریس بدایوں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔