سر ورق
فہرست
پیش لفظ
حمد
حمد
خدائی خوش ہے
شانِ مصطفیٰ
ایک المیے کی پیش گوئی
ہم وجودیت
پہلی دستک
وہ سب جانتا تھا
نظر میں کیفِ شراب سا ہے
کچھ پہلوؤں کو میری نظر دیکھتی نہ تھی
نفس نفس بد دعا ہے شاید
جزا نہیں کچھ سزا نہیں ہے
کیا بنائیں طریقِ رد و قبول
دھوپ میں
شہرِ گمشدہ
ہرنفس، زہرِ خود آگہی اور میں
طنز کرتے، یہ دیوار و در، اور میں
اپنی موجودگی کی طلب، اور میں
ماندگی کا کٹھن مرحلہ، اور میں
گلابی پھول تھے، اب زرد دھبے ہو گئے چہرے
کیوں خود اپنے سے اتنا خفا ہے میاں
پچھلے پہر کا خواب
ہنسی ہونٹوں کی، موجِ چشم نم محسوس ہوتی ہے
دل، کسی سیلابِ غم میں بہہ رہا ہے
سورج کی موت
لے کر قرارِ خاطرِ بے تاب آئے گا
خوف کی نفسیات
اندھا سفر
تنہا آدمی کی آس
شہر نیا تعمیر ہوا ہے، ڈھ جائے گا
احساس
جینے کا جواز
بے آنگن نسلیں
ایک توجہ طلب گھرانہ
بمبئی 1993
تم سے بچھڑ کر
کچی نیند کا خمیازہ
راستے کی خوشبو
کشتی کا مسافر
بیر بہوٹی
جادو گر آواز
آخری بس
وہ رہگذر تھی کہ تنہا ہمیں گزرتے تھے
آئینہ میرا مجھ کو ڈراتا ہے روز و شب
جینے کے لئے جاں سے گزرتا ہوں شب و روز
جنگل کی ایک صبح
بھول
ملال کس لئے ہے!
پہاڑ اور پیڑ مل کر
ہندوستان
راہبہ
ابھی دھندلے ابھی روشن، نظر کے آئینے کیوں ہیں؟
نفس در نفس خود کو ہاریں کسی دن
آشنا منزلیں آشنا راستے
سبک دوشی
قیام اس کا کہیں نہیں ہے
مرحلے
سیاہ بادلوں کی نرم چھانو میں
رات، کس پر روگئی ہے، کیا کہیں کس سے کہیں
چل پڑے اب تو سوچنا کیا ہے
اے ارضِ وطن!
ہم کہ پتھر ہیں ، پگھل جاتے ہیں
منزلوں کے دھندلے سائے
آ جائے لبوں تک اگر اِک جام، بہت ہے
سنی ہے بات کس نے کب کسی کی
چاہتے ہیں، کارِ الفت میں زیاں کوئی نہ ہو
عزمِ سفر کروں تو کیا دل ہی جو ہم سفر نہیں
منعمِ شہر کی ہے شان بھی وہ
کسی حبس میں کیا ہوا چلی ہے
بے کراں آسمان میں تنہا
دیکھے جو کوئی آنکھ پسِ سرو وسمن بھی
سمت و رفتار کا پیش و پش، اور میں
وہ برا ہوا کہ بھلا ہوا جو گزر گیا سو گزر گیا
یاد آتے ہیں وہ دن ، وہ راتیں
کربِ تنہائی سہہ کے دیکھتے ہیں
سفر کے ہیں جو تقاضے، نظر میں رکھتا چل
نظر سے اوجھل ہوا نظارا تو میں نے دیکھا
غم کا آغاز ہو، خوشی ہو شروع
نہ زمیں کا نہ آسماں کا خیال
منزل ہے جو سب کچھ تو سفر کچھ بھی نہیں کیا؟
قدم بڑھا کے نہ ہر رہگزر میں رکھنا تھا
ٹھٹھرے ہوئے احساس کے زنداں سے نکل جاؤں
سب اچھا ہوا
شور کرتے مکالمے خاموش
رہِ خرد تو کبھی جادۂ جنوں کی تلاش
بجھا دِیے ہیں اگر ہم نے خود ہی گھر کے چراغ
دیکھتے رہ گئے کسی کی طرف
مجموعۂ صد صفاتِ اِک ذات
بزمِ تصورات سجاتے رہا کرو
بے لفظ سی اک زبان میں گم
لوگ ملتے ہیں مگر مل کے بچھڑ جاتے ہیں
رستوں میں سب کھوئے ہوئے تھے
لفظ، زباں تک آتے آتے
اداسیوں کا سماں صحنِ لالہ زار میں ہے
ہے اگر اس کا سنگِ در چپ چاپ
یہیں کہیں اسے ڈھونڈو، یہیں کہیں ہوگا
غم نہ کوئی خوشی ہے کیا کیجئے
سفر کن راستوں پر کررہا ہے
کس یاد کا پرتو ہے کس خواب کا چہرا ہے
چبھنے لگی نس نس میں میری، ہے جانے یہ کہاں کی مٹی
احساس جو ہر دم مجھے رہتا ہے کہ میں ہوں
راہ کا پیڑ کہیں ابر کا ٹکڑا ہو جاؤں
محمد علوی اور وارث علوی کے لئے ایک نظم
شہر در شہر ان آنکھوں نے وہ عالم دیکھا
ہر نظر میں اجنبیت، ہر ادا ناآشنا
کیا چلے گا فسوں صبح دم خواب کا
میرِ کاروانِ سخن
رباعیات
قطعات
سر ورق
فہرست
پیش لفظ
حمد
حمد
خدائی خوش ہے
شانِ مصطفیٰ
ایک المیے کی پیش گوئی
ہم وجودیت
پہلی دستک
وہ سب جانتا تھا
نظر میں کیفِ شراب سا ہے
کچھ پہلوؤں کو میری نظر دیکھتی نہ تھی
نفس نفس بد دعا ہے شاید
جزا نہیں کچھ سزا نہیں ہے
کیا بنائیں طریقِ رد و قبول
دھوپ میں
شہرِ گمشدہ
ہرنفس، زہرِ خود آگہی اور میں
طنز کرتے، یہ دیوار و در، اور میں
اپنی موجودگی کی طلب، اور میں
ماندگی کا کٹھن مرحلہ، اور میں
گلابی پھول تھے، اب زرد دھبے ہو گئے چہرے
کیوں خود اپنے سے اتنا خفا ہے میاں
پچھلے پہر کا خواب
ہنسی ہونٹوں کی، موجِ چشم نم محسوس ہوتی ہے
دل، کسی سیلابِ غم میں بہہ رہا ہے
سورج کی موت
لے کر قرارِ خاطرِ بے تاب آئے گا
خوف کی نفسیات
اندھا سفر
تنہا آدمی کی آس
شہر نیا تعمیر ہوا ہے، ڈھ جائے گا
احساس
جینے کا جواز
بے آنگن نسلیں
ایک توجہ طلب گھرانہ
بمبئی 1993
تم سے بچھڑ کر
کچی نیند کا خمیازہ
راستے کی خوشبو
کشتی کا مسافر
بیر بہوٹی
جادو گر آواز
آخری بس
وہ رہگذر تھی کہ تنہا ہمیں گزرتے تھے
آئینہ میرا مجھ کو ڈراتا ہے روز و شب
جینے کے لئے جاں سے گزرتا ہوں شب و روز
جنگل کی ایک صبح
بھول
ملال کس لئے ہے!
پہاڑ اور پیڑ مل کر
ہندوستان
راہبہ
ابھی دھندلے ابھی روشن، نظر کے آئینے کیوں ہیں؟
نفس در نفس خود کو ہاریں کسی دن
آشنا منزلیں آشنا راستے
سبک دوشی
قیام اس کا کہیں نہیں ہے
مرحلے
سیاہ بادلوں کی نرم چھانو میں
رات، کس پر روگئی ہے، کیا کہیں کس سے کہیں
چل پڑے اب تو سوچنا کیا ہے
اے ارضِ وطن!
ہم کہ پتھر ہیں ، پگھل جاتے ہیں
منزلوں کے دھندلے سائے
آ جائے لبوں تک اگر اِک جام، بہت ہے
سنی ہے بات کس نے کب کسی کی
چاہتے ہیں، کارِ الفت میں زیاں کوئی نہ ہو
عزمِ سفر کروں تو کیا دل ہی جو ہم سفر نہیں
منعمِ شہر کی ہے شان بھی وہ
کسی حبس میں کیا ہوا چلی ہے
بے کراں آسمان میں تنہا
دیکھے جو کوئی آنکھ پسِ سرو وسمن بھی
سمت و رفتار کا پیش و پش، اور میں
وہ برا ہوا کہ بھلا ہوا جو گزر گیا سو گزر گیا
یاد آتے ہیں وہ دن ، وہ راتیں
کربِ تنہائی سہہ کے دیکھتے ہیں
سفر کے ہیں جو تقاضے، نظر میں رکھتا چل
نظر سے اوجھل ہوا نظارا تو میں نے دیکھا
غم کا آغاز ہو، خوشی ہو شروع
نہ زمیں کا نہ آسماں کا خیال
منزل ہے جو سب کچھ تو سفر کچھ بھی نہیں کیا؟
قدم بڑھا کے نہ ہر رہگزر میں رکھنا تھا
ٹھٹھرے ہوئے احساس کے زنداں سے نکل جاؤں
سب اچھا ہوا
شور کرتے مکالمے خاموش
رہِ خرد تو کبھی جادۂ جنوں کی تلاش
بجھا دِیے ہیں اگر ہم نے خود ہی گھر کے چراغ
دیکھتے رہ گئے کسی کی طرف
مجموعۂ صد صفاتِ اِک ذات
بزمِ تصورات سجاتے رہا کرو
بے لفظ سی اک زبان میں گم
لوگ ملتے ہیں مگر مل کے بچھڑ جاتے ہیں
رستوں میں سب کھوئے ہوئے تھے
لفظ، زباں تک آتے آتے
اداسیوں کا سماں صحنِ لالہ زار میں ہے
ہے اگر اس کا سنگِ در چپ چاپ
یہیں کہیں اسے ڈھونڈو، یہیں کہیں ہوگا
غم نہ کوئی خوشی ہے کیا کیجئے
سفر کن راستوں پر کررہا ہے
کس یاد کا پرتو ہے کس خواب کا چہرا ہے
چبھنے لگی نس نس میں میری، ہے جانے یہ کہاں کی مٹی
احساس جو ہر دم مجھے رہتا ہے کہ میں ہوں
راہ کا پیڑ کہیں ابر کا ٹکڑا ہو جاؤں
محمد علوی اور وارث علوی کے لئے ایک نظم
شہر در شہر ان آنکھوں نے وہ عالم دیکھا
ہر نظر میں اجنبیت، ہر ادا ناآشنا
کیا چلے گا فسوں صبح دم خواب کا
میرِ کاروانِ سخن
رباعیات
قطعات
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.