فہرست
شہر میں
کوئی فن کی دیوی
سواے دو پانیوں کے درمیاں
آسمان خاکداں
خرابی ہے محبت میں
اس چھالیہ کے پیڑ کے نیچے
خانہ بدوشوں کا گیت
یہ کیسے لوگ ہیں!
یخ زدہ انگلیاں
بند گھر کا راز
دریائے چارلس کے کنارے ایک نظم
یہ شہر تمام اندوہ میں ہے
بہت شور ہے
اس سے کہہ دو
جوتشی دن مہینوں کا قصہ سنو
The gift of Magi
مانسٹر
یہ اک دہری اذیت ہے
بہ سعیٔ رائگاں ملتا ہے کوئی
فنا کے لیے ایک نظم
پانی جو ٹھہر گیا
اسیری
نیلی لڑکی
ریت آئینہ ہے
بات نہیں ہو سکتی
ابن زیاد کا فرمان
سمندر کی مہر بانی
یہ گھر جل کر گرے گا
برف باری میں
اپنے نام ایک نظم
وہ اپنے ہاتھ میں دنیا کی تہذیبیں اٹھائے آگئے گی
بے ارادہ زیست کیجئے
زباں پر ذائقہ دو پانیوں کا ہے
جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا
جی ڈرتا ہے
وہ آنکھیں کنول بنیں
اور پھر چاند نکلتا ہے
ہونا سب سے بڑا الجھاوا ہے
ایک اتفاقی موت کی رو داد
اگر تم دو قدم اوپر گئے
ساعت آغاز کی بے معنویت
مسلسل چلتے رہنے کی خوشی
صلیب گر پڑی
ہجوم
زندگی
یہ آنکھیں
یہ اچھے لوگ ہیں
محبت آگ ہے
آلودگی
مہم جو لوگ اکثر ایسے ہوتے ہیں
سفر ایسا بھی ہوتا ہے
نیر آپا کے نام
زینی!
بہار آئی تو انجم شناس کہنے لگے
خراب ہوگئیں آنکھیں
میں حاضر ہوں میرے رب میں حاضر ہوں
رات ڈھلنے لگی ہے
اب ایسے بھی کوئی دن اور جی لیں گے
میں نے فرمان کے حاشیے پر لکھا
اس نے تو کچھ کہا بھی نہیں
آْوارگی کے بڑے راستے ہیں
چلو یہ نظمیں تو تمام ہوئیں
خواہش ، خواب اندیشے خوف
امیجری کا دوسرا رخ
AUTHORMohammad Anvar Khalid
YEAR1993
CONTRIBUTORArjumand Ara
PUBLISHER Umara Publications, Karachi
AUTHORMohammad Anvar Khalid
YEAR1993
CONTRIBUTORArjumand Ara
PUBLISHER Umara Publications, Karachi
فہرست
شہر میں
کوئی فن کی دیوی
سواے دو پانیوں کے درمیاں
آسمان خاکداں
خرابی ہے محبت میں
اس چھالیہ کے پیڑ کے نیچے
خانہ بدوشوں کا گیت
یہ کیسے لوگ ہیں!
یخ زدہ انگلیاں
بند گھر کا راز
دریائے چارلس کے کنارے ایک نظم
یہ شہر تمام اندوہ میں ہے
بہت شور ہے
اس سے کہہ دو
جوتشی دن مہینوں کا قصہ سنو
The gift of Magi
مانسٹر
یہ اک دہری اذیت ہے
بہ سعیٔ رائگاں ملتا ہے کوئی
فنا کے لیے ایک نظم
پانی جو ٹھہر گیا
اسیری
نیلی لڑکی
ریت آئینہ ہے
بات نہیں ہو سکتی
ابن زیاد کا فرمان
سمندر کی مہر بانی
یہ گھر جل کر گرے گا
برف باری میں
اپنے نام ایک نظم
وہ اپنے ہاتھ میں دنیا کی تہذیبیں اٹھائے آگئے گی
بے ارادہ زیست کیجئے
زباں پر ذائقہ دو پانیوں کا ہے
جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا
جی ڈرتا ہے
وہ آنکھیں کنول بنیں
اور پھر چاند نکلتا ہے
ہونا سب سے بڑا الجھاوا ہے
ایک اتفاقی موت کی رو داد
اگر تم دو قدم اوپر گئے
ساعت آغاز کی بے معنویت
مسلسل چلتے رہنے کی خوشی
صلیب گر پڑی
ہجوم
زندگی
یہ آنکھیں
یہ اچھے لوگ ہیں
محبت آگ ہے
آلودگی
مہم جو لوگ اکثر ایسے ہوتے ہیں
سفر ایسا بھی ہوتا ہے
نیر آپا کے نام
زینی!
بہار آئی تو انجم شناس کہنے لگے
خراب ہوگئیں آنکھیں
میں حاضر ہوں میرے رب میں حاضر ہوں
رات ڈھلنے لگی ہے
اب ایسے بھی کوئی دن اور جی لیں گے
میں نے فرمان کے حاشیے پر لکھا
اس نے تو کچھ کہا بھی نہیں
آْوارگی کے بڑے راستے ہیں
چلو یہ نظمیں تو تمام ہوئیں
خواہش ، خواب اندیشے خوف
امیجری کا دوسرا رخ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.