ترتیب
قاسم یعقوب کی نظم اور قرآت کا نیا لسانی مظہر
ایک روشن صبح کا آغاز
زندگی ہمیں سکھاتی ہے
بدن کا نوحہ
رائیگانی کی بشارت
چہرے کی گرد
بڑھیٔ کی آری
ایک دیو مالائی خواب سے گزرتے ہوئے
لیموں کا پودا
زندگی اپنا فیصلہ خود لکھے گی
میں کب سے بے خال و خط پڑا ہوں
برگد سے واپسی
نیم خوابی سے خواب تک
موت کے لیے ایک نظم
اپنے جیسے ایک دوست کے لیے
مجھے کچھ پوچھنا ہے
بوڑھا وقتہماراستقبال کرتا ہے
تخلیق نروان دیتی ہے!
کچی عمر کا لڑکا
ہم ریت کے گھروں میں رہتے ہیں
میں نظم لکھتا ہوں!
پانی کا نغمہ
آنکھوں کو مرضی سے دیکھنے دو
دھوپ کی بارش
خواب کدوں سے واپسی
بارود کی بو
کبھی کبھی جی کرتا ہے۔۱
مرے لیمپ کی روشنی پوچھتی ہے
ہم خوش قسمت ہیں!
ہوا میں تیرتے پروں کے خواب
کبھی کبھی جی کرتا ہے۔۲
فارم ہاؤس کی تنہائی میں ایک دن
مجھے اب تمہاری ضرورت پڑی ہے
اب جو خط لکھنا!
ایک کتبے کی تلاش میں
تمہارے لیے اعتراف شکست
وہ جلدی میں تھا
ایک انقلابی کی موت
شہر اپنا نوحہ پڑھتا ہے
پھر وقت بدل گیا
دھند سے لپٹا راستہ
میں کچھ لکھنا چاہتا تھا!
میں خوش رہتا ہوں
نئے موسم کی عزاداری
تم کتنی اچھی ہو!
میں اک عام سا شہری ہوں
الوداع کہتی ہوئی لڑکی
دکھ ہجرت نہیں کرتے
بارش کی چھتری کھلتی ہے
موسیقی کے لیے ایک نظم
ایک اور دن
تکملہ
ترتیب
قاسم یعقوب کی نظم اور قرآت کا نیا لسانی مظہر
ایک روشن صبح کا آغاز
زندگی ہمیں سکھاتی ہے
بدن کا نوحہ
رائیگانی کی بشارت
چہرے کی گرد
بڑھیٔ کی آری
ایک دیو مالائی خواب سے گزرتے ہوئے
لیموں کا پودا
زندگی اپنا فیصلہ خود لکھے گی
میں کب سے بے خال و خط پڑا ہوں
برگد سے واپسی
نیم خوابی سے خواب تک
موت کے لیے ایک نظم
اپنے جیسے ایک دوست کے لیے
مجھے کچھ پوچھنا ہے
بوڑھا وقتہماراستقبال کرتا ہے
تخلیق نروان دیتی ہے!
کچی عمر کا لڑکا
ہم ریت کے گھروں میں رہتے ہیں
میں نظم لکھتا ہوں!
پانی کا نغمہ
آنکھوں کو مرضی سے دیکھنے دو
دھوپ کی بارش
خواب کدوں سے واپسی
بارود کی بو
کبھی کبھی جی کرتا ہے۔۱
مرے لیمپ کی روشنی پوچھتی ہے
ہم خوش قسمت ہیں!
ہوا میں تیرتے پروں کے خواب
کبھی کبھی جی کرتا ہے۔۲
فارم ہاؤس کی تنہائی میں ایک دن
مجھے اب تمہاری ضرورت پڑی ہے
اب جو خط لکھنا!
ایک کتبے کی تلاش میں
تمہارے لیے اعتراف شکست
وہ جلدی میں تھا
ایک انقلابی کی موت
شہر اپنا نوحہ پڑھتا ہے
پھر وقت بدل گیا
دھند سے لپٹا راستہ
میں کچھ لکھنا چاہتا تھا!
میں خوش رہتا ہوں
نئے موسم کی عزاداری
تم کتنی اچھی ہو!
میں اک عام سا شہری ہوں
الوداع کہتی ہوئی لڑکی
دکھ ہجرت نہیں کرتے
بارش کی چھتری کھلتی ہے
موسیقی کے لیے ایک نظم
ایک اور دن
تکملہ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔