سر ورق
فہرس
پیش لفظ
اعتراف
شانِ معراج کی غزل
شانِ معراج کی غزل گوئی : ایک تاثر
اپنی بات
غزلیں
جب بھی پلٹ کے کوچۂ جاناں سے آئے ہیں
داستاں ختم ہے اظہار وفا رہنے دو
کبھی کبھی تری چاہت پہ یہ گماں گزرا
زندگی کو تو بہر طور گزر جانا تھا
روز نیزوں پہ تمناؤں کے سرآتے ہیں
میری خودداری مری خوئے انا لے جائے گی
محرومیٔ حیات کا حل ڈھونڈتے رہے
صبا کے دوش پہ خوشبوئے یار آئی ہے
پہلو تلاش کر غمِ جاناں نئے نئے
بیچا نہ ہم نے دل نہ خریدار تک گئے
جو تری محفل سے ذوقِ خام لے کر آئے ہیں
یوں تو اخلاص میں اس کے کوئی دھوکا بھی نہیں
تری یادیں ہیں اور تنہائیاں ہیں
کچھ کم نہیں ہے ہم پہ یہ احسانِ آرزو
ضبطِ غم سے لاکھ اپنی جان پر بن آئے ہے
قطعہ
سو غم لگے ہیں گھات میں ایسا نہ کیجئے
لے کے یادوں کے چمن زار کہاں سے آئی
دوری بھی اس کی یاد میں راس آگئی مجھے
پلکوں پہ لئے نجم و قمر جاگتے رہئے
پہلے معیارِ نگاہِ شوق پیدا کیجئے
چلی خرد کی نہ کچھ آگہی نے ساتھ دیا
ہمیں کب حاجتِ لفظ و بیاں ہے
افسردگی پہ بس نہیں لب پر ہنسی تو ہے
کہاں چراغ یہ اس شہر کا چلن کہیے
اتنی معراج پہ عزت کی نہ پہنچا جائے
بگڑ کر بھی مقدر بن گئے ہیں
ہم یوں ترے بغیر رہے زندگی کے ساتھ
بس اسی بات پہ وہ شخص خفا ہے مجھ سے
حال موسم کا ہی پوچھے گا وہ جب پوچھے گا
جو لوگ منزلوں کے تقاضے سے ڈر گئے
اپنے ذہن و دل کی بربادی مکمل ہو چکی
حسنِ تعلقِ دلِ بسمل کہا نہ جائے
ریت ہوں قسمت میں جلنا ہے گھٹا لے جایئے
عمر کو یوں ہی گزرنا ہے گزر جائے گی
اگرچہ طرزِ عمل اس کا ناگوار بھی تھا
چاند سرد راتوں میں جب کبھی نکلتا ہے
ہمیں تو اپنی بھی کوئی ادا نہ راس آئی
تیری بزمِ ناز سے پہلے جہاں ایسا نہ تھا
وہ جن سے خاک پہ کوئی چمن کھلا ہی نہیں
آدابِ محبت کو، پہلے تو بہم سمجھیں
اب کے مری دعا کو اثر کی خبر بھی دے
کیسے کیسے دل نشیں خوابوں کے منظر لے گیا
غمِ دنیا، غمِ جاناں، غمِ تنہائی ہے
تھم گیا یادوں کا دھارا یہ کہانی پھر سہی
وسعتِ صحرا سے چھوٹے بام و در میں آگئے
گلوں کی مہک چاند تاروں کی خوشبو
ماضی کے جلتے بجھتے چراغوں کے سلسلے
رنگِ گل مانگے ہے خوشبوے وفا مانگے ہے
وہ تو یہ سمجھا کہ یہ بھی ایک احساں ہوگیا
نظارے عام تھے میری نظر کے دامن میں
گل ہوا وہ جو گلستاں میں تو ہم خار ہوئے
کیا دیکھتا ہے حال کے منظر ادھر بھی دیکھ
تھا مرا ہوش بھی وہ ، میرا جنوں بھی وہ تھا
رات کا منظر جواں تھا اور ہم
اب وہ یوں دیکھ رہا ہے کہ حفا ہو جیسے
اب آپ مجھ پہ شوق سے پتھر اچھالیے
پھر گیا آج کوئی عہدِ وفا سے کیسے
وہ جو پیشانی پہ پڑھ لے حال دل کا کون ہے
ہم اپنا عزمِ سفر داغ دار کرنے لگے
جیتنے کی ہوس میں جیتے ہو
رونق حیات کی دلِ درد آشنا سے ہے
خموش ہیں تو یہ خود کو برا سا لگتا ہے
ہجر میں تیرے تصور کا سہارا ہے بہت
ماضی کو بھول آئے ہم صورتِ حال کے سبب
اشکوں کا سفر دل سے ہے پلکوں کے افق تک
زرد زرخیز سا موسم ہے ثمر کیا دے گا
بدن کے ساتھ ردائے بدن بھی رہتی ہے
لٹکی ہوئی سی ذہن پہ تلوار ہی تو تھی
پودے رفاقتوں کے ثمر تک بھی جائیں گے
نظمیں
سالِ نو
شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے نام
خراجِ عقیدت
گلہائے عقیدت
آؤ کہ اک وعدہ کریں
صبحِ شبِ انتظار
اندرا گاندھی
سر ورق
فہرس
پیش لفظ
اعتراف
شانِ معراج کی غزل
شانِ معراج کی غزل گوئی : ایک تاثر
اپنی بات
غزلیں
جب بھی پلٹ کے کوچۂ جاناں سے آئے ہیں
داستاں ختم ہے اظہار وفا رہنے دو
کبھی کبھی تری چاہت پہ یہ گماں گزرا
زندگی کو تو بہر طور گزر جانا تھا
روز نیزوں پہ تمناؤں کے سرآتے ہیں
میری خودداری مری خوئے انا لے جائے گی
محرومیٔ حیات کا حل ڈھونڈتے رہے
صبا کے دوش پہ خوشبوئے یار آئی ہے
پہلو تلاش کر غمِ جاناں نئے نئے
بیچا نہ ہم نے دل نہ خریدار تک گئے
جو تری محفل سے ذوقِ خام لے کر آئے ہیں
یوں تو اخلاص میں اس کے کوئی دھوکا بھی نہیں
تری یادیں ہیں اور تنہائیاں ہیں
کچھ کم نہیں ہے ہم پہ یہ احسانِ آرزو
ضبطِ غم سے لاکھ اپنی جان پر بن آئے ہے
قطعہ
سو غم لگے ہیں گھات میں ایسا نہ کیجئے
لے کے یادوں کے چمن زار کہاں سے آئی
دوری بھی اس کی یاد میں راس آگئی مجھے
پلکوں پہ لئے نجم و قمر جاگتے رہئے
پہلے معیارِ نگاہِ شوق پیدا کیجئے
چلی خرد کی نہ کچھ آگہی نے ساتھ دیا
ہمیں کب حاجتِ لفظ و بیاں ہے
افسردگی پہ بس نہیں لب پر ہنسی تو ہے
کہاں چراغ یہ اس شہر کا چلن کہیے
اتنی معراج پہ عزت کی نہ پہنچا جائے
بگڑ کر بھی مقدر بن گئے ہیں
ہم یوں ترے بغیر رہے زندگی کے ساتھ
بس اسی بات پہ وہ شخص خفا ہے مجھ سے
حال موسم کا ہی پوچھے گا وہ جب پوچھے گا
جو لوگ منزلوں کے تقاضے سے ڈر گئے
اپنے ذہن و دل کی بربادی مکمل ہو چکی
حسنِ تعلقِ دلِ بسمل کہا نہ جائے
ریت ہوں قسمت میں جلنا ہے گھٹا لے جایئے
عمر کو یوں ہی گزرنا ہے گزر جائے گی
اگرچہ طرزِ عمل اس کا ناگوار بھی تھا
چاند سرد راتوں میں جب کبھی نکلتا ہے
ہمیں تو اپنی بھی کوئی ادا نہ راس آئی
تیری بزمِ ناز سے پہلے جہاں ایسا نہ تھا
وہ جن سے خاک پہ کوئی چمن کھلا ہی نہیں
آدابِ محبت کو، پہلے تو بہم سمجھیں
اب کے مری دعا کو اثر کی خبر بھی دے
کیسے کیسے دل نشیں خوابوں کے منظر لے گیا
غمِ دنیا، غمِ جاناں، غمِ تنہائی ہے
تھم گیا یادوں کا دھارا یہ کہانی پھر سہی
وسعتِ صحرا سے چھوٹے بام و در میں آگئے
گلوں کی مہک چاند تاروں کی خوشبو
ماضی کے جلتے بجھتے چراغوں کے سلسلے
رنگِ گل مانگے ہے خوشبوے وفا مانگے ہے
وہ تو یہ سمجھا کہ یہ بھی ایک احساں ہوگیا
نظارے عام تھے میری نظر کے دامن میں
گل ہوا وہ جو گلستاں میں تو ہم خار ہوئے
کیا دیکھتا ہے حال کے منظر ادھر بھی دیکھ
تھا مرا ہوش بھی وہ ، میرا جنوں بھی وہ تھا
رات کا منظر جواں تھا اور ہم
اب وہ یوں دیکھ رہا ہے کہ حفا ہو جیسے
اب آپ مجھ پہ شوق سے پتھر اچھالیے
پھر گیا آج کوئی عہدِ وفا سے کیسے
وہ جو پیشانی پہ پڑھ لے حال دل کا کون ہے
ہم اپنا عزمِ سفر داغ دار کرنے لگے
جیتنے کی ہوس میں جیتے ہو
رونق حیات کی دلِ درد آشنا سے ہے
خموش ہیں تو یہ خود کو برا سا لگتا ہے
ہجر میں تیرے تصور کا سہارا ہے بہت
ماضی کو بھول آئے ہم صورتِ حال کے سبب
اشکوں کا سفر دل سے ہے پلکوں کے افق تک
زرد زرخیز سا موسم ہے ثمر کیا دے گا
بدن کے ساتھ ردائے بدن بھی رہتی ہے
لٹکی ہوئی سی ذہن پہ تلوار ہی تو تھی
پودے رفاقتوں کے ثمر تک بھی جائیں گے
نظمیں
سالِ نو
شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے نام
خراجِ عقیدت
گلہائے عقیدت
آؤ کہ اک وعدہ کریں
صبحِ شبِ انتظار
اندرا گاندھی
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔