یہ آفتاب ہے گرم اسکی کبریائی کا
سکہ رائج جب سے دین مصطفے کا ہوگیا
حسن مطلق کا ازل کے دن سے میں دیوانہ تھا
میں پرانا مست ہوں جنت مرا کا شانہ تھا
آنکھوں میں نور تیر ا دل میں سرور تیرا
نہ شوق وصل کا موقع نہ ذوق آشنائی کا
ترے بندوں سے کرتے ہیں یہ بت دعویٰ خدائیکا
لیے ہے آفتاب حشر بھی کاسہ گدائی کا
ان شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا
خضر رہ مقصود اگر دل نہیں ہوتا
غم نہیں جی تن سے نکلا دل گیا
داغ غم روز ازل ہی مل گیا
دامنوں کا نہ پتا ہے نہ گریبانوں کا
کی جو کچھ عشق نے تاثیر تما شا ہوگا
تابع دین کبھی دولت پہ نہ شیدا ہوگا
سرد آہیں جب کسی نے کیں وطن یاد آگیا
رو برو آئنے کے تو جو مری جان ہوگا
مرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا
نئی چوٹیں چلتیں قاتل جو کبھی دو چار ہوتا
جھونکا ادھر نہ آئے نسیم بہار کا
موباف کھل گیا ہے کسی گلعذار کا
جمال یار کو کہتے ہو تم کہ ہاں دیکھا
ہو پاؤں تھے جو شاہد آغوش نقش پا
کیونکر رہے نہ زار تن و توش نقش پا
پہلو سے تو اٹھا تھا کہ میں سرد ہوگیا
ایک دل ہمدم مرے پہلو سے کیا جاتا رہا
غنی ساتھ دنیا سے کیا لے گیا
پر سش کو مری کون مرے گھر نہیں آتا
دل میں خیال آن آنکھوں کا لایا نہ جائیگا
گھر میں تمہارے غیر سے جایا نہ جائیگا
کھولے ہوئے جوڑا تجھے ایجان نہیں دیکھا
میں کبھی وقت پہ مقتل سے نہ ٹل جاؤ نگا
حریم کوچۂ قاتل کی راہ گر لینا
چال وحشت کی کسی روز جو چل جاونگا
دم اخیر ہے لازم نظارہ کر لینا
ناوک ناز سے مشکل ہے بچانا دل کا
کیا میں اے پردہ نشیں قتل کا خواہاں ہوتا
ہم سے دل درد محبت کا دکھایا نہ گیا
درد الفت نے وہاں سے بھی نکالا ہوتا
اٹھکے اس محفل سے گھبراہٹ کا احسان رہ گیا
تصویر میں زلفوں کے رویا کیا
ہر جام میں ہے جلوۂ مستانہ کسی کا
حیا بولی ابھر ا جو جو بن کسی کا
تاب گویا ئی نہیں رکھتا دہن تصویر کا
شوق خلوت میں بھی ہے انجمن آرائی کا
داغ دیگا تجھے یہ شوق خود آرائی کا
موقوف بیخودی پہ ہے جلوہ حبیب کا
شبنم وگل کو جو ہم نے ترے ہوتے دیکھا
تھا دھیان میں نقشہ جو تری جلوہ گری کا
عمر برق و شرار ہے دنیا
جی ہی لے گا غم جاناں میرا
میرے دل میں اگر آپ آئیے گا
ہو چکا وعدہ کہ کل آئیے گا
کہا مژہ نے ہوا جب مقابلہ دل کا
پر تو نہیں کب اسمیں کسی خوش جمال کا
میری طرح نہ اک دن ابر بہار رویا
گور میں تم نے جو لاشے کو اتارا ہوتا
یہ گرم اپنا داغ جگر ہوگیا
موقوف جرم ہی پہ کرم کا ظہور تھا
استاد میل جول میں اس کا ظہور تھا
پہلو میں میرے بیٹھ کے بھی مجھ سے دور تھا
پردہ اس چہرے سے جدا نہ ہوا
غیر تو زندہ ہے پھر غم ہے مریجان کس کا
اے فلک یہ رت یہ متوالی گھٹا
دیکھے ان کانوں کی گر بالی گھٹا
تکا کرتی ہے چاند سامنہ کسی کا
مرے پھولوں میں کیا ہے موقع ہنسی کا
دھیان آیا جو دل میں اس ہنسی کا
ردیف بائے موحدہ
پوری مراد دل ہو کہ پھوٹے مرا نصیب
حال فناے دہر سے غافل نہیں حباب
کہتا ہوں یہیں سو رہو دیکھو ہے بڑی دھوپ
میری تربت پر کھلے بالوں اگر آئیں گے آپ
مجھ کو کیا جس کو جب ملیں گے آپ
ہیں ترے عارض و گیسوے مغبردن رات
ردیف تاے قرشت
خدا دکھاے کسی گلعذار کی صورت
اسے میرے گھر تک نہ لائے گی رات
ردیف تائے ثقیلہ
ہے میل جو آغاز میں کب ہے یہ نئے چوٹ
لچک گئی کمر اسکی تو دل نے کھائی چوٹ
کسی پہ زخم پڑا یاں جگر پہ آئی چوٹ
ہجر میں ہے فضا عبث ابر عبث ہوا عبث
سبزہ مرے مزار بعد فنا اگا عبث
ردیف ثاے مثلثہ
اس شان سے وہ برق وش آتا ہے ادھر آج
ردیف جیم تازی
عاشق ابرو کی یون تصویر کھینچ
ردیف جیم فارسی
جو تجھ سے رخ ملائیں چاند سورج
منت قاتل نہ احسان کمان وتیر کھینچ
چلتے ہی گزری ہمیں دم کی طرح
ردیف حاے حطی
ہے دل میں ٹھنی آب کہ اگر آئے گا
مژہ بھی کرتی ہے بل ابر وتبان کی طرح
عاقلون کو رہے آبادی کا شانہ پسند
ردیف خاے معجمہ
ہے جس قدر کہ وہ صنم شوخ وشنگ شوخ
ردیف دال مہملہ
سچ کہہ پسند کس کی ہے اے خوبر وپسند
جس دن سے اس غریب کو آیا ہے تو پسند
میرا کلام صاف ہو کیونکر عدو پسند
چاہ دقن میں دل کو کیا بے گناہ بند
چھو کے اس آبرو کو ہے مجھ کو بھی شایان گھمنڈ
مشاطہ کیا ہے آئنے کا بھی سلام بند
ردیف دال ثقلہ
نہیں ہے غنچہ عروس بہار کا تعویذ
ردیف ذال
چشم بددور کھلا خوب ہی سرکا تعویذ
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
ردیف راے مہملہ
کون سا گل ہے نہیں جو زیب دامان بہار
جو دل ہے حلقہ بزم شراب سے باہر
بادۂ سرخ پیون ساغرو مینا بھر کر
سو دل فداے صاحب فرمان رام پور
آمادہ وہ مژگان سے ہیں نادک فگنی پر
تعجب ہے جو سرکش ہیں یہ زر دار
دل ابرو پر فدا ہو مفت کا الزام دلبر پر
وہ بگڑے جب لیا بوسہ جھگڑ کر
ساقیا ابر ابھی آیا نہیں میخانے پر
ملا نام خدا وہ مرتبہ تجھ کو حسین ہوکر
دیکھو زبان نہ تیز کرو بات بات پر
کیونکر نظر میں آئے کہ ہے بے نشاں کمر
اٹھاتے تھے جو قرآن کل تلک پر ہیز گاری پر
گلشن فردوس ہے رخسار یار
نوجوانی ہے نہ پوچھو رخ جاناں کی بہار
مرے پھولوں میں یوں آؤ چمن صدقے ہو جو بن پر
مری آہوں کے شعلے اس طرح ہیں میرے مدفن پر
اثر یہ ہے جو دی ہے جان اسکے روے روشن پر
کھلے ہیں یان دیدۂ بصیرت وہ برق حسن آے تو چمک کر
جو دماغ میں میرے پہنچ گئی بو تو الجھ کے نہ زلف دوتا سے بگڑ
ردیف راے ثقیلہ
یوں ہے خط سبز سے رنگ رخ دلدار سبز
ردیف زائے معجمہ
زلفوں سے خال رخ ہے مجھے بیشتر عزیز
نار قسمت نے کب جانے دیا دلبر کے پاس
ردیف سین مہملہ
چمکا کر یں چمکیں جو چمن میں پرطاؤس
ٹھہرا گیا کب تیر سے اے ترک میرے دل کے پاس
واں چشم وابرو ہمنشیں اور یاں جگر ہی دل کے پاس
جو لپٹ بھی جائے وہ گلبدن تو نہوں میں ہجر کی ڈرسے خوش
ردیف شین معجمہ
کیوں نہ کہیے ہیں مہ و مہر سے بڑھ کر عارض
ردیف صاد مہملہ
ردیف ضاد معجمہ
آبرو کھوتی ہے پھر بھی رکھتی ہے ناکام حرص
ہم کو وزیر سے نہ کسی شاہ سے غرض
ہوتا ہے روز مجھ کو جو عارض نیا مرض
پڑھا جاتا نہیں اے دلربا خط
ردیف طائے مہملہ
ہے روے کتابی پر کیا خوب تمہارا خط
ردیف ظاے معجمہ
ردیف عین مہملہ
میری طرح جہاں میں ہے گر شتاب شمع
آنا ہو میکدے میں تو دن کو آے واعظ
ممکن نہیں کہ رخ سے ترے ہو دو چار شمع
ردیف غین معجمہ
کر رہا ہے خوب تقلید رخ و کا کل چراغ
کیا شب تاریک فرقت میں جلائیں ہم چراغ
کھائے یہ الفت بت غنچہ دہن میں داغ
ردیف فا
دوڑا دل اسکی زلف سیہ فام کی طرف
ہے چھلا و ا اس پری پیکر کے بل کھانے سے زلف
عارض ترے اے گلبدن ایک اس طرف ایک اس طرف
کتنی ہو دور قطع ہے دم بھر میں راہ شوق
ردیف قاف
قہر ہے مژگاں چشم جادوے دلبر کی صف
زندہ یارب ہوں جو مردہ ہیں یہ آوارۂ عشق
ردیف کاف تازی
وصل حاصل ہے مگر ہے غم ہجراں ابتک
غم سے بجا ہیں بیتاب عاشق
عشق میں ہیں لب خشک مژۂ تر ترو خشک
نہیں ممکن رسائی لا مکاں تک
ردیف کاف فارسی
میں وہ دل سوختہ ہوں اس چمن میں
باغ میں آکر وہ گلرو تازہ دکھلاتا ہے رنگ
ڈھونڈا کیے ہم کو نہ ملا یار کا گھر تک
دل ہے دشمن نہ بغل میں اسے پالے بلبل
ردیف لام
انہیں درکار ہے اک چلبلا دل
واہ کیا خوب پر وبال نکالے بلبل
وہ مجنوں ہوں مرا سودا نہیں تدبیر کے قابل
کیوں نہ تکیوں میں ہو گرم نالہ ہائے زار دل
گل سنتے ہیں کب صدا بلبل
باتیں حکمت کی کہیں سب کو ملی پھول سے پھول
جاتا تو اسکے کوچے میں ہے بار بار دل
کریں پھولوں کی کیوں کر آرزو ہم
گنتا ہے ترے ہجر کی ایک ایک گھڑی دل
یہ روئے وصل میں منہ رکھ کے روے یار پہ ہم
ردیف میم
ہوں سارے شہر میں ہیں اگر جا بجا کریم
مٹ نہ سکا تقدیر کا لکھا روز رہے پامال خطر ہم
ہم لوٹتے ہیں وہ سور ہے ہیں
ردیف نون
اسکی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ہاے وہ دن کہ گزر جاتی تھی شب باتوں میں
یہ تو میں کیونکر کہوں تیرے خریداروں میں ہوں
ضبط کرنا دل حزیں نہ کہیں
اس شان سے ہم آئے تری جلوہ گاہ میں
اللہ ری لاغری کہ تری جلوہ گاہ میں
وہ بیکس ہوں نہیں ہے کوئی میری غمگسار وں میں
چلے ساقی ہنسے بولے اگر آئی ہے یاروں میں
مثل تار نظر نظر میں نہیں
دل جو کہتا ہے مجھے ضبط کی طاقت ہی نہیں
آ تجھ پڑوں کسی دامن سے میں وہ خار نہیں
غضب کی آنکھ سے یہ کجکلاہ دیکھتے ہیں
روشنی نام کو بھی خانۂ ویراں میں نہیں
دھوم ہے چرخ بریں کی کس قدرا فواہ میں
کلیاں یہ سرخ سرخ نہیں لالہ زار میں
کیا عارف مجھے پیر مغاں نے اک پیالے میں
لچک ہے شاخوں میں جنبش ہوا سے پھولوں میں
پستی بخت سے یہ خاک برابر میں ہوں
دل جدا مال جدا جان جدا لیتے ہیں
فراق یار میں شب ہو کہ دن تمام نہیں
ڈسگئی دل کو مرے زلف کی کالی ناگن
کسی کی روح پہ صدمہ ہوا اشکبار ہوں میں
بانکی ادا ہے وہ نگہ خشمگیں نہیں
جو بوے گل چمن میں ڈھونڈ تے ہیں
گزشتہ خاک نشینوں کی یاد گار ہوں میں
پروانے کیوں نہ خاک ہوں جل کر چراغ میں
کہتا ہے کون آہ میں اپنی اثر نہیں
پڑ گئی کیا لوٹ یارب گلشن ایجاد میں
دیکھی مجنوں کی شبیھ آج جو تصویروں میں
مشتاق وصل کون ترا ناز نیں نہیں
عالم میں کوئی دختر زر ساحسیں نہیں
یاد قاتل میں لہو سے جو ہوئیں تر پلکیں
عالم شگفتہ ہو جومیں آفت رسیدہ ہوں
کس کے چمکے چاند سے رخسار قیصر باغ میں
داغ اے بہار جیسے ہمارے بدن میں ہیں
عزیز احباب ساتھی دم کے ہیں پھر چھوٹ جاتی ہیں
منگا کر آئینہ مجھ تشنہ لب کو یاد کرتے ہیں
پھڑک کر مرغ بسمل کی طرح عاشق جو مرتے ہیں
دبا پایا جو ہے ہم کو تو یہ بھی ظلم کرتے ہیں
بخت ایسے کہاں ہیں جو کروں یار سے باتیں
شوخی تھی قیامت تری مستانہ ادا میں
قابل عضو میں آلودۂ عصیاں ہو لوں
باعث تڑپ کا شوخ ستم گر سے کیا کہیں
محبت کے جو داغ ڈالے ہوے ہیں
ستارے مرے دیکھے بھالے ہوئے ہیں
ذرا چلمن تک آئیں گھر میں وہ کیا بنکے بیٹھے ہیں
وہ دل کی تاک میں جب شوق سے بن ٹھن کے بیٹھی ہیں
مفت وہ کس کی جان لیتے ہیں
وصل میں یوں وہ جان لیتے ہیں
اے خوشاغم ہوئی الجھن جو سر مو دل میں
وہ رخ وزلف نہ تڑپا ئیں یہ ممکن ہی نہیں
الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
ردیف واو
بولے وہ آئے جو ناصح مرے سمجھانے کو
بولے وہ میں نے کہا جی کے جو بہلانے کو
اے تیغ یار ملکے گلے سے جدا نہ ہو
صدقے میں مرغ دل کو ہمارے رہا کرو
حکم دربان کا ہے عشاق سے سر کو سرکو
آج وہ چھاؤں میں تاروں کی سد ہارے گھر کو
مسجد دن میں نہ بے محل بیٹھو
راز تو حید کا جو ظاہر ہو
ماہی ڈالتے ہیں گیسوؤں والے دل کو
نہ آؤ تم تو مزاج چمن مجال نہ ہو
حسن کس کام کا جو آن نہ ہو
منہ دکھا دو جو ہم ندید دن کو
قتل کرتے ہو دکھا کر جوا دائیں مجھ کو
قتل سے آنکھیں چار کرتے ہو
غیر سے آنکھیں چار کرتے ہو
میکشو الجھونہ واعظ سے عبث جانے بھی دو
دیکھ سکتے نہیں پیاسا مرے آنسو مجھ کو۱
چین آتا نہیں دم بھر کسی پہلو مجھ کو
حسرت آئی یہ انھیں دیکھ کے بسمل مجھ کو
بوسہ دیتے نہیں پھردینے سے حاصل مجھ کو
ہو وصل پر دوئی کی کہسیں اس میں بو نہ ہو
ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
جو وقت بوسہ ایذا ہو ذرا بھی لعل جاناں کو
غضب سے اپنے عیبوں کا خیال آئی نہ انساں کو
وصل کی رات تو راحت سے بسر ہونے دو
ردیف ہاے ہوز
کتنی ہے گرم دختر رز کی ادا تو دیکھ
چمن میں غیر بھی آے جو میرے یار کے ساتھ
رکھتے ہو رقص میں جو کمر پر اٹھا کے ہاتھ
راہ بتلاتے ہیں ہم اور اسے دھیان ہے کچھ
چاند سا چہرہ نور کی چتون ماشاء اللہ ماشاء اللہ
دوسرا کون ہے جہاں تو ہے
کیوں وصل کی چرخ کو خبر کی
ردیف یاے تحتانی
جتنی کمی کہ نامہ سیاہی میں رہ گئی
آئینہ ترے حسن کا دل بھی ہے جگر بھی
غیروں سے ہیں باتیں بھی عنایت کی نظر بھی
ہیں اشارے یہ تیغ قاتل کے
وہ بن سنور کے ادھر آتے ہیں جفا کے لیے
کہہ رہی ہے حشر میں وہ آنکھ شرمائی ہوئی
کیا رنگ کہوں ضبط نفس پاس ادب کے
رند وجو ملو حضرت قاضی سے تو دب کے
ناز کی کہتی ہے تسمہ تو لگا رہنے دے
نہ سنے درد دل مرا نہ سنے
لوٹ ہو جس پہ تبسم وہ دہن کس کا ہے
منہ پہ کہہ دیں گے ہم قیامت کے
دل میں جو داغ ہیں ندامت کے
یہ گالی جو اے دلربا مل رہی ہے
کیوں وہ شرمائیں اپنے درباں سے
شکل آئینہ جو حیرت ہوگی
اٹھا پردہ تو شرم حائل ہوئی
حجاب نور ایسا درمیاں ہے
بدن میں جان شب وصل دلستاں آئی
مہر الفت میں تیری جلتا ہے
کوے جاناں میں ہوئی ہے جو شہادت میری
بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری
مرکے بھی ایسی شگفتہ ہے طبیعت میری
بے ترے حالت ہے یہ گلزار کی
دم تری الفت پوشیدہ کا بھرنے والے
اک ذرا دیکھ تو کیا کہتے ہیں مرنے والے
لے کے دل کہتے ہیں وہ بال بکھرنے والے
خاکی نزاد خاک کے اندر چلے گئے
جو گھر میں پھر کے ہم انکے حضور سے آئے
آکے غربت میں ہمیں عیش وطن بھول گئے
تیغ کھینچے جو یار آتا ہے
جب سے بلبل تو لے دو تنکے لیے
عجب عالم ہے اسکا وضع سادی شکل بھولی ہے
تندمے اور ایسے کمسن کے لیے
عجب ناگن ہے زلف اسکی کہ جس محفل میں کھولی ہے
بتوں ہی میں ہے وبت کچھ تجھے خبر بھی ہے
نالۂ بلبل سے دلپر چوٹ ایسی لگ گئی
زیر گیسو شوخی چشم پر یرواور ہے
چشم مخمور کو کیا کام قدح نوشی سے
ہے یقیں پھر دل عاشق نہ کبھی غم میں رہے
دو جہاں چھوڑ کے عشاق ترے غم میں رہے
حسن مرنے کا یہ ہے حسن مرے غم میں رہے
وصل ہو جائے یہیں حشر میں کیا رکھا ہے
آپ نے غیر کا خط ہم سے چھپا رکھا ہے
اک عمر ہو گئی کی اقامت سفر میں ہے
حسیں تو ہے وہ مروت نہیں اگر نہ سہی
طور پر اے طپش دل ہیں وہ آنے والے
دم اخیر تو ظالم ذرا نگاہ ملے
سر راہ عدم گور غریباں طرفہ بستی ہے
خودی سے بیخودی میں آجوشوق حق پرستی ہے
خبر دار اے مسافر خوف کی جاراہ ہستی ہے
ہم کڑی ایک بتوں کی نہیں سہنے والے
جھڑگئی افشاں جبیں پر کچھ ستارے رہ گئے
آنکھ اسکو کھولنی بھی دشوار ہوگئی ہے
آنکھ اسکی یہ کیونکر کہوں مخمور نہیں ہے
جلوہ گریار مگر قتلگہ عام میں ہے
غضب کی عشوہ گری روے خشمگیں میں رہی
کھلکے جب وہ زلف شبگوں پر تو افگن ہوگئی
شرم بیجا ہے اگر شوق خود آرائی ہے
شب وصل آنکھ تمہاری نہیں شرمائی ہے
اوبندۂ بت دیکھ خدا اور ہی کچھ ہے
ہم مر گئے آنے کی جوان کے خبر آئی
کہتے ہیں وصل میں پوری تونہ خلوت ہوگی
کیا کہا دم بھی نہ نکلے گا جو الفت ہوگی
روز فرقت بھی ہمیں وصل کی لذت ہوگی
مدح مژہ اس رشک قمر کی جو رقم کی
ہر قدم پر جو یہی ناز کی صورت ہوگی
جان لیکر بھی نہیں دل سے یہ ہٹنے والے
طوفان مرے رونے کے سمندر سے بڑ ہیں گے
جو نازک طبع ہیں محفوظ ہیں قہر الٰہی سے
میرے گھر رات دن اشکوں کی جھڑی رہتی ہے
وہ خوش ہنگام آرائیش ہیں اپنی کجکلاہی سے
پہچان پر ہے ناز تو پہچان جائیے
رتبہ شہید عشق کا گر جان جائیے
چاندنی میں جو وہ آجاتا ہے
عکس آئینہ سے یہ ظاہر ہے
کوچۂ یار پر ختن صدقے
کہوں کیا کہ وہ شوخ کیا آدمی ہے
غیر کے پہلو میں یارو دیکھیے کب تک رہے
یوں آنسوؤں سے ہے دل مضطر کی خرابی
منکسر وہ ہیں ہمارا گھر بنے اور ٹوٹ جائے
کیونکر رہیں نہ اسکی نظر سے گرے ہوے
جبیں قمر ہے ہلال ابرو تو چہر ہ غصے سے لال بھی ہے
ہاتھ طوق گردن مینا کیے
دن جوانی کے گئے پیری سفر کا وقت ہے
صبا کو یہ کیا آج موج آگئی
وہ صورت تصورمیں کیا آگئی
کہیں یہ بھی نہ چھپ جائے نظر سے
اسکی شوخی شرار میں ہے اسکی گرمی چنار میں ہے
حشر میں جس نے کہا بندہ خطا کاروں میں ہے
رکا خنجر جو دست نازنیں سے
جو تم ہو مرے دل میں تو دل یہی ہے
خفا جس سے عیسیٰ ہے وہ دل یہی ہے
بہار آپہنچی ہے اب جام مے مستوں میں چلتا ہے
یہ کس یہ بیدرد کس ظالم پر اپنا دم نکلتا ہے
ذ وق مینوشی بڑہاتی
بڑھتی ہے رونے سے مستون کی فضا برسات کی
مرے دل میں پاکی جگہ نئی ترے رخ کی جلوہ گری رہی
اے خضر کیا سناوں میں حال تباہ کی
کیا کہیں دل سے کہاں وصل میں ارماں گئے
کس برے حال سے عاشق تری ایجاں گئے
کہتے ہیں مجھ سے کہ مجھ پر ہے یہ تہمت کیسی
سادگی میں تری شوخی کی ہے رنگت کیسی
دکھلا کے اک جھلک جو وہ رو پوش ہوگئے
دل ہی عاشق کی بڑی سوغات ہے
قاضی بھی محتسب بھی قدح نوش ہوگئے
ہوے نامور بے نشاں کیسے کیسے
مٹے درخت رز پر جواں کیسے کیسے
پہلے نگاہ پھر مری دشمن حیا ہوئی
کچھ بھی جو شوخیوں سے وہ آنکھ آشنا ہوئی
اچھے عیسےٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
بھولے پن سے دم رخصت یہ سوال اچھا ہے
ہر کلی کہتی ہے کھلکر ترے دیوانے سے
راز میخانے کے باہر نہ ہوں میخانے سے
دخت رزاٹکی ہے ساقی کسی دیوانے سے
جب آنکھ اس شاہ خوباں پر پڑی ہے
شب وصل آنکھ جب مجھ پر پڑی ہے
چمکائے ہیں کیا داغ جگر آہ رسانے
سیکھی ہے ادا تیری مریجان قضا نے
وہ کہتے ہیں نکلنا اب تو دروازے پہ مشکل ہے
ادھر ضعف اور ادھر رعب اب سوال وصل مشکل ہے
نکلتا اس گلی سے ہوکے بھی عاشق کو مشکل ہے
بلا پہ صبر کیا عیش جاوداں کے لیے
امیر روتی ہے امت شہ زماں کے لیے
مہندی کہتی ہے دست قاتل سے
چال سے پامال مجھ کو کر چلے
کس کی چاہ بھی دل میں مرے اے نازنیں نکلی
خبر ہے نعش پہ کس بیوفا کے آنے کی
جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے
وہ مست ہوں کہ ساغر مے جب میں پا گیا
گوہر انتخاب
ہاتھ رکھ کر مرے سینے پہ جگر تھام لیا
جوہر انتخاب
قطعات تاریخ 358
تصنیفات حضرت امیر مینائی
یہ آفتاب ہے گرم اسکی کبریائی کا
سکہ رائج جب سے دین مصطفے کا ہوگیا
حسن مطلق کا ازل کے دن سے میں دیوانہ تھا
میں پرانا مست ہوں جنت مرا کا شانہ تھا
آنکھوں میں نور تیر ا دل میں سرور تیرا
نہ شوق وصل کا موقع نہ ذوق آشنائی کا
ترے بندوں سے کرتے ہیں یہ بت دعویٰ خدائیکا
لیے ہے آفتاب حشر بھی کاسہ گدائی کا
ان شوخ حسینوں پہ جو مائل نہیں ہوتا
خضر رہ مقصود اگر دل نہیں ہوتا
غم نہیں جی تن سے نکلا دل گیا
داغ غم روز ازل ہی مل گیا
دامنوں کا نہ پتا ہے نہ گریبانوں کا
کی جو کچھ عشق نے تاثیر تما شا ہوگا
تابع دین کبھی دولت پہ نہ شیدا ہوگا
سرد آہیں جب کسی نے کیں وطن یاد آگیا
رو برو آئنے کے تو جو مری جان ہوگا
مرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا
نئی چوٹیں چلتیں قاتل جو کبھی دو چار ہوتا
جھونکا ادھر نہ آئے نسیم بہار کا
موباف کھل گیا ہے کسی گلعذار کا
جمال یار کو کہتے ہو تم کہ ہاں دیکھا
ہو پاؤں تھے جو شاہد آغوش نقش پا
کیونکر رہے نہ زار تن و توش نقش پا
پہلو سے تو اٹھا تھا کہ میں سرد ہوگیا
ایک دل ہمدم مرے پہلو سے کیا جاتا رہا
غنی ساتھ دنیا سے کیا لے گیا
پر سش کو مری کون مرے گھر نہیں آتا
دل میں خیال آن آنکھوں کا لایا نہ جائیگا
گھر میں تمہارے غیر سے جایا نہ جائیگا
کھولے ہوئے جوڑا تجھے ایجان نہیں دیکھا
میں کبھی وقت پہ مقتل سے نہ ٹل جاؤ نگا
حریم کوچۂ قاتل کی راہ گر لینا
چال وحشت کی کسی روز جو چل جاونگا
دم اخیر ہے لازم نظارہ کر لینا
ناوک ناز سے مشکل ہے بچانا دل کا
کیا میں اے پردہ نشیں قتل کا خواہاں ہوتا
ہم سے دل درد محبت کا دکھایا نہ گیا
درد الفت نے وہاں سے بھی نکالا ہوتا
اٹھکے اس محفل سے گھبراہٹ کا احسان رہ گیا
تصویر میں زلفوں کے رویا کیا
ہر جام میں ہے جلوۂ مستانہ کسی کا
حیا بولی ابھر ا جو جو بن کسی کا
تاب گویا ئی نہیں رکھتا دہن تصویر کا
شوق خلوت میں بھی ہے انجمن آرائی کا
داغ دیگا تجھے یہ شوق خود آرائی کا
موقوف بیخودی پہ ہے جلوہ حبیب کا
شبنم وگل کو جو ہم نے ترے ہوتے دیکھا
تھا دھیان میں نقشہ جو تری جلوہ گری کا
عمر برق و شرار ہے دنیا
جی ہی لے گا غم جاناں میرا
میرے دل میں اگر آپ آئیے گا
ہو چکا وعدہ کہ کل آئیے گا
کہا مژہ نے ہوا جب مقابلہ دل کا
پر تو نہیں کب اسمیں کسی خوش جمال کا
میری طرح نہ اک دن ابر بہار رویا
گور میں تم نے جو لاشے کو اتارا ہوتا
یہ گرم اپنا داغ جگر ہوگیا
موقوف جرم ہی پہ کرم کا ظہور تھا
استاد میل جول میں اس کا ظہور تھا
پہلو میں میرے بیٹھ کے بھی مجھ سے دور تھا
پردہ اس چہرے سے جدا نہ ہوا
غیر تو زندہ ہے پھر غم ہے مریجان کس کا
اے فلک یہ رت یہ متوالی گھٹا
دیکھے ان کانوں کی گر بالی گھٹا
تکا کرتی ہے چاند سامنہ کسی کا
مرے پھولوں میں کیا ہے موقع ہنسی کا
دھیان آیا جو دل میں اس ہنسی کا
ردیف بائے موحدہ
پوری مراد دل ہو کہ پھوٹے مرا نصیب
حال فناے دہر سے غافل نہیں حباب
کہتا ہوں یہیں سو رہو دیکھو ہے بڑی دھوپ
میری تربت پر کھلے بالوں اگر آئیں گے آپ
مجھ کو کیا جس کو جب ملیں گے آپ
ہیں ترے عارض و گیسوے مغبردن رات
ردیف تاے قرشت
خدا دکھاے کسی گلعذار کی صورت
اسے میرے گھر تک نہ لائے گی رات
ردیف تائے ثقیلہ
ہے میل جو آغاز میں کب ہے یہ نئے چوٹ
لچک گئی کمر اسکی تو دل نے کھائی چوٹ
کسی پہ زخم پڑا یاں جگر پہ آئی چوٹ
ہجر میں ہے فضا عبث ابر عبث ہوا عبث
سبزہ مرے مزار بعد فنا اگا عبث
ردیف ثاے مثلثہ
اس شان سے وہ برق وش آتا ہے ادھر آج
ردیف جیم تازی
عاشق ابرو کی یون تصویر کھینچ
ردیف جیم فارسی
جو تجھ سے رخ ملائیں چاند سورج
منت قاتل نہ احسان کمان وتیر کھینچ
چلتے ہی گزری ہمیں دم کی طرح
ردیف حاے حطی
ہے دل میں ٹھنی آب کہ اگر آئے گا
مژہ بھی کرتی ہے بل ابر وتبان کی طرح
عاقلون کو رہے آبادی کا شانہ پسند
ردیف خاے معجمہ
ہے جس قدر کہ وہ صنم شوخ وشنگ شوخ
ردیف دال مہملہ
سچ کہہ پسند کس کی ہے اے خوبر وپسند
جس دن سے اس غریب کو آیا ہے تو پسند
میرا کلام صاف ہو کیونکر عدو پسند
چاہ دقن میں دل کو کیا بے گناہ بند
چھو کے اس آبرو کو ہے مجھ کو بھی شایان گھمنڈ
مشاطہ کیا ہے آئنے کا بھی سلام بند
ردیف دال ثقلہ
نہیں ہے غنچہ عروس بہار کا تعویذ
ردیف ذال
چشم بددور کھلا خوب ہی سرکا تعویذ
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
ردیف راے مہملہ
کون سا گل ہے نہیں جو زیب دامان بہار
جو دل ہے حلقہ بزم شراب سے باہر
بادۂ سرخ پیون ساغرو مینا بھر کر
سو دل فداے صاحب فرمان رام پور
آمادہ وہ مژگان سے ہیں نادک فگنی پر
تعجب ہے جو سرکش ہیں یہ زر دار
دل ابرو پر فدا ہو مفت کا الزام دلبر پر
وہ بگڑے جب لیا بوسہ جھگڑ کر
ساقیا ابر ابھی آیا نہیں میخانے پر
ملا نام خدا وہ مرتبہ تجھ کو حسین ہوکر
دیکھو زبان نہ تیز کرو بات بات پر
کیونکر نظر میں آئے کہ ہے بے نشاں کمر
اٹھاتے تھے جو قرآن کل تلک پر ہیز گاری پر
گلشن فردوس ہے رخسار یار
نوجوانی ہے نہ پوچھو رخ جاناں کی بہار
مرے پھولوں میں یوں آؤ چمن صدقے ہو جو بن پر
مری آہوں کے شعلے اس طرح ہیں میرے مدفن پر
اثر یہ ہے جو دی ہے جان اسکے روے روشن پر
کھلے ہیں یان دیدۂ بصیرت وہ برق حسن آے تو چمک کر
جو دماغ میں میرے پہنچ گئی بو تو الجھ کے نہ زلف دوتا سے بگڑ
ردیف راے ثقیلہ
یوں ہے خط سبز سے رنگ رخ دلدار سبز
ردیف زائے معجمہ
زلفوں سے خال رخ ہے مجھے بیشتر عزیز
نار قسمت نے کب جانے دیا دلبر کے پاس
ردیف سین مہملہ
چمکا کر یں چمکیں جو چمن میں پرطاؤس
ٹھہرا گیا کب تیر سے اے ترک میرے دل کے پاس
واں چشم وابرو ہمنشیں اور یاں جگر ہی دل کے پاس
جو لپٹ بھی جائے وہ گلبدن تو نہوں میں ہجر کی ڈرسے خوش
ردیف شین معجمہ
کیوں نہ کہیے ہیں مہ و مہر سے بڑھ کر عارض
ردیف صاد مہملہ
ردیف ضاد معجمہ
آبرو کھوتی ہے پھر بھی رکھتی ہے ناکام حرص
ہم کو وزیر سے نہ کسی شاہ سے غرض
ہوتا ہے روز مجھ کو جو عارض نیا مرض
پڑھا جاتا نہیں اے دلربا خط
ردیف طائے مہملہ
ہے روے کتابی پر کیا خوب تمہارا خط
ردیف ظاے معجمہ
ردیف عین مہملہ
میری طرح جہاں میں ہے گر شتاب شمع
آنا ہو میکدے میں تو دن کو آے واعظ
ممکن نہیں کہ رخ سے ترے ہو دو چار شمع
ردیف غین معجمہ
کر رہا ہے خوب تقلید رخ و کا کل چراغ
کیا شب تاریک فرقت میں جلائیں ہم چراغ
کھائے یہ الفت بت غنچہ دہن میں داغ
ردیف فا
دوڑا دل اسکی زلف سیہ فام کی طرف
ہے چھلا و ا اس پری پیکر کے بل کھانے سے زلف
عارض ترے اے گلبدن ایک اس طرف ایک اس طرف
کتنی ہو دور قطع ہے دم بھر میں راہ شوق
ردیف قاف
قہر ہے مژگاں چشم جادوے دلبر کی صف
زندہ یارب ہوں جو مردہ ہیں یہ آوارۂ عشق
ردیف کاف تازی
وصل حاصل ہے مگر ہے غم ہجراں ابتک
غم سے بجا ہیں بیتاب عاشق
عشق میں ہیں لب خشک مژۂ تر ترو خشک
نہیں ممکن رسائی لا مکاں تک
ردیف کاف فارسی
میں وہ دل سوختہ ہوں اس چمن میں
باغ میں آکر وہ گلرو تازہ دکھلاتا ہے رنگ
ڈھونڈا کیے ہم کو نہ ملا یار کا گھر تک
دل ہے دشمن نہ بغل میں اسے پالے بلبل
ردیف لام
انہیں درکار ہے اک چلبلا دل
واہ کیا خوب پر وبال نکالے بلبل
وہ مجنوں ہوں مرا سودا نہیں تدبیر کے قابل
کیوں نہ تکیوں میں ہو گرم نالہ ہائے زار دل
گل سنتے ہیں کب صدا بلبل
باتیں حکمت کی کہیں سب کو ملی پھول سے پھول
جاتا تو اسکے کوچے میں ہے بار بار دل
کریں پھولوں کی کیوں کر آرزو ہم
گنتا ہے ترے ہجر کی ایک ایک گھڑی دل
یہ روئے وصل میں منہ رکھ کے روے یار پہ ہم
ردیف میم
ہوں سارے شہر میں ہیں اگر جا بجا کریم
مٹ نہ سکا تقدیر کا لکھا روز رہے پامال خطر ہم
ہم لوٹتے ہیں وہ سور ہے ہیں
ردیف نون
اسکی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ہاے وہ دن کہ گزر جاتی تھی شب باتوں میں
یہ تو میں کیونکر کہوں تیرے خریداروں میں ہوں
ضبط کرنا دل حزیں نہ کہیں
اس شان سے ہم آئے تری جلوہ گاہ میں
اللہ ری لاغری کہ تری جلوہ گاہ میں
وہ بیکس ہوں نہیں ہے کوئی میری غمگسار وں میں
چلے ساقی ہنسے بولے اگر آئی ہے یاروں میں
مثل تار نظر نظر میں نہیں
دل جو کہتا ہے مجھے ضبط کی طاقت ہی نہیں
آ تجھ پڑوں کسی دامن سے میں وہ خار نہیں
غضب کی آنکھ سے یہ کجکلاہ دیکھتے ہیں
روشنی نام کو بھی خانۂ ویراں میں نہیں
دھوم ہے چرخ بریں کی کس قدرا فواہ میں
کلیاں یہ سرخ سرخ نہیں لالہ زار میں
کیا عارف مجھے پیر مغاں نے اک پیالے میں
لچک ہے شاخوں میں جنبش ہوا سے پھولوں میں
پستی بخت سے یہ خاک برابر میں ہوں
دل جدا مال جدا جان جدا لیتے ہیں
فراق یار میں شب ہو کہ دن تمام نہیں
ڈسگئی دل کو مرے زلف کی کالی ناگن
کسی کی روح پہ صدمہ ہوا اشکبار ہوں میں
بانکی ادا ہے وہ نگہ خشمگیں نہیں
جو بوے گل چمن میں ڈھونڈ تے ہیں
گزشتہ خاک نشینوں کی یاد گار ہوں میں
پروانے کیوں نہ خاک ہوں جل کر چراغ میں
کہتا ہے کون آہ میں اپنی اثر نہیں
پڑ گئی کیا لوٹ یارب گلشن ایجاد میں
دیکھی مجنوں کی شبیھ آج جو تصویروں میں
مشتاق وصل کون ترا ناز نیں نہیں
عالم میں کوئی دختر زر ساحسیں نہیں
یاد قاتل میں لہو سے جو ہوئیں تر پلکیں
عالم شگفتہ ہو جومیں آفت رسیدہ ہوں
کس کے چمکے چاند سے رخسار قیصر باغ میں
داغ اے بہار جیسے ہمارے بدن میں ہیں
عزیز احباب ساتھی دم کے ہیں پھر چھوٹ جاتی ہیں
منگا کر آئینہ مجھ تشنہ لب کو یاد کرتے ہیں
پھڑک کر مرغ بسمل کی طرح عاشق جو مرتے ہیں
دبا پایا جو ہے ہم کو تو یہ بھی ظلم کرتے ہیں
بخت ایسے کہاں ہیں جو کروں یار سے باتیں
شوخی تھی قیامت تری مستانہ ادا میں
قابل عضو میں آلودۂ عصیاں ہو لوں
باعث تڑپ کا شوخ ستم گر سے کیا کہیں
محبت کے جو داغ ڈالے ہوے ہیں
ستارے مرے دیکھے بھالے ہوئے ہیں
ذرا چلمن تک آئیں گھر میں وہ کیا بنکے بیٹھے ہیں
وہ دل کی تاک میں جب شوق سے بن ٹھن کے بیٹھی ہیں
مفت وہ کس کی جان لیتے ہیں
وصل میں یوں وہ جان لیتے ہیں
اے خوشاغم ہوئی الجھن جو سر مو دل میں
وہ رخ وزلف نہ تڑپا ئیں یہ ممکن ہی نہیں
الفت میں برابر ہے وفا ہو کہ جفا ہو
ردیف واو
بولے وہ آئے جو ناصح مرے سمجھانے کو
بولے وہ میں نے کہا جی کے جو بہلانے کو
اے تیغ یار ملکے گلے سے جدا نہ ہو
صدقے میں مرغ دل کو ہمارے رہا کرو
حکم دربان کا ہے عشاق سے سر کو سرکو
آج وہ چھاؤں میں تاروں کی سد ہارے گھر کو
مسجد دن میں نہ بے محل بیٹھو
راز تو حید کا جو ظاہر ہو
ماہی ڈالتے ہیں گیسوؤں والے دل کو
نہ آؤ تم تو مزاج چمن مجال نہ ہو
حسن کس کام کا جو آن نہ ہو
منہ دکھا دو جو ہم ندید دن کو
قتل کرتے ہو دکھا کر جوا دائیں مجھ کو
قتل سے آنکھیں چار کرتے ہو
غیر سے آنکھیں چار کرتے ہو
میکشو الجھونہ واعظ سے عبث جانے بھی دو
دیکھ سکتے نہیں پیاسا مرے آنسو مجھ کو۱
چین آتا نہیں دم بھر کسی پہلو مجھ کو
حسرت آئی یہ انھیں دیکھ کے بسمل مجھ کو
بوسہ دیتے نہیں پھردینے سے حاصل مجھ کو
ہو وصل پر دوئی کی کہسیں اس میں بو نہ ہو
ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
جو وقت بوسہ ایذا ہو ذرا بھی لعل جاناں کو
غضب سے اپنے عیبوں کا خیال آئی نہ انساں کو
وصل کی رات تو راحت سے بسر ہونے دو
ردیف ہاے ہوز
کتنی ہے گرم دختر رز کی ادا تو دیکھ
چمن میں غیر بھی آے جو میرے یار کے ساتھ
رکھتے ہو رقص میں جو کمر پر اٹھا کے ہاتھ
راہ بتلاتے ہیں ہم اور اسے دھیان ہے کچھ
چاند سا چہرہ نور کی چتون ماشاء اللہ ماشاء اللہ
دوسرا کون ہے جہاں تو ہے
کیوں وصل کی چرخ کو خبر کی
ردیف یاے تحتانی
جتنی کمی کہ نامہ سیاہی میں رہ گئی
آئینہ ترے حسن کا دل بھی ہے جگر بھی
غیروں سے ہیں باتیں بھی عنایت کی نظر بھی
ہیں اشارے یہ تیغ قاتل کے
وہ بن سنور کے ادھر آتے ہیں جفا کے لیے
کہہ رہی ہے حشر میں وہ آنکھ شرمائی ہوئی
کیا رنگ کہوں ضبط نفس پاس ادب کے
رند وجو ملو حضرت قاضی سے تو دب کے
ناز کی کہتی ہے تسمہ تو لگا رہنے دے
نہ سنے درد دل مرا نہ سنے
لوٹ ہو جس پہ تبسم وہ دہن کس کا ہے
منہ پہ کہہ دیں گے ہم قیامت کے
دل میں جو داغ ہیں ندامت کے
یہ گالی جو اے دلربا مل رہی ہے
کیوں وہ شرمائیں اپنے درباں سے
شکل آئینہ جو حیرت ہوگی
اٹھا پردہ تو شرم حائل ہوئی
حجاب نور ایسا درمیاں ہے
بدن میں جان شب وصل دلستاں آئی
مہر الفت میں تیری جلتا ہے
کوے جاناں میں ہوئی ہے جو شہادت میری
بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری
مرکے بھی ایسی شگفتہ ہے طبیعت میری
بے ترے حالت ہے یہ گلزار کی
دم تری الفت پوشیدہ کا بھرنے والے
اک ذرا دیکھ تو کیا کہتے ہیں مرنے والے
لے کے دل کہتے ہیں وہ بال بکھرنے والے
خاکی نزاد خاک کے اندر چلے گئے
جو گھر میں پھر کے ہم انکے حضور سے آئے
آکے غربت میں ہمیں عیش وطن بھول گئے
تیغ کھینچے جو یار آتا ہے
جب سے بلبل تو لے دو تنکے لیے
عجب عالم ہے اسکا وضع سادی شکل بھولی ہے
تندمے اور ایسے کمسن کے لیے
عجب ناگن ہے زلف اسکی کہ جس محفل میں کھولی ہے
بتوں ہی میں ہے وبت کچھ تجھے خبر بھی ہے
نالۂ بلبل سے دلپر چوٹ ایسی لگ گئی
زیر گیسو شوخی چشم پر یرواور ہے
چشم مخمور کو کیا کام قدح نوشی سے
ہے یقیں پھر دل عاشق نہ کبھی غم میں رہے
دو جہاں چھوڑ کے عشاق ترے غم میں رہے
حسن مرنے کا یہ ہے حسن مرے غم میں رہے
وصل ہو جائے یہیں حشر میں کیا رکھا ہے
آپ نے غیر کا خط ہم سے چھپا رکھا ہے
اک عمر ہو گئی کی اقامت سفر میں ہے
حسیں تو ہے وہ مروت نہیں اگر نہ سہی
طور پر اے طپش دل ہیں وہ آنے والے
دم اخیر تو ظالم ذرا نگاہ ملے
سر راہ عدم گور غریباں طرفہ بستی ہے
خودی سے بیخودی میں آجوشوق حق پرستی ہے
خبر دار اے مسافر خوف کی جاراہ ہستی ہے
ہم کڑی ایک بتوں کی نہیں سہنے والے
جھڑگئی افشاں جبیں پر کچھ ستارے رہ گئے
آنکھ اسکو کھولنی بھی دشوار ہوگئی ہے
آنکھ اسکی یہ کیونکر کہوں مخمور نہیں ہے
جلوہ گریار مگر قتلگہ عام میں ہے
غضب کی عشوہ گری روے خشمگیں میں رہی
کھلکے جب وہ زلف شبگوں پر تو افگن ہوگئی
شرم بیجا ہے اگر شوق خود آرائی ہے
شب وصل آنکھ تمہاری نہیں شرمائی ہے
اوبندۂ بت دیکھ خدا اور ہی کچھ ہے
ہم مر گئے آنے کی جوان کے خبر آئی
کہتے ہیں وصل میں پوری تونہ خلوت ہوگی
کیا کہا دم بھی نہ نکلے گا جو الفت ہوگی
روز فرقت بھی ہمیں وصل کی لذت ہوگی
مدح مژہ اس رشک قمر کی جو رقم کی
ہر قدم پر جو یہی ناز کی صورت ہوگی
جان لیکر بھی نہیں دل سے یہ ہٹنے والے
طوفان مرے رونے کے سمندر سے بڑ ہیں گے
جو نازک طبع ہیں محفوظ ہیں قہر الٰہی سے
میرے گھر رات دن اشکوں کی جھڑی رہتی ہے
وہ خوش ہنگام آرائیش ہیں اپنی کجکلاہی سے
پہچان پر ہے ناز تو پہچان جائیے
رتبہ شہید عشق کا گر جان جائیے
چاندنی میں جو وہ آجاتا ہے
عکس آئینہ سے یہ ظاہر ہے
کوچۂ یار پر ختن صدقے
کہوں کیا کہ وہ شوخ کیا آدمی ہے
غیر کے پہلو میں یارو دیکھیے کب تک رہے
یوں آنسوؤں سے ہے دل مضطر کی خرابی
منکسر وہ ہیں ہمارا گھر بنے اور ٹوٹ جائے
کیونکر رہیں نہ اسکی نظر سے گرے ہوے
جبیں قمر ہے ہلال ابرو تو چہر ہ غصے سے لال بھی ہے
ہاتھ طوق گردن مینا کیے
دن جوانی کے گئے پیری سفر کا وقت ہے
صبا کو یہ کیا آج موج آگئی
وہ صورت تصورمیں کیا آگئی
کہیں یہ بھی نہ چھپ جائے نظر سے
اسکی شوخی شرار میں ہے اسکی گرمی چنار میں ہے
حشر میں جس نے کہا بندہ خطا کاروں میں ہے
رکا خنجر جو دست نازنیں سے
جو تم ہو مرے دل میں تو دل یہی ہے
خفا جس سے عیسیٰ ہے وہ دل یہی ہے
بہار آپہنچی ہے اب جام مے مستوں میں چلتا ہے
یہ کس یہ بیدرد کس ظالم پر اپنا دم نکلتا ہے
ذ وق مینوشی بڑہاتی
بڑھتی ہے رونے سے مستون کی فضا برسات کی
مرے دل میں پاکی جگہ نئی ترے رخ کی جلوہ گری رہی
اے خضر کیا سناوں میں حال تباہ کی
کیا کہیں دل سے کہاں وصل میں ارماں گئے
کس برے حال سے عاشق تری ایجاں گئے
کہتے ہیں مجھ سے کہ مجھ پر ہے یہ تہمت کیسی
سادگی میں تری شوخی کی ہے رنگت کیسی
دکھلا کے اک جھلک جو وہ رو پوش ہوگئے
دل ہی عاشق کی بڑی سوغات ہے
قاضی بھی محتسب بھی قدح نوش ہوگئے
ہوے نامور بے نشاں کیسے کیسے
مٹے درخت رز پر جواں کیسے کیسے
پہلے نگاہ پھر مری دشمن حیا ہوئی
کچھ بھی جو شوخیوں سے وہ آنکھ آشنا ہوئی
اچھے عیسےٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
بھولے پن سے دم رخصت یہ سوال اچھا ہے
ہر کلی کہتی ہے کھلکر ترے دیوانے سے
راز میخانے کے باہر نہ ہوں میخانے سے
دخت رزاٹکی ہے ساقی کسی دیوانے سے
جب آنکھ اس شاہ خوباں پر پڑی ہے
شب وصل آنکھ جب مجھ پر پڑی ہے
چمکائے ہیں کیا داغ جگر آہ رسانے
سیکھی ہے ادا تیری مریجان قضا نے
وہ کہتے ہیں نکلنا اب تو دروازے پہ مشکل ہے
ادھر ضعف اور ادھر رعب اب سوال وصل مشکل ہے
نکلتا اس گلی سے ہوکے بھی عاشق کو مشکل ہے
بلا پہ صبر کیا عیش جاوداں کے لیے
امیر روتی ہے امت شہ زماں کے لیے
مہندی کہتی ہے دست قاتل سے
چال سے پامال مجھ کو کر چلے
کس کی چاہ بھی دل میں مرے اے نازنیں نکلی
خبر ہے نعش پہ کس بیوفا کے آنے کی
جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے
وہ مست ہوں کہ ساغر مے جب میں پا گیا
گوہر انتخاب
ہاتھ رکھ کر مرے سینے پہ جگر تھام لیا
جوہر انتخاب
قطعات تاریخ 358
تصنیفات حضرت امیر مینائی
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.