فہرست
انتساب
مقدمہ
تقریظ
عرض مصنف
تمنا ہے کہ مرتے وقت بھی ہم مسکراتے ہوں
نعت
سلام بحضور امام
دیباچہ
یہ سکوت اور یہ بے نقش قدم رہگزار
روزن
بلاؤں نے تجلی خانہ ہستی کو گھیرا ہے
دنیا یہی ہے دنیا یہی ہے
چالاک دنیا عیار دنیا بد خلق دنیا بدکار دنیا
فضا میں خلفشار ہے زمانہ بے قرار ہے
بے خودی
شب مہتاب وشام زندگانی یاد آتی ہے
شب مہتاب
غزلیات
اک عشق ہی کیا شعلہ فشاں میری غزل میں
وہ یوں کھو کر مجھے پایا کریں گے
بس اک نگاہ کرم ہے کانی اگر انہیں پیش وپس نہیں ہے
ان کے بغیر ہم جو گلستان میں آگئے
اڑ کے سحر یاد گذشتہ جشن بہاراں کیوں نہ کریں
فروغ حسن کرم کا حاصل غم جفا ئے تمام کیوں ہے
یوں برق بے اماں کو تپانا ہے ایک دن
نہ فروغ بام کی جستجو نہ ضیائے در کی تلاش ہے
ان سے امید رہ نمائی ہے
کبھی تو کام یارب جذبۂ احساس آجائے
جو دل پہ گذرتی ہے وہ سمجھا نہیں سکتے
ہوں اک عمر ترک التجا کو
عروج فطرت آدم کو رسوا کر رہا ہوں میں
جو نظر ہے مطمئن ہے جو نفس ہے شادماں ہے
آمد فصل خزاں کا جو نہ امکاں ہوتا
نظروں پہ ستم، دل پہ جفا ہو کے رہے گی
بہار آئی کسی کا سامنا کرنے کا وقت آیا
اللہ اللہ مقام ضبط الم
برائے نام جہاں دور بے سرور چلیں
نہ ساقی نہ مطرب نہ ساغر نہ مینا
یارب غرور حسن کو رسوا نہ کر سکوں
اثر دکھائے گی سعئ گراں کبھی نہ کبھی
غم عشق رہ گیا ہے غم جستجو میں ڈھل کر
ہر جذبۂ غم کی تلخی میں اک مستئ پنہاں دیکھیں گے
ممکن نہیں کہ دور رہیں راہ وفا سے ہم
بے خودی ہے نہ ہوشیاری ہے
مآل گردش دوراں وہ کیا سمجھے وہ کیا جانے
اب تک شکایتیں ہیں دل بدنصیب سے
بے اثر دور جام ہے اب تک
شب کی بہار صبح کی ندرت نہ پوچھئے
گلشن ہو پھر تصرف دور خزاں سے دور
ہوں دل میں عشرت غم جاناں لئے ہوئے
لطف نگاہ ناز کی تہمت اٹھائے کون!
ذوق لطیف وچشم حقیقت نگر کہاں
فطرت کے حسین نظاروں میں پر کیف خزانے اور بھی ہیں
نہ کھواے رہبر منزل وقار رفیض عام اپنا
نگاہوں کو کہاں تاب حضوری
آنکھوں سے دور صبح کے تارے چلے گئے
ایک ایک قدم فریب تمنا سے بچ کے چل
وقت سحر خوشی کا مزہ غم میں آگیا
لب خزاں نہ سہی غیرت بہار کرے
کیوں غم عشرت میں دل کو صرف ماتم کیجئے
گلشن ہو نگاہوں میں تو جنت نہ سمجھنا
بیکسی سے مرنے والے کا بھرم رہ جائے گا
زندگی لے کے ارباب جاں چل دیئے
تری محفل سے اٹھ کر عشق کے ماروں پہ کیا گذری
نقش فطرت نے جو ابھارے ہیں
خراماں زندگی ہے دالہانہ
ملا نہ رہروان سست گام کو ترا نشان
راہ خدا میں عالم رندانہ مل گیا
اللہ اللہ مآل نظم کہن
ان کی صورت ان کے جلوے ان کی محفل دیکھ کر
ترے بغیر عجب بزم دل کا عالم ہے
وہ کیف حسن وعشق وہ لطف غزل گیا
جس قدر دل بسمل نازوادابنتا گیا
آدمی نہ اتنا بھی دور ہو زمانے سے
کہیں عشق کا تقاضہ کہیں حسن کے اشارے
متاع غم عاشقی مانگ لوں گا!
بدلے بدلے مرے غمخوار نظر آتے ہیں
شوخ نظروں میں جو شامل برہمی ہو جائے گی
یہ تمام غنچہ وگل، میں ہنسوں تو مسکرائیں
دل غم زدہ پر جفائیں کہاں تک
قرباں کسی پہ دولت ہستی ہے آج کل
چھٹ کے ہم پھر نہ مل سکیں گے شتاب
ان کی نگہہ قہر سے مایوس نہ ہو دل
تیرا غم پاکر بلائے عشرت فانی گئی
دانستہ سامنے سے جو وہ بے خبر گئے
ہر نفس ان کا خیال آتا رہا
جذبات کی رومیں بہہ گیا ہوں
کیا ہوتا نہ آنکھوں کو غم ہستی میں تر میں نے
تیری محفل میں باریابی ہے
ہائے اس مجبوری ذوق نظر کو کیا کروں
مآل عشق پہلے سے اگر معلوم ہو جائے
جلوۂ حسن کرم کا آسرا کرتا ہوں میں
سحر سے خوں بد اماں آسمان پیر ہے ساقی
دھندلی دھندلی فضا نہ صبح نہ شام
فہرست
انتساب
مقدمہ
تقریظ
عرض مصنف
تمنا ہے کہ مرتے وقت بھی ہم مسکراتے ہوں
نعت
سلام بحضور امام
دیباچہ
یہ سکوت اور یہ بے نقش قدم رہگزار
روزن
بلاؤں نے تجلی خانہ ہستی کو گھیرا ہے
دنیا یہی ہے دنیا یہی ہے
چالاک دنیا عیار دنیا بد خلق دنیا بدکار دنیا
فضا میں خلفشار ہے زمانہ بے قرار ہے
بے خودی
شب مہتاب وشام زندگانی یاد آتی ہے
شب مہتاب
غزلیات
اک عشق ہی کیا شعلہ فشاں میری غزل میں
وہ یوں کھو کر مجھے پایا کریں گے
بس اک نگاہ کرم ہے کانی اگر انہیں پیش وپس نہیں ہے
ان کے بغیر ہم جو گلستان میں آگئے
اڑ کے سحر یاد گذشتہ جشن بہاراں کیوں نہ کریں
فروغ حسن کرم کا حاصل غم جفا ئے تمام کیوں ہے
یوں برق بے اماں کو تپانا ہے ایک دن
نہ فروغ بام کی جستجو نہ ضیائے در کی تلاش ہے
ان سے امید رہ نمائی ہے
کبھی تو کام یارب جذبۂ احساس آجائے
جو دل پہ گذرتی ہے وہ سمجھا نہیں سکتے
ہوں اک عمر ترک التجا کو
عروج فطرت آدم کو رسوا کر رہا ہوں میں
جو نظر ہے مطمئن ہے جو نفس ہے شادماں ہے
آمد فصل خزاں کا جو نہ امکاں ہوتا
نظروں پہ ستم، دل پہ جفا ہو کے رہے گی
بہار آئی کسی کا سامنا کرنے کا وقت آیا
اللہ اللہ مقام ضبط الم
برائے نام جہاں دور بے سرور چلیں
نہ ساقی نہ مطرب نہ ساغر نہ مینا
یارب غرور حسن کو رسوا نہ کر سکوں
اثر دکھائے گی سعئ گراں کبھی نہ کبھی
غم عشق رہ گیا ہے غم جستجو میں ڈھل کر
ہر جذبۂ غم کی تلخی میں اک مستئ پنہاں دیکھیں گے
ممکن نہیں کہ دور رہیں راہ وفا سے ہم
بے خودی ہے نہ ہوشیاری ہے
مآل گردش دوراں وہ کیا سمجھے وہ کیا جانے
اب تک شکایتیں ہیں دل بدنصیب سے
بے اثر دور جام ہے اب تک
شب کی بہار صبح کی ندرت نہ پوچھئے
گلشن ہو پھر تصرف دور خزاں سے دور
ہوں دل میں عشرت غم جاناں لئے ہوئے
لطف نگاہ ناز کی تہمت اٹھائے کون!
ذوق لطیف وچشم حقیقت نگر کہاں
فطرت کے حسین نظاروں میں پر کیف خزانے اور بھی ہیں
نہ کھواے رہبر منزل وقار رفیض عام اپنا
نگاہوں کو کہاں تاب حضوری
آنکھوں سے دور صبح کے تارے چلے گئے
ایک ایک قدم فریب تمنا سے بچ کے چل
وقت سحر خوشی کا مزہ غم میں آگیا
لب خزاں نہ سہی غیرت بہار کرے
کیوں غم عشرت میں دل کو صرف ماتم کیجئے
گلشن ہو نگاہوں میں تو جنت نہ سمجھنا
بیکسی سے مرنے والے کا بھرم رہ جائے گا
زندگی لے کے ارباب جاں چل دیئے
تری محفل سے اٹھ کر عشق کے ماروں پہ کیا گذری
نقش فطرت نے جو ابھارے ہیں
خراماں زندگی ہے دالہانہ
ملا نہ رہروان سست گام کو ترا نشان
راہ خدا میں عالم رندانہ مل گیا
اللہ اللہ مآل نظم کہن
ان کی صورت ان کے جلوے ان کی محفل دیکھ کر
ترے بغیر عجب بزم دل کا عالم ہے
وہ کیف حسن وعشق وہ لطف غزل گیا
جس قدر دل بسمل نازوادابنتا گیا
آدمی نہ اتنا بھی دور ہو زمانے سے
کہیں عشق کا تقاضہ کہیں حسن کے اشارے
متاع غم عاشقی مانگ لوں گا!
بدلے بدلے مرے غمخوار نظر آتے ہیں
شوخ نظروں میں جو شامل برہمی ہو جائے گی
یہ تمام غنچہ وگل، میں ہنسوں تو مسکرائیں
دل غم زدہ پر جفائیں کہاں تک
قرباں کسی پہ دولت ہستی ہے آج کل
چھٹ کے ہم پھر نہ مل سکیں گے شتاب
ان کی نگہہ قہر سے مایوس نہ ہو دل
تیرا غم پاکر بلائے عشرت فانی گئی
دانستہ سامنے سے جو وہ بے خبر گئے
ہر نفس ان کا خیال آتا رہا
جذبات کی رومیں بہہ گیا ہوں
کیا ہوتا نہ آنکھوں کو غم ہستی میں تر میں نے
تیری محفل میں باریابی ہے
ہائے اس مجبوری ذوق نظر کو کیا کروں
مآل عشق پہلے سے اگر معلوم ہو جائے
جلوۂ حسن کرم کا آسرا کرتا ہوں میں
سحر سے خوں بد اماں آسمان پیر ہے ساقی
دھندلی دھندلی فضا نہ صبح نہ شام
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.