فہرست
افضال کے لیے
جب سے چمن پہ میرا جنوں منکشف ہوا
دل کھینچ کے لے جائے گی اک لہر ہمارا
اک پھول اس نے ہاتھ میں جو چوم کر دیا
اک آسماں کو چھونا، باغ ارم کو جانا
گلشن محبت میں موسم خزاں دیکھا
اس آتش میں اک گل کی تجسیم کرنا
اس شخص کو گر دل کا حاکم نہ کیا ہوتا
آسان مرا کام ترے دخل سے ہوتا
سرمستی سراب تھی وہ میہماں نہ تھا
نہیں مضبوط کچھ بھی اس دل برباد سے اچھا
قفس میں کھلا خوب گلشن ہمارا
طریق کوئی نہ آیا مجھے زمانے کا
یہ کس نے شوق سے یوں دشت ویراں میں قدم رکھا
جسے مالک جان و ایمان رکھّا
دم سحر جو کہیں نہیں تھا کوئی پریشان خواب ہوگا
چمن کے باشندگاں میں میرا شمول ہوگا
وہ ہے چارہ گر وحشت بے سبب، پھر چلا آئے گا
اب مجھے دیوانگی میں غرق دیکھا جائے گا
کرب ضبط شوق میرے رخ پہ پایا جائے گا
اس قافلۂ زر کا بے کار سفر جانا
آسمان یاس پر کھویا ستارہ ڈھونڈنا
وہی شب و روز آرزو کا ملال کرنا
درد کو بھلا دینا، اشک کو غزل کرنا
لہو کو جام کرنا، مے کدے میں روشنی رکھنا
لمحۂ امکان کو پہلو بدلتے دیکھنا
بہت خاموش کرکے اک بڑی آواز کر دینا
مجھے آساں ہے اپنے آپ کو ناکام کر دینا
اک ساحر غزل خواں کوہ ودمن سے آیا
خواب میں اس کے درپہ گئے اور پیش وہاں اک پھول کیا
میں سنوں جنوں کی حکایتیں، مجھے مے کدے میں قضا ملے
ظلم کو چلنے دیا، اک جبر کو ہونے دیا
رہِ دل میں بے حد تعصب کیا
اس نظر کو سحر کے قابل کیا
طلسمات دل نے یہ ساماں کیا
خدمت دل میں جو ہم نے پیش گلدستہ کیا
آج دنیا پر عیاں یہ درد ہو جائے تو کیا
بے خودی میں آج جب میری تعطل آگیا
ذلر ان کا گفتگو میں غائبانہ ہو گیا
دعائے درد لب پہ ہو، نماز دل ادا کروں
مسافت چمن غم کی چاہ کرتی ہوں
اس زمیں کے ساتھ میں گردش میں ہوں
امید ہے پھیلے گی دھنک، دیکھ رہی ہوں
وہ جب سے دلبروں کے محبوب ہوگئے ہیں
میں جب آئنے کی طرف دیکھتی ہوں
دنیا کی از سر نو ترتیب کر رہی ہوں
کس طرح اس کو بلاؤں خانۂ برباد میں
جچتی نہیں کچھ شاہی وہ املاک نظر میں
جہاد دل میں اپنے آپ کو گم چاہتی ہوں میں
ٹوٹ کر یہ اس زمیں کے خاروخس میں آئے ہیں
ستارے جو آنکھوں میں حارج ہوئے ہیں
آج دل کو وحشتوں کا ملتہب ہونے نہ دو
ہماری بزم میں ہم کو تہی ساغر ذرا دیکھو
ہے سنا، تھا اس کے سر پر تاج شاہانہ کوئی
صحرا کو اک جنوں میں مالوف کرکے دیکھو
نظرمری اس کو دیکھ لے گی، یہیں کہیں آس پاس ہے وہ
میں خشک قبا شہر بہ آب سے گزری
کہاں تک میں یہ بوجھ ڈھویا کروں گی
رفتار شرانگیزیٔ دل تیز کروں گی
حرف شیریں بیاں میں رکھوں گی
صبح کو سیر چمن گر کچھ رعایت کر گئی
گلستاں میں ہم سے ملاقات کرتے
نہ جگنو نظر آئیں گے، نے کواکب نظر آئیں گے
نظر انھیں پیش آنسوؤں کا خراج کردے
کیا کیا چمن میں اس پہ اثر رنگ و بو کرے
چمن کو دے پیرہن، وہ دست نعیم آئے
ہوش تھوڑا ہے جو اب عالم امکان میں ہے
روشنی ہے چار جانب اک مری قندیل سے
آج بحر آرزو بے مہر و شوریدہ لگے
لو پھر زبان یار سے کچھ تیر چل گئے
جو کوہ سے ٹکرائی ہے یہ کس کی صدا ہے
بہت سا وقت تنہائی میں ہم کو صرف کرنا ہے
اظہار جنوں بر سر بازار ہوا ہے
اس درد نے جب سے مجھے محبوس کیا ہے
دل خاک ہے، بے تاب ہے، محبور طلب ہے
کچھ نہ سمجھے دل جو محو رقص ہے
کبھی بہت ہے کبھی دھیان تیرا کچھ کم ہے
اک بات کہ جس کا ہمیں مقدور نہیں ہے
عادت مری ہر بات پہ تشکیک نہیں ہے
تصوّر میں وہ آئے ہیں، وضاحت ہو رہی ہے
کبھی وہ مثل گل مجھے مثال خار چاہیے
اک مجھے ہمراز اس سے بے تکلّف چاہیے
گل و برگ سے اک سبق چاہیے
دل تیز رفتار کو لامکاں چاہیے
آج باد شام غم یوں مائل تشہیر ہے
جب نغمہ ہائے بلبل وگل ختم سے ہوئے
آج انھیں درپیش اپنی بزم کی تزئین ہے
رنگ و خوشبو سے مزین یہ زمیں ہونے کو ہے
اس نگاہ شوخ کو افسوں گری کرنا تو ہے
اےکرم روا! اگرچہ ترا اعتبار کم ہے
فہرست
افضال کے لیے
جب سے چمن پہ میرا جنوں منکشف ہوا
دل کھینچ کے لے جائے گی اک لہر ہمارا
اک پھول اس نے ہاتھ میں جو چوم کر دیا
اک آسماں کو چھونا، باغ ارم کو جانا
گلشن محبت میں موسم خزاں دیکھا
اس آتش میں اک گل کی تجسیم کرنا
اس شخص کو گر دل کا حاکم نہ کیا ہوتا
آسان مرا کام ترے دخل سے ہوتا
سرمستی سراب تھی وہ میہماں نہ تھا
نہیں مضبوط کچھ بھی اس دل برباد سے اچھا
قفس میں کھلا خوب گلشن ہمارا
طریق کوئی نہ آیا مجھے زمانے کا
یہ کس نے شوق سے یوں دشت ویراں میں قدم رکھا
جسے مالک جان و ایمان رکھّا
دم سحر جو کہیں نہیں تھا کوئی پریشان خواب ہوگا
چمن کے باشندگاں میں میرا شمول ہوگا
وہ ہے چارہ گر وحشت بے سبب، پھر چلا آئے گا
اب مجھے دیوانگی میں غرق دیکھا جائے گا
کرب ضبط شوق میرے رخ پہ پایا جائے گا
اس قافلۂ زر کا بے کار سفر جانا
آسمان یاس پر کھویا ستارہ ڈھونڈنا
وہی شب و روز آرزو کا ملال کرنا
درد کو بھلا دینا، اشک کو غزل کرنا
لہو کو جام کرنا، مے کدے میں روشنی رکھنا
لمحۂ امکان کو پہلو بدلتے دیکھنا
بہت خاموش کرکے اک بڑی آواز کر دینا
مجھے آساں ہے اپنے آپ کو ناکام کر دینا
اک ساحر غزل خواں کوہ ودمن سے آیا
خواب میں اس کے درپہ گئے اور پیش وہاں اک پھول کیا
میں سنوں جنوں کی حکایتیں، مجھے مے کدے میں قضا ملے
ظلم کو چلنے دیا، اک جبر کو ہونے دیا
رہِ دل میں بے حد تعصب کیا
اس نظر کو سحر کے قابل کیا
طلسمات دل نے یہ ساماں کیا
خدمت دل میں جو ہم نے پیش گلدستہ کیا
آج دنیا پر عیاں یہ درد ہو جائے تو کیا
بے خودی میں آج جب میری تعطل آگیا
ذلر ان کا گفتگو میں غائبانہ ہو گیا
دعائے درد لب پہ ہو، نماز دل ادا کروں
مسافت چمن غم کی چاہ کرتی ہوں
اس زمیں کے ساتھ میں گردش میں ہوں
امید ہے پھیلے گی دھنک، دیکھ رہی ہوں
وہ جب سے دلبروں کے محبوب ہوگئے ہیں
میں جب آئنے کی طرف دیکھتی ہوں
دنیا کی از سر نو ترتیب کر رہی ہوں
کس طرح اس کو بلاؤں خانۂ برباد میں
جچتی نہیں کچھ شاہی وہ املاک نظر میں
جہاد دل میں اپنے آپ کو گم چاہتی ہوں میں
ٹوٹ کر یہ اس زمیں کے خاروخس میں آئے ہیں
ستارے جو آنکھوں میں حارج ہوئے ہیں
آج دل کو وحشتوں کا ملتہب ہونے نہ دو
ہماری بزم میں ہم کو تہی ساغر ذرا دیکھو
ہے سنا، تھا اس کے سر پر تاج شاہانہ کوئی
صحرا کو اک جنوں میں مالوف کرکے دیکھو
نظرمری اس کو دیکھ لے گی، یہیں کہیں آس پاس ہے وہ
میں خشک قبا شہر بہ آب سے گزری
کہاں تک میں یہ بوجھ ڈھویا کروں گی
رفتار شرانگیزیٔ دل تیز کروں گی
حرف شیریں بیاں میں رکھوں گی
صبح کو سیر چمن گر کچھ رعایت کر گئی
گلستاں میں ہم سے ملاقات کرتے
نہ جگنو نظر آئیں گے، نے کواکب نظر آئیں گے
نظر انھیں پیش آنسوؤں کا خراج کردے
کیا کیا چمن میں اس پہ اثر رنگ و بو کرے
چمن کو دے پیرہن، وہ دست نعیم آئے
ہوش تھوڑا ہے جو اب عالم امکان میں ہے
روشنی ہے چار جانب اک مری قندیل سے
آج بحر آرزو بے مہر و شوریدہ لگے
لو پھر زبان یار سے کچھ تیر چل گئے
جو کوہ سے ٹکرائی ہے یہ کس کی صدا ہے
بہت سا وقت تنہائی میں ہم کو صرف کرنا ہے
اظہار جنوں بر سر بازار ہوا ہے
اس درد نے جب سے مجھے محبوس کیا ہے
دل خاک ہے، بے تاب ہے، محبور طلب ہے
کچھ نہ سمجھے دل جو محو رقص ہے
کبھی بہت ہے کبھی دھیان تیرا کچھ کم ہے
اک بات کہ جس کا ہمیں مقدور نہیں ہے
عادت مری ہر بات پہ تشکیک نہیں ہے
تصوّر میں وہ آئے ہیں، وضاحت ہو رہی ہے
کبھی وہ مثل گل مجھے مثال خار چاہیے
اک مجھے ہمراز اس سے بے تکلّف چاہیے
گل و برگ سے اک سبق چاہیے
دل تیز رفتار کو لامکاں چاہیے
آج باد شام غم یوں مائل تشہیر ہے
جب نغمہ ہائے بلبل وگل ختم سے ہوئے
آج انھیں درپیش اپنی بزم کی تزئین ہے
رنگ و خوشبو سے مزین یہ زمیں ہونے کو ہے
اس نگاہ شوخ کو افسوں گری کرنا تو ہے
اےکرم روا! اگرچہ ترا اعتبار کم ہے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.