انتساب
نذرانۂ شاعر
عرض ناشر
البیلا غزل گو
خمریات
سحر کا لطف بھی جاتا ہے جلد لا ساقی
رہبر جو تیری نرگس مئے نوش ہوگئی
یہاں سجدہ وہاں سجدہ معاذ اللہ دیوانہ
اوروں سے راہ مصحف وزنار پوچھئے
کعبے میں
وفا کے بعد بھی تو مائل جفا کیوں ہے
بیخودی
میں بھول گیا تجھ میں محراب خدا خانہ
نگاہ اولیں کا آج تک جب نام آتا ہے
نفس نفس پہ مجھے یاد آئے جاتے ہیں
عروج ماہ میں جب وقت شام ہوتا ہے
ساون
وہ وقت اور بھی جان شباب ہوتا ہے
تحریر
ذوق نگاہ بازی پیہم نہ پوچھئے
دولت دل مری سرمایۂ ایماں میرا
اس کا نیاز مند ہوں جس کی نظر نظر
رفو کا تذکرہ اے فطرت چالاک رہنے دے
شوق تھا شباب کا حسن پر نظر گئی
اس دل کی مصیبت کون سنے جو غم کے مقابل آجائے
فطرت ہے حجابات سے تھک جائے تو کیا ہو
ادھر اُدھر سے حسن کو سمیٹتا چلا گیا
آنسو
غم وہ ہے جو دوا رمانوں کی تسکین میں حائل ہو جائے
چلمن سے جو دامن کے کنارے نکل آئے
سر شار جوانی کا عالم شانوں پہ لٹیں حلقوں والی
فضا پر وردۂ عطر جوانی ہوتی جاتی ہے
حقیقت جس جگہ ہوتی ہے تابانی بتاتی ہے
حسن جو چودھویں برس آکے شباب سے ملا
یوں ہی ٹھہر ٹھہر کے میں روتا چلا گیا
قامت دلربا پر شباب آگیا
بھلا کب دیکھ سکتا ہوں کہ غم ناکام ہو جائے
محبت اک مسلسل بدظنی معلوم ہوتی ہے
مجھ کو حیات کے سوا چاہیے اک غم حیات
سحر اور شام سے کچھ یوں گذر تا جارہا ہوں میں
اپنی دنیا خود بہ فیض غم بنا سکتا ہوں میں
وہ انساں کیا جو ہیگا نہ ہو ذوق زخم وخنجر سے
میں نظر نظر پہ مچل گیا مںی قدم قدم پہ ٹھہر گیا
تغیرات کے عالم میں زندگانی ہے
پیراہن رنگیں سے شعلہ سا نکلتا ہے
دنیا کو خبر کیا کہ کسی سادہ ادا نے
راستہ اس نے محبت کا جدا رکھا ہے
زندگی گرمی احساس پہ نازاں ہے ابھی
دانستہ بخودی بھی جمال حیات ہے
کام لیتے ہیں جو ایجاد نظر سے پہلے
دنیا سنور گئی ہے نظام دگر کے بعد
ہر راستے کو لوٹ لیا اعتماد نے
ہر ذرۂ خاکی کو کرن ہم نے بنایا
یہ موت ہے کہ زیست تمنّا ہے یا فریب
ہم گریہ سلک شبنم ہمہ اشک بزم انجم
یہ نظم گریزاں ہے برہم زدنی پہلے
یہ نیم باز تری انکھڑیوں کے میخانے
نگاہ حاصل رعنائی دو عالم ہے
دل کی تصویر حسن ورعنائی
غم خاموش جو با اشک چکاں رکھتا ہوں
ہزار شمع فروزاں ہور وشنی کے لئے
پنکھڑی کوئی گلستاں سے صبا کیا لائی
محفل انساں میں کیوں بے رونقی پاتا ہوں میں
چمن کو خارو خس آشیاں سے عار نہ ہو
عشق اک ربط سادہ ہوتا ہے
نہیں حسن اب شمع فانوس خانہ
میکدہ آج سے ہے ملک عوام اے ساقی
وہ خزاں ہو یا کہ بہار ہو تجھے جاگنے کا پیام ہے
زاہد اسیر گیسوئے جاناں نہ ہو سکا
بنا کعبے نے بت خانے کی ڈالی
یوم آزادی
مری رات کا اک سکوں تاب عالم
رگ رگ سی ٹوٹتی ہے شب غم میں رات کی
زندگی راہ بے راہ چلتی رہی
تجلیوں سے غم اعتبار لے کے اٹھا
فکر نو ذوق تباں سے آئی ہے
نظم شرابخانہ تو برہم نہ ہوسکے
گناہ گار تو رحمت کو منہ دکھا نہ سکا
نظر نظر کو ساقی حیات کہتے آئے ہیں
اک دامن رنگیں لہرایا مستی سی فضا میں چھا ہی گئی
تخیل رقص کرتا ہے تجلی چھائی ہوتی ہے
مضطرب فطرت انساں تپش گام سے ہے
بہار چھپ نہیں سکی گل وسمن پکار اٹھے
جانبازوں کے لب پر بھی اب عیش کا نام آیا
شاید کہ نظر پہنچے تیری غم انساں تک
سمجھوتو یہ بھی تنگی چشم بہار ہے
ٹھکرائے ہوئے دل کی یاد آئی تو کیا آئی
نگاہ مست سے اخذ غم حیات کرے
دلّی کی زبان
میکدہ کی جانب چل زندگی ہے مستی ہے
اہل کمال کا ہے پتہ تیرگی غم
آنسو مری پلکوں پہ شتاباں نہیں ملتا
میں ابھی سے کس طرح انکو بیوفا کہوں
پھر زلف مسلسل کی شکن جاگ پڑی ہے
یا د آتی رہی بھلا نہ سکے
گل رنگیں میں شعلے پل رہے ہیں
تارک رسم جفا بھی اب ستم ڈھانے لگے
تیز تر لہجۂ گفتار کیا ہے ہم نے
کبھی جھوٹے سہارے غم میں راس آیا نہیں کرتے
دل ہے کہ محبت میں اپنا نہ پرایا ہے
دھڑکنیں دل کی گنے خوں میں روانی مانگے
پرانی بات ہے اور تازہ عنوانوں سے کہنا ہے
جب بھی آزاد تمدن کا سوال آیا ہے
ہجوم بے رخی میں حسن ظن کی آزمائش ہے
عہد حاضر میں جسے دیدہ وری کہتے ہیں
ماتم وغم خزاں تا چمن ادھر بھی ہے
بہادر شاہ ظفر
میخانے میں بڑھتی گئی تفریق نہاں اور
ماتم جواہر۱۹۶۴ ء
جواہر کے بعد
سب کے لئے کشش مرے طرز سخن میں ہے
اشک پلکوں پہ نہ ٹھہرے تو مداوا کیا ہے
الجھن
لمحے الجھن کے قریب آپہونچے
جو لوگ حقیقت کی ادا پائے ہوئے ہیں
ہندو چین
اے ہجوم عاشقان انقلاب
ہے فسون تیرہ شب ہم سائگی
ہندو پاک کشمکش
زیست ملتی ہے عمر فانی سے
وقت کا قافلہ آتا ہے گزر جاتا ہے
انتساب
نذرانۂ شاعر
عرض ناشر
البیلا غزل گو
خمریات
سحر کا لطف بھی جاتا ہے جلد لا ساقی
رہبر جو تیری نرگس مئے نوش ہوگئی
یہاں سجدہ وہاں سجدہ معاذ اللہ دیوانہ
اوروں سے راہ مصحف وزنار پوچھئے
کعبے میں
وفا کے بعد بھی تو مائل جفا کیوں ہے
بیخودی
میں بھول گیا تجھ میں محراب خدا خانہ
نگاہ اولیں کا آج تک جب نام آتا ہے
نفس نفس پہ مجھے یاد آئے جاتے ہیں
عروج ماہ میں جب وقت شام ہوتا ہے
ساون
وہ وقت اور بھی جان شباب ہوتا ہے
تحریر
ذوق نگاہ بازی پیہم نہ پوچھئے
دولت دل مری سرمایۂ ایماں میرا
اس کا نیاز مند ہوں جس کی نظر نظر
رفو کا تذکرہ اے فطرت چالاک رہنے دے
شوق تھا شباب کا حسن پر نظر گئی
اس دل کی مصیبت کون سنے جو غم کے مقابل آجائے
فطرت ہے حجابات سے تھک جائے تو کیا ہو
ادھر اُدھر سے حسن کو سمیٹتا چلا گیا
آنسو
غم وہ ہے جو دوا رمانوں کی تسکین میں حائل ہو جائے
چلمن سے جو دامن کے کنارے نکل آئے
سر شار جوانی کا عالم شانوں پہ لٹیں حلقوں والی
فضا پر وردۂ عطر جوانی ہوتی جاتی ہے
حقیقت جس جگہ ہوتی ہے تابانی بتاتی ہے
حسن جو چودھویں برس آکے شباب سے ملا
یوں ہی ٹھہر ٹھہر کے میں روتا چلا گیا
قامت دلربا پر شباب آگیا
بھلا کب دیکھ سکتا ہوں کہ غم ناکام ہو جائے
محبت اک مسلسل بدظنی معلوم ہوتی ہے
مجھ کو حیات کے سوا چاہیے اک غم حیات
سحر اور شام سے کچھ یوں گذر تا جارہا ہوں میں
اپنی دنیا خود بہ فیض غم بنا سکتا ہوں میں
وہ انساں کیا جو ہیگا نہ ہو ذوق زخم وخنجر سے
میں نظر نظر پہ مچل گیا مںی قدم قدم پہ ٹھہر گیا
تغیرات کے عالم میں زندگانی ہے
پیراہن رنگیں سے شعلہ سا نکلتا ہے
دنیا کو خبر کیا کہ کسی سادہ ادا نے
راستہ اس نے محبت کا جدا رکھا ہے
زندگی گرمی احساس پہ نازاں ہے ابھی
دانستہ بخودی بھی جمال حیات ہے
کام لیتے ہیں جو ایجاد نظر سے پہلے
دنیا سنور گئی ہے نظام دگر کے بعد
ہر راستے کو لوٹ لیا اعتماد نے
ہر ذرۂ خاکی کو کرن ہم نے بنایا
یہ موت ہے کہ زیست تمنّا ہے یا فریب
ہم گریہ سلک شبنم ہمہ اشک بزم انجم
یہ نظم گریزاں ہے برہم زدنی پہلے
یہ نیم باز تری انکھڑیوں کے میخانے
نگاہ حاصل رعنائی دو عالم ہے
دل کی تصویر حسن ورعنائی
غم خاموش جو با اشک چکاں رکھتا ہوں
ہزار شمع فروزاں ہور وشنی کے لئے
پنکھڑی کوئی گلستاں سے صبا کیا لائی
محفل انساں میں کیوں بے رونقی پاتا ہوں میں
چمن کو خارو خس آشیاں سے عار نہ ہو
عشق اک ربط سادہ ہوتا ہے
نہیں حسن اب شمع فانوس خانہ
میکدہ آج سے ہے ملک عوام اے ساقی
وہ خزاں ہو یا کہ بہار ہو تجھے جاگنے کا پیام ہے
زاہد اسیر گیسوئے جاناں نہ ہو سکا
بنا کعبے نے بت خانے کی ڈالی
یوم آزادی
مری رات کا اک سکوں تاب عالم
رگ رگ سی ٹوٹتی ہے شب غم میں رات کی
زندگی راہ بے راہ چلتی رہی
تجلیوں سے غم اعتبار لے کے اٹھا
فکر نو ذوق تباں سے آئی ہے
نظم شرابخانہ تو برہم نہ ہوسکے
گناہ گار تو رحمت کو منہ دکھا نہ سکا
نظر نظر کو ساقی حیات کہتے آئے ہیں
اک دامن رنگیں لہرایا مستی سی فضا میں چھا ہی گئی
تخیل رقص کرتا ہے تجلی چھائی ہوتی ہے
مضطرب فطرت انساں تپش گام سے ہے
بہار چھپ نہیں سکی گل وسمن پکار اٹھے
جانبازوں کے لب پر بھی اب عیش کا نام آیا
شاید کہ نظر پہنچے تیری غم انساں تک
سمجھوتو یہ بھی تنگی چشم بہار ہے
ٹھکرائے ہوئے دل کی یاد آئی تو کیا آئی
نگاہ مست سے اخذ غم حیات کرے
دلّی کی زبان
میکدہ کی جانب چل زندگی ہے مستی ہے
اہل کمال کا ہے پتہ تیرگی غم
آنسو مری پلکوں پہ شتاباں نہیں ملتا
میں ابھی سے کس طرح انکو بیوفا کہوں
پھر زلف مسلسل کی شکن جاگ پڑی ہے
یا د آتی رہی بھلا نہ سکے
گل رنگیں میں شعلے پل رہے ہیں
تارک رسم جفا بھی اب ستم ڈھانے لگے
تیز تر لہجۂ گفتار کیا ہے ہم نے
کبھی جھوٹے سہارے غم میں راس آیا نہیں کرتے
دل ہے کہ محبت میں اپنا نہ پرایا ہے
دھڑکنیں دل کی گنے خوں میں روانی مانگے
پرانی بات ہے اور تازہ عنوانوں سے کہنا ہے
جب بھی آزاد تمدن کا سوال آیا ہے
ہجوم بے رخی میں حسن ظن کی آزمائش ہے
عہد حاضر میں جسے دیدہ وری کہتے ہیں
ماتم وغم خزاں تا چمن ادھر بھی ہے
بہادر شاہ ظفر
میخانے میں بڑھتی گئی تفریق نہاں اور
ماتم جواہر۱۹۶۴ ء
جواہر کے بعد
سب کے لئے کشش مرے طرز سخن میں ہے
اشک پلکوں پہ نہ ٹھہرے تو مداوا کیا ہے
الجھن
لمحے الجھن کے قریب آپہونچے
جو لوگ حقیقت کی ادا پائے ہوئے ہیں
ہندو چین
اے ہجوم عاشقان انقلاب
ہے فسون تیرہ شب ہم سائگی
ہندو پاک کشمکش
زیست ملتی ہے عمر فانی سے
وقت کا قافلہ آتا ہے گزر جاتا ہے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.