کہیں کہیں پہ ستاروں کے ٹوٹنے کے سوا
محور
اپنا دیواں بغل میں داب کے میرؔ
بہ نام وطن
ساعت جہد
میلاد
سپردگی
جدائی
تہذیب
نوروز
اقوام متحدہ
آئینہ خانۂ تصوّر میں
دوراہہ
پر چھائیاں
تجدید
میں امن چاہتا ہوں
آں دلے کہ ماداریم
گرب اسٹریٹ کی کہانی
فرار شکست انتقام وغیرہ وغیرہ
دسہرہ
پاگل خانہ
دانہ ودام
احسان فراموش
دور کی آواز
برف باری
فاصلہ
کراہتے ہوئے دل
سراب
یاد
آسودگی
رات سنسان ہے
عدالت
تراشیدم
برستیدم شکستم
پہلی محبت کے نام
شریک حیات
یہ ایک نام
صنم خانے
السپراؤں کا گیت
شہرآذر
فرانس
جرمنی
ڈوور
یونان
مصر
کربلا
دلیز کی گاڑی
لوگوں کی ملامت بھی ہے خود درد سری بھی
بررگو ناصحو فرماں رواؤ
ادھر اسی سے تقاضائے گرمیٔ محفل
پہلے تو غم دل میں تھے خرد سے بیگانے
سینے میں خزاں آنکھوں میں برسات رہی ہے
گریہ تو اکثر رہا پیہم رہا
کسی تو کام زمانے کے سوگوار آئے
یہ ایک بات کہ اس بت کی ہمسری بھی نہیں
جو دن گزر گئے ہیں ترے التفات میں
کسی اور غم میں اتنی خلش نہیں ہے
کبھی جھڑ کی سی کبھی پیار سے سمجھاتے رہے
ہونٹوں کے ماہ تاب ہیں آنکھوں کے بام ہیں
اے چھوسکی نہ ظلمت، نہ ضیائے ماہ وانجم
ہر طف انبساط ہے اے دل
تم ہنسو تو دن نکلے چپ رہو تو راتیں ہیں
ناقد و، ید ورو کفر کا الزام نہ دو
سن اے حکیم ملّت وپیغمبر نجات
عشق بتاں اس فکر معاش پر اپنا رنگ جماتا کیا
وہاں میںن نے رو داد غم ڈھونڈلی ہے جہاں نالۂ مختصر بھی نہیں تھا
نگر نگر میلے کو گئے کون سنے گا تیری پکار
منشور
کہیں کہیں پہ ستاروں کے ٹوٹنے کے سوا
محور
اپنا دیواں بغل میں داب کے میرؔ
بہ نام وطن
ساعت جہد
میلاد
سپردگی
جدائی
تہذیب
نوروز
اقوام متحدہ
آئینہ خانۂ تصوّر میں
دوراہہ
پر چھائیاں
تجدید
میں امن چاہتا ہوں
آں دلے کہ ماداریم
گرب اسٹریٹ کی کہانی
فرار شکست انتقام وغیرہ وغیرہ
دسہرہ
پاگل خانہ
دانہ ودام
احسان فراموش
دور کی آواز
برف باری
فاصلہ
کراہتے ہوئے دل
سراب
یاد
آسودگی
رات سنسان ہے
عدالت
تراشیدم
برستیدم شکستم
پہلی محبت کے نام
شریک حیات
یہ ایک نام
صنم خانے
السپراؤں کا گیت
شہرآذر
فرانس
جرمنی
ڈوور
یونان
مصر
کربلا
دلیز کی گاڑی
لوگوں کی ملامت بھی ہے خود درد سری بھی
بررگو ناصحو فرماں رواؤ
ادھر اسی سے تقاضائے گرمیٔ محفل
پہلے تو غم دل میں تھے خرد سے بیگانے
سینے میں خزاں آنکھوں میں برسات رہی ہے
گریہ تو اکثر رہا پیہم رہا
کسی تو کام زمانے کے سوگوار آئے
یہ ایک بات کہ اس بت کی ہمسری بھی نہیں
جو دن گزر گئے ہیں ترے التفات میں
کسی اور غم میں اتنی خلش نہیں ہے
کبھی جھڑ کی سی کبھی پیار سے سمجھاتے رہے
ہونٹوں کے ماہ تاب ہیں آنکھوں کے بام ہیں
اے چھوسکی نہ ظلمت، نہ ضیائے ماہ وانجم
ہر طف انبساط ہے اے دل
تم ہنسو تو دن نکلے چپ رہو تو راتیں ہیں
ناقد و، ید ورو کفر کا الزام نہ دو
سن اے حکیم ملّت وپیغمبر نجات
عشق بتاں اس فکر معاش پر اپنا رنگ جماتا کیا
وہاں میںن نے رو داد غم ڈھونڈلی ہے جہاں نالۂ مختصر بھی نہیں تھا
نگر نگر میلے کو گئے کون سنے گا تیری پکار
منشور
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।