مشاعرے اور ان کی افادیت
سید احتشام رضوی
مشاعرہ
سید اختر علی تلہری
اردو کے مشاعرے
سہیل بخاری
اے عصر نو کے شاعر
جوش ملیح آبادی
ایک مہا جردوست سے
نذیر بنارسی
منزل تک
نازش پرتاپ گڑھی
وہ دور بھی آنے والا ہے
غیرت انصاری
نسردگی کی تہوں میں باقی حرارت زندگی ملے گی
سیماب اکبر آبادی
وہ آپ آئیں گے وقت آخر اجازت دید بھی ملے گی
آرزو لکھنوی
جہاں ہے ظلمت کا دور دورہ یہ وہم روشنی ملے گی
اثر لکھنوی
اگر چہ ہے تیرگی بہر سوکبھی روشنی ملے گی
وحشت کلکتوی
ملے گی ان کی نگاہ مجھ سے مگر بایں بے رخی ملے گی
نوح ناروی
امید کی کش مکش سے اللہ دل کو فرصت کبھی ملے گی
مانی جائسی
نہ غم ملے نہ شادمانی ‘نہ بے خودی اور خودی ملے گی
محوی صدیقی لکھنوی
بلائے غم سر سے کیا ٹلے گی‘الم سے کیا مخلصی ملے گی
جوش ملیح آبادی
قدم تو رکھ منزل وفا میں بساط کھوئی ہوئی ملے گی
سراج لکھنوی
ہو خاک تسکیں کہ موت کے بعد اک نئی زندگی ملے گی
تلوک چند محروم
نہ سستگی اور نہ زینت نہ روح اور نزدگی ملے گی
میکش اکبر آبادی
نجاب غم سے کبھی ملی ہے نہ زندگی بھر کبھی ملے گی
سریر کابری مینائی گیاوی
اداسیوں نے اجاڑ ڈالا کچھ اس طرح باغ آرزو کا
سریر کابری مینائی گیاوی
بدی کو پر کھوملے گی نیکی جو غم کو سمجھو خوشی ملے گی
ساغر نظامی
سنا ہے دیوانگان الفت کو دادا ٓشفتگی ملے گی
روش صدیقی
جو تونے دیکھا ہے خواب الفت میں تو اس کی تعبیر بھی ملے گی
ماہر القادری
نفس نفس کا حیاب ہوگا نظر نظر کو خوشی ملے گی
نریش کمار شاد
نہ وجد انگیز یاں ملیں گی‘نہ شعریت جھومتی ملے گی
منظر صدیقی اکبر آبادی
خبر نہ تھی تیری جستجو میں کشاکش رہروی ملے گی
بہزاد لکھنوی
ہم ٓائے تھے تیری رہگذر میں کہ جاودانی خوشی ملے گی
شفیق صدیقی جونپوری
رو وفا میں فنا جو ہوگا اسے نئی زندگی ملے گی
الم مظفر نگری
تمہیں مرے جوش عاشقی میں اگر کبھی کچھ کمی ملے گی
ضیا فتح آبادی
خیال یہ تھا کہ دل کو تسکیں نگاہ کو تازگی ملے گی
جگن ناتھ آزاد
جنوں کے پیغام تیرگی میں خروکی تابندگی ملے گی
شمیم کرہانی
غموں کی منزل کو پار کر لیں تو ایک دنیا نئی ملے گی
ادیب مالیگانوی
اگر نہ ہو دل میں سوز پنہاں نظر کو کیا روشنی ملے گی
نثار اٹاوی
جنون عرفاں میں غرق ہوکر بھلا کہیں بے خودی ملے گی
عرش ملسیانی
جو عاقبت میں نگاہ ہوگی اسے راحت کبھی ملے گی
قمر نعمانی
جنوں کی شوریدگی سلامت ‘اگر یہ ظالم کبھی ملے گی
انور صابری
حسیں بھی ہوگی اگر چہ بند ش‘زباں کی بھی چاشنی ملے گی
بشیشور پرشاد منور لکھنوی
نہ کھا فریب یقیں کہ نخل وفا کو بالید گی ملے گی
طرفہ قریشی
تمہیں نے غم سے مجھے نواز ا ‘تمہیں سے مجھ کو خوشی ملے گی
نظر سہیوری
اندھیری راتوں کے بعد جس دم ظہور ہوتا ہے ماہ نوکا
جمنا داس اختر
جہان کی ظلمتیں مٹیں گی‘حیات کو روشنی ملے گی
رام کرشن مضطر
اگر ملی تو نہیں سے قلب و نگاہ کو روشنی ملے گی
گوپال متل
نہیں خوشی بس کی بات اپنے‘خدا خوشی دے جبھی ملے گی
ہوگوبند دیال نشتر ہتگامی
غم محبت سے بہرہ ورہوکہ اک نئی زندگی ملے گی
حکیم راغب مراد آبادی
یہ سوچتے تھے سحر جو ہوگی تو اک نئی ملے گی
مشہود مفتی
کہیں پہ غنچہ ‘کہیں پہ کانٹا‘ کہیں پہ نورس کلی ملے گی
وفا براہی
قفس سے چھٹنے پہ شاد تھے ہم کہ لذت زندگی ملے گی
ابو المجاہد زاہد
ترے ترنم سے گلستاں میں کلی کلی جھومتی ملے گی
شفیق کوٹی
جنوں ملے گا قدم قدم پر‘خرد سے بے گانگی ملے گی
تمنا بجنوری
نئی نئی جاں‘نیا نیا دل‘نئی نئی زندگی ملے گی
حمید آذر ناگپوری
مجھے یقیں تھاتری نگاہ جمیل سے آگہی ملے گی
حکیم عبدالکریم
شگفتگی نگاہ و دل میں اگر کوئی برہمی ملے گی
مخروں نیازی
تھکی ہوئی زندگی کو پھر سے بہار کی تازگی ملے گی
بسمل صدیقی لکھنوی
چمن سے جور خزاں مٹے گا بہار کو زندگی ملے گی
نسیم رائے پوری
یہ سچ ہے نا صح ‘ میں روپڑوں گاتو ان کے لب پر ہنسی ملیگی
سیف بھساولی
ہمارے ہی دل کی گھڑکنوں تک جہاں کو تابندگی ملے گی
نواب جھانسوی
بلائے فرقت نہ دور ہوگی نہ میرے دل کو خوشی ملے گی
ذابر فتحپوری
فریب رنگیں مٹے گا ہر شے حقیقتوں سے بھری ملے گی
شفا گوالیاری
ماز سے بے نیاز ہو جا حقیقت آگہی ملے گی
رونق دکنی
ہے تیرا مٹنا دلیل اسکی کہ زندگی پھر نئی ملے گی
کوکب القادری
نہ تابش زندگی ملے گی‘نہ زندگی کی خوشی ملےگی
مجاز لودی اکبر آبادی
نہ پوچھئے دل کی درد مندی مندی عیب سی زندگی ملیگی
قمر بھساولی
یہ بڑھتی آتی ہیں آندھیاں و مٹاتی کہنہ نقوش عالم
سندر شیام
دلیل ہے خود شکستہ حالی کہ فرصت عیش بھی ملے گی
ساز بلگرامی
نوائے مرغ چمن سے ایک دن حیات کو تازگی ملے گی
ظفر اعظمی
سکوں کہاں حشر زار غم میں ہر اک گہ برہمی ملے گی
عزیز اختر
یہ دن بھی آئیں گے کیا خبر تھی کہ خاک میں زندگی ملے گی
دعا ڈبائیوی
جو دل میں ہے درد آدمیت تو منزل آدمی ملے گی
قاسم شبیر نقوی
کہیں غریبی‘کہیں کوئی نیم جاں‘کہیں مفلسی ملے گی
حاجی نبی احمد بریلوی
خیال میں کس طرح نظر دوست کی نظر سے مری ملے گی
شہ زور کاشمیری
فریب تر ہے وہ دور س میں فضائے گلشن نئی ملے گی
حزیں قریشی احمد آبادی
جہان حسرت میں کیا توقع کہ ہم کو آسودگی ملے گی
اکرم حنیفی دھولیوی
نظر میں حسرت‘لبوں پہ میرے فریب خوروہ ہنسی ملے گی
پریم چند گپتا پریم دہلوی
جو راہ الفت میں جان دیگا اسے نئی زندگی ملے گی
نیر سیمابی
یہ کیا خبر تھی کہ آنکھ ہر وقت اپنی بھگی ہوئی ملے گی
خلش دردی
نظر کو تسکین‘دل کو راحت‘شعور کو آگہی ملے گی
سحر برامد پوری
جنوں میں تائید حضر الفت جو وقت وارفنگی ملے گی
فرحت کمالی بلہاروی
پیام غم میں نہاں ہمیشہ کوئی نوید خوشی ملے گی
ساغر اجمیری
مری فسردہ نگاہ و دل سے نگاہ جب آپ کی ملے گی
جلیل عرشی
نئی جوانی‘نیاتبسم‘نئی نئی زندگی ملے گی
خاور شاہدوی
تمام دنیا فریب حرص و ہوس میں ڈوبی ہوئی ملے گی
اقبال نرگس
بعید گوشوں میں اب بھی اس کے کہیں کہیں یہ دبی ملے گی
نعمان تاثیر
حوادثات جہاں میں تپ کر ہمیں نئی زندگی ملے گی
دلشاد کلانچوی
زمانہ سمجھے گا در دو غم کو تو در دو غم سے خوشی ملے گی
قمر جلال آبادی
گذر جاہستی کی منزلوں سے توشہ رہ نیستی ملے گی
محشر دہلوی
جہان آزاد میں بہ ہر سو بڑھی ہوئی تیرگی ملے گی
خلیق یولوی
چراغ الفت سے بزم گیتی کو ایک دن روشنی ملے گی
ضیا ہانی بھیمڑوی
گمان بھی تو نہ تھا کہ تصویر یہ مرے دور کی ملے گی
نیر کھمی
قریب تر ہے وہ دن کہ صحن چمن کو ایک تازگی ملے گی
اسلم اثر قراولی
کبھی تو جاگے گا بخت خفتہ کبھی تو دنیا نئی ملے گی
ایوب رائے پوری
کبھی تو آنکھوں کو جستجوئے جمال سے روشنی ملے گی
حکیم واقف
یہ کیا کہا ہر نفس میں دل کو بہار کی تازگی ملے گی
لطفی بھیمڑوی
فراق میں انکے اہل دل کو ملی نہ حد ضبط کی ملے گی
نظر افغانی
رخ منور سے تیرے رخسار دہر کو روشنی ملے گی
پاگل مبارکپوری
نفس نفس نازگی ملے گی نظر نظر دلکشی ملے گی
ساغر انصاری بنارسی
ہے ساتھ عجز نفس کے حسن طلب تو کیوں تیرگی ملے گی
ناسق فاروقی ناگپوری
مری کتاب وفا میں تعلیم ضبط الفت لکھی ملے گی
مفتوں کوٹوی
بہار آئی ہے پھر چمن میں ‘چمن کو پھر تازگی ملے گی
مختار ادیبی
نہ ذوق حق آشنا ملے گا‘نہ روح خود آگہی ملے گی
خورشید
یہ کیا خبر تھی کہ عشق میں دل کو لذت بے خودی ملے گی
عارف بانکوٹی
کسے خبر تھی کہ اہل غم کو قفس سے جب مخلصی ملے گی
سالک حنیفی نذر آبادی
میسر آئے گا چین دن کو نہ شب کو آسودگی ملے گی
شمس قریشی
کسی کی دنیا لٹی ملے گی ‘کسی کی دنیا بسی ملے گی
فیضی نظام پوری
جو غم ملا ہے تو غم نہیں کچھ کہ غم کی تہ میں خوشی ملے گی
آوارہ مظفر پوری
خیال ہے یہ ترا محبت میں تجھ کو اے دل خوشی ملے گی
رشید احمد فنا حیدر آبادی
نہ خندہ گل نہ حسن شبنم نہ کیف آور کلی ملے گی
جمال قریشی احمد آبادی
مری نظر سے نظر تمہاری کبھی جو ہنستی ہوئی ملے گی
شارق جمال
رہ وفا ہے بہت ہی مشکل نہ اس میں آسودگی ملے گی
ضیا میرٹھی
جگر میں سوزش لبوں پر آہیں نگاہ میں بے کسی ملے گی
ایس بی راوت ارمان
اگر ذرا سی بھی تیوروں پر بہار کے برہمی ملے گی
اسعد مبارکپوری
خوشی سے جب مجھ کو غم ملا ہے‘تو غم سے اکدن خوشی ملے گی
رضی صدیقی جالونی
سکوں جبیں کو نصیب ہوگا نفس کو تسکین بھی ملے گی
تمنا یوسفی
خبر نہیں کہ گلشن زندگی میں افسردگی ملے گی
حامدی کاشمیری
اگر جواں ہے غم محبت ‘تودو دلوں میں لگی ملے گی
راویندر سنگھ نیر
ہے عزم باطل تو راہ میں عام لعنت رہزنی ملے گی
قیس کوٹوی
نیا زمانہ اب آرہا ہے‘ہمیں نئی زندگی ملے گی
اطہر مالیگانوی
نگاہ حق بیں ظہیر مجھ کو جو وقت نظارگی ملے گی
ظہیر چشتی نظامی بلہاری
تو پھر بہرگام عصر نو میں کشاکش باہمی ملے گی
ڈاکٹر وارث
اسیر غم‘مبتلاحسرت‘تجھے نہ راحت کبھی ملے گی
سلطان نقشبندی
بنا نہ خوابوں کے قصر رنگیں ‘کہ زندگی اجنبی ملے گی
ہربنس سنگھ اختر
نگاہیں افسردہ دل پریشاں ‘مزاج میں برہمی ملے گی
مہر ورولوی
سمجھ رہے تھے ہم اپنے دل میں کہ دل لگا کر خوشی ملے گی
اختر سورتی
جہان رنج و الم میں ممکن نہیں کہ آسودگی ملے گی
کوثر کمالی بلہاروی
صدائے بلبل سے گلستاں کی فضا اگر گونجتی ملے گی
نصرت کرلوی
کوئی تو ساعت حیات انساں کی مسکراتی ہوئی ملے گی
کلیم شاہدوی
خودی میں تیری خدا ملے گا‘خدا ملا بیخودی ملے گی
کامل جہلمی
ملی تو دنیا ئے دل اسر جراحت بیکسی ملے گی
رفیق انور فاروقی
ہزار دشمن ملیں گے ہم کو‘ہر ایک جادشمنی ملے گی
صہبار سول پوری
یہ برگ فطرت کا قاصہ ہے کہ آگ میں بھی نمی ملے گی
شوپرشاد برگ
یہی کشاکش کا ہے جو عالم تو خاک دل کو خوشی ملے گی
محمود مظفر پوری
جرعات
ادارہ
مکتوبات
اعجاز صاحب
YEAR1950
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مکتبہ قصر الادب، بمبئی
YEAR1950
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مکتبہ قصر الادب، بمبئی
مشاعرے اور ان کی افادیت
سید احتشام رضوی
مشاعرہ
سید اختر علی تلہری
اردو کے مشاعرے
سہیل بخاری
اے عصر نو کے شاعر
جوش ملیح آبادی
ایک مہا جردوست سے
نذیر بنارسی
منزل تک
نازش پرتاپ گڑھی
وہ دور بھی آنے والا ہے
غیرت انصاری
نسردگی کی تہوں میں باقی حرارت زندگی ملے گی
سیماب اکبر آبادی
وہ آپ آئیں گے وقت آخر اجازت دید بھی ملے گی
آرزو لکھنوی
جہاں ہے ظلمت کا دور دورہ یہ وہم روشنی ملے گی
اثر لکھنوی
اگر چہ ہے تیرگی بہر سوکبھی روشنی ملے گی
وحشت کلکتوی
ملے گی ان کی نگاہ مجھ سے مگر بایں بے رخی ملے گی
نوح ناروی
امید کی کش مکش سے اللہ دل کو فرصت کبھی ملے گی
مانی جائسی
نہ غم ملے نہ شادمانی ‘نہ بے خودی اور خودی ملے گی
محوی صدیقی لکھنوی
بلائے غم سر سے کیا ٹلے گی‘الم سے کیا مخلصی ملے گی
جوش ملیح آبادی
قدم تو رکھ منزل وفا میں بساط کھوئی ہوئی ملے گی
سراج لکھنوی
ہو خاک تسکیں کہ موت کے بعد اک نئی زندگی ملے گی
تلوک چند محروم
نہ سستگی اور نہ زینت نہ روح اور نزدگی ملے گی
میکش اکبر آبادی
نجاب غم سے کبھی ملی ہے نہ زندگی بھر کبھی ملے گی
سریر کابری مینائی گیاوی
اداسیوں نے اجاڑ ڈالا کچھ اس طرح باغ آرزو کا
سریر کابری مینائی گیاوی
بدی کو پر کھوملے گی نیکی جو غم کو سمجھو خوشی ملے گی
ساغر نظامی
سنا ہے دیوانگان الفت کو دادا ٓشفتگی ملے گی
روش صدیقی
جو تونے دیکھا ہے خواب الفت میں تو اس کی تعبیر بھی ملے گی
ماہر القادری
نفس نفس کا حیاب ہوگا نظر نظر کو خوشی ملے گی
نریش کمار شاد
نہ وجد انگیز یاں ملیں گی‘نہ شعریت جھومتی ملے گی
منظر صدیقی اکبر آبادی
خبر نہ تھی تیری جستجو میں کشاکش رہروی ملے گی
بہزاد لکھنوی
ہم ٓائے تھے تیری رہگذر میں کہ جاودانی خوشی ملے گی
شفیق صدیقی جونپوری
رو وفا میں فنا جو ہوگا اسے نئی زندگی ملے گی
الم مظفر نگری
تمہیں مرے جوش عاشقی میں اگر کبھی کچھ کمی ملے گی
ضیا فتح آبادی
خیال یہ تھا کہ دل کو تسکیں نگاہ کو تازگی ملے گی
جگن ناتھ آزاد
جنوں کے پیغام تیرگی میں خروکی تابندگی ملے گی
شمیم کرہانی
غموں کی منزل کو پار کر لیں تو ایک دنیا نئی ملے گی
ادیب مالیگانوی
اگر نہ ہو دل میں سوز پنہاں نظر کو کیا روشنی ملے گی
نثار اٹاوی
جنون عرفاں میں غرق ہوکر بھلا کہیں بے خودی ملے گی
عرش ملسیانی
جو عاقبت میں نگاہ ہوگی اسے راحت کبھی ملے گی
قمر نعمانی
جنوں کی شوریدگی سلامت ‘اگر یہ ظالم کبھی ملے گی
انور صابری
حسیں بھی ہوگی اگر چہ بند ش‘زباں کی بھی چاشنی ملے گی
بشیشور پرشاد منور لکھنوی
نہ کھا فریب یقیں کہ نخل وفا کو بالید گی ملے گی
طرفہ قریشی
تمہیں نے غم سے مجھے نواز ا ‘تمہیں سے مجھ کو خوشی ملے گی
نظر سہیوری
اندھیری راتوں کے بعد جس دم ظہور ہوتا ہے ماہ نوکا
جمنا داس اختر
جہان کی ظلمتیں مٹیں گی‘حیات کو روشنی ملے گی
رام کرشن مضطر
اگر ملی تو نہیں سے قلب و نگاہ کو روشنی ملے گی
گوپال متل
نہیں خوشی بس کی بات اپنے‘خدا خوشی دے جبھی ملے گی
ہوگوبند دیال نشتر ہتگامی
غم محبت سے بہرہ ورہوکہ اک نئی زندگی ملے گی
حکیم راغب مراد آبادی
یہ سوچتے تھے سحر جو ہوگی تو اک نئی ملے گی
مشہود مفتی
کہیں پہ غنچہ ‘کہیں پہ کانٹا‘ کہیں پہ نورس کلی ملے گی
وفا براہی
قفس سے چھٹنے پہ شاد تھے ہم کہ لذت زندگی ملے گی
ابو المجاہد زاہد
ترے ترنم سے گلستاں میں کلی کلی جھومتی ملے گی
شفیق کوٹی
جنوں ملے گا قدم قدم پر‘خرد سے بے گانگی ملے گی
تمنا بجنوری
نئی نئی جاں‘نیا نیا دل‘نئی نئی زندگی ملے گی
حمید آذر ناگپوری
مجھے یقیں تھاتری نگاہ جمیل سے آگہی ملے گی
حکیم عبدالکریم
شگفتگی نگاہ و دل میں اگر کوئی برہمی ملے گی
مخروں نیازی
تھکی ہوئی زندگی کو پھر سے بہار کی تازگی ملے گی
بسمل صدیقی لکھنوی
چمن سے جور خزاں مٹے گا بہار کو زندگی ملے گی
نسیم رائے پوری
یہ سچ ہے نا صح ‘ میں روپڑوں گاتو ان کے لب پر ہنسی ملیگی
سیف بھساولی
ہمارے ہی دل کی گھڑکنوں تک جہاں کو تابندگی ملے گی
نواب جھانسوی
بلائے فرقت نہ دور ہوگی نہ میرے دل کو خوشی ملے گی
ذابر فتحپوری
فریب رنگیں مٹے گا ہر شے حقیقتوں سے بھری ملے گی
شفا گوالیاری
ماز سے بے نیاز ہو جا حقیقت آگہی ملے گی
رونق دکنی
ہے تیرا مٹنا دلیل اسکی کہ زندگی پھر نئی ملے گی
کوکب القادری
نہ تابش زندگی ملے گی‘نہ زندگی کی خوشی ملےگی
مجاز لودی اکبر آبادی
نہ پوچھئے دل کی درد مندی مندی عیب سی زندگی ملیگی
قمر بھساولی
یہ بڑھتی آتی ہیں آندھیاں و مٹاتی کہنہ نقوش عالم
سندر شیام
دلیل ہے خود شکستہ حالی کہ فرصت عیش بھی ملے گی
ساز بلگرامی
نوائے مرغ چمن سے ایک دن حیات کو تازگی ملے گی
ظفر اعظمی
سکوں کہاں حشر زار غم میں ہر اک گہ برہمی ملے گی
عزیز اختر
یہ دن بھی آئیں گے کیا خبر تھی کہ خاک میں زندگی ملے گی
دعا ڈبائیوی
جو دل میں ہے درد آدمیت تو منزل آدمی ملے گی
قاسم شبیر نقوی
کہیں غریبی‘کہیں کوئی نیم جاں‘کہیں مفلسی ملے گی
حاجی نبی احمد بریلوی
خیال میں کس طرح نظر دوست کی نظر سے مری ملے گی
شہ زور کاشمیری
فریب تر ہے وہ دور س میں فضائے گلشن نئی ملے گی
حزیں قریشی احمد آبادی
جہان حسرت میں کیا توقع کہ ہم کو آسودگی ملے گی
اکرم حنیفی دھولیوی
نظر میں حسرت‘لبوں پہ میرے فریب خوروہ ہنسی ملے گی
پریم چند گپتا پریم دہلوی
جو راہ الفت میں جان دیگا اسے نئی زندگی ملے گی
نیر سیمابی
یہ کیا خبر تھی کہ آنکھ ہر وقت اپنی بھگی ہوئی ملے گی
خلش دردی
نظر کو تسکین‘دل کو راحت‘شعور کو آگہی ملے گی
سحر برامد پوری
جنوں میں تائید حضر الفت جو وقت وارفنگی ملے گی
فرحت کمالی بلہاروی
پیام غم میں نہاں ہمیشہ کوئی نوید خوشی ملے گی
ساغر اجمیری
مری فسردہ نگاہ و دل سے نگاہ جب آپ کی ملے گی
جلیل عرشی
نئی جوانی‘نیاتبسم‘نئی نئی زندگی ملے گی
خاور شاہدوی
تمام دنیا فریب حرص و ہوس میں ڈوبی ہوئی ملے گی
اقبال نرگس
بعید گوشوں میں اب بھی اس کے کہیں کہیں یہ دبی ملے گی
نعمان تاثیر
حوادثات جہاں میں تپ کر ہمیں نئی زندگی ملے گی
دلشاد کلانچوی
زمانہ سمجھے گا در دو غم کو تو در دو غم سے خوشی ملے گی
قمر جلال آبادی
گذر جاہستی کی منزلوں سے توشہ رہ نیستی ملے گی
محشر دہلوی
جہان آزاد میں بہ ہر سو بڑھی ہوئی تیرگی ملے گی
خلیق یولوی
چراغ الفت سے بزم گیتی کو ایک دن روشنی ملے گی
ضیا ہانی بھیمڑوی
گمان بھی تو نہ تھا کہ تصویر یہ مرے دور کی ملے گی
نیر کھمی
قریب تر ہے وہ دن کہ صحن چمن کو ایک تازگی ملے گی
اسلم اثر قراولی
کبھی تو جاگے گا بخت خفتہ کبھی تو دنیا نئی ملے گی
ایوب رائے پوری
کبھی تو آنکھوں کو جستجوئے جمال سے روشنی ملے گی
حکیم واقف
یہ کیا کہا ہر نفس میں دل کو بہار کی تازگی ملے گی
لطفی بھیمڑوی
فراق میں انکے اہل دل کو ملی نہ حد ضبط کی ملے گی
نظر افغانی
رخ منور سے تیرے رخسار دہر کو روشنی ملے گی
پاگل مبارکپوری
نفس نفس نازگی ملے گی نظر نظر دلکشی ملے گی
ساغر انصاری بنارسی
ہے ساتھ عجز نفس کے حسن طلب تو کیوں تیرگی ملے گی
ناسق فاروقی ناگپوری
مری کتاب وفا میں تعلیم ضبط الفت لکھی ملے گی
مفتوں کوٹوی
بہار آئی ہے پھر چمن میں ‘چمن کو پھر تازگی ملے گی
مختار ادیبی
نہ ذوق حق آشنا ملے گا‘نہ روح خود آگہی ملے گی
خورشید
یہ کیا خبر تھی کہ عشق میں دل کو لذت بے خودی ملے گی
عارف بانکوٹی
کسے خبر تھی کہ اہل غم کو قفس سے جب مخلصی ملے گی
سالک حنیفی نذر آبادی
میسر آئے گا چین دن کو نہ شب کو آسودگی ملے گی
شمس قریشی
کسی کی دنیا لٹی ملے گی ‘کسی کی دنیا بسی ملے گی
فیضی نظام پوری
جو غم ملا ہے تو غم نہیں کچھ کہ غم کی تہ میں خوشی ملے گی
آوارہ مظفر پوری
خیال ہے یہ ترا محبت میں تجھ کو اے دل خوشی ملے گی
رشید احمد فنا حیدر آبادی
نہ خندہ گل نہ حسن شبنم نہ کیف آور کلی ملے گی
جمال قریشی احمد آبادی
مری نظر سے نظر تمہاری کبھی جو ہنستی ہوئی ملے گی
شارق جمال
رہ وفا ہے بہت ہی مشکل نہ اس میں آسودگی ملے گی
ضیا میرٹھی
جگر میں سوزش لبوں پر آہیں نگاہ میں بے کسی ملے گی
ایس بی راوت ارمان
اگر ذرا سی بھی تیوروں پر بہار کے برہمی ملے گی
اسعد مبارکپوری
خوشی سے جب مجھ کو غم ملا ہے‘تو غم سے اکدن خوشی ملے گی
رضی صدیقی جالونی
سکوں جبیں کو نصیب ہوگا نفس کو تسکین بھی ملے گی
تمنا یوسفی
خبر نہیں کہ گلشن زندگی میں افسردگی ملے گی
حامدی کاشمیری
اگر جواں ہے غم محبت ‘تودو دلوں میں لگی ملے گی
راویندر سنگھ نیر
ہے عزم باطل تو راہ میں عام لعنت رہزنی ملے گی
قیس کوٹوی
نیا زمانہ اب آرہا ہے‘ہمیں نئی زندگی ملے گی
اطہر مالیگانوی
نگاہ حق بیں ظہیر مجھ کو جو وقت نظارگی ملے گی
ظہیر چشتی نظامی بلہاری
تو پھر بہرگام عصر نو میں کشاکش باہمی ملے گی
ڈاکٹر وارث
اسیر غم‘مبتلاحسرت‘تجھے نہ راحت کبھی ملے گی
سلطان نقشبندی
بنا نہ خوابوں کے قصر رنگیں ‘کہ زندگی اجنبی ملے گی
ہربنس سنگھ اختر
نگاہیں افسردہ دل پریشاں ‘مزاج میں برہمی ملے گی
مہر ورولوی
سمجھ رہے تھے ہم اپنے دل میں کہ دل لگا کر خوشی ملے گی
اختر سورتی
جہان رنج و الم میں ممکن نہیں کہ آسودگی ملے گی
کوثر کمالی بلہاروی
صدائے بلبل سے گلستاں کی فضا اگر گونجتی ملے گی
نصرت کرلوی
کوئی تو ساعت حیات انساں کی مسکراتی ہوئی ملے گی
کلیم شاہدوی
خودی میں تیری خدا ملے گا‘خدا ملا بیخودی ملے گی
کامل جہلمی
ملی تو دنیا ئے دل اسر جراحت بیکسی ملے گی
رفیق انور فاروقی
ہزار دشمن ملیں گے ہم کو‘ہر ایک جادشمنی ملے گی
صہبار سول پوری
یہ برگ فطرت کا قاصہ ہے کہ آگ میں بھی نمی ملے گی
شوپرشاد برگ
یہی کشاکش کا ہے جو عالم تو خاک دل کو خوشی ملے گی
محمود مظفر پوری
جرعات
ادارہ
مکتوبات
اعجاز صاحب
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔