سرورق
دیباچہ
قصیدہ بزبان فارسی
ای دلبریگانہ وای شوخ جانستان
وثوق صراحت پو رویوز
اخبار جریدۂ روز گار مدراس جلد (۲۷) شمارہ (۲۲) مطبوعہ یکم جون ۱۹۰۱ء
رسالہ معارف جلدنمبر (۴) واقع پانی پت مطبوعہ اگست ۱۹۰۱ء
گلدستۂ خدنگ نظر جلد (۴) نمبر(۴) واقع لکھنؤ مطبوعہ اپریل ۱۹۰۱ء
گلدستۂ معیار جلد(۳) نمبر (۳) واقع لکھنو مطبوعہ اگست ۱۹۰۱ء
آغاز قعات تواریخ طبع بروجدان تحقیق
خدارا فراوان سپاس وستایش
حضرت واجد ذہن رساش
صحت نامۂ وثوق صراحت شرح دیوان اردوی غالب دہلوی
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگر ہدیہ
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروی کار
کہتے ہو ندینگے ہم دل اگر پڑا پایا
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ستایش گر ہے زاہد اسقدر جس باغ رضواں کا
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
سراپا رہن عشق وناگزیر الفت ہستی
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ ابر آب تھا
واے دیوانگی شوق کہ ہردم مجھ کو
حضرت ناصح اگر آویں دیدہ دل فرش راہ
سبکو مقبول ہے دعوی تری یکتائی کا
اسد ہم وہ جنوں جولان گداے بے سرو پا ہیں
پے نظر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا
درد منت کش دوا نہ ہوا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئی جاکا
قطرۂ می بسکہ حیرت سےنفس پرور ہوا
جب بتقریب سفر یار نے محمل باندھا
درماندگی میں غالب کچھ پڑے توجانوں
یک ذرہ میں نہیں بیکار باغ کا
وہ مرے چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا
جاتا ہوں داغ حسرت ہستی لئے ہوئے
بزم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ کہ رنگ
جو رسے باز آئے پر باز آئیں کیا
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
خاتمۃ الطبع از طرف مصنف
نوٹ از طرف مصنف
غزل بزبان فارسی طبعزاد مصنف ایں شرح فرزند حضرت والہ مرحوم
سرورق
دیباچہ
قصیدہ بزبان فارسی
ای دلبریگانہ وای شوخ جانستان
وثوق صراحت پو رویوز
اخبار جریدۂ روز گار مدراس جلد (۲۷) شمارہ (۲۲) مطبوعہ یکم جون ۱۹۰۱ء
رسالہ معارف جلدنمبر (۴) واقع پانی پت مطبوعہ اگست ۱۹۰۱ء
گلدستۂ خدنگ نظر جلد (۴) نمبر(۴) واقع لکھنؤ مطبوعہ اپریل ۱۹۰۱ء
گلدستۂ معیار جلد(۳) نمبر (۳) واقع لکھنو مطبوعہ اگست ۱۹۰۱ء
آغاز قعات تواریخ طبع بروجدان تحقیق
خدارا فراوان سپاس وستایش
حضرت واجد ذہن رساش
صحت نامۂ وثوق صراحت شرح دیوان اردوی غالب دہلوی
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگر ہدیہ
جز قیس اور کوئی نہ آیا بروی کار
کہتے ہو ندینگے ہم دل اگر پڑا پایا
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ستایش گر ہے زاہد اسقدر جس باغ رضواں کا
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
سراپا رہن عشق وناگزیر الفت ہستی
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ ابر آب تھا
واے دیوانگی شوق کہ ہردم مجھ کو
حضرت ناصح اگر آویں دیدہ دل فرش راہ
سبکو مقبول ہے دعوی تری یکتائی کا
اسد ہم وہ جنوں جولان گداے بے سرو پا ہیں
پے نظر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کا
درد منت کش دوا نہ ہوا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگئی جاکا
قطرۂ می بسکہ حیرت سےنفس پرور ہوا
جب بتقریب سفر یار نے محمل باندھا
درماندگی میں غالب کچھ پڑے توجانوں
یک ذرہ میں نہیں بیکار باغ کا
وہ مرے چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا
جاتا ہوں داغ حسرت ہستی لئے ہوئے
بزم قدح سے عیش تمنا نہ رکھ کہ رنگ
جو رسے باز آئے پر باز آئیں کیا
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
خاتمۃ الطبع از طرف مصنف
نوٹ از طرف مصنف
غزل بزبان فارسی طبعزاد مصنف ایں شرح فرزند حضرت والہ مرحوم
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।