سرورق
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگر ہدیہ
جز قیس اور کوئی نہ آیا ابروئے کار
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
دھمکی میں مر گیاجو نہ باب نبرد تھا
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
سراپا رہن عشق وناگزیر الفت ہستی
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ ابر آب تھا
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
شب خمار شوق ساقی استخیز اندازہ تھا
دوست مخواری میں میری سعی فرماویں گے کیا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
ہوس کو ہے نشاط کار کیسا کیسا
در خور قہر وغضب جب کوئی ہمسا نہ ہوا
پی نذر کرم تحفہ ہے شرم نار سائی کا
اسد ہم وہ جنوں جولان گدائے بے سروپا ہیں
گر نہ اندوہ شب فرقت بیان ہوجائیگا
درد منت کس دوا نہ ہوا
گلہ ہے شوق کو دل میں میں بھی تنگی جاکا
جب یہ تقریب سفریار نے محمل باندھا
قطرۂ ہے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
میں اور بزم سے یوں تشنہ کام آوں
گھر ہمارا جو نہ روتے یہی تو ویراں ہوتا
یک ذرہ زمیں نہیں بیکار باغ کا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
وہ سری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
ہوے تاخیر تو کچھ باعث تاخیر ہی تھا
لب خشک در تشنگی مردگان کا
تو دوست کسی کابھی ستمگر نہ ہوا تھا
شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
عرض یہ ناز عشق کے قابل نہیں رہا
رشک کہتا ہے کہ اسکا غیر سے اخلاص حیف
ذکر اس پرپوش کا اور پیر بیاں اپنا
غافل بو ہم ناز خودآرائے ورنہ یاں
سرمۂ مفت نظر ہوں میری قسمت یہ ہے
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب
ردیف ب
رہا گر کوئی تاقیامت سلامت
افسوس کہ دیدان کا کیا رزق فلک نے
ردیف ت
آمد خط سے ہوا ہےسرد جو بازار دوست
مند گئیں کھولتے ہی آنکھیں غالب
ردیف ج
گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
ردیف جیم فارسی
حسن غمزہ کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
ردیف دال
ردیف ر
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در ودیوار
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
کیوں جل گیا نہ تب رخ یار دیکھ کر
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
ہے بسکہ ہر اک انکے اشارے میں نشان اور
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
صفائی حیرت آئینہ ہے سامان رنگ آخر
لازم تھا کہ دیکھو میرا رستہ کوئی دن اور
حریف مطلب مشکل نہیں فسوں نیاز
وسعت سعی کرم دیکھ کہ سرتاسرخاک
کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
ردیف س
نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
رخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع
ردیف ش
ردیف ع
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
ردیف ف
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
ردیف ک
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
ردیف گ
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
ہے کس قدر ہلاک فریب وفاے گل
ردیف ل
ردیف م
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش ازیک نفس
مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور
ردیف ن
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
کی وفا ہم سے تو غیر اسکو جفا کہتے ہیں
آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
عہدہ سے مدح ناز کے باہر نہ آسکا
ہم سے کھلجاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
مانع دشت نور دی کوئی تدبیر نہیں
مت مردمک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
عشق تاثیر سے نومید نہیں
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
ملتے ہے خوئے یار سے مار التہاب میں
حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
قیامت ہے کہ سن لیلی کا دشت قیس میں آنا
یہ ہم جو ہجر میں دیوار ودر کو دیکھتے ہیں
دل لگا کر لگ گیا انکو بھی تنہا بیٹھنا
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
تیرے تو سن کو صبا باندھتے ہیں
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
سب کہاں کچھ لالۂ وگل میں نمایاں ہو گئیں
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
نہیں ہے زخم کوئی بخیہ کے درخور مرے تن میں
مزے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں
دل ہی تو ہے ننگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
کعبہ میں جارہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں
ردیف واو
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
واں پہونچ کر جو غش آتا پے ہم ہے ہم کو
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہے سبزہ زار ہر در و دیوار غم کدہ
صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائے
مسجد کے زیر سایۂ خرابات چاہئے
ردیف ی
بساط عجز میں تھا یک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تاہمکو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
غم دنیا سے گرپائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
کیا تنگ ہم ستمزادگاں کا جہاں ہے
درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہاے ہاے
سر گشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
گر خامشی سے فائدہ اخفاے حال ہے
تم اپنے شکوہ کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
پینس میں گزرتے ہیں وہ کوچہ سے جو میرے
رحم کرظالم کہ کیا بود چراغ کشتہ ہے
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہے سہی
ہےآرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کئے
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پر شک آجائے ہے
گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے
کار گاہ ہستی میں لالہ داغ سامان ہے
اُگ رہا ہے درو دیوار سے سبزہ غالب
سادگی پر اسکی فرمرجانے کی حسرت دل میں ہے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
تسکین کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
کوئی دن گر زندگانی اور ہ۷ے
کوئی امید بر نہیں آتی
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
نکوہش ہے سزا فرمادئے بیداد دلبر کی
جنوں تہمت کش تسکین نہ ہو گرشادمانی کی
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوے
اس میں وہ انداز وہ شوخی وہ رعنائی نہیں
اللہ رے تیری تندئے خو جس کے بیم سے
جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
ظلمت کدہ میں میرے شب غم کا جوش ہے
آکر مری جاں کو قرار نہیں ہے
ہجوم غم سے یانتک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے
پابہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
حسن مہ گرچہ ہنگام کمال اچھا ہے
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
شکوہ کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
وہ چیز جس کے لئے ہم کو ہو بہشت عزیز
میں اونہیں چھیڑوں او کچھ نہ کہیں
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
پھر اس انداز سے بہار آئی
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے
گلشن کو تری صحبت ناز بسکہ خوش آئی ہے
نقش ناز بت طناز بآغوش رقیب
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
ہے وصل ہجر عالم تمکیں وضبط میں
سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم
چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئے
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
نکتہ چیں ہے غم دل اسکو سنائی نہ بنے
چاک کی خواہش اگر وحشت بعریانی کرے
وہ آکے خواب میں تسکین اضطراب تو دے
تپش سے میری وقف کشمکش ہرتار بستر ہے
خطر ہے رشتۂ الفت رگ گردن نہ ہو جائے
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
نہ پوچھ نسخۂ مرہم جراحت دل کا
کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو
دیا ہے دل اگر اسکو بشر ہے کیا کہئے
دیکھ کر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے
یاد ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یارب مجھے
حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمایش ہے
کبھی نیکی بھی اس کی جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
زبسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جاوے تجھے
کہوں جو حال ت کہتے ہو مدعا کہئے
رونے سے اور عشق میں بیباک ہو گئے
نشہ ہا شاداب رنگ وساز ہا مست طرب
عرض ناز شوخی دنداں برائے خندہ ہے
حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
ابن مریم ہوا کرے کوئی
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
روندے ہوئے ہے کوکبۂ شہریار کی
کوہ کے ہوں یار خاطر گر صدا ہو جائے
آمد سیلاب طوفاں سدائے آب ہے
مستی بذوق غفلت ساقی ہلاک ہے
ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
جس جا نسیم شانہ کش زلف یار ہے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
شبنم بہ گل لالہ نہ خالی زادا ہے
منظور تھی بہ شکل تجلی کو نور کی
غم کہانی میں بودا دل ناکام بہت ہے
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لئے
سازیک ذرہ نہیں فیض چمن سے بیکار
قصائد
دہر جز جلوۂ یکتائے معشوق نہیں
ہاں مہ نو سنیں ہم اسکا نام
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
ہاں دل درد مند زمزمہ ساز
اے شہنشاہ فلک منظر بیمثل ونظیر
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہمنشیں
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے
منظور ہے گزارش احوال واقعی
خوش ہواے بخت کہ ہےآج ترے سر سہرا
نصرۃ الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاں دار
افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو
اے شہنشاہ آسماں اورنگ
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی
خجستہ انجمن طوئے مرزا جعفر
گو ایک بادشاہ کے سب خانیزاد ہیں
رباعیات
یا صاحب الجمال ویا سید البشر
سرورق
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
جراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگر ہدیہ
جز قیس اور کوئی نہ آیا ابروئے کار
کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
دھمکی میں مر گیاجو نہ باب نبرد تھا
شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
دہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ستائش گر ہے زاہد اس قدر جس باغ رضواں کا
نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
سراپا رہن عشق وناگزیر الفت ہستی
بزم شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
شب کہ برق سوز دل سے زہرۂ ابر آب تھا
ایک ایک قطرہ کا مجھے دینا پڑا حساب
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
شب خمار شوق ساقی استخیز اندازہ تھا
دوست مخواری میں میری سعی فرماویں گے کیا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
ہوس کو ہے نشاط کار کیسا کیسا
در خور قہر وغضب جب کوئی ہمسا نہ ہوا
پی نذر کرم تحفہ ہے شرم نار سائی کا
اسد ہم وہ جنوں جولان گدائے بے سروپا ہیں
گر نہ اندوہ شب فرقت بیان ہوجائیگا
درد منت کس دوا نہ ہوا
گلہ ہے شوق کو دل میں میں بھی تنگی جاکا
جب یہ تقریب سفریار نے محمل باندھا
قطرۂ ہے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
میں اور بزم سے یوں تشنہ کام آوں
گھر ہمارا جو نہ روتے یہی تو ویراں ہوتا
یک ذرہ زمیں نہیں بیکار باغ کا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
وہ سری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
ہوے تاخیر تو کچھ باعث تاخیر ہی تھا
لب خشک در تشنگی مردگان کا
تو دوست کسی کابھی ستمگر نہ ہوا تھا
شب کہ وہ مجلس فروز خلوت ناموس تھا
عرض یہ ناز عشق کے قابل نہیں رہا
رشک کہتا ہے کہ اسکا غیر سے اخلاص حیف
ذکر اس پرپوش کا اور پیر بیاں اپنا
غافل بو ہم ناز خودآرائے ورنہ یاں
سرمۂ مفت نظر ہوں میری قسمت یہ ہے
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موج شراب
ردیف ب
رہا گر کوئی تاقیامت سلامت
افسوس کہ دیدان کا کیا رزق فلک نے
ردیف ت
آمد خط سے ہوا ہےسرد جو بازار دوست
مند گئیں کھولتے ہی آنکھیں غالب
ردیف ج
گلشن میں بندوبست برنگ دگر ہے آج
نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ
ردیف جیم فارسی
حسن غمزہ کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
ردیف دال
ردیف ر
بلا سے ہیں جو یہ پیش نظر در ودیوار
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
کیوں جل گیا نہ تب رخ یار دیکھ کر
لرزتا ہے مرا دل زحمت مہر درخشاں پر
ہے بسکہ ہر اک انکے اشارے میں نشان اور
جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
صفائی حیرت آئینہ ہے سامان رنگ آخر
لازم تھا کہ دیکھو میرا رستہ کوئی دن اور
حریف مطلب مشکل نہیں فسوں نیاز
وسعت سعی کرم دیکھ کہ سرتاسرخاک
کیونکر اس بت سے رکھوں جان عزیز
نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
مژدہ اے ذوق اسیری کہ نظر آتا ہے
ردیف س
نہ لیوے گر خس جوہر طراوت سبزۂ خط سے
رخ نگار سے ہے سوز جاودانی شمع
ردیف ش
ردیف ع
جادۂ رہ خور کو وقت شام ہے تار شعاع
ردیف ف
بیم رقیب سے نہیں کرتے وداع ہوش
ردیف ک
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلان بے پروا نمک
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
ردیف گ
گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ
ہے کس قدر ہلاک فریب وفاے گل
ردیف ل
ردیف م
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش ازیک نفس
مجھ کو دیار غیر میں مارا وطن سے دور
ردیف ن
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
کی وفا ہم سے تو غیر اسکو جفا کہتے ہیں
آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں
عہدہ سے مدح ناز کے باہر نہ آسکا
ہم سے کھلجاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ہم پر جفا سے ترک وفا کا گماں نہیں
مانع دشت نور دی کوئی تدبیر نہیں
مت مردمک دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
عشق تاثیر سے نومید نہیں
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
ملتے ہے خوئے یار سے مار التہاب میں
حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
نالہ جز حسن طلب اے ستم ایجاد نہیں
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
قیامت ہے کہ سن لیلی کا دشت قیس میں آنا
یہ ہم جو ہجر میں دیوار ودر کو دیکھتے ہیں
دل لگا کر لگ گیا انکو بھی تنہا بیٹھنا
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
تیرے تو سن کو صبا باندھتے ہیں
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
سب کہاں کچھ لالۂ وگل میں نمایاں ہو گئیں
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
نہیں ہے زخم کوئی بخیہ کے درخور مرے تن میں
مزے جہاں کے اپنی نظر میں خاک نہیں
دل ہی تو ہے ننگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
کعبہ میں جارہا تو نہ دو طعنہ کیا کہیں
ردیف واو
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو
قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
واں پہونچ کر جو غش آتا پے ہم ہے ہم کو
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
کسی کو دے کے دل کوئی نواسنج فغاں کیوں ہو
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہے سبزہ زار ہر در و دیوار غم کدہ
صد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائے
مسجد کے زیر سایۂ خرابات چاہئے
ردیف ی
بساط عجز میں تھا یک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تاہمکو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
غم دنیا سے گرپائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
کیا تنگ ہم ستمزادگاں کا جہاں ہے
درد سے میرے ہے تجھ کو بیقراری ہاے ہاے
سر گشتگی میں عالم ہستی سے یاس ہے
گر خامشی سے فائدہ اخفاے حال ہے
تم اپنے شکوہ کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو
ایک جا حرف وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
پینس میں گزرتے ہیں وہ کوچہ سے جو میرے
رحم کرظالم کہ کیا بود چراغ کشتہ ہے
چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہے سہی
ہےآرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کئے
رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پر شک آجائے ہے
گرم فریاد رکھا شکل نہالی نے مجھے
کار گاہ ہستی میں لالہ داغ سامان ہے
اُگ رہا ہے درو دیوار سے سبزہ غالب
سادگی پر اسکی فرمرجانے کی حسرت دل میں ہے
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
تسکین کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے
کوئی دن گر زندگانی اور ہ۷ے
کوئی امید بر نہیں آتی
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
کہتے تو ہو تم سب کہ بت غالیہ مو آئے
پھر کچھ اک دل کو بے قراری ہے
نکوہش ہے سزا فرمادئے بیداد دلبر کی
جنوں تہمت کش تسکین نہ ہو گرشادمانی کی
بے اعتدالیوں سے سبک سب میں ہم ہوے
اس میں وہ انداز وہ شوخی وہ رعنائی نہیں
اللہ رے تیری تندئے خو جس کے بیم سے
جو نہ نقد داغ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
ظلمت کدہ میں میرے شب غم کا جوش ہے
آکر مری جاں کو قرار نہیں ہے
ہجوم غم سے یانتک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے
پابہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
حسن مہ گرچہ ہنگام کمال اچھا ہے
نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلی نہ سہی
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
شکوہ کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
وہ چیز جس کے لئے ہم کو ہو بہشت عزیز
میں اونہیں چھیڑوں او کچھ نہ کہیں
غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
پھر اس انداز سے بہار آئی
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
تغافل دوست ہوں میرا دماغ عجز عالی ہے
گلشن کو تری صحبت ناز بسکہ خوش آئی ہے
نقش ناز بت طناز بآغوش رقیب
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
ہے وصل ہجر عالم تمکیں وضبط میں
سیماب پشت گرمی آئینہ دے ہے ہم
چاہئے اچھوں کو جتنا چاہئے
ہر قدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سے
نکتہ چیں ہے غم دل اسکو سنائی نہ بنے
چاک کی خواہش اگر وحشت بعریانی کرے
وہ آکے خواب میں تسکین اضطراب تو دے
تپش سے میری وقف کشمکش ہرتار بستر ہے
خطر ہے رشتۂ الفت رگ گردن نہ ہو جائے
ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
نہ پوچھ نسخۂ مرہم جراحت دل کا
کیوں نہ ہو چشم بتاں محو تغافل کیوں نہ ہو
دیا ہے دل اگر اسکو بشر ہے کیا کہئے
دیکھ کر در پردہ گرم دامن افشانی مجھے
یاد ہے شادی میں بھی ہنگامۂ یارب مجھے
حضور شاہ میں اہل سخن کی آزمایش ہے
کبھی نیکی بھی اس کی جی میں گر آجائے ہے مجھ سے
زبسکہ مشق تماشا جنوں علامت ہے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جاوے تجھے
کہوں جو حال ت کہتے ہو مدعا کہئے
رونے سے اور عشق میں بیباک ہو گئے
نشہ ہا شاداب رنگ وساز ہا مست طرب
عرض ناز شوخی دنداں برائے خندہ ہے
حسن بے پروا خریدار متاع جلوہ ہے
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
ابن مریم ہوا کرے کوئی
باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
روندے ہوئے ہے کوکبۂ شہریار کی
کوہ کے ہوں یار خاطر گر صدا ہو جائے
آمد سیلاب طوفاں سدائے آب ہے
مستی بذوق غفلت ساقی ہلاک ہے
ہجوم نالہ حیرت عاجز عرض یک افغاں ہے
خموشیوں میں تماشا ادا نکلتی ہے
جس جا نسیم شانہ کش زلف یار ہے
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
شبنم بہ گل لالہ نہ خالی زادا ہے
منظور تھی بہ شکل تجلی کو نور کی
غم کہانی میں بودا دل ناکام بہت ہے
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
نوید امن ہے بیداد دوست جاں کے لئے
سازیک ذرہ نہیں فیض چمن سے بیکار
قصائد
دہر جز جلوۂ یکتائے معشوق نہیں
ہاں مہ نو سنیں ہم اسکا نام
صبح دم دروازۂ خاور کھلا
ہاں دل درد مند زمزمہ ساز
اے شہنشاہ فلک منظر بیمثل ونظیر
ہے جو صاحب کے کف دست پہ یہ چکنی ڈلی
کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہمنشیں
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے
منظور ہے گزارش احوال واقعی
خوش ہواے بخت کہ ہےآج ترے سر سہرا
نصرۃ الملک بہادر مجھے بتلا کہ مجھے
اے شاہ جہانگیر جہاں بخش جہاں دار
افطار صوم کی کچھ اگر دستگاہ ہو
اے شہنشاہ آسماں اورنگ
سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی
خجستہ انجمن طوئے مرزا جعفر
گو ایک بادشاہ کے سب خانیزاد ہیں
رباعیات
یا صاحب الجمال ویا سید البشر
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔