اشاریہ
نیاز مندانہ
سپاس گزارانہ
دیباچہ طبع چہارم
دیاچۂ طبع سوم
شاید
رمز
نواے درونی
شہر آشوب
اجنبی شام
وصال
اعلان رنگ
تعاقب
دوئی
برج بابل
بس ایک اندازہ
سلسلہ تمنا کا
قطعہ
اذیت کی یادداشت
دریچہ ہاے خیال
سزا
سوفسطا
اس رایگانی میں
بے اثبات
مگر یہ زخم یہ مرہم
جشن کا آسیب
سرزمین خواب وخیال
معمول
رمز ہمیشہ
افسانہ ساز جس کا فراق وصال تھا
گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے
ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں
جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی
خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی
تو بھی چپ سے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے
بے دلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
تیرا زیاں رہا ہوں میں اپنا زیاں رہوں گا میں
ہار جا اے نگاہ ناکارہ
ہیں عجیب رنگ کی داستاں گئی پل کا تو گئی پل کا میں
رامش گروں سے داد طلب انجمن میں تھی
حال یہ ہے کہ خواہش پرسش حال بھی نہیں
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
حاصل دکن ہے یہ جہان خراب
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
ہار آئی ہے کوئی آس مشین
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
جو رعنائی نگاہوں کے لیے فردوس جلوہ ہے
دو غزلہ
سوچا ہے کہ اب کار مسیحا نہ کریں گے
جانے کہاں گیا وہ وہ جو ابھی یہاں تھا؟
جانے یہاں ہوں میں یا میں
دل ہے سوالی تجھ سے دل آرا اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں
ہر نفس جس کی آرزو تھی مجھے
تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو
جنوں کریں ہوس ننگ ونام کے نہ رہیں
زاہدہ حنا کے نام
کس سے اظہار مدعا کیجے
یہ تیرے خط تری خوشبو یہ تیرے خواب وخیال
گاہے گاہے ہے بس اب یہی ہو کیا
منظر سا تھا کوئی کہ نظر اس میں گم ہوئی
سر میں تکمیل کا تھا اک سودا
وہ زلف ہے پریشاں ہم سب ادھر چلے ہیں
یوں تو اپنے قاصدان دل کے پاس
خود سے ہر دم ترا سفر چاہوں
سرکار! اب جنوں ہے سرکار کچھ سنا
ہر طنز کیا جائے، ہر اک طعنہ دیا جائے
نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے
کسی سے عہد وپیماں کر نہ رہیو
زیر محراب ابرواں خوں ہے
غبار محمل گل پر ہجوم یاراں ہے
میں نے ہر بار تجھ سے ملتے وقت
تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں
پاس رہ کر جدائی کی تجھ سے
ہم جو گاتے چلے گئے ہوں گے
اس کے اور اپنے درمیان میں لب
پہنائی کا مکان ہے اور در ہے گم یہاں
کیا بتاؤں کہ سہہ رہا ہوں میں
دو غزلہ
اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
تھی جو وہ اک تمثیل ماضی اخْری منظر اس کا یہ تھا
ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے
ہم کہاں اور تم کہاں جاناں
ہے رنگ ایجاد بھی دل میں اور زخم ایجاد بھی ہے
رقص جاں میں ہیں زخم ساماناں
شکل بھی اک رنگ کی ہو رنگ کی شب ہم نفسو
دل جان! وہ آپہنچا در ہم شکن دلہا
بھٹکتا پھر رہا ہوں جستجو بن
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
کہنا ہی کیا کہ شوخ کے رخسار سرخ ہیں
یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعاد ستم
خوش گذران شہر غم خوش گذراں گزر گئے
ہے بکھرنے کو یہ محفل رنگ بو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
ہم رہے پر نہیں رہے آباد
رو بہ زوال ہو گئی مستی حال شہر میں
کیا ہوئے آشفتہ کاراں کیا ہوئے
کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے
نہ ہوا نصیب قرار جاں ہوس قرار بھی اب نہیں
زرد ہوائیں، زرد آوازیں زرد سراے شام خزاں
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
کرتا ہے ہا ہو مجھ میں
اب بھی بہاراں مژدہ ہے
باد بہاری کے چلتے ہی لہری پاگل چل نکلے
دوغزلہ
خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
شام ہوئی ہے یار آئے ہیں یاروں کے ہمراہ چلیں
میں تو سودا لیے پھرا سر میں
سالہا سال اور اک لمحہ
وہ کار گاہ ہوں جو عجب نادرست ہے
دو غزلہ
دل نے وفا کے نام پر کار وفا نہیں کیا
دو غزلہ
نکل آیا میں اپنے اندر سے
وہ جو تھے رنگ میں سر شار کہاں میں جانے
ہو کا عالم ہے یہاں نالہ گروں کے ہوتے
شہر کا کیا حال ہے پوچھو خبر
ہمارے زخم تمنا پرانے ہوگئے ہیں
رنگ لایا ہے عجب رنج خمار آخر شب
اپنے جنوں کا پھر سروساماں ہے خواب خواب
آغاز شاعری سے ۱۹۵۷ء تک
اسایش امروز
دو آوازیں پہلی آواز
دوسری آواز
مفروضہ
عید زنداں
خواب
متاع زندگی لوٹا رہا ہوں
آزادی
بنام فارہہ
چشمک انجم جشن آزادی کے موقع پر
داغ سینۂ شب
تعظیم محبت
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں
وقت
ہے تمنا ہم نئے شام وسحر پیدا کریں
ترے بغیر بھی فطرت نے لی ہے انگڑائی
ذکر گل ہو خار کی باتیں کریں
کتنے ظالم ہیں جو یہ کہتے ہیں
دست جنوں کو کار نمایاں بھی ہیں عزیز
دھرم کی بانسری سے راگ نکلے
ستم شعار نشانے تلاش کرتے ہیں
مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے
کیا ہے جو غیر وقت کے دھاروں کے ساتھ ہیں
کچھ دشت اہل دل کے حوالے ہوئے تو ہیں
اب جنوں کب کسی کے بس میں ہے
نہ کر قبول تماشائی چمن ہونا
بھائی حضرت رئیس امروہوی کی نذر
ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
ہو بزم راز تو آشوب کار میں کیا ہے
میری عقل و ہوش کی سب حالتیں
دل کے ارمان مرتے جاتے ہیں
مستی حال کبھی تھی کہ نہ تھی بھول گئے
کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہوگا
نوائیں نکہتیں، آسودہ چہرے دلنشیں رشتے
ہم غزال اک ختن زمیں کے ہیں
غم ہاے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں
قطعات
اشاریہ
نیاز مندانہ
سپاس گزارانہ
دیباچہ طبع چہارم
دیاچۂ طبع سوم
شاید
رمز
نواے درونی
شہر آشوب
اجنبی شام
وصال
اعلان رنگ
تعاقب
دوئی
برج بابل
بس ایک اندازہ
سلسلہ تمنا کا
قطعہ
اذیت کی یادداشت
دریچہ ہاے خیال
سزا
سوفسطا
اس رایگانی میں
بے اثبات
مگر یہ زخم یہ مرہم
جشن کا آسیب
سرزمین خواب وخیال
معمول
رمز ہمیشہ
افسانہ ساز جس کا فراق وصال تھا
گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے
ایذا دہی کی داد جو پاتا رہا ہوں میں
جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی
خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی
تو بھی چپ سے میں بھی چپ ہوں یہ کیسی تنہائی ہے
بے دلی کیا یونہی دن گزر جائیں گے
تیرا زیاں رہا ہوں میں اپنا زیاں رہوں گا میں
ہار جا اے نگاہ ناکارہ
ہیں عجیب رنگ کی داستاں گئی پل کا تو گئی پل کا میں
رامش گروں سے داد طلب انجمن میں تھی
حال یہ ہے کہ خواہش پرسش حال بھی نہیں
سر ہی اب پھوڑیے ندامت میں
حاصل دکن ہے یہ جہان خراب
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
ہار آئی ہے کوئی آس مشین
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
جو رعنائی نگاہوں کے لیے فردوس جلوہ ہے
دو غزلہ
سوچا ہے کہ اب کار مسیحا نہ کریں گے
جانے کہاں گیا وہ وہ جو ابھی یہاں تھا؟
جانے یہاں ہوں میں یا میں
دل ہے سوالی تجھ سے دل آرا اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں
ہر نفس جس کی آرزو تھی مجھے
تنگ آغوش میں آباد کروں گا تجھ کو
جنوں کریں ہوس ننگ ونام کے نہ رہیں
زاہدہ حنا کے نام
کس سے اظہار مدعا کیجے
یہ تیرے خط تری خوشبو یہ تیرے خواب وخیال
گاہے گاہے ہے بس اب یہی ہو کیا
منظر سا تھا کوئی کہ نظر اس میں گم ہوئی
سر میں تکمیل کا تھا اک سودا
وہ زلف ہے پریشاں ہم سب ادھر چلے ہیں
یوں تو اپنے قاصدان دل کے پاس
خود سے ہر دم ترا سفر چاہوں
سرکار! اب جنوں ہے سرکار کچھ سنا
ہر طنز کیا جائے، ہر اک طعنہ دیا جائے
نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے
کسی سے عہد وپیماں کر نہ رہیو
زیر محراب ابرواں خوں ہے
غبار محمل گل پر ہجوم یاراں ہے
میں نے ہر بار تجھ سے ملتے وقت
تجھ سے گلے کروں تجھے جاناں مناؤں میں
پاس رہ کر جدائی کی تجھ سے
ہم جو گاتے چلے گئے ہوں گے
اس کے اور اپنے درمیان میں لب
پہنائی کا مکان ہے اور در ہے گم یہاں
کیا بتاؤں کہ سہہ رہا ہوں میں
دو غزلہ
اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
تھی جو وہ اک تمثیل ماضی اخْری منظر اس کا یہ تھا
ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے
ہم کہاں اور تم کہاں جاناں
ہے رنگ ایجاد بھی دل میں اور زخم ایجاد بھی ہے
رقص جاں میں ہیں زخم ساماناں
شکل بھی اک رنگ کی ہو رنگ کی شب ہم نفسو
دل جان! وہ آپہنچا در ہم شکن دلہا
بھٹکتا پھر رہا ہوں جستجو بن
ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
کہنا ہی کیا کہ شوخ کے رخسار سرخ ہیں
یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعاد ستم
خوش گذران شہر غم خوش گذراں گزر گئے
ہے بکھرنے کو یہ محفل رنگ بو تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
ہم رہے پر نہیں رہے آباد
رو بہ زوال ہو گئی مستی حال شہر میں
کیا ہوئے آشفتہ کاراں کیا ہوئے
کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے
نہ ہوا نصیب قرار جاں ہوس قرار بھی اب نہیں
زرد ہوائیں، زرد آوازیں زرد سراے شام خزاں
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
کرتا ہے ہا ہو مجھ میں
اب بھی بہاراں مژدہ ہے
باد بہاری کے چلتے ہی لہری پاگل چل نکلے
دوغزلہ
خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
شام ہوئی ہے یار آئے ہیں یاروں کے ہمراہ چلیں
میں تو سودا لیے پھرا سر میں
سالہا سال اور اک لمحہ
وہ کار گاہ ہوں جو عجب نادرست ہے
دو غزلہ
دل نے وفا کے نام پر کار وفا نہیں کیا
دو غزلہ
نکل آیا میں اپنے اندر سے
وہ جو تھے رنگ میں سر شار کہاں میں جانے
ہو کا عالم ہے یہاں نالہ گروں کے ہوتے
شہر کا کیا حال ہے پوچھو خبر
ہمارے زخم تمنا پرانے ہوگئے ہیں
رنگ لایا ہے عجب رنج خمار آخر شب
اپنے جنوں کا پھر سروساماں ہے خواب خواب
آغاز شاعری سے ۱۹۵۷ء تک
اسایش امروز
دو آوازیں پہلی آواز
دوسری آواز
مفروضہ
عید زنداں
خواب
متاع زندگی لوٹا رہا ہوں
آزادی
بنام فارہہ
چشمک انجم جشن آزادی کے موقع پر
داغ سینۂ شب
تعظیم محبت
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں
وقت
ہے تمنا ہم نئے شام وسحر پیدا کریں
ترے بغیر بھی فطرت نے لی ہے انگڑائی
ذکر گل ہو خار کی باتیں کریں
کتنے ظالم ہیں جو یہ کہتے ہیں
دست جنوں کو کار نمایاں بھی ہیں عزیز
دھرم کی بانسری سے راگ نکلے
ستم شعار نشانے تلاش کرتے ہیں
مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے
کیا ہے جو غیر وقت کے دھاروں کے ساتھ ہیں
کچھ دشت اہل دل کے حوالے ہوئے تو ہیں
اب جنوں کب کسی کے بس میں ہے
نہ کر قبول تماشائی چمن ہونا
بھائی حضرت رئیس امروہوی کی نذر
ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
ہو بزم راز تو آشوب کار میں کیا ہے
میری عقل و ہوش کی سب حالتیں
دل کے ارمان مرتے جاتے ہیں
مستی حال کبھی تھی کہ نہ تھی بھول گئے
کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہوگا
نوائیں نکہتیں، آسودہ چہرے دلنشیں رشتے
ہم غزال اک ختن زمیں کے ہیں
غم ہاے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں
قطعات
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.