فہرست
سمجھے گا کیا جو گزرا ہی اس دور سے نہیں
پیار جادو ہے کسی دل میں اتر جائے گا
کتابوں سے نہ دانش کی فراوانی سے آیا ہے
ظالم کے ساتھ ساتھ تماشائیوں میں ہیں
مدت سے وہ خوشبوئے حنا ہی نہیں آئی
جو تو نہیں ہے تو لگتا ہے اب کہ تو کیا ہے
مضطرب دل کی کہانی اور ہے
بدلا ہوا ہے منظر دیکھ
نہ کچھ زمیں کی نحوست نہ آسمان کی ہے
ان چراغوں سے کہاں ختم اندھیرا ہوگا
وہ سخن کا خیمۂ دل نشیں، جو ہوائے شب سے اکھڑ گیا
تشنہ لب جذبوں کی تازہ داستاں رکھ آئے ہیں
غبار تنگ ذہنی صورت خنجر نکلتا ہے
شکن بن کر مری لب تشنگی بستر پہ رکھی تھی
پردۂ شب میں روشنی جیسی
کسی کے سامنے اس طرح سرخرو ہوگی
کہیں بھی فتح کا منظر نہیں ہے
ہمارے پاؤں جلتے ہی رہے ہیں
کوئی تعویذ ہو یا کوئی منتر سکھ نہیں دیتا
بہت دنوں سے یہاں ہے یہی رواج میاں
اب ایک رشتہ ہے آنکھوں کا آستین کے ساتھ
سرمایۂ خلوص و یقیں کون لے گیا
در آئے شہروں میں جب سے منافقت والے
خواہش بہت ہے سب کی مگر کون لائے گا
منور جسم وجاں ہونے لگے ہیں
دے گیا لکھ کر وہ بس اتنا جدا ہوتے ہوئے
لہو میں ڈوبے ہوئے ماہ وسال چھوڑ گیا
دشمنی کھل نہ سکے یوں بھی رفاقت کی ہے
کوئی جس دن سے پیاسا مرچکا ہے
شہر میں وہ دکان کہاں
وہ امرت رس کہاں ہے بولیوں میں
آئنے کا عکس روشن تو کہاں
مجرم مجھے ٹھہراؤ مگر سوچ سمجھ کر
پہلے پہلے جس کی خاطر خواب سنہرے لگتے ہیں
میں تری سمت سے گزروں تو خبر دے مجھ کو
اب یہ کیا ذکر دیے اس نے دلاسے کیسے
عمر کی آخری منزل بھی اک آئینہ ہے
کیا سراپا ہے کہ خود حسن اماں مانگے ہے
شعر سن کر مرے دنیا ہے دوانی اس کی
تعلق کو ہوا دیتی ہیں اب بھی
دل میں کوئی چور نہیں تو ہم سے کیو ں شرماؤ ہو
غزل میں اس کو سجاتے مثال میں رکھتے
تیرگئ شب میں جینے کی ادا دے جاؤں گا
اب خدا خواب بھی ایسے نہ دکھائے مجھ کو
اپنے ہی جلووں سے محروم تماشا بھی ملے
اس کے ہوتے کبھی مڑکر بھی نہ دیکھا ہم نے
چشم حیرت کو تعلق کی فضا تک لے گیا
یوں سادگی سے دل کو نہ اپنے اداس رکھ
ہیں جسم تو مٹی کے پر خواب پرائے ہیں
اپنے ہی سر سے جو سورج کا گزر مانگے ہے
جو ہاتھ آسکیں نہ وہ منظر تراشیے
بے نیازی کی روایت کو نہ توڑا جائے
بے یقیں راہ پہ تھی شرط سفر کیا کرتے
سبب ترک تعلق بھی بتا سکتا تھا
کہیں نظر بھی تو آئے خلوص ہم سفری
اجاڑ دشت کو اک دن جو برگ و بردے گا
فضا کو عکس کے قالب میں ڈھالنے والا
پہچان کھو چکی ہیں پرانی رفاقتیں
موسم گل سے جو تائید تبسم چاہے
یہ وہ سفر ہے جہاں خوں بہا ضروری ہے
لغزش پا کا جو اپنی بہت آوازہ ہے
تبسم اپنے لبوں کا یارو! سحر کی تائید واقعی ہے
غبار راہ تھا سحر سفر میں کیوں آیا
صبح کے نام پر زہر کے جام ہیں روشنی کا سفر ہم سے کٹتا نہیں
پھول کو شعلہ بنانے کا عمل کیسا تھا
نہ منصب پر نہ قلعوں پر نہ میناروں پہ لکھا ہے
کئی چاند تھے کبھی ہم نفس، کئی پھول تھے کبھی ہم سبق
ایسا تو ہو کبھی کہ یہ پردے اٹھا بھی دوں
پاؤں اپنے ٹکے ہیں کہا ں عمر بھر
اب تو آنکھوں میں کوئی خواب نہ چہرا لوگو
چہرے تو حالات لکھے ہیں بچھوا کیا پروائی کیا
جن مہروں کو روک کے کھیلا ان سے ہی تو گھات ہوئی
اب آج سے سجائیں گے اک اور خواب ہم
خاموش رہ کے مجھ کو لگا بولتا ہوا
نہ کوئی خاکہ نہ دھندلا خیال دنیا کا
کسی کو یوں ہمارے دکھ کا اندازہ نہیں ہوتا
زور طوفان کا گھٹ جائے گا کچھ دور کے بعد
واپسی مشکل ہے لیکن آسرا رکھ جائیو
آرزو کس کی تھی دل کو یہ کہاں کہتا ہوں میں
کچھ نیا کرنے کی خواہش میں پرانے ہوگئے
مجھے تشنہ یوں ہی نہ چھوڑیو کبھی دیکھنے کو بھی آئیو
موسموں سے پھول ہونٹوں سے دعا لے جائیں گے
میرے بچو محومت کرنا مری سوغات کو
صاف ظاہر ہیں سب اسباب تباہی اپنے
غبار تنگ ذہنی صورت خنجر نکلتا ہے
مصائب کا تقاضہ ڈھونڈتی ہے
مقتل کا سماں لذت زانو کے سوا ہے
یہ کیسی شب ہے جس کی صبح کا پہلو نہیں دیکھا
سامنے دشمن کے بھی مجبور لگتے ہیں مجھے
اگر چہ معرکے دشنام و شنگ و دار کے ہیں
روشنی ذہنوں میں رہ جائے تو کام آتی ہے
مجھے معلوم ہے اس عشق کا انجام اے جاناں
تہذیب کا مصنوعی حوالہ نہیں رکھتے
کہتے ہو جو اب دیکھ کے کیا تم کو کمی ہے
کچھ شکست مستقل جھوٹی انا کا پھیر کچھ
ہزار شیوہ غزل سے طلسم جاں کھولیں
یہ بھی تو کار عشق تھا، نام ترا پکار کر
انتہاؤں کی سند لامتناہی دے گا
وہ جو مل جائے تو پھر اور ضرورت کیا ہے
شاید اب ہم کو بچاپائیں دعا ہی والے
آس مت توڑ مری جان خدا بھی کچھ ہے
سوچو تو دونوں سمت زیاں کم نہیں ہوا
وہ جو مسرور مرے دیدۂ خونبار سے ہے
فہرست
سمجھے گا کیا جو گزرا ہی اس دور سے نہیں
پیار جادو ہے کسی دل میں اتر جائے گا
کتابوں سے نہ دانش کی فراوانی سے آیا ہے
ظالم کے ساتھ ساتھ تماشائیوں میں ہیں
مدت سے وہ خوشبوئے حنا ہی نہیں آئی
جو تو نہیں ہے تو لگتا ہے اب کہ تو کیا ہے
مضطرب دل کی کہانی اور ہے
بدلا ہوا ہے منظر دیکھ
نہ کچھ زمیں کی نحوست نہ آسمان کی ہے
ان چراغوں سے کہاں ختم اندھیرا ہوگا
وہ سخن کا خیمۂ دل نشیں، جو ہوائے شب سے اکھڑ گیا
تشنہ لب جذبوں کی تازہ داستاں رکھ آئے ہیں
غبار تنگ ذہنی صورت خنجر نکلتا ہے
شکن بن کر مری لب تشنگی بستر پہ رکھی تھی
پردۂ شب میں روشنی جیسی
کسی کے سامنے اس طرح سرخرو ہوگی
کہیں بھی فتح کا منظر نہیں ہے
ہمارے پاؤں جلتے ہی رہے ہیں
کوئی تعویذ ہو یا کوئی منتر سکھ نہیں دیتا
بہت دنوں سے یہاں ہے یہی رواج میاں
اب ایک رشتہ ہے آنکھوں کا آستین کے ساتھ
سرمایۂ خلوص و یقیں کون لے گیا
در آئے شہروں میں جب سے منافقت والے
خواہش بہت ہے سب کی مگر کون لائے گا
منور جسم وجاں ہونے لگے ہیں
دے گیا لکھ کر وہ بس اتنا جدا ہوتے ہوئے
لہو میں ڈوبے ہوئے ماہ وسال چھوڑ گیا
دشمنی کھل نہ سکے یوں بھی رفاقت کی ہے
کوئی جس دن سے پیاسا مرچکا ہے
شہر میں وہ دکان کہاں
وہ امرت رس کہاں ہے بولیوں میں
آئنے کا عکس روشن تو کہاں
مجرم مجھے ٹھہراؤ مگر سوچ سمجھ کر
پہلے پہلے جس کی خاطر خواب سنہرے لگتے ہیں
میں تری سمت سے گزروں تو خبر دے مجھ کو
اب یہ کیا ذکر دیے اس نے دلاسے کیسے
عمر کی آخری منزل بھی اک آئینہ ہے
کیا سراپا ہے کہ خود حسن اماں مانگے ہے
شعر سن کر مرے دنیا ہے دوانی اس کی
تعلق کو ہوا دیتی ہیں اب بھی
دل میں کوئی چور نہیں تو ہم سے کیو ں شرماؤ ہو
غزل میں اس کو سجاتے مثال میں رکھتے
تیرگئ شب میں جینے کی ادا دے جاؤں گا
اب خدا خواب بھی ایسے نہ دکھائے مجھ کو
اپنے ہی جلووں سے محروم تماشا بھی ملے
اس کے ہوتے کبھی مڑکر بھی نہ دیکھا ہم نے
چشم حیرت کو تعلق کی فضا تک لے گیا
یوں سادگی سے دل کو نہ اپنے اداس رکھ
ہیں جسم تو مٹی کے پر خواب پرائے ہیں
اپنے ہی سر سے جو سورج کا گزر مانگے ہے
جو ہاتھ آسکیں نہ وہ منظر تراشیے
بے نیازی کی روایت کو نہ توڑا جائے
بے یقیں راہ پہ تھی شرط سفر کیا کرتے
سبب ترک تعلق بھی بتا سکتا تھا
کہیں نظر بھی تو آئے خلوص ہم سفری
اجاڑ دشت کو اک دن جو برگ و بردے گا
فضا کو عکس کے قالب میں ڈھالنے والا
پہچان کھو چکی ہیں پرانی رفاقتیں
موسم گل سے جو تائید تبسم چاہے
یہ وہ سفر ہے جہاں خوں بہا ضروری ہے
لغزش پا کا جو اپنی بہت آوازہ ہے
تبسم اپنے لبوں کا یارو! سحر کی تائید واقعی ہے
غبار راہ تھا سحر سفر میں کیوں آیا
صبح کے نام پر زہر کے جام ہیں روشنی کا سفر ہم سے کٹتا نہیں
پھول کو شعلہ بنانے کا عمل کیسا تھا
نہ منصب پر نہ قلعوں پر نہ میناروں پہ لکھا ہے
کئی چاند تھے کبھی ہم نفس، کئی پھول تھے کبھی ہم سبق
ایسا تو ہو کبھی کہ یہ پردے اٹھا بھی دوں
پاؤں اپنے ٹکے ہیں کہا ں عمر بھر
اب تو آنکھوں میں کوئی خواب نہ چہرا لوگو
چہرے تو حالات لکھے ہیں بچھوا کیا پروائی کیا
جن مہروں کو روک کے کھیلا ان سے ہی تو گھات ہوئی
اب آج سے سجائیں گے اک اور خواب ہم
خاموش رہ کے مجھ کو لگا بولتا ہوا
نہ کوئی خاکہ نہ دھندلا خیال دنیا کا
کسی کو یوں ہمارے دکھ کا اندازہ نہیں ہوتا
زور طوفان کا گھٹ جائے گا کچھ دور کے بعد
واپسی مشکل ہے لیکن آسرا رکھ جائیو
آرزو کس کی تھی دل کو یہ کہاں کہتا ہوں میں
کچھ نیا کرنے کی خواہش میں پرانے ہوگئے
مجھے تشنہ یوں ہی نہ چھوڑیو کبھی دیکھنے کو بھی آئیو
موسموں سے پھول ہونٹوں سے دعا لے جائیں گے
میرے بچو محومت کرنا مری سوغات کو
صاف ظاہر ہیں سب اسباب تباہی اپنے
غبار تنگ ذہنی صورت خنجر نکلتا ہے
مصائب کا تقاضہ ڈھونڈتی ہے
مقتل کا سماں لذت زانو کے سوا ہے
یہ کیسی شب ہے جس کی صبح کا پہلو نہیں دیکھا
سامنے دشمن کے بھی مجبور لگتے ہیں مجھے
اگر چہ معرکے دشنام و شنگ و دار کے ہیں
روشنی ذہنوں میں رہ جائے تو کام آتی ہے
مجھے معلوم ہے اس عشق کا انجام اے جاناں
تہذیب کا مصنوعی حوالہ نہیں رکھتے
کہتے ہو جو اب دیکھ کے کیا تم کو کمی ہے
کچھ شکست مستقل جھوٹی انا کا پھیر کچھ
ہزار شیوہ غزل سے طلسم جاں کھولیں
یہ بھی تو کار عشق تھا، نام ترا پکار کر
انتہاؤں کی سند لامتناہی دے گا
وہ جو مل جائے تو پھر اور ضرورت کیا ہے
شاید اب ہم کو بچاپائیں دعا ہی والے
آس مت توڑ مری جان خدا بھی کچھ ہے
سوچو تو دونوں سمت زیاں کم نہیں ہوا
وہ جو مسرور مرے دیدۂ خونبار سے ہے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.