فہرست
یہ دیباچہ نہیں ہے
دیباچہ
ساقی فاروقی سے گفتگو
سرخ گلاب اور بدر منیر
اے دل پہلے بھی تنہا تھے، اے دل ہم تنہا آج بھی ہیں
پری کا سایہ
کس خواب سے بوجھل ہیں پلکیں
سب دنیا ہم سے پوچھ رہی
امر
اس طرح سے میرا بھید نہ لے
ایک بزدل سے
یہ جھوٹ ہے سارا جھوٹ ہے یہ
دوسرے بزدل سے
تو آج نئی لگتی ہے بہت
جدائی
واپسی
گھر لوٹ چلو گھر لوٹ چلو
اختتامیہ
میں کچھ بھی نہیں تو کچھ بھی نہیں
وہ پاگل تھی
تتلی
تو کون ہے
نایافت
اب بہت تھک گئے ہو اب سو جاؤ
رنگ اور آگ
دیوار
رگوں میں ناچ رہا ہے اک آتشیں زہر اب
بلڈ بینک
پھر جسم میں طوفاں اٹھے آندھی چلی
شکست کی آواز
میرے سائے مرے شریک سفر
پاؤں میں سونے کے گھنگرو باندھ کر
وصال
میں سچا ہوں نہیں نہیں، پر جھوٹ اور کھوٹ سے نفرت ہے
وارث
میں روتا ہوں
تعاقب
فکرٹ
ہم دونوں اک موٹر بوٹ میں چھپے ہوئے تھے
پک نک
میں اور میں !
میں ہوں میں
انہدام
اے ہوائے خوش خبر ، اب نوید سنگ دے
میری رگوں میں ناچ رہا تھا زہر مری محرومی کا
چراغ کی تلاش
مرتا لمحہ
اس لمحے کی ہمراہی محسوس کرو
اجنبی
جس رات نہیں آتا ہوں میں میرے گھر میں ہوتا ہے کوئی
دنیا
اب یاد نہیں سینے میں کہیں
راہ دکھلاتی جگنوؤں کی طرح
جلا وطن
کالا پانی
بچھڑ کیا ہوں زمیں سے مجھے بچھڑنا تھا
شمشاد کی صلیبیں
یہ سب درخت کہ زینت ہیں کوہساروں کی
قیمتی موتیوں کی دکانیں مرے ساتھ بہتی رہیں
جوئے خوں
نمو
ادھر بھی دیکھو
اوس کی گرد سے نجات ملی
صبح
قیدی
یہ بیلے کے ننھے پودے
یہ نرم مٹی جو میری مٹھی
روتی مٹی
گھر
دو رستے ہیں
نئے زخموں سے بدحواس زمیں
ایک سنسان دوپہر
ایک ویران رات
بس ایک میں ہوں کہ ہوں تیرگی کا محرم راز
سحر زدہ شہر
کوئی عفریت رہتا ہے اس شہر میں
زینہ اور سایہ
اک پرچھائیں سی دیکھی ہے پلکوں کے نزدیک
مری رگوں میں خنک سوئیاں پروتا ہوا
مردہ خانہ
زندہ پانی سچا
پل کے نیچے جھانک کے دیکھو آج ندی طوفانی ہے
ایک تھکن پلکوں کے نرم کناروں سے
تبدیلی
سورج کی کرنوں سے پوچھو، سورج پیاسا ہے کہ نہیں
بس اسٹاپ
یہ نیند میں کیسی گرہ پڑنے لگی
طیارہ
برف باری
اٹھو اور چلو
کینسر
سوچتی آنکھیں سوچتی جاتی ہیں
یہ ایک لمحہ جو اپنے ہاتھوں میں چاند سورج لیے کھڑا ہے
ترغیب
رم اور جن کی خالی بوتلو
پارٹی
ناچ اے رات کے کی بانہوں میں سسکتے ہوئے شہر
کاسنی روشنی
وہ تو کونپل جیسی تھی
کالی آندھی
ہم سمندر میں بھی پیاسے تھے بہت
نیا روگ
جنگ
ایک لڑکی چال میں دیوانگی
نیا آدمی پرانا سوال
یہ ناچتی زمین یہ رفتار کس لئے
سوال کی دیوار
دیکھی تصویر نرالی
منتقم
یہ سہا گن یہ مشین
نوحہ
یہ کیسی سازش ہے جو ہواؤں میں بہہ رہی ہے
ک م ون ی ک ے ش ن
یہ احساس
جدائی
موت کی خوشبو
ساحل کی شام
یہ ساحل پہ بکھری ہوئی پیاس
خوب کی بالکنی
محاصرہ
زوال
ایک جہاز کے بار میں بیٹھا
سی سک
باکرہ
اور چادر پر شب باشی کا زندہ لہو تھا
داشتہ
وہ بہت تنہا تھا
جو سہاگن بیل
پیرا سائٹ
پوسٹر
یاد کی دیوار ہے
دلاسا
مت پوچھ کہ دنیا میں ہوا کیا
درختوں کے درمیان
یہ سماں لازوال کیوں نہیں
نا محرم
رس بھری مہک اڑی
شہر آئندہ کے دروازے پر
ایک پاگل کی صورت کھڑا ہوں مگر
شام شام باولے
فرار
خواب تک آنکھوں سے اوجھل ہو گئے
دعا
اک قصبے کے
امانت
سرپٹ بھاگتے آدمیوں کے
سائے کا سفر
پام کے پیڑ سے گفتگو
مجھے سبز حیرت سے کیوں دیکھتے ہو
میں تو باوری ہوئی
بانجھ
صبح کا شور
سفاک الارم کلاک
رگوں میں شراب
اچنبھا
ایک کتا نظم
پیارے
شیر امداد علی کا میڈک
مگر تنگ نظر
وہ طلسمی دو پہر تھی
ایک سور سے
سسٹر مار یا تیر یزا
یاد بستر میں
رقص
خرگوش کی سرگزشت
اور تم اپنے شبستاں چھوڑ کر
موت
میں وہ ماہ زدہ ہوں
مجھے جزیرہ ملے
جان محمد خان
خالی بورے میں زخمی بلا
بیساکھی
مری نظروں میں
شاہ صاحب اینڈ سنز
شاہ صاحب خوش نظر تھے
رات کے راج ہنس اور ہات
وہ شہتوت کی شاخ
ڈسٹ بن
صبح کے جگ مگ سورج کو
نغمہ گروں کا نوحہ
جن اکھووں نے
سیمیا
برف سلاسل میں
آج ایک شخص کے خیال سے
نون میم راشد
بہن کی موت
امی یہ کیا پاگل پن ہے
جزیرہ
رات سمندر میں
ہمزاد
شیخ زمن شادانی
یہ ست ما ہے
الکبڑے
سوگ نگر 1983
چوک چوک
چھوٹے چھوٹے کمروں میں
ایک معمولی بات
جاوید کی خاموشی
جب بارش ہو
ایک امنگ سے
سن بیچ پر صبح کا ننگا پن
کیمرا
باولی ہوا چلی
ناسپاس لہر کی تلاش
سحر کا ر چاند کے
بس دماغ چل گیا
بہرام کی واپسی
حبس
بارشیں ہوئی نہیں
قرطبہ کا محاصرہ
حاملہ بدلیوں نے
میں نہانے کے ہرے ٹب میں
مکڑا
مہاجر خیالی
ہار گیا ہوں
تو کیا دیکھتا ہوں
توجیہ
بیوی بستی
ہیرو شیما مونا مو
آواز کا مسئلہ
میں جنگل میں
برسٹ کینسر
جن مہتاب پیالوں سے
تیرا میرا
غزل پر نظم
صدمہ
وہ سولہ بہاروں کے بعد
اس نگر کے حبس کا
مدافعت
مستانہ ہیجڑا
مولا تری گلی میں
دادی اماں
حمل سرا
سسک سسک کے
کمٹ منٹ
شہناز بانو دختر شہباز حسین
وہ غصہ کی سرخ شال میں
بندۂ مومن کا ہاتھ
وہ سینا گوگ میں
با جوا
وہ اشکوں سے لبریز آنکھیں
خوف سے مکالمہ نہ کر
لشکر کشی
بدگمانی
جو ہو سکے تو ایک روز
رات جمائیاں لے رہی ہے
فینٹیسی
غزل
پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ توپانی نکلا
شہر کا شہر ہوا جان کا پیاسا کیسا
غزل
غزل
میں وہی دشت ہمیشہ کا ترسنے والا
غزل
وہ دکھ جو سوئے ہوئے ہیں انہیں جگا دوں گا
وہ آگ ہوں کہ نہیں چین ایک آن مجھے
غزل
غزل
اے صاحبان شہر اداس اس قدر نہ ہو
وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مرجائیں گے اک دن
غزل
میں پھر سے ہو جاؤں گا تنہا اک دن
غزل 219
یہ روح کی بستی پھر مسمار نظر آئی
غزل
اک رات ہم ایسے ملیں جب دھیان میں سائے نہ ہوں
غزل
جو تیرے دل میں ہے وہ بات میرے دھیان میں ہے
غزل
غزل
مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا
غزل
مٹی تھی خفا موج اٹھالے گئی ہم کو
باد نسیاں ہے مرا نام بتا دو کوئی
غزل
سائے کی طرح ساتھ یہ دنیا ضرور ہے
غزل
مرا اکیلا خدا یاد آ رہا ہے مجھے
غزل
غزل
درد پرانا آنسو مانگے آنسو کہاں سے لاؤں
یہ کون رقص میں ہے یہ منظر کہاں چلے
غزل
غزل
یہیں کہیں پہ کبھی شعلہ کار میں بھی تھا
غزل
میں نے اٹھ کر عجب تماشاد یکھا آدھی رات کو
غزل
میں وہ ہوں جس پہ ابر کا سایہ پڑا نہیں
غزل
یوں مرے پاس سے ہوکر نہ گزر جانا تھا
ریت کی صورت جاں پیاسی تھی آنکھ ہماری نم نہ ہوئی
غزل
غزل
مجھ کو مری شکست کی دہری سزا ملی
سوچ میں ڈوبا ہوا ہوں عکس اپنا دیکھ کر
غزل
غزل
خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
چشم خالی میں قحط گوہر تھا 243
غزل
یہ کیا کہ زہر سبز کا نشہ نہ جانیے
غزل
یہ لوگ خواب میں بھی برہنہ نہیں ہوئے
غزل
غزل
دامن میں آنسوؤں کا ذخیرہ نہ کر ابھی
غزل
خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار ملے
خواب کو دن کی شکستوں کا مداوا نہ سمجھ
عزل
ہم تنگ نائے ہجر سے باہر نہیں گئے
غزل
ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا
غزل
سرخ چمن زنجیر کیے ہیں سبز سمندر لایا ہوں
غزل
رات اسکول سے نکلی ہوئی دوشیزہ ہے
غزل
وحشت دیواروں میں چنوا رکھی ہے
غزل
ننگ دست اور شب کار انگلیاں قلم کر دے
غزل
وہ خوش خرام کہ برج زوال میں نہ ملا
غزل
غزل
میں کسی جواز کے حصار میں نہ تھا
یہ سارے لوگ معاون تھے میں وہ دریا تھا
غزل
اس طرح نور گزیدہ بھی کوئی کیا ہوگا
غزل
رات اپنے خواب کی قیمت کا اندازہ ہوا
غزل
غزل
روز بدن میں دوزخ کا آغاز کرے
غزل
وہ سخی ہے تو کسی روز بلا کر لے جائے
مرے جلال نے انکار سے گزار دیا
غزل
غزل
آگ لگا کے لوٹ آئے آج وہی دھنک چلائیں
غزل
مگر خدا کی تمنا حباب جیسی ہے
غزل
خون میں زہر ہے نخوت ہے خزانا میرا
غزل
جو میرے دل میں ہے وہ آگ ماہتاب میں ہے
وہ روشنی کہ دلاتی ہو اشتعال اسے
غزل
غزل
ہماری شکستوں کا بن بھی تو ہے
حجاب اشک اٹھا صبح نے صدا دی ہے
غزل
میں وہ رات کا قیدی، اپنے خواب جدا نہ کروں
غزل
یہ کہ خواب کاریاں چلی گئیں
غزل
رنج ہے کہ خود مجھ میں شور شیں بہت سی ہیں
غزل
درد کے عتاب لے دوست اے شمار کر
غزل
میں ایک رات محبت کے سائبان میں تھا
غزل
غزل
مری صدا مری جرآت مری نظر لے جا
غزل
ہر حلقۂ دینار وجواہر سے نکل آ
یہ ظلم ہے، خیال سے اوجھل نہ کر اسے
غزل
غزل
دنیا قدم کے ساتھ ہے منزل نہ کر اسے
ہم تیرے پاس درد کی شدت سے آئی ہیں
غزل
غزل
آج اپنے خیالوں میں رسائی بھی مجھے دے
میں ایک لمحۂ مفرور ہوں، دوام نہیں
عزل
خدا کرے کہ ستارے سے پھر ستارہ ملے
غزل
غزل
ابھی نظر میں ٹھہر، دھیان سے اتر کے نہ جا
غزل
میں جھوٹ ہوں اعتبار کرلے
غزل
صبح کے ساتھ مگر سوگ عجب سے آئے
غزل
یاد کا شہر تہ آب نظر آتا ہے
غزل
عمر بھر ثبات کے نام سے خفا رہے
مگر میانہ روی آنسوؤں کے بس میں نہ تھی
غزل
غزل
مجھے قرار کے احسان سے نجات بھی دے
غزل
تمام عمر مجھے قید اشتباہ میں رکھ
طواف درد نہ کر آنسوؤں کے پاس نہ رہ
غزل
میں تیرے ظلم دکھاتا ہوں اپنا ماتم کرنے کے لئے
غزل
لوگ تھے جن کی آنکھوں میں اندیشہ کوئی نہ تھا
غزل
وقت ابھی پیدا نہ ہوا تھا تم بھی راز میں تھے
غزل
میں بھی سحر زدہ تھا تو بھی پتھر ایسا تھا
غزل
غزل
سفر کی دھوپ میں چہرے سنہرے کر لیے ہم نے
غزل
یہ کس نے بھر م اپنی زمیں کا نہیں رکھا
غزل
یہ اور بات مجھے اعتراض کوئی نہ تھا
اپنی یادوں سے رہائی نہیں دیتے ہم کو
غزل
غزل
بدن چراتے ہوئے روح میں سمایا کر
غزل
موت نے پردا کرتے کرتے پردا چھوڑ دیا
جب تیری نظر پہ شک ہوا ہے اور دل میں ملال آگیا ہے
غزل
غزل
دیار مرگ میں زندہ نظر بھی جاتے ہیں
غزل
باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں
میں بے حجاب چشم گہر ساز میں ہوا
غزل
ہم تو بس ایک درد کی رحمت سے تنگ آگئے
غزل
وہ اضطراب ہوں جو خیر و شر سے باہر ہے
غزل
غزل
پلٹ کے دیکھ مرے دھیان سے اتر تے ہوئے
غزل
اس کی خاموش نگاہوں میں سخن تھا کوئی
غزل
تجھے خبر ہے تجھے یاد کیوں نہیں کرتے
چلنے کو ایک عمر پڑی ہے ٹھہر کے دیکھ
غزل
غزل
چھپ کے ملنے آجائے، روشنی کی جرأت کیا
اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے
غزل
کہیں پناہ نہیں، کوئی گھر دیا جائے
غزل
غزل
ہیں سحر مصور میں ، قیامت نہیں کرتے
نظر انداز نہ کر بے بصری میں کیا ہے
غزل
غزل
آج تنہائی میں پیدا ہوئی صورت کچھ اور
فہرست
یہ دیباچہ نہیں ہے
دیباچہ
ساقی فاروقی سے گفتگو
سرخ گلاب اور بدر منیر
اے دل پہلے بھی تنہا تھے، اے دل ہم تنہا آج بھی ہیں
پری کا سایہ
کس خواب سے بوجھل ہیں پلکیں
سب دنیا ہم سے پوچھ رہی
امر
اس طرح سے میرا بھید نہ لے
ایک بزدل سے
یہ جھوٹ ہے سارا جھوٹ ہے یہ
دوسرے بزدل سے
تو آج نئی لگتی ہے بہت
جدائی
واپسی
گھر لوٹ چلو گھر لوٹ چلو
اختتامیہ
میں کچھ بھی نہیں تو کچھ بھی نہیں
وہ پاگل تھی
تتلی
تو کون ہے
نایافت
اب بہت تھک گئے ہو اب سو جاؤ
رنگ اور آگ
دیوار
رگوں میں ناچ رہا ہے اک آتشیں زہر اب
بلڈ بینک
پھر جسم میں طوفاں اٹھے آندھی چلی
شکست کی آواز
میرے سائے مرے شریک سفر
پاؤں میں سونے کے گھنگرو باندھ کر
وصال
میں سچا ہوں نہیں نہیں، پر جھوٹ اور کھوٹ سے نفرت ہے
وارث
میں روتا ہوں
تعاقب
فکرٹ
ہم دونوں اک موٹر بوٹ میں چھپے ہوئے تھے
پک نک
میں اور میں !
میں ہوں میں
انہدام
اے ہوائے خوش خبر ، اب نوید سنگ دے
میری رگوں میں ناچ رہا تھا زہر مری محرومی کا
چراغ کی تلاش
مرتا لمحہ
اس لمحے کی ہمراہی محسوس کرو
اجنبی
جس رات نہیں آتا ہوں میں میرے گھر میں ہوتا ہے کوئی
دنیا
اب یاد نہیں سینے میں کہیں
راہ دکھلاتی جگنوؤں کی طرح
جلا وطن
کالا پانی
بچھڑ کیا ہوں زمیں سے مجھے بچھڑنا تھا
شمشاد کی صلیبیں
یہ سب درخت کہ زینت ہیں کوہساروں کی
قیمتی موتیوں کی دکانیں مرے ساتھ بہتی رہیں
جوئے خوں
نمو
ادھر بھی دیکھو
اوس کی گرد سے نجات ملی
صبح
قیدی
یہ بیلے کے ننھے پودے
یہ نرم مٹی جو میری مٹھی
روتی مٹی
گھر
دو رستے ہیں
نئے زخموں سے بدحواس زمیں
ایک سنسان دوپہر
ایک ویران رات
بس ایک میں ہوں کہ ہوں تیرگی کا محرم راز
سحر زدہ شہر
کوئی عفریت رہتا ہے اس شہر میں
زینہ اور سایہ
اک پرچھائیں سی دیکھی ہے پلکوں کے نزدیک
مری رگوں میں خنک سوئیاں پروتا ہوا
مردہ خانہ
زندہ پانی سچا
پل کے نیچے جھانک کے دیکھو آج ندی طوفانی ہے
ایک تھکن پلکوں کے نرم کناروں سے
تبدیلی
سورج کی کرنوں سے پوچھو، سورج پیاسا ہے کہ نہیں
بس اسٹاپ
یہ نیند میں کیسی گرہ پڑنے لگی
طیارہ
برف باری
اٹھو اور چلو
کینسر
سوچتی آنکھیں سوچتی جاتی ہیں
یہ ایک لمحہ جو اپنے ہاتھوں میں چاند سورج لیے کھڑا ہے
ترغیب
رم اور جن کی خالی بوتلو
پارٹی
ناچ اے رات کے کی بانہوں میں سسکتے ہوئے شہر
کاسنی روشنی
وہ تو کونپل جیسی تھی
کالی آندھی
ہم سمندر میں بھی پیاسے تھے بہت
نیا روگ
جنگ
ایک لڑکی چال میں دیوانگی
نیا آدمی پرانا سوال
یہ ناچتی زمین یہ رفتار کس لئے
سوال کی دیوار
دیکھی تصویر نرالی
منتقم
یہ سہا گن یہ مشین
نوحہ
یہ کیسی سازش ہے جو ہواؤں میں بہہ رہی ہے
ک م ون ی ک ے ش ن
یہ احساس
جدائی
موت کی خوشبو
ساحل کی شام
یہ ساحل پہ بکھری ہوئی پیاس
خوب کی بالکنی
محاصرہ
زوال
ایک جہاز کے بار میں بیٹھا
سی سک
باکرہ
اور چادر پر شب باشی کا زندہ لہو تھا
داشتہ
وہ بہت تنہا تھا
جو سہاگن بیل
پیرا سائٹ
پوسٹر
یاد کی دیوار ہے
دلاسا
مت پوچھ کہ دنیا میں ہوا کیا
درختوں کے درمیان
یہ سماں لازوال کیوں نہیں
نا محرم
رس بھری مہک اڑی
شہر آئندہ کے دروازے پر
ایک پاگل کی صورت کھڑا ہوں مگر
شام شام باولے
فرار
خواب تک آنکھوں سے اوجھل ہو گئے
دعا
اک قصبے کے
امانت
سرپٹ بھاگتے آدمیوں کے
سائے کا سفر
پام کے پیڑ سے گفتگو
مجھے سبز حیرت سے کیوں دیکھتے ہو
میں تو باوری ہوئی
بانجھ
صبح کا شور
سفاک الارم کلاک
رگوں میں شراب
اچنبھا
ایک کتا نظم
پیارے
شیر امداد علی کا میڈک
مگر تنگ نظر
وہ طلسمی دو پہر تھی
ایک سور سے
سسٹر مار یا تیر یزا
یاد بستر میں
رقص
خرگوش کی سرگزشت
اور تم اپنے شبستاں چھوڑ کر
موت
میں وہ ماہ زدہ ہوں
مجھے جزیرہ ملے
جان محمد خان
خالی بورے میں زخمی بلا
بیساکھی
مری نظروں میں
شاہ صاحب اینڈ سنز
شاہ صاحب خوش نظر تھے
رات کے راج ہنس اور ہات
وہ شہتوت کی شاخ
ڈسٹ بن
صبح کے جگ مگ سورج کو
نغمہ گروں کا نوحہ
جن اکھووں نے
سیمیا
برف سلاسل میں
آج ایک شخص کے خیال سے
نون میم راشد
بہن کی موت
امی یہ کیا پاگل پن ہے
جزیرہ
رات سمندر میں
ہمزاد
شیخ زمن شادانی
یہ ست ما ہے
الکبڑے
سوگ نگر 1983
چوک چوک
چھوٹے چھوٹے کمروں میں
ایک معمولی بات
جاوید کی خاموشی
جب بارش ہو
ایک امنگ سے
سن بیچ پر صبح کا ننگا پن
کیمرا
باولی ہوا چلی
ناسپاس لہر کی تلاش
سحر کا ر چاند کے
بس دماغ چل گیا
بہرام کی واپسی
حبس
بارشیں ہوئی نہیں
قرطبہ کا محاصرہ
حاملہ بدلیوں نے
میں نہانے کے ہرے ٹب میں
مکڑا
مہاجر خیالی
ہار گیا ہوں
تو کیا دیکھتا ہوں
توجیہ
بیوی بستی
ہیرو شیما مونا مو
آواز کا مسئلہ
میں جنگل میں
برسٹ کینسر
جن مہتاب پیالوں سے
تیرا میرا
غزل پر نظم
صدمہ
وہ سولہ بہاروں کے بعد
اس نگر کے حبس کا
مدافعت
مستانہ ہیجڑا
مولا تری گلی میں
دادی اماں
حمل سرا
سسک سسک کے
کمٹ منٹ
شہناز بانو دختر شہباز حسین
وہ غصہ کی سرخ شال میں
بندۂ مومن کا ہاتھ
وہ سینا گوگ میں
با جوا
وہ اشکوں سے لبریز آنکھیں
خوف سے مکالمہ نہ کر
لشکر کشی
بدگمانی
جو ہو سکے تو ایک روز
رات جمائیاں لے رہی ہے
فینٹیسی
غزل
پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ توپانی نکلا
شہر کا شہر ہوا جان کا پیاسا کیسا
غزل
غزل
میں وہی دشت ہمیشہ کا ترسنے والا
غزل
وہ دکھ جو سوئے ہوئے ہیں انہیں جگا دوں گا
وہ آگ ہوں کہ نہیں چین ایک آن مجھے
غزل
غزل
اے صاحبان شہر اداس اس قدر نہ ہو
وہ لوگ جو زندہ ہیں وہ مرجائیں گے اک دن
غزل
میں پھر سے ہو جاؤں گا تنہا اک دن
غزل 219
یہ روح کی بستی پھر مسمار نظر آئی
غزل
اک رات ہم ایسے ملیں جب دھیان میں سائے نہ ہوں
غزل
جو تیرے دل میں ہے وہ بات میرے دھیان میں ہے
غزل
غزل
مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا
غزل
مٹی تھی خفا موج اٹھالے گئی ہم کو
باد نسیاں ہے مرا نام بتا دو کوئی
غزل
سائے کی طرح ساتھ یہ دنیا ضرور ہے
غزل
مرا اکیلا خدا یاد آ رہا ہے مجھے
غزل
غزل
درد پرانا آنسو مانگے آنسو کہاں سے لاؤں
یہ کون رقص میں ہے یہ منظر کہاں چلے
غزل
غزل
یہیں کہیں پہ کبھی شعلہ کار میں بھی تھا
غزل
میں نے اٹھ کر عجب تماشاد یکھا آدھی رات کو
غزل
میں وہ ہوں جس پہ ابر کا سایہ پڑا نہیں
غزل
یوں مرے پاس سے ہوکر نہ گزر جانا تھا
ریت کی صورت جاں پیاسی تھی آنکھ ہماری نم نہ ہوئی
غزل
غزل
مجھ کو مری شکست کی دہری سزا ملی
سوچ میں ڈوبا ہوا ہوں عکس اپنا دیکھ کر
غزل
غزل
خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
چشم خالی میں قحط گوہر تھا 243
غزل
یہ کیا کہ زہر سبز کا نشہ نہ جانیے
غزل
یہ لوگ خواب میں بھی برہنہ نہیں ہوئے
غزل
غزل
دامن میں آنسوؤں کا ذخیرہ نہ کر ابھی
غزل
خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار ملے
خواب کو دن کی شکستوں کا مداوا نہ سمجھ
عزل
ہم تنگ نائے ہجر سے باہر نہیں گئے
غزل
ایک دن ذہن میں آسیب پھرے گا ایسا
غزل
سرخ چمن زنجیر کیے ہیں سبز سمندر لایا ہوں
غزل
رات اسکول سے نکلی ہوئی دوشیزہ ہے
غزل
وحشت دیواروں میں چنوا رکھی ہے
غزل
ننگ دست اور شب کار انگلیاں قلم کر دے
غزل
وہ خوش خرام کہ برج زوال میں نہ ملا
غزل
غزل
میں کسی جواز کے حصار میں نہ تھا
یہ سارے لوگ معاون تھے میں وہ دریا تھا
غزل
اس طرح نور گزیدہ بھی کوئی کیا ہوگا
غزل
رات اپنے خواب کی قیمت کا اندازہ ہوا
غزل
غزل
روز بدن میں دوزخ کا آغاز کرے
غزل
وہ سخی ہے تو کسی روز بلا کر لے جائے
مرے جلال نے انکار سے گزار دیا
غزل
غزل
آگ لگا کے لوٹ آئے آج وہی دھنک چلائیں
غزل
مگر خدا کی تمنا حباب جیسی ہے
غزل
خون میں زہر ہے نخوت ہے خزانا میرا
غزل
جو میرے دل میں ہے وہ آگ ماہتاب میں ہے
وہ روشنی کہ دلاتی ہو اشتعال اسے
غزل
غزل
ہماری شکستوں کا بن بھی تو ہے
حجاب اشک اٹھا صبح نے صدا دی ہے
غزل
میں وہ رات کا قیدی، اپنے خواب جدا نہ کروں
غزل
یہ کہ خواب کاریاں چلی گئیں
غزل
رنج ہے کہ خود مجھ میں شور شیں بہت سی ہیں
غزل
درد کے عتاب لے دوست اے شمار کر
غزل
میں ایک رات محبت کے سائبان میں تھا
غزل
غزل
مری صدا مری جرآت مری نظر لے جا
غزل
ہر حلقۂ دینار وجواہر سے نکل آ
یہ ظلم ہے، خیال سے اوجھل نہ کر اسے
غزل
غزل
دنیا قدم کے ساتھ ہے منزل نہ کر اسے
ہم تیرے پاس درد کی شدت سے آئی ہیں
غزل
غزل
آج اپنے خیالوں میں رسائی بھی مجھے دے
میں ایک لمحۂ مفرور ہوں، دوام نہیں
عزل
خدا کرے کہ ستارے سے پھر ستارہ ملے
غزل
غزل
ابھی نظر میں ٹھہر، دھیان سے اتر کے نہ جا
غزل
میں جھوٹ ہوں اعتبار کرلے
غزل
صبح کے ساتھ مگر سوگ عجب سے آئے
غزل
یاد کا شہر تہ آب نظر آتا ہے
غزل
عمر بھر ثبات کے نام سے خفا رہے
مگر میانہ روی آنسوؤں کے بس میں نہ تھی
غزل
غزل
مجھے قرار کے احسان سے نجات بھی دے
غزل
تمام عمر مجھے قید اشتباہ میں رکھ
طواف درد نہ کر آنسوؤں کے پاس نہ رہ
غزل
میں تیرے ظلم دکھاتا ہوں اپنا ماتم کرنے کے لئے
غزل
لوگ تھے جن کی آنکھوں میں اندیشہ کوئی نہ تھا
غزل
وقت ابھی پیدا نہ ہوا تھا تم بھی راز میں تھے
غزل
میں بھی سحر زدہ تھا تو بھی پتھر ایسا تھا
غزل
غزل
سفر کی دھوپ میں چہرے سنہرے کر لیے ہم نے
غزل
یہ کس نے بھر م اپنی زمیں کا نہیں رکھا
غزل
یہ اور بات مجھے اعتراض کوئی نہ تھا
اپنی یادوں سے رہائی نہیں دیتے ہم کو
غزل
غزل
بدن چراتے ہوئے روح میں سمایا کر
غزل
موت نے پردا کرتے کرتے پردا چھوڑ دیا
جب تیری نظر پہ شک ہوا ہے اور دل میں ملال آگیا ہے
غزل
غزل
دیار مرگ میں زندہ نظر بھی جاتے ہیں
غزل
باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں
میں بے حجاب چشم گہر ساز میں ہوا
غزل
ہم تو بس ایک درد کی رحمت سے تنگ آگئے
غزل
وہ اضطراب ہوں جو خیر و شر سے باہر ہے
غزل
غزل
پلٹ کے دیکھ مرے دھیان سے اتر تے ہوئے
غزل
اس کی خاموش نگاہوں میں سخن تھا کوئی
غزل
تجھے خبر ہے تجھے یاد کیوں نہیں کرتے
چلنے کو ایک عمر پڑی ہے ٹھہر کے دیکھ
غزل
غزل
چھپ کے ملنے آجائے، روشنی کی جرأت کیا
اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے
غزل
کہیں پناہ نہیں، کوئی گھر دیا جائے
غزل
غزل
ہیں سحر مصور میں ، قیامت نہیں کرتے
نظر انداز نہ کر بے بصری میں کیا ہے
غزل
غزل
آج تنہائی میں پیدا ہوئی صورت کچھ اور
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.