شمع ہوں پھول ہوں یا ریت پہ قدموں کا نشاں
چاند تنہا ہے آسماں تنہا
ٹکڑے ٹکڑے دن بیتا
آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا
یو ں تیرے رہ گزر سے
آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا
لمبی لمبی پلکوں والے تجھ پر کیسا نام سجے گا
اداسیوں نے میری آتما کو گھیرا ہے
جب چاہا اقرار کیا جب چاہا انکار کیا
عیادت ہوتی جاتی ہے عیادت ہوتی جاتی ہے
اب آنکھ کھلی اب ہوش آیا
ان کہی ان سنی سی کچھ باتیں
یہ نہ سوچو کل کیا ہو
حیا سے ٹوٹ کے آہ کانپتی برسات آئی
میں نے چاہا کہ اندھیروں کو اجالے بخشوں
روح کا چہرہ کتابی ہوگا
کئی الجھے ہوئے خیالات کا مجمع ہے یہ میرا وجود
تمہیں چاہا سبھی نے دل سمجھ کر
بے رحم وقت کی مغرور اور ضدی چٹان
ہنسی تھمی ہے ان آنکھوں میں یوں نمی کی طرح
اللہ کرے کہ کوئی بھی میری طرح نہ ہو
بوجھ لمحوں کا لئے کاندھے ٹوٹے جاتے ہیں
پھول کی جو کچھ پنکھڑی یاں ٹوٹیں
ساتھی تیرا نام الگ ہے
آنچل میں کجرے کی یہ جھلک
مسرتوں پہ رواجوں کا سخت پہرہ ہے
یہ کھڑکی
کھڑکی
مگر حال؟
آپ کو
میرے خیالوں میں آزاد گھومنے والے
یہ میرا ڈھانچہ کہ پنجرہ ہے ، زنگ آلودہ
سخت ویرانوں سے نرم چٹانوں سے
اک انوکھی کہانی سناؤں گی میں
میں جو راستے پہ چل پڑی
ایک ویران سی خموشی میں
رکا رکا سا اندھیروں میں روشنی جلوس
ایک ہمارا سایہ ہی جو ساتھ تھا پہلے اب بھی ہے
لالچ کو بھیک کا نام نہ دو
اجنبی دیس کے رستوں پہ بھٹکتے راہی
تو جو آجائے تو ان جلتی ہوئی آنکھوں کو
سادہ سادہ سی آنکھوں میں
میرے درد تمام
چھم چھم کرتی پائل جیسی
اک درد یہاں اک آہ وہاں
ہاں تب بھی تم ہی سناتے تھے
کیسے دم سادھے وقت پڑا ہے بے حال
ایک لڑکی تھی بڑی پیاری بہت پیاری سی
چھوئی موئی کی طرح نازک سی شرمیلی سی
کوئی تڑپتی گلی گھومتی بل کھاتی ہوئی
اداس شام، چراغ چپ
صدیوں کا بوجھ لئے کندھے پر راتیں کب بھٹکیں گی؟
درچونکے دیواریں جاگیں
تنہائیوں کو گہرا کر لو گہرا کر لو
اب یہاں کچھ نہیں سناٹا ہی سناٹا ہے
جلتی بجھتی سی روشنی کے پرے
اے میرے اجنبی
بارش کی یہ آواز
برسات مبارک ہو
جانے کیا بات ہوئی تھی جو مجھے یاد نہیں
دھندلی رات کی چند لکیریں
یہ نور کیسا ہے
لمحہ لمحہ جینا کیسا اور لمحہ لمحہ مرنا کیا
تھکا تھکا سا بدن
اکیلے پن کے اسی بے کنار صحرا میں
تنہائی کی راتوں میں اکثر
جواں برسات کی رات جلترنگ بجاتی رہی
یہ کسی مسلسل رات ہے جو کہ انگاروں پہ لیٹی ہے
کب اس کا جادو ٹوٹے گا کون اس کا جادو توڑے گا
کتنا ہلکا سا ہلکا سا تن ہوگیا
شام سمجھائے بھی تو نہ سمجھوں گی میں
نٹ کھٹ سی بھور سے پہلے جو وہ سانولا ساتھی آجائے
تمام سمتوں پہ پہرے بٹھا دئے ہیں
اک آس امید بندھی تھی جو
دوراہا ہے یا چوراہا
دل کو کیسے سمجھائیں ہم کہ رات گزرنے والی ہے
کسی کی غم ناک صدا آئی کہ ذرا رک جاؤ
لمحے اڑتے ہیں کبھی یا تو تتلیوں کی طرح
کاسنی رات نے بھیگے آنچل تلے
چین سا پاگئے
تیری عنایتوں کا انداز جدا گانہ
دن گزرتا نظر نہیں آتا
دن بحر حال بحر طور گزر جاتا ہے
سنبھلتا نہیں دل کی بھی طرح
AUTHORMeena Kumari Naz
CONTRIBUTORMirza S Saiyadain
PUBLISHER Shama Book Depo, New Delhi
AUTHORMeena Kumari Naz
CONTRIBUTORMirza S Saiyadain
PUBLISHER Shama Book Depo, New Delhi
شمع ہوں پھول ہوں یا ریت پہ قدموں کا نشاں
چاند تنہا ہے آسماں تنہا
ٹکڑے ٹکڑے دن بیتا
آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا
یو ں تیرے رہ گزر سے
آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا
لمبی لمبی پلکوں والے تجھ پر کیسا نام سجے گا
اداسیوں نے میری آتما کو گھیرا ہے
جب چاہا اقرار کیا جب چاہا انکار کیا
عیادت ہوتی جاتی ہے عیادت ہوتی جاتی ہے
اب آنکھ کھلی اب ہوش آیا
ان کہی ان سنی سی کچھ باتیں
یہ نہ سوچو کل کیا ہو
حیا سے ٹوٹ کے آہ کانپتی برسات آئی
میں نے چاہا کہ اندھیروں کو اجالے بخشوں
روح کا چہرہ کتابی ہوگا
کئی الجھے ہوئے خیالات کا مجمع ہے یہ میرا وجود
تمہیں چاہا سبھی نے دل سمجھ کر
بے رحم وقت کی مغرور اور ضدی چٹان
ہنسی تھمی ہے ان آنکھوں میں یوں نمی کی طرح
اللہ کرے کہ کوئی بھی میری طرح نہ ہو
بوجھ لمحوں کا لئے کاندھے ٹوٹے جاتے ہیں
پھول کی جو کچھ پنکھڑی یاں ٹوٹیں
ساتھی تیرا نام الگ ہے
آنچل میں کجرے کی یہ جھلک
مسرتوں پہ رواجوں کا سخت پہرہ ہے
یہ کھڑکی
کھڑکی
مگر حال؟
آپ کو
میرے خیالوں میں آزاد گھومنے والے
یہ میرا ڈھانچہ کہ پنجرہ ہے ، زنگ آلودہ
سخت ویرانوں سے نرم چٹانوں سے
اک انوکھی کہانی سناؤں گی میں
میں جو راستے پہ چل پڑی
ایک ویران سی خموشی میں
رکا رکا سا اندھیروں میں روشنی جلوس
ایک ہمارا سایہ ہی جو ساتھ تھا پہلے اب بھی ہے
لالچ کو بھیک کا نام نہ دو
اجنبی دیس کے رستوں پہ بھٹکتے راہی
تو جو آجائے تو ان جلتی ہوئی آنکھوں کو
سادہ سادہ سی آنکھوں میں
میرے درد تمام
چھم چھم کرتی پائل جیسی
اک درد یہاں اک آہ وہاں
ہاں تب بھی تم ہی سناتے تھے
کیسے دم سادھے وقت پڑا ہے بے حال
ایک لڑکی تھی بڑی پیاری بہت پیاری سی
چھوئی موئی کی طرح نازک سی شرمیلی سی
کوئی تڑپتی گلی گھومتی بل کھاتی ہوئی
اداس شام، چراغ چپ
صدیوں کا بوجھ لئے کندھے پر راتیں کب بھٹکیں گی؟
درچونکے دیواریں جاگیں
تنہائیوں کو گہرا کر لو گہرا کر لو
اب یہاں کچھ نہیں سناٹا ہی سناٹا ہے
جلتی بجھتی سی روشنی کے پرے
اے میرے اجنبی
بارش کی یہ آواز
برسات مبارک ہو
جانے کیا بات ہوئی تھی جو مجھے یاد نہیں
دھندلی رات کی چند لکیریں
یہ نور کیسا ہے
لمحہ لمحہ جینا کیسا اور لمحہ لمحہ مرنا کیا
تھکا تھکا سا بدن
اکیلے پن کے اسی بے کنار صحرا میں
تنہائی کی راتوں میں اکثر
جواں برسات کی رات جلترنگ بجاتی رہی
یہ کسی مسلسل رات ہے جو کہ انگاروں پہ لیٹی ہے
کب اس کا جادو ٹوٹے گا کون اس کا جادو توڑے گا
کتنا ہلکا سا ہلکا سا تن ہوگیا
شام سمجھائے بھی تو نہ سمجھوں گی میں
نٹ کھٹ سی بھور سے پہلے جو وہ سانولا ساتھی آجائے
تمام سمتوں پہ پہرے بٹھا دئے ہیں
اک آس امید بندھی تھی جو
دوراہا ہے یا چوراہا
دل کو کیسے سمجھائیں ہم کہ رات گزرنے والی ہے
کسی کی غم ناک صدا آئی کہ ذرا رک جاؤ
لمحے اڑتے ہیں کبھی یا تو تتلیوں کی طرح
کاسنی رات نے بھیگے آنچل تلے
چین سا پاگئے
تیری عنایتوں کا انداز جدا گانہ
دن گزرتا نظر نہیں آتا
دن بحر حال بحر طور گزر جاتا ہے
سنبھلتا نہیں دل کی بھی طرح
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.