ترتیب
دیباچہ
میں کب لکھوں گا گیت اپنی رہائی کا
دریا جلدی میں ہوتے ہیں
اگر تو انگلیاں اپنی مری آنکھوں پہ رکھ دیتی
کسی دن تجھ کو روتا چھوڑ جاؤں گا
وہ کہتی تھی(۱)
وہ کہتی تھی(۲)
وہ کہتی تھی(۳)
ڈبل بیڈ پر اکیلی نظم
ہوا مر گئی ہے
تم نے دیکھا نہیں
عورت گیان
جنگل کے راستے میں پڑی ہوئی نظم
کبوتروں کے لئے ایک دعائیہ
نظمیں پیلی ہو جاتی ہیں
باتوں کی بارش میں بھیگتی لڑکی
وہ اکثر بھول جاتی ہے
ہوا جب اذن دیتی ہے
بارش میں جل پریوں کا ملبوس اتر جاتا ہے
موت خوبصورت ہو جاتی ہے
جیون دودھاری تلوار ہے سائیں!
کبوتر صراحی کے چاروں طرف گھومتا ہے
بچپن کی ایک بوڑھی یاد
بدن کے پار دلدل ہے
ایک نظم دریائے سواں کے کنارے پر ڈوب گئی
بے وجود آدمی کا دکھ
کہانی لکھ رہی تھی
پہلے دن کی دھوپ
آنکھ میں رکا ہوا انتظار
گمشدہ بوڑھا
برف
گمانیہ
موت خودکشی کا انتظار کرتی ہے
دسمبر بوڑھا ہو جاتا ہے
اسے تنہائی سمندر پر لکھتی ہے
بلی لوٹن
سرگوشی
بے خبر کووّں کی موت
زمین کے لیے ایک نظم
ہوا مجھ کو بلاتی ہے
ٹھہرا ہوا موسم
جادو گری بھوک بن جاتی ہے
وہمی آدمی چوہے دان میں مر جائے گا
گوری آپ مقدروالی
ناگنی
پرانی کہانی
وہ زینے میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہے
کہتے ہیں
فراک
بہتی عمر کی ناؤ میں
سانپ نے اندھے لفظ کا لنچ کیا
اس کون چنے گا
بھوک رونے لگتی ہے
PARADOX
شاعر
ایک دن ہوا گر پڑی
مگر مچھلی خواب کے اندر مرجاتی ہے
میں واپس آجاؤں گا
وقت کی اندھی سرنگ میں
وہ اپنی آنکھیں میز پر رکھ کر بھاگ گیا تھا
چیخ اس کی قاتل ہے
نظم مکمل ہو جاتی ہے
کبوتر کی خودکشی
تیز ہوا میں جنگل مجھے بلاتا ہے
خالی گھروں میں دیورہتے ہیں
جنازے کا وقت ہو رہا ہے
ہوا کے راستے نہیں ہوتے
دسمبر اس کو لینے آجاتا ہے
خاموشی
کبوتر کے پروں پر لکھی لوری
مجھے اس نے آٹے میں گوندھا ہوا ہے
ترتیب
دیباچہ
میں کب لکھوں گا گیت اپنی رہائی کا
دریا جلدی میں ہوتے ہیں
اگر تو انگلیاں اپنی مری آنکھوں پہ رکھ دیتی
کسی دن تجھ کو روتا چھوڑ جاؤں گا
وہ کہتی تھی(۱)
وہ کہتی تھی(۲)
وہ کہتی تھی(۳)
ڈبل بیڈ پر اکیلی نظم
ہوا مر گئی ہے
تم نے دیکھا نہیں
عورت گیان
جنگل کے راستے میں پڑی ہوئی نظم
کبوتروں کے لئے ایک دعائیہ
نظمیں پیلی ہو جاتی ہیں
باتوں کی بارش میں بھیگتی لڑکی
وہ اکثر بھول جاتی ہے
ہوا جب اذن دیتی ہے
بارش میں جل پریوں کا ملبوس اتر جاتا ہے
موت خوبصورت ہو جاتی ہے
جیون دودھاری تلوار ہے سائیں!
کبوتر صراحی کے چاروں طرف گھومتا ہے
بچپن کی ایک بوڑھی یاد
بدن کے پار دلدل ہے
ایک نظم دریائے سواں کے کنارے پر ڈوب گئی
بے وجود آدمی کا دکھ
کہانی لکھ رہی تھی
پہلے دن کی دھوپ
آنکھ میں رکا ہوا انتظار
گمشدہ بوڑھا
برف
گمانیہ
موت خودکشی کا انتظار کرتی ہے
دسمبر بوڑھا ہو جاتا ہے
اسے تنہائی سمندر پر لکھتی ہے
بلی لوٹن
سرگوشی
بے خبر کووّں کی موت
زمین کے لیے ایک نظم
ہوا مجھ کو بلاتی ہے
ٹھہرا ہوا موسم
جادو گری بھوک بن جاتی ہے
وہمی آدمی چوہے دان میں مر جائے گا
گوری آپ مقدروالی
ناگنی
پرانی کہانی
وہ زینے میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہے
کہتے ہیں
فراک
بہتی عمر کی ناؤ میں
سانپ نے اندھے لفظ کا لنچ کیا
اس کون چنے گا
بھوک رونے لگتی ہے
PARADOX
شاعر
ایک دن ہوا گر پڑی
مگر مچھلی خواب کے اندر مرجاتی ہے
میں واپس آجاؤں گا
وقت کی اندھی سرنگ میں
وہ اپنی آنکھیں میز پر رکھ کر بھاگ گیا تھا
چیخ اس کی قاتل ہے
نظم مکمل ہو جاتی ہے
کبوتر کی خودکشی
تیز ہوا میں جنگل مجھے بلاتا ہے
خالی گھروں میں دیورہتے ہیں
جنازے کا وقت ہو رہا ہے
ہوا کے راستے نہیں ہوتے
دسمبر اس کو لینے آجاتا ہے
خاموشی
کبوتر کے پروں پر لکھی لوری
مجھے اس نے آٹے میں گوندھا ہوا ہے
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.