عرض نیاز
سخنے چند
آغاز خیال
تمہیں ہنگامۂ جوش تمنا کی خبر کیا ہے
بنام خدا
میں شب وروز تمہیں یاد کیا کرتا ہوں
کسی دن وہ سرگشتۂ عشق لیلیٰ
کثرت غم سے یہ حالت ہوگئی
گویا ہے زبان بے زبانی
کسی کام کو تیرا آقا گیا ہے
آخر ابھی نسیم تھی گلشن میں عطر بیز
اک رنگ پر نہیں چمنستان روز گار
ہاں شاد ماں نہ ہو دل راحت طلب بہت
دار فنا غضب کے ہیں تیرے تغیرات
ڈالا نقاب چہرۂ عالم پہ شام نے
کیا خاک کوئی ناز کرے جاہ ومال پر
وہ زندہ دل کہ بادۂ عشرت سے مست تھے
اب ان کے حال زار پہ روتی ہے بیکسی
یہ حسرت تھی کہ دل کا درد یارب لا دوا ہوتا
اب جذبۂ وفا کی نظر سوئے در کہاں
وحشی کو شب وصل بھی شاداں نہیں دیکھا
قسم ہے اے تپ غم تجھ کو اپنا کام کرجانا
جب تجھے یاس ہے اعجاز کا دعویٰ ہو کر
محنت یہ رائگاں نہ ہو اے چارہ گر کہیں
جگر کو دیکھئے کب تک میسر ہو جگر ہونا
میں تو اس انداز ہی سے نیم بسمل ہوگیا
کیا آگیا قریب زمانہ بہار کا
دل کو خوشی بہت ہے نویدہ وصال کی
وہی اندوہ دہی غم دہی حسر دیکھی
ہر شے میں ہے اک جلوۂ جانانہ کسی کا
کچھ انتہائے رنج ومصیبت نہیں رہی
ہمیں نہیں عذر ہم تو آہوں کو ضبط اے فتنہ گر کرینگے
مژہ کو خیال ساقی میں اگر پر آب دیکھا
جو اشک خوں سر مژۂ اشک بار تھا
کوئی دم میں اب آنکھیں بند ہیں بیمار ہجراں کی
ہمیں اتنی تو فرصت اے ہجوم رنج وحسرت ہو
خندہ زن ہے تپ الفت جو دوا کرتے ہیں
وہ طیور کانوازن سرشاخسار ہونا
خسرو ترجمہ
تو ہی خیال سے بلند پائے تجھے خیال کیا
پھر دل مرا خدنگ بلا کانشانہ ہے
کام دے زنجیر کا کب تک خیال زلف یار
حاصل جو تری زلف سے اک تار کیجئے
رات میں تھا اور وہ تھا عالم مہتاب تھا
مرد فیاض اسے کہتے ہیں
تاچند دل سے دولت پنہاں نکالئے
غزل
وہ ارباب تماشا جن کی آنکھوں میں بصیرت ہے
آنکہ بغمزہ ہوش برو آنکہ لعبشوہ دل ربود
اکنوں کہ ازردو عالم دست طلب کشیدم
یہ نثار جلوۂ مہر ہے نہ فدائے حسن بہار ہے
بیمار آہ کرتے ہی گو یا خموش تھا
کام بگڑے ہیں مرے کوتاہی تدبیر سے
عوض حور وہ غار تگردیں لمجائے
یہی آرزو ہے کہ میں ہوں اور وہ نو بہار شباب ہو
دلی میں یہ مہینہ قیامت سے کم نہ تھا
اے کہ ازتابش حسن تو چراغم داوند
ہر گاہ چشم دل برخش باز کردہ ایم
زینت مژگان ما آرائش دامان ما
ہے آنکھ پر خمار تو میری بلا سے ہو
یہ رعنائی گلستاں کی یہ سرمستی عنا دلکی
مجھے مدفن میں اے ذوق طلب بیدار کرلینا
تیرے رخ پر اگر نقاب نہ ہو
بڑھا کے دل میں تپش سوز وساز پیدا کر
اک آہ میرے منہ سے یکا یک نکل گئی
مجھ سے حال دل مغموم نہ پوچھ
مرا خیال بہر بزم باریاب کند
پھر یہ سودا ہے کہ ذوق عشق پیدا کیجئے
نرگس مست یہ کیا تھا ترے پیمانے میں
اک پیکر جانا نہ ہم آغوش نظر ہے
جذبۂ عشق دکھائے اگر اعجاز مجھے
کوئی پہنچ سکا نہ حریم جمال تک
ہر چند کہ بیمار ہوں معذور ہوں میں
ترے نازک لبوں پر دیکھکر موجیں تبسم کی
اللہ الحمد کہ خاک در جانا نہ شوم
نہ زلف پر شکن داردنہ بوئے یاسمن دارد
آساں نہیں کہ روح کو تن سے جدا کریں
جہاں ہر بات پر سوسو طرح کی بدگمانی ہے
اس وعدہ کا مطلب کیا سمجھوں آسان بھی ہے دشوار بھی ہے
اس درجہ محو ہو کے نہ گل کی بہار دیکھ
نوجوانو نوجوانی کا بھروسا کچھ نہیں
دمبدم جب انقلاب دار فانی ہے یہی
کوئی غمگیں ہو تو ہم غم سے تڑپ جایا کریں
چاہے جتنی ہو مدد مشکل نہ گھبرایا کریں
اینک دل داغدار دارم
میکش مئے ناب زہر سے بڑھ کر ہے
حد چاہئیے حد رحمت باری کیلئے
موسم خوشگوار ہے
مانا کہ روز وشب ہے فلک انقلاب میں
کون یارب جنوہ فرمادلکے ویرانہ میں تھا
یادایا میکہ من از بہر تقدیم نیاز
مجھ سے سر محفل ہو نہ خفا کوئی کیا جانے کوئی کیا سمجھے
رات دیکھا جو عروج مہ کامل میں نے
ایک چشم من نقاب روئے تو
من بدل صد جلوۂ جانا نہ دارم دیدنی
کون ہے اس پردہ رنگیں میں پنہاں دیکھنا
گر طالب نظارہ آئینہ دل راببیں
حاجب برو کہ من نہ روم از درمسیح
کبھی مہردرخشاں ہے کبھی ماہ دلارا ہے
کبھی شمس وقمر کو دیکھ کر گرم فغاں ہونا
ترقی کی راہیں دکھائے گا گاڑھا
اس آہ گرم کو پرور دگار آگ لگے
اٹھتی نہ تھی نگاہ کبھی اس ادا کے ساتھ
فریاد کنے غمزدہ نالہ زنے را
جو دن گذارا تو نا خوشی سے جو رات کاٹی تو بیکلی سے
پھولوں سے بھرنے والے ہر دامن تہی کے
یہ تیرے ستم اے باد خزاں کس سے دیکھے جائینگے
عکس در عکس ہے جلوہ تیری یکتائی کا
میرے لئے تو یارب تو یہ جہاں بدل دے
اغلاط کتابت
عرض نیاز
سخنے چند
آغاز خیال
تمہیں ہنگامۂ جوش تمنا کی خبر کیا ہے
بنام خدا
میں شب وروز تمہیں یاد کیا کرتا ہوں
کسی دن وہ سرگشتۂ عشق لیلیٰ
کثرت غم سے یہ حالت ہوگئی
گویا ہے زبان بے زبانی
کسی کام کو تیرا آقا گیا ہے
آخر ابھی نسیم تھی گلشن میں عطر بیز
اک رنگ پر نہیں چمنستان روز گار
ہاں شاد ماں نہ ہو دل راحت طلب بہت
دار فنا غضب کے ہیں تیرے تغیرات
ڈالا نقاب چہرۂ عالم پہ شام نے
کیا خاک کوئی ناز کرے جاہ ومال پر
وہ زندہ دل کہ بادۂ عشرت سے مست تھے
اب ان کے حال زار پہ روتی ہے بیکسی
یہ حسرت تھی کہ دل کا درد یارب لا دوا ہوتا
اب جذبۂ وفا کی نظر سوئے در کہاں
وحشی کو شب وصل بھی شاداں نہیں دیکھا
قسم ہے اے تپ غم تجھ کو اپنا کام کرجانا
جب تجھے یاس ہے اعجاز کا دعویٰ ہو کر
محنت یہ رائگاں نہ ہو اے چارہ گر کہیں
جگر کو دیکھئے کب تک میسر ہو جگر ہونا
میں تو اس انداز ہی سے نیم بسمل ہوگیا
کیا آگیا قریب زمانہ بہار کا
دل کو خوشی بہت ہے نویدہ وصال کی
وہی اندوہ دہی غم دہی حسر دیکھی
ہر شے میں ہے اک جلوۂ جانانہ کسی کا
کچھ انتہائے رنج ومصیبت نہیں رہی
ہمیں نہیں عذر ہم تو آہوں کو ضبط اے فتنہ گر کرینگے
مژہ کو خیال ساقی میں اگر پر آب دیکھا
جو اشک خوں سر مژۂ اشک بار تھا
کوئی دم میں اب آنکھیں بند ہیں بیمار ہجراں کی
ہمیں اتنی تو فرصت اے ہجوم رنج وحسرت ہو
خندہ زن ہے تپ الفت جو دوا کرتے ہیں
وہ طیور کانوازن سرشاخسار ہونا
خسرو ترجمہ
تو ہی خیال سے بلند پائے تجھے خیال کیا
پھر دل مرا خدنگ بلا کانشانہ ہے
کام دے زنجیر کا کب تک خیال زلف یار
حاصل جو تری زلف سے اک تار کیجئے
رات میں تھا اور وہ تھا عالم مہتاب تھا
مرد فیاض اسے کہتے ہیں
تاچند دل سے دولت پنہاں نکالئے
غزل
وہ ارباب تماشا جن کی آنکھوں میں بصیرت ہے
آنکہ بغمزہ ہوش برو آنکہ لعبشوہ دل ربود
اکنوں کہ ازردو عالم دست طلب کشیدم
یہ نثار جلوۂ مہر ہے نہ فدائے حسن بہار ہے
بیمار آہ کرتے ہی گو یا خموش تھا
کام بگڑے ہیں مرے کوتاہی تدبیر سے
عوض حور وہ غار تگردیں لمجائے
یہی آرزو ہے کہ میں ہوں اور وہ نو بہار شباب ہو
دلی میں یہ مہینہ قیامت سے کم نہ تھا
اے کہ ازتابش حسن تو چراغم داوند
ہر گاہ چشم دل برخش باز کردہ ایم
زینت مژگان ما آرائش دامان ما
ہے آنکھ پر خمار تو میری بلا سے ہو
یہ رعنائی گلستاں کی یہ سرمستی عنا دلکی
مجھے مدفن میں اے ذوق طلب بیدار کرلینا
تیرے رخ پر اگر نقاب نہ ہو
بڑھا کے دل میں تپش سوز وساز پیدا کر
اک آہ میرے منہ سے یکا یک نکل گئی
مجھ سے حال دل مغموم نہ پوچھ
مرا خیال بہر بزم باریاب کند
پھر یہ سودا ہے کہ ذوق عشق پیدا کیجئے
نرگس مست یہ کیا تھا ترے پیمانے میں
اک پیکر جانا نہ ہم آغوش نظر ہے
جذبۂ عشق دکھائے اگر اعجاز مجھے
کوئی پہنچ سکا نہ حریم جمال تک
ہر چند کہ بیمار ہوں معذور ہوں میں
ترے نازک لبوں پر دیکھکر موجیں تبسم کی
اللہ الحمد کہ خاک در جانا نہ شوم
نہ زلف پر شکن داردنہ بوئے یاسمن دارد
آساں نہیں کہ روح کو تن سے جدا کریں
جہاں ہر بات پر سوسو طرح کی بدگمانی ہے
اس وعدہ کا مطلب کیا سمجھوں آسان بھی ہے دشوار بھی ہے
اس درجہ محو ہو کے نہ گل کی بہار دیکھ
نوجوانو نوجوانی کا بھروسا کچھ نہیں
دمبدم جب انقلاب دار فانی ہے یہی
کوئی غمگیں ہو تو ہم غم سے تڑپ جایا کریں
چاہے جتنی ہو مدد مشکل نہ گھبرایا کریں
اینک دل داغدار دارم
میکش مئے ناب زہر سے بڑھ کر ہے
حد چاہئیے حد رحمت باری کیلئے
موسم خوشگوار ہے
مانا کہ روز وشب ہے فلک انقلاب میں
کون یارب جنوہ فرمادلکے ویرانہ میں تھا
یادایا میکہ من از بہر تقدیم نیاز
مجھ سے سر محفل ہو نہ خفا کوئی کیا جانے کوئی کیا سمجھے
رات دیکھا جو عروج مہ کامل میں نے
ایک چشم من نقاب روئے تو
من بدل صد جلوۂ جانا نہ دارم دیدنی
کون ہے اس پردہ رنگیں میں پنہاں دیکھنا
گر طالب نظارہ آئینہ دل راببیں
حاجب برو کہ من نہ روم از درمسیح
کبھی مہردرخشاں ہے کبھی ماہ دلارا ہے
کبھی شمس وقمر کو دیکھ کر گرم فغاں ہونا
ترقی کی راہیں دکھائے گا گاڑھا
اس آہ گرم کو پرور دگار آگ لگے
اٹھتی نہ تھی نگاہ کبھی اس ادا کے ساتھ
فریاد کنے غمزدہ نالہ زنے را
جو دن گذارا تو نا خوشی سے جو رات کاٹی تو بیکلی سے
پھولوں سے بھرنے والے ہر دامن تہی کے
یہ تیرے ستم اے باد خزاں کس سے دیکھے جائینگے
عکس در عکس ہے جلوہ تیری یکتائی کا
میرے لئے تو یارب تو یہ جہاں بدل دے
اغلاط کتابت
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔