کوائف
ورق در ورق
نئی لفظیاتی بندشوں کا شاعر رند ساغری
امسال
بہار کا متلاشی رندؔ
ذہن ودل میں زلزلے آتے ہیں اکثر کیا کروں
جلتے شمشان کا دیکھا بھی تماشا سب نے
ہماری بستی کا کرب منظر، تو زلزلے سے گزر چکا ہے
پلکوں کی چادر کو اوڑھے، سانچھ سکارے، خواب کی آْنکھیں
سازش میں شامل ہے جنگل، آدھی رات کی تنہائی میں
رت جگے کہہ گئے یہ بات کہاں ممکن ہے
دل دیوانہ جنگل جنگل گزرا ہے
اداس کوئی تبسم لبوں تک آیا نہیں
فضائے شوق کو رنگین کرکے دیکھتا ہوں
خوابوں کے کچّی آنگن میں، یادوں کی بارات بھی آئی
ایک امانت گاؤں کی تھی پرکھوں کا جنگل
اک گھروندا منہدم سا ریت پر پہلے ہی تھا
میں اپنے صحن کا سوکھا شجر ہوں
میں نے جب بھی شعر سجا یا چپکے سے
بھیڑ سے باہر نکل آئیں تو دیکھیں اور کچھ
جن دنوں خود سے مجھے پیار ہوا کرتا تھا
وہم ہے نہ آہٹ ہے
سلگتی شام کا شعلہ ادھورا
لاوارث ارمان ابھی تک ہیں میرے
بے یقینی ہے، تو لمحے کچھ کہیں، کچھ بھی کہیں
ایک ہی رات سے کتنی راتیں ہم نے کیں
داستاں گوئی میں فرزانہ کہاں سے آگیا ہے
مسئلہ ااواگون کا باعث تشکیک تھا
خوشبو کے بستر پر کانٹے ، یہ کیا ہے
بھٹک بھٹک کے جو پلکوں پہ خواب لائے ہوئے ہیں
یادوں کی روشن قندیلوں، سوچوں کی سوغات لیے
کس نے دستک لکھ دی ہے دروازے پر چیخ
دشوار زندگی کا سفر کر دیا گیا
تیزابی ماحول میں کوئی، تیکھا موسم ساتھ لیے
مری آنکھوں نے کیسا شہر دیکھا
زہر ڈستی فضا چمن میں تھی
میرے اندر دکھ کا ساگر، موسم پر الزام ہے کیوں
خواب کے نقش کی تعبیر ہی کچھ ایسی تھی
آسمانوں سے زمیں زادوں کی ٹھنتی جارہی ہے
ہوس، مزاج کی رنگینیاں دکھائے کہاں
بھٹکی ادھر جو شب کی تھکن آگئی ادھر
چاہتا تھا جو خزاں لمحہ وہی ہونے لگا ہے
تھکن کے کرب کو، احساس اک نیا دینا
یہ جگہ وہ ہے کہ درویشوں کا حجرا تھا کبھی
پرانی کوئی بھی شے اب مرے مکاں میں نہیں
کچھ اندھیرے میں جو اک جشن منائے ہوئے ہیں
ختم ہونے کو سفر آتا نہیں
غزل میں استعارے آگئے ہیں
چلن میں سودا ادھار کا تھا
اک نئی واردات ہوگئی ہے
صبا کلیوں پہ سرگرم لکھ رہی ہے
فضا میں دھند موسم ار رہا ہے
دستکیں جب خشک دروازوں پہ چسپاں ہوگئیں
رند کا انفرادی لہجہ اور شعری آہنگ
نئی لفظیاتی بندشوں کا پیکر تراش
لوگ غم کی بھیڑ میں گمنام سے زندہ رہے
پوچھتے ہو مجھ سے کیا ، کیسا سفر میں نے کیا
دھول بھری یادوں سے مہکی پروائی
ہم فقیروں کو مزاج خانقاہی چاہیے
رات کا دامن بچھائے، درد کا کاسہ لیے
شناخت اپنی نئی اختیار کرتے ہوئے
ہے اک مدّت سے سونی رہ گزر میں شام تنہائی
رات تنہائی کے مسکن میں سجاوٹ چاہتی ہے
یادوں کی دہلیز پہ جس دن بیٹھو گے تو جانو گے
گھر کے سنّاٹے تو بس اختر شماری کر رہے ہیں
قبا کی دھجیوں کو سی رہے ہیں
غم کا لمحہ آنکھ مچولی کیوں کرتا ہے
تشنہ لبوں کو مشکیزہ بھر پانی دے
انفرادی لاشعوری ذہن کے اندر بھی ہے
سوندھی سوندھی سی وہ مہکاریں کہاں سے لائیں گے
قافلے میں چرچا ہے، یہ سفر کے سودا گر
کواڑوں میں جواب تک جذب تھیں وہ دستکیں سنتے
حسرتیں جل جائیں گی، مایوسیاں جل جائیں گی
موسموں کے ساتھ کالی آندھیاں کم ہوگئی ہیں
کوششیں کرتا ہوں لیکن تیرگی جلتی نہیں ہے
غزل میں فکر کے جب زاویے بناتا ہوں
زمیں کے سینے میں پلتا ہے کرب ہلچل کا
اندھیرے پھڑ پھڑائے روشنی نے آنکھ کھولی ہے
الفاظ کا ہنر جو بدلنا پڑا مجھے
درد کم ہوتو رقص گریہ کریں
جلتے خوابوں کے ٹکڑے آوارہ تھے
رات کا وار کتنا گہرا ہے
لہو لہان فسوں کاریاں عطا کردے
ہوا کی پائلوں کا جسم اک دن بنے
جو ہم خوشیاں نہ اپناتے، یہ بیزاری تو اپنی تھی
جان کیا کیا سمجھ رہے ہیں لوگ
اونچی اڑان والوں کو کب آسماں ملا
ہجرت کے جب دکھ سہنا
بھٹکتی سوچیں شکستہ لمحے، حصار غم کے غلام
عجیب زخم ہے کچھ اس طرح سے پلتا ہے
مانا رات بہت بھاری ہے
جب بھی فکر ونظر میں خم پڑ جائے
پرانے طاق اور فانوس گھر کے
تھک کے جب گزرتی ہیں، بدلیاں سمندر کی
موسم کا بوجھ فصل نے ڈھویا نہیں میاں
بن کے قہر خدانہ آئے ادھر
خشک موسم سے ناشناس بدن
جو رکھنا ہے تمھیں رشتہ، تو آؤ
فلک پر چاند کے نزدیک تارا بھی لکھا ہم نے
سلگتی فرصتیں، بجھتے الاؤ گھر میں ہیں
رتیں بدلتی ہیں منظر بدلتے رہتے ہیں
فضا میں قرب کا احساس گھولتی ہوئی رات
جاگتی تنہائیاں
رند کی شاعری
اپنے گھر میں اپنی رسوائی کا منظر سوچ کر
نکلی تھیں ساتھ گھر سے سفر پر اداسیاں
ہر نفس تار تار چاہتا ہوں
روز نامے میں لکھا کچھ اور ہے
جاگنے کی سزا بھی چاہوں میں
میں تنہا ہوں کوئی لشکر نہیں ہے
سبز رتوں میں رنگ خزانی پڑھتے ہیں
میں اپنے آپ سے بیزار ہوں بچاؤ مجھے
وقت کی جب اپنی گنجائش بدلتی جائے ہے
ایک پودا آس کا دل میں اگے اور ٹوٹ جائے
نہ ہم زیور اٹھا لائے، نہ ہم بستر اٹھا لائے
سکوت شب میں صدا دل خراش کس کی تھی
اجاڑ شہر کی ویرانیوں میں رہتے ہیں
فضا میں اڑتا ہوا قافلہ جو ڈار میں تھا
راستوں کو اجال کر آئے
پرانے ہوگئے سارے حوالے
وہ شخص جس کو یہ کہتے تھے لوگ گونگا تھا
اپنا سایہ شور مچائے، سوچ سمجھ کر بات کرو
وہ اپنے ٹھکانے سے الگ بیٹھا ہے
نام پوچھے ہے لقب پوچھے ہے
سوچنے کے تھے زاویے کچھ اور
قیمت دست ہنر مانگتے ہیں
اک بھٹکتی سی رت ہے در پر بھی
عجب بگڑی ہوئی سی صورتیں ہیں
بے مکانی کا اک مکان مجھے
بے چھت، بے در ہوتے ہیں
شعور بندگی بہکے تو دیکھیں
آہٹیں جگا رکھّوں
درد کا لہو خیمہ، اک جہان زخموں کا
سلسلہ ہے وطن کی مٹی سے
مرا جنوں ہی اگر امتحان سمجھا جائے
منزلوں کی نہ رہ گزر کی ہوئی
چراغوں کے جلنے میں کچھ دیر ہے
آرزو کو جلائے رکھنا تھا
کیا بتائیں کون سی سوغات لے کر گھر گئے
جتنے آسیب تھے میرے گھر کے
آئے ہیں تیزابی بادل
جشن دیوانگی میں شامل تھے
متاع دلنشیں لوٹا رہا ہے
رسوائی کا زہر پیا ہے
ہم دکھوں میں بھی یوں تو کب روئے
نہ کوئی سمت نہ کشتی کا ہی ٹھکانا ہے
بات کب حد سے بڑھی گھر میں تماشے کب ہوئے
ایک سایہ صحن میں اکثر ٹہلتا دیکھتے ہیں
عجیب طرح کا کہرام شہر بھر میں تھا
بے لطف زندگی کا مزہ لینا چاہیے
دھندلے لمحے تھے آتے جاتے رہے
جب خطرے منڈلائیں تو گھبرائیں سب
مسئلہ جب نہیں لڑائی کیوں
خریدی جارہی ہے روشنی غاروں کے اندر بھی
وہ جو سر پھری سی ہوائیں تھیں، کئی راستوں سے گزر گئیں
جو مہاجر تھے وہ لمحے لوٹ کر آئے نہیں
تہنیت جب بھی لکھی تو حاشیے رکھتے رہے
تپتا صحرا، آنکھوں کی ویرانی میرے ساتھ
بھیڑ رشتوں کی جب بھی بکھر جائے گی
دستک تھی زنجیروں کی
نئی تہذیب کا معیار نہیں ہو پایا
معجزہ کوئی طلسمی مجھے چھوکر کر دے
طنابیں دھوپ کی
پختگی لطافت اور شگفتگی کا شاعر رند
میرے گھر میں گر ٹھہر جاتا سویرا اور بھی
مانا کہ زلزلہ تھا یہاں کم بہت ہی کم
دھوپ بھری دوپہری نے بھی دیکھا ہے
درد دیوار پہ آواز کا پہرہ رکھنا
شناخت چاہیے کچھ کام باغیانہ کروں
آنکھوں میں سارے کرب کے منظر سمیٹ لائے دنیا
کھیل ہی کھیل میں اک دن میں نے یونہی چکھا درد
خزاں رت بے اثر اتنی نہیں تھی
رند کھوتے ہو اپنا مان کہاں
کیا کروں شوق کی خاطر میں
میں تو اکثر بھیڑ میں رہتا ہوں تنہا کون ہے
نہ منزلوں کے ہوئے نہ رہ گزر کے ہوئے
حسرت شہر طلسمات کہاں لے جائے
ہمیں جوش جنوں میں نذر سر کرنا بھی آتا ہے
بزرگوں سے ملا ہے جو اثاثہ اوڑھ لیتے ہیں
لہو کے رنگ میں رچتی رہی نکھرتی رہی
اترتی دھوپ ہے، کیوں سوچتا ہوں اچانک کیسے
کرشمہ کچھ بھی ہو خوابوں کی حد مقرر ہے
نیند آنکھوں میں ہے منظر رات کا
تمھیں ہجرت کا اندازا نہیں ہے
ہماری فکر کا جب رنگ بدلا
وہ جن سے ہم گھبرائے ہیں
دن بھر تو دفتر رہتا ہے
نہ سورج اگا اور نہ رستہ چلا
یہ حادثہ مرے گھر میں عجب ہوا اک دن
بھٹکتے رہ گئے جب گنبد بے در کے دھوکے میں
کٹ گیا سلسلہ جو رات کا تھا
قلم کی دھار سے ڈرنے لگے ہیں
جو ریزہ ریزہ بکھرنے کا حوصلہ رکھنا
دراز قامتی تیرا ہنر گیا آخر
عروس شب نے لباس اتارا تو میں نے دیکھا
پہروں پر دربان کھڑے ہیں
مجھی سے مجھ کو اکثر کرکے باہر
میری الگ پہچان نہیں ہے لوگوں کا یہ کہنا ہے
خواب کے سنگ گراں ٹوٹ کے بکھرے آخر
ابھی بگڑے نہیں حالات گھر میں
دعا دینے کو بوڑھی مامتائیں گھر میں رہتی ہیں
انا کی آڑ میں کوئی بہانا چاہتا ہوں
بدن کا روح سے رشتہ عجیب لگتا ہے
ہوا نہیں ہے کوئی کرشمہ مدّت سے
سرخ سورج کی تمازت سے سلگتا ہوا دن
گیلی پلکوں پر جو روشن تھا نگینہ میرا تھا
وہ تذکرہ تو کہانی کے حاشیے میں تھا
گھر جو لوٹے تو کچھ اندیشے اٹھا کر لائے
خاک ہوں آسودۂ منزل سفر باقی ہے اور
وہ میری نظم ہی تو تھی، جو حرف حرف اشارہ تھی
جب سے غموں کی بھیڑ نے پھیرا نہیں کیا
ہجر موسم ہے دہکتا ہوا شعلہ دے جا
منتشر تہذیب نے قصّہ لکھا
گمشدگی کا لطف اٹھا لوں
جس جگہ سایۂ الم پڑ جائے
ہمیں پختہ ارادوں میں لچک اچھی نہیں لگتی
جب بھی گھر میں لگ جاتے ہیں دکھ سکھ کے انبار بہت
ہم کو جانا تھا مگر کیوں جاتے
وہ ظالم دشمنی بھی چاہتا ہے
خبر چھپی تو دھواں سا نکل رہا تھا وہاں
عہد ماضی کا تڑپتا ہوا لمحہ ہو جاؤں
اب جو عالم کھو گئے سو کھو گئے کیا سوچنا
دھوپ صحرا کی دوپہر لے جائے
اندھیری سازش کا تازیانہ مجھے خبر ہے
اندھیری شب چراغوں کے لیے بھی
ہر قدم امتحان تھا، سو ہے
یہ معمہّ ذہن میں اکثر ابھرتا ہے تو کیوں
جب نہ تھا کوئی تو پھر ذہن و نظر میں کون تھا
کچھ اداسی نے دکھایا آئنہ سب سے الگ
میں عمر بھر کی تھکن رہ گزر میں چھوڑ آیا
سوچ پرانی یادوں کی، بھاری گٹھری لے آئی ہے
آپ کے ہم نگاہ تھے ہم بھی
گئے موسم کے افسانے کہیں گے
آج نظروں سے عجب لطف کا منظر گزرا
وہ خود کو آزمانے میں لگا ہے
راستا جب کبھی سورج نے بدلنا چاہا
اس طرح رات بھر بلکتے کیوں
کس طرح بتلائیں کیا کیا چھوڑ کر آئے ہیں ہم
نہ کوئی سمت نہ کشتی کا ہی ٹھکانا ہے
یہ روشنی ہے کہ روشن سا اک قیاس ہے کچھ
آسماں کے بغیر
رندؔ کی شاعری آسماں کی بغیر کی روشنی میں
گھر کے اندیشوں سے اک شوریدہ سر محفوظ تو ہے
ہوگیا حل زندگی کا مسئلہ جو مجھ میں تھا
اپنے گرد وپیش سے تھے اتنے بیگانے کیا
کہر کی چادر سیہ طوفاں کا خطرہ اور میں
ٹوٹتے لمحات کی زنجیر لے کر آئی ہے
روایتوں کے خداؤں میں جنگ ہے کچھ اور
رات بھیگی دیدۂ پرنم کا دروازہ کھلا
فرشتہ بن کے یہاں پر اترنے والا کون
ہم اپنے گھر کی خاطر جانفشانی اب بھی کرتے ہیں
لڑکپن اور جوانی کے وہ منظر بیچ آئے ہیں
پہلے تو خشک پتے ہوا رولتی پھری
درد کا سونا آج کی شب پگھلائیں گے
شفق نے زعفرانی کاشت کی ہے
دھوپ کا خیمہ اکھڑ گیا ہے شام نے چادر تانی ہے
داؤ پہ اپنا روز مقدّر رکھتا ہے
نظر بچا کے بہت دیر تک سسکتا رہا
دراز قامتی تیرا ہنر گیا آخر
اب کے موسم نے نئے ڈھنگ کی سازش کی ہے
آئنہ خود شناس تھا، کیوں تھا
ضمیر بیچتے اپنا امیر ہو جاتے
تھکن سے چو مسافر کا گھر نہیں آیا
کوئی شعلہ سر منظر اچھالیں
حصار گردش شمس وقمر نئیں
شہر خاموش، راستے، خاموش
جب مرے سر پہ سائبان نہ تھا
پہلے فکر ونظر میں سب کے سب
سانس میں الجھا ہوا کڑوا دھواں ہے اور کیا
وہم میرا کبھی حیراں کبھی ششدر نکلا
ہر طرف پتھر ہی پتھر تھے وہ پامالی ہوئی
غم کے بیچ اوربھی احساس میں بوجاتے تھے
سیندور بھری مانگ بھی چوڑی بھی کفن بھی
کوئی پری تھی نہ ہمزاد تھا نہ گھوڑا تھا
ہمارےوہم میں تھا اور نہ اب گمان میں ہے
شعور لذت غم بھی، نشاط بھی رکھیے
وہی ہے گرد وہی کارواں دھواں سا ہے
لوگ غم کا مزاج جانیں تو
زمین کس کی تھی یہ آسمان کس کا تھا
زمانے کی ہوا میں بہہ رہے تھے
ہم سفر جو رہا ہے سنّاٹا
اک شکستہ خواب کی مانند تھا، ٹھہرا رہا
اپنے خالی پن کے سوا کیا گھر پر ہے
جب سمائی نہ آسمان میں دھوپ
گاؤں جب چھوڑا مسلسل ہچکیاں تھیں دور تک
پرانے کچھ رسالے پڑھ رہے تھے
یہ کیا کہ ان گلی کو چوں مںی ڈر ٹہلتا ہے
مفلسی بے سبب بھی ساتھ رہی
ضمیر شعبدہ گر کانپ اٹھّا
جو پتہّ سائباں میں جل رہا تھا
خودی کا مسئلہ گم ہوگیا ہے
شام کا بیمار سورج بدلیوں کی زد میں ہے
کوئی مرہم نہیں تو خنجر دے
زمین دھونڈتھی ہے آسمان دھونڈھتا ہے
منتظر ہوں جس کا میں وہ حادثہ کب آئے گا
گاؤں کا بانکپن جلا ڈالا
کھلی چنگاریاں کب تک رہیں گی
محبتوں کی روشنی جو ذہن ودل پہ چھا گئی
اب کہیں کس سے اپنا غم یارو
قلم اٹھا ہے تو پھر گردشوں کا باب بھی لکھ
بجھے بجھے سے شراروں کے بانکپن کی طرح
احتیاط درد کی دانائیوں سے کیا کہوں
آئنہ اور آئنہ بردار سے ڈرتے رہے
مدتوں سے پڑا ہے سونا گھر
ساتھ ہمدردیوں کا لشکر تھا
جیسے بھی ہو آئے دن کا جھگڑا چھوڑو
ہے مرا دل، اداس سا چپ سا
تمام شہر کا یااپنا رابطہ دھونڈھیں
گود پھیلائے ہوئے اجلاسمندر آئے گا
ہم اپنے درد کی محفل سجانے والے ہیں
میرا سایہ نہیں ہے تو پھر کون ہے، ایک انجان ساسر پھرا کون ہے
خوشبوؤں کی بے زباں پروائیاں آنے کو ہیں
ان دنوں جانے یہ کسیا سلسلہ جاری ہوا
میں سو رہا ہوں مگر میرے خواب جاگتے ہیں
تنہا تنہا رہے ہے دن بھی تو
کچھ بھرم حقیقت تھے کچھ قیاس سچے تھے
کچھ اور دیر یہ منظر جو دلخراش رہے
سنگ ہو شیشہ ہو یا کچھ اور ہو پر دل نہ ہو
عکس پانی پہ مرے ساتھ بہیں گے کہ نہیں
چند وحشی لوگ آبادی کو جنگل کر گئے
خموش طاق پر اب روشنی رکھے گا کون
دل پہ بڑھتی ہوئی یلغار کو روکیں کیسے
وہ چاند اپنے نشیمن سے جب نکلتا ہے
عجیب وہم تھا تاروں کی ضو سے ڈرتے رہے
جو ریزہ ریزہ بکھرنے کا سلسلہ رکھنا
اپنی بکھری ہوئی دکاں چن لیں
نظر احساس کے سائے نہ آئے
کئی ستاروں کی گردش کی تھی دھمک مجھ میں
جو اس محفل میں گم سم سا کھڑا ہے
ہوئے جو تازہ دم چرچے پرانے
وقت کا گھائل پرندہ مجھ سے یہ کہہ کر گیا
دھوپ کے پیڑ کو سایہ نہ شجر جانا ہے
خنک سی شام کہ جلتی سی دوپہر لائیں
خاموشیوں کو توڑ کے کب بولنے لگا
پھول رت آئے، خزاں آئے نہیں آئے تو کیا
دشت بے شاخ وشجر تھا ہم تھے
اے صاحب مکان تجھے کچھ خبر بھی ہے
ابھی کچھ اور کیا باقی ہے گھر میں
جنوں حد سے گزر جانے میں کیا ہے
جہاں سے بے دروں کا سلسلہ ہے
کنوئیں سے دن کے اندھیروں کو کیوں نکالاجائے
چھوڑا شجر ہواؤں کے قبضے میں آگئے
حیات رک سی گئی ہے تومرنہ جاؤں میں
شجر شجر چھاؤں
رندؔ ساغری دھیمی سوچ کا شاعر
ہر ایک جسم پہ بس ایک ہی سے گہنے لگے
بھٹک جاتے ہیں رستہ پوچھتے ہیں
اداس اداس تھے ہم اس کو اک زمانہ ہوا
اوڑھ کر حادثوں کا تاج مرا
گئی رتوں کا پرندہ جو چہچہاتا ہے
حرف ومعنی کو معتبر رکھنا
سر سراتی چھاؤں کا اندھا سفر اچھا لگا
کبھی سرسے کبھی گردن سے گزرے
تیز بارش میں خلوص دل کا در کھولے ہوئے
دھوپ کی شدّت میں بھی پرچھائیاں جلتی نہ تھیں
سایہ، دھوپ، سمندر ،آگ
جب اپنے گاؤں کے کچی گھروں کی یاد آئی
نہیں آئے گا اب سیلاب پھر سے
وہ پتھر برف کا گلنے لگا ہے
کہاں کیا ہو رہا ہے بے خبر ہیں
بتا ذوق نظر راہ میں دل کے کیا معنی
تیرگی تو مٹی جو تھی گھر میں
دل کی تسکین ہے کس آس میں تپتے رہنا
چمن میں چھوڑ کے جب خارو خس گئی خوشبو
غم کی دھیمی آگ میں کتنے جہاں جلتے رہے
یخ بستہ رات کی وہ پھبن یاد آئے ہے
دیے توشہر میں جلتے ہیں پھر بھی
زندگی کا رخ بدل گئے
صدائے معتبر ہے اور میں ہوں
آزمائش تھی ایسا جان پڑا
وہ اپنے آپ میں خود کو بحال کرتا ہوا
جو شعلہ لکھ کے گیا وہ زبان اب بھی ہے
آج نظروں سے عجب لطف کا منظر گزرا
اتارے بزم میں کوئی تو خامشی کا بوجھ
درد کی بخشی ہوئی سوغات سے جائیں گزر
بجھتے ہوئے شعلوں میں بھڑک بڑھنے لگی ہے
میں گیا میرا ہم نفس بھی گیا
شگاف آئے اگر دیوارو در میں
رات آنکھوں میں بھر کے لیٹے رہے
غم کی خوش رنگ سی لہک بن کر
شہزاد گان عیش کا لشکر گیا کہاں
زندگی کو رسن و وار سمجھ رکھا تھا
شہر احساس
رندؔ ساغری کا فکری سفر
ہر فضائے زندگی میں زندگی تنہا رہی
کوئی خود ہی سوچے پھر اس گھر میں کیارہ جائے گا
صبا گلوں کی ہر اک پنکھڑی سنوارتی ہے
ہر طرف اک ہما ہمی تنہا
تیز بارش میں خلوص دل کا در کھولے ہوئے
نئے اسلوب سے بیان میں ہم
آگ کے لگتے ہی سامان لٹا ہے کیا کیا
چند سانسوں کا فسانا ہے قریب آجاؤ
زندگی شادماں سی لگتی ہے
جو بجھ گئے تھے سر شام ہی سے چوکھٹ پر
بھینی بھینی گلی گلی ہے ہوا
سونے چاندی کے کھلونوں سے نہیں بہلے گا
وقت کا ٹوٹا ہوا ساز نہ چھیڑا جائے
وہ اب جب بھی ملاقاتیں کرے ہے
دل نے سنی کیسی آہٹ
سلگ رہے تھے جو دل سوزش نہاں کی طرح
روح بے چین من اداس اداس
جاگا تو لطف خواب گراں دیر تک رہا
ہنسی ہوئی نظر سے کوئی دیکھتا لگے
تری نگاہ محبت کو جب سے پہچانا
حسن دیوانہ گر کی بات کرو
جو دھوپ سے خالی ہو وہ آنگن تو نہیں ہم
جس جگہ کھل رہے تھے پھول اے دوست
فضائے کیفیت ذہن رخ بدلنے لگی
نغمۂ شوق ہوں سنگیت میں ڈھالو مجھ کو
مرے الجھے ہوئے خوابوں کی تعبیریں مجھے دے دو
ہو عزم پختہ تو طوفان گھٹ بھی جاتے ہیں
کوئی شریک راہ محبت ہوا تو ہے!
نہ سیم وزر نہ خزانے تلاش کرتے ہیں
شعور چھوڑ کے دیوانہ پن تک آیا ہوں
انسانیت کا ذہن تو بیشک کھلے میں ہے
اپنی تہذیب محبت کو نہ چھوڑا جائے
غم کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو رو کو تو سہی
رئیس شہر کی گلیوں میں غل مچاؤ نہیں
سرخ سرخ اشکوں سے استقبال لکھ کر جائیں گے
ستم پرور نگاہوں کو جو اپنائے ہوئے ہم ہیں
گل رنگ
رندؔ ساغری کے کلام میں سلاست اور روانی
جب سلام وپیام یاد آئے
کیا بات کہوں میں اس دل کی حسن رخ جاناں مانگے ہے
گردش وقت اگر راس نہ آئی لوگو
بنا کے دل کو وہ کچھ اور بیقرار چلے
تابہ کے عشق میں جلتے جائیں
وہ اپنے وعدۂ رنگیں کا جب بھی آسرا دے ہے
گھر کے آتی ہوئی ساون کی گھٹا دیکھی ہے
حسن کا بانکپن چاہتی ہے
لے آڑا شوق تمنا اس حد پرواز تک
دنیا کی الجھی راہوں میں ہر ایک مسافر تنہا ہے
میرے غم کا مجھے احساس دلانے آئے
نظروں کے تبسم کو تم آج بکھرنے دو
گر بڑھے جوش جنوں طوق وسلاسل ٹوٹے
وہ ہیں ہم سے خفا کیا کریں
بہت مضطر دل وحشت اثر ہے وہ بھی تم لے لو
آج سے کھیلو نہ کل سے کھیلو
جب عشق ہے خود معصوم صفت، پھر حسن میں یہ طرّاری کیوں
کشا کش غم دوراں جہاں سے گزرے ہیں
کہر کے دھند ھلکوں میں اس طرح کھلی کلیاں
گردش دوراں تجھے ہم آزمائے جائیں گے
مستقبل حیات کی جنت کے شوق میں
جو تمہارے قریب رہتے ہیں
کہہ رہا ہے یہ خزاں دیدہ بہاروں کا عروج
جہاں چھوڑا تھا وہیں تک ہے فسانہ اے دوست
دل شکستہ کی مجبوریاں تلاش کروں
ابتدائے غم انجام سے آگے نہ بڑھی
معلوم نہیں آپ کو حالات ہمارے
شان عزم مستقل تو دیکھئے تقدیر سے
مہرباں مجھ پر وہ جان انجمن ہے دوستو
تھکے تھکے سے تری رہ گزر سے لوٹ آئے
زندگی لے کے آبھی جاؤ تم
شام فراق دل مرا شاد بھی ہے اداس بھی
رگ سنگ
رند کی شاعری میں ندرت خیال اور جدّت بیان
آنکھ حیراں ہے ادائے مہہ جبیں کے ساتھ ساتھ
کچھ اور ہی شدّت سے دھڑکتا ہے مرا دل
کبھی نگاہوں سے دور ہٹ کر کبھی نگاہوں میں آگئی ہے
ساز نہیں ہے جنگ نہیں ہے نغمہ
کس طرح آج یہ ان تک مری اواز گئی
کچھ اس اداس سے کی تنظیم گلستاں میں نے
روح واحساس پر وہ چھا سے گئے بات
حق آشنا ہے آج اسیر مجاز دیکھ!
یہ جبیں کہیتی ہے سجدوں کے نشاں کو دیکھ لیں
نظریں اٹھیں جس طرف جلوؤں کی زیبائش ہوئی
بنا ذوق نظر راہ وفا میں دل کے کیا معنی
روئے عالم پر ابھی غازہ نہیں
گردش دوراں تراہم سے الجھنا ہے فضول
منہ پھلائے ہوئے بیٹھی رہی سوسن اپنا
غم و اندوہ کا عالم کہاں تک
باغباں گلشن میں تیرے یوں کشش ہوتی تو ہے
آپ کے پروانے ہیں پروانے آنے دیجیے
کبھی حسن میں وہ ادا نہیں کبھی دل میں رنج ومحن نہیں!
دل وفا پیکر تھا دلدادہ ہوا
حسن گر واقف آلام نہیں ہے نہ سہی
جلوے اتر کے عرش سے زینے میں آگئے
زلف وہ ہے جو ترے رخ پہ پریشاں ہو جائے
دوقدم بھی ساتھ جب میرے وہ چل سکتے نہیں
مجھ کو کوئی خیال نہیں جستجو نہیں
باقی کوئی نشاں کف قاتل میں رہ گیا
فضائے رنگیں کو گلشن کا اعتبار کہیں
ظاہر میں تو جادو تری خوشبو میں نہیں ہے
طوفاں کے ساتھ ساتھ سفینے بدل گئے
کچھ خم زلف جو پیچیدہ ہوئے آپ سے آپ
جبین شوق سے وابستہ سنگ در کیوں ہو
جہاں جہاں نگۂ شوق بے پناہ اٹھی
یوں ہی تکمیل مرا مشرب رندانہ سہی
بن گئی بات دل نشینوں میں
صحرا میں دشت میں ہے نہ صحن چمن میں ہے
یہ مانا فطرت انساں ابھی حجاب میں ہے
مرے رونے پہ جب کوئی تبسم ریز ہو جائے
ذوق سجدہ تھا یوں نبھایا گیا
کوائف
ورق در ورق
نئی لفظیاتی بندشوں کا شاعر رند ساغری
امسال
بہار کا متلاشی رندؔ
ذہن ودل میں زلزلے آتے ہیں اکثر کیا کروں
جلتے شمشان کا دیکھا بھی تماشا سب نے
ہماری بستی کا کرب منظر، تو زلزلے سے گزر چکا ہے
پلکوں کی چادر کو اوڑھے، سانچھ سکارے، خواب کی آْنکھیں
سازش میں شامل ہے جنگل، آدھی رات کی تنہائی میں
رت جگے کہہ گئے یہ بات کہاں ممکن ہے
دل دیوانہ جنگل جنگل گزرا ہے
اداس کوئی تبسم لبوں تک آیا نہیں
فضائے شوق کو رنگین کرکے دیکھتا ہوں
خوابوں کے کچّی آنگن میں، یادوں کی بارات بھی آئی
ایک امانت گاؤں کی تھی پرکھوں کا جنگل
اک گھروندا منہدم سا ریت پر پہلے ہی تھا
میں اپنے صحن کا سوکھا شجر ہوں
میں نے جب بھی شعر سجا یا چپکے سے
بھیڑ سے باہر نکل آئیں تو دیکھیں اور کچھ
جن دنوں خود سے مجھے پیار ہوا کرتا تھا
وہم ہے نہ آہٹ ہے
سلگتی شام کا شعلہ ادھورا
لاوارث ارمان ابھی تک ہیں میرے
بے یقینی ہے، تو لمحے کچھ کہیں، کچھ بھی کہیں
ایک ہی رات سے کتنی راتیں ہم نے کیں
داستاں گوئی میں فرزانہ کہاں سے آگیا ہے
مسئلہ ااواگون کا باعث تشکیک تھا
خوشبو کے بستر پر کانٹے ، یہ کیا ہے
بھٹک بھٹک کے جو پلکوں پہ خواب لائے ہوئے ہیں
یادوں کی روشن قندیلوں، سوچوں کی سوغات لیے
کس نے دستک لکھ دی ہے دروازے پر چیخ
دشوار زندگی کا سفر کر دیا گیا
تیزابی ماحول میں کوئی، تیکھا موسم ساتھ لیے
مری آنکھوں نے کیسا شہر دیکھا
زہر ڈستی فضا چمن میں تھی
میرے اندر دکھ کا ساگر، موسم پر الزام ہے کیوں
خواب کے نقش کی تعبیر ہی کچھ ایسی تھی
آسمانوں سے زمیں زادوں کی ٹھنتی جارہی ہے
ہوس، مزاج کی رنگینیاں دکھائے کہاں
بھٹکی ادھر جو شب کی تھکن آگئی ادھر
چاہتا تھا جو خزاں لمحہ وہی ہونے لگا ہے
تھکن کے کرب کو، احساس اک نیا دینا
یہ جگہ وہ ہے کہ درویشوں کا حجرا تھا کبھی
پرانی کوئی بھی شے اب مرے مکاں میں نہیں
کچھ اندھیرے میں جو اک جشن منائے ہوئے ہیں
ختم ہونے کو سفر آتا نہیں
غزل میں استعارے آگئے ہیں
چلن میں سودا ادھار کا تھا
اک نئی واردات ہوگئی ہے
صبا کلیوں پہ سرگرم لکھ رہی ہے
فضا میں دھند موسم ار رہا ہے
دستکیں جب خشک دروازوں پہ چسپاں ہوگئیں
رند کا انفرادی لہجہ اور شعری آہنگ
نئی لفظیاتی بندشوں کا پیکر تراش
لوگ غم کی بھیڑ میں گمنام سے زندہ رہے
پوچھتے ہو مجھ سے کیا ، کیسا سفر میں نے کیا
دھول بھری یادوں سے مہکی پروائی
ہم فقیروں کو مزاج خانقاہی چاہیے
رات کا دامن بچھائے، درد کا کاسہ لیے
شناخت اپنی نئی اختیار کرتے ہوئے
ہے اک مدّت سے سونی رہ گزر میں شام تنہائی
رات تنہائی کے مسکن میں سجاوٹ چاہتی ہے
یادوں کی دہلیز پہ جس دن بیٹھو گے تو جانو گے
گھر کے سنّاٹے تو بس اختر شماری کر رہے ہیں
قبا کی دھجیوں کو سی رہے ہیں
غم کا لمحہ آنکھ مچولی کیوں کرتا ہے
تشنہ لبوں کو مشکیزہ بھر پانی دے
انفرادی لاشعوری ذہن کے اندر بھی ہے
سوندھی سوندھی سی وہ مہکاریں کہاں سے لائیں گے
قافلے میں چرچا ہے، یہ سفر کے سودا گر
کواڑوں میں جواب تک جذب تھیں وہ دستکیں سنتے
حسرتیں جل جائیں گی، مایوسیاں جل جائیں گی
موسموں کے ساتھ کالی آندھیاں کم ہوگئی ہیں
کوششیں کرتا ہوں لیکن تیرگی جلتی نہیں ہے
غزل میں فکر کے جب زاویے بناتا ہوں
زمیں کے سینے میں پلتا ہے کرب ہلچل کا
اندھیرے پھڑ پھڑائے روشنی نے آنکھ کھولی ہے
الفاظ کا ہنر جو بدلنا پڑا مجھے
درد کم ہوتو رقص گریہ کریں
جلتے خوابوں کے ٹکڑے آوارہ تھے
رات کا وار کتنا گہرا ہے
لہو لہان فسوں کاریاں عطا کردے
ہوا کی پائلوں کا جسم اک دن بنے
جو ہم خوشیاں نہ اپناتے، یہ بیزاری تو اپنی تھی
جان کیا کیا سمجھ رہے ہیں لوگ
اونچی اڑان والوں کو کب آسماں ملا
ہجرت کے جب دکھ سہنا
بھٹکتی سوچیں شکستہ لمحے، حصار غم کے غلام
عجیب زخم ہے کچھ اس طرح سے پلتا ہے
مانا رات بہت بھاری ہے
جب بھی فکر ونظر میں خم پڑ جائے
پرانے طاق اور فانوس گھر کے
تھک کے جب گزرتی ہیں، بدلیاں سمندر کی
موسم کا بوجھ فصل نے ڈھویا نہیں میاں
بن کے قہر خدانہ آئے ادھر
خشک موسم سے ناشناس بدن
جو رکھنا ہے تمھیں رشتہ، تو آؤ
فلک پر چاند کے نزدیک تارا بھی لکھا ہم نے
سلگتی فرصتیں، بجھتے الاؤ گھر میں ہیں
رتیں بدلتی ہیں منظر بدلتے رہتے ہیں
فضا میں قرب کا احساس گھولتی ہوئی رات
جاگتی تنہائیاں
رند کی شاعری
اپنے گھر میں اپنی رسوائی کا منظر سوچ کر
نکلی تھیں ساتھ گھر سے سفر پر اداسیاں
ہر نفس تار تار چاہتا ہوں
روز نامے میں لکھا کچھ اور ہے
جاگنے کی سزا بھی چاہوں میں
میں تنہا ہوں کوئی لشکر نہیں ہے
سبز رتوں میں رنگ خزانی پڑھتے ہیں
میں اپنے آپ سے بیزار ہوں بچاؤ مجھے
وقت کی جب اپنی گنجائش بدلتی جائے ہے
ایک پودا آس کا دل میں اگے اور ٹوٹ جائے
نہ ہم زیور اٹھا لائے، نہ ہم بستر اٹھا لائے
سکوت شب میں صدا دل خراش کس کی تھی
اجاڑ شہر کی ویرانیوں میں رہتے ہیں
فضا میں اڑتا ہوا قافلہ جو ڈار میں تھا
راستوں کو اجال کر آئے
پرانے ہوگئے سارے حوالے
وہ شخص جس کو یہ کہتے تھے لوگ گونگا تھا
اپنا سایہ شور مچائے، سوچ سمجھ کر بات کرو
وہ اپنے ٹھکانے سے الگ بیٹھا ہے
نام پوچھے ہے لقب پوچھے ہے
سوچنے کے تھے زاویے کچھ اور
قیمت دست ہنر مانگتے ہیں
اک بھٹکتی سی رت ہے در پر بھی
عجب بگڑی ہوئی سی صورتیں ہیں
بے مکانی کا اک مکان مجھے
بے چھت، بے در ہوتے ہیں
شعور بندگی بہکے تو دیکھیں
آہٹیں جگا رکھّوں
درد کا لہو خیمہ، اک جہان زخموں کا
سلسلہ ہے وطن کی مٹی سے
مرا جنوں ہی اگر امتحان سمجھا جائے
منزلوں کی نہ رہ گزر کی ہوئی
چراغوں کے جلنے میں کچھ دیر ہے
آرزو کو جلائے رکھنا تھا
کیا بتائیں کون سی سوغات لے کر گھر گئے
جتنے آسیب تھے میرے گھر کے
آئے ہیں تیزابی بادل
جشن دیوانگی میں شامل تھے
متاع دلنشیں لوٹا رہا ہے
رسوائی کا زہر پیا ہے
ہم دکھوں میں بھی یوں تو کب روئے
نہ کوئی سمت نہ کشتی کا ہی ٹھکانا ہے
بات کب حد سے بڑھی گھر میں تماشے کب ہوئے
ایک سایہ صحن میں اکثر ٹہلتا دیکھتے ہیں
عجیب طرح کا کہرام شہر بھر میں تھا
بے لطف زندگی کا مزہ لینا چاہیے
دھندلے لمحے تھے آتے جاتے رہے
جب خطرے منڈلائیں تو گھبرائیں سب
مسئلہ جب نہیں لڑائی کیوں
خریدی جارہی ہے روشنی غاروں کے اندر بھی
وہ جو سر پھری سی ہوائیں تھیں، کئی راستوں سے گزر گئیں
جو مہاجر تھے وہ لمحے لوٹ کر آئے نہیں
تہنیت جب بھی لکھی تو حاشیے رکھتے رہے
تپتا صحرا، آنکھوں کی ویرانی میرے ساتھ
بھیڑ رشتوں کی جب بھی بکھر جائے گی
دستک تھی زنجیروں کی
نئی تہذیب کا معیار نہیں ہو پایا
معجزہ کوئی طلسمی مجھے چھوکر کر دے
طنابیں دھوپ کی
پختگی لطافت اور شگفتگی کا شاعر رند
میرے گھر میں گر ٹھہر جاتا سویرا اور بھی
مانا کہ زلزلہ تھا یہاں کم بہت ہی کم
دھوپ بھری دوپہری نے بھی دیکھا ہے
درد دیوار پہ آواز کا پہرہ رکھنا
شناخت چاہیے کچھ کام باغیانہ کروں
آنکھوں میں سارے کرب کے منظر سمیٹ لائے دنیا
کھیل ہی کھیل میں اک دن میں نے یونہی چکھا درد
خزاں رت بے اثر اتنی نہیں تھی
رند کھوتے ہو اپنا مان کہاں
کیا کروں شوق کی خاطر میں
میں تو اکثر بھیڑ میں رہتا ہوں تنہا کون ہے
نہ منزلوں کے ہوئے نہ رہ گزر کے ہوئے
حسرت شہر طلسمات کہاں لے جائے
ہمیں جوش جنوں میں نذر سر کرنا بھی آتا ہے
بزرگوں سے ملا ہے جو اثاثہ اوڑھ لیتے ہیں
لہو کے رنگ میں رچتی رہی نکھرتی رہی
اترتی دھوپ ہے، کیوں سوچتا ہوں اچانک کیسے
کرشمہ کچھ بھی ہو خوابوں کی حد مقرر ہے
نیند آنکھوں میں ہے منظر رات کا
تمھیں ہجرت کا اندازا نہیں ہے
ہماری فکر کا جب رنگ بدلا
وہ جن سے ہم گھبرائے ہیں
دن بھر تو دفتر رہتا ہے
نہ سورج اگا اور نہ رستہ چلا
یہ حادثہ مرے گھر میں عجب ہوا اک دن
بھٹکتے رہ گئے جب گنبد بے در کے دھوکے میں
کٹ گیا سلسلہ جو رات کا تھا
قلم کی دھار سے ڈرنے لگے ہیں
جو ریزہ ریزہ بکھرنے کا حوصلہ رکھنا
دراز قامتی تیرا ہنر گیا آخر
عروس شب نے لباس اتارا تو میں نے دیکھا
پہروں پر دربان کھڑے ہیں
مجھی سے مجھ کو اکثر کرکے باہر
میری الگ پہچان نہیں ہے لوگوں کا یہ کہنا ہے
خواب کے سنگ گراں ٹوٹ کے بکھرے آخر
ابھی بگڑے نہیں حالات گھر میں
دعا دینے کو بوڑھی مامتائیں گھر میں رہتی ہیں
انا کی آڑ میں کوئی بہانا چاہتا ہوں
بدن کا روح سے رشتہ عجیب لگتا ہے
ہوا نہیں ہے کوئی کرشمہ مدّت سے
سرخ سورج کی تمازت سے سلگتا ہوا دن
گیلی پلکوں پر جو روشن تھا نگینہ میرا تھا
وہ تذکرہ تو کہانی کے حاشیے میں تھا
گھر جو لوٹے تو کچھ اندیشے اٹھا کر لائے
خاک ہوں آسودۂ منزل سفر باقی ہے اور
وہ میری نظم ہی تو تھی، جو حرف حرف اشارہ تھی
جب سے غموں کی بھیڑ نے پھیرا نہیں کیا
ہجر موسم ہے دہکتا ہوا شعلہ دے جا
منتشر تہذیب نے قصّہ لکھا
گمشدگی کا لطف اٹھا لوں
جس جگہ سایۂ الم پڑ جائے
ہمیں پختہ ارادوں میں لچک اچھی نہیں لگتی
جب بھی گھر میں لگ جاتے ہیں دکھ سکھ کے انبار بہت
ہم کو جانا تھا مگر کیوں جاتے
وہ ظالم دشمنی بھی چاہتا ہے
خبر چھپی تو دھواں سا نکل رہا تھا وہاں
عہد ماضی کا تڑپتا ہوا لمحہ ہو جاؤں
اب جو عالم کھو گئے سو کھو گئے کیا سوچنا
دھوپ صحرا کی دوپہر لے جائے
اندھیری سازش کا تازیانہ مجھے خبر ہے
اندھیری شب چراغوں کے لیے بھی
ہر قدم امتحان تھا، سو ہے
یہ معمہّ ذہن میں اکثر ابھرتا ہے تو کیوں
جب نہ تھا کوئی تو پھر ذہن و نظر میں کون تھا
کچھ اداسی نے دکھایا آئنہ سب سے الگ
میں عمر بھر کی تھکن رہ گزر میں چھوڑ آیا
سوچ پرانی یادوں کی، بھاری گٹھری لے آئی ہے
آپ کے ہم نگاہ تھے ہم بھی
گئے موسم کے افسانے کہیں گے
آج نظروں سے عجب لطف کا منظر گزرا
وہ خود کو آزمانے میں لگا ہے
راستا جب کبھی سورج نے بدلنا چاہا
اس طرح رات بھر بلکتے کیوں
کس طرح بتلائیں کیا کیا چھوڑ کر آئے ہیں ہم
نہ کوئی سمت نہ کشتی کا ہی ٹھکانا ہے
یہ روشنی ہے کہ روشن سا اک قیاس ہے کچھ
آسماں کے بغیر
رندؔ کی شاعری آسماں کی بغیر کی روشنی میں
گھر کے اندیشوں سے اک شوریدہ سر محفوظ تو ہے
ہوگیا حل زندگی کا مسئلہ جو مجھ میں تھا
اپنے گرد وپیش سے تھے اتنے بیگانے کیا
کہر کی چادر سیہ طوفاں کا خطرہ اور میں
ٹوٹتے لمحات کی زنجیر لے کر آئی ہے
روایتوں کے خداؤں میں جنگ ہے کچھ اور
رات بھیگی دیدۂ پرنم کا دروازہ کھلا
فرشتہ بن کے یہاں پر اترنے والا کون
ہم اپنے گھر کی خاطر جانفشانی اب بھی کرتے ہیں
لڑکپن اور جوانی کے وہ منظر بیچ آئے ہیں
پہلے تو خشک پتے ہوا رولتی پھری
درد کا سونا آج کی شب پگھلائیں گے
شفق نے زعفرانی کاشت کی ہے
دھوپ کا خیمہ اکھڑ گیا ہے شام نے چادر تانی ہے
داؤ پہ اپنا روز مقدّر رکھتا ہے
نظر بچا کے بہت دیر تک سسکتا رہا
دراز قامتی تیرا ہنر گیا آخر
اب کے موسم نے نئے ڈھنگ کی سازش کی ہے
آئنہ خود شناس تھا، کیوں تھا
ضمیر بیچتے اپنا امیر ہو جاتے
تھکن سے چو مسافر کا گھر نہیں آیا
کوئی شعلہ سر منظر اچھالیں
حصار گردش شمس وقمر نئیں
شہر خاموش، راستے، خاموش
جب مرے سر پہ سائبان نہ تھا
پہلے فکر ونظر میں سب کے سب
سانس میں الجھا ہوا کڑوا دھواں ہے اور کیا
وہم میرا کبھی حیراں کبھی ششدر نکلا
ہر طرف پتھر ہی پتھر تھے وہ پامالی ہوئی
غم کے بیچ اوربھی احساس میں بوجاتے تھے
سیندور بھری مانگ بھی چوڑی بھی کفن بھی
کوئی پری تھی نہ ہمزاد تھا نہ گھوڑا تھا
ہمارےوہم میں تھا اور نہ اب گمان میں ہے
شعور لذت غم بھی، نشاط بھی رکھیے
وہی ہے گرد وہی کارواں دھواں سا ہے
لوگ غم کا مزاج جانیں تو
زمین کس کی تھی یہ آسمان کس کا تھا
زمانے کی ہوا میں بہہ رہے تھے
ہم سفر جو رہا ہے سنّاٹا
اک شکستہ خواب کی مانند تھا، ٹھہرا رہا
اپنے خالی پن کے سوا کیا گھر پر ہے
جب سمائی نہ آسمان میں دھوپ
گاؤں جب چھوڑا مسلسل ہچکیاں تھیں دور تک
پرانے کچھ رسالے پڑھ رہے تھے
یہ کیا کہ ان گلی کو چوں مںی ڈر ٹہلتا ہے
مفلسی بے سبب بھی ساتھ رہی
ضمیر شعبدہ گر کانپ اٹھّا
جو پتہّ سائباں میں جل رہا تھا
خودی کا مسئلہ گم ہوگیا ہے
شام کا بیمار سورج بدلیوں کی زد میں ہے
کوئی مرہم نہیں تو خنجر دے
زمین دھونڈتھی ہے آسمان دھونڈھتا ہے
منتظر ہوں جس کا میں وہ حادثہ کب آئے گا
گاؤں کا بانکپن جلا ڈالا
کھلی چنگاریاں کب تک رہیں گی
محبتوں کی روشنی جو ذہن ودل پہ چھا گئی
اب کہیں کس سے اپنا غم یارو
قلم اٹھا ہے تو پھر گردشوں کا باب بھی لکھ
بجھے بجھے سے شراروں کے بانکپن کی طرح
احتیاط درد کی دانائیوں سے کیا کہوں
آئنہ اور آئنہ بردار سے ڈرتے رہے
مدتوں سے پڑا ہے سونا گھر
ساتھ ہمدردیوں کا لشکر تھا
جیسے بھی ہو آئے دن کا جھگڑا چھوڑو
ہے مرا دل، اداس سا چپ سا
تمام شہر کا یااپنا رابطہ دھونڈھیں
گود پھیلائے ہوئے اجلاسمندر آئے گا
ہم اپنے درد کی محفل سجانے والے ہیں
میرا سایہ نہیں ہے تو پھر کون ہے، ایک انجان ساسر پھرا کون ہے
خوشبوؤں کی بے زباں پروائیاں آنے کو ہیں
ان دنوں جانے یہ کسیا سلسلہ جاری ہوا
میں سو رہا ہوں مگر میرے خواب جاگتے ہیں
تنہا تنہا رہے ہے دن بھی تو
کچھ بھرم حقیقت تھے کچھ قیاس سچے تھے
کچھ اور دیر یہ منظر جو دلخراش رہے
سنگ ہو شیشہ ہو یا کچھ اور ہو پر دل نہ ہو
عکس پانی پہ مرے ساتھ بہیں گے کہ نہیں
چند وحشی لوگ آبادی کو جنگل کر گئے
خموش طاق پر اب روشنی رکھے گا کون
دل پہ بڑھتی ہوئی یلغار کو روکیں کیسے
وہ چاند اپنے نشیمن سے جب نکلتا ہے
عجیب وہم تھا تاروں کی ضو سے ڈرتے رہے
جو ریزہ ریزہ بکھرنے کا سلسلہ رکھنا
اپنی بکھری ہوئی دکاں چن لیں
نظر احساس کے سائے نہ آئے
کئی ستاروں کی گردش کی تھی دھمک مجھ میں
جو اس محفل میں گم سم سا کھڑا ہے
ہوئے جو تازہ دم چرچے پرانے
وقت کا گھائل پرندہ مجھ سے یہ کہہ کر گیا
دھوپ کے پیڑ کو سایہ نہ شجر جانا ہے
خنک سی شام کہ جلتی سی دوپہر لائیں
خاموشیوں کو توڑ کے کب بولنے لگا
پھول رت آئے، خزاں آئے نہیں آئے تو کیا
دشت بے شاخ وشجر تھا ہم تھے
اے صاحب مکان تجھے کچھ خبر بھی ہے
ابھی کچھ اور کیا باقی ہے گھر میں
جنوں حد سے گزر جانے میں کیا ہے
جہاں سے بے دروں کا سلسلہ ہے
کنوئیں سے دن کے اندھیروں کو کیوں نکالاجائے
چھوڑا شجر ہواؤں کے قبضے میں آگئے
حیات رک سی گئی ہے تومرنہ جاؤں میں
شجر شجر چھاؤں
رندؔ ساغری دھیمی سوچ کا شاعر
ہر ایک جسم پہ بس ایک ہی سے گہنے لگے
بھٹک جاتے ہیں رستہ پوچھتے ہیں
اداس اداس تھے ہم اس کو اک زمانہ ہوا
اوڑھ کر حادثوں کا تاج مرا
گئی رتوں کا پرندہ جو چہچہاتا ہے
حرف ومعنی کو معتبر رکھنا
سر سراتی چھاؤں کا اندھا سفر اچھا لگا
کبھی سرسے کبھی گردن سے گزرے
تیز بارش میں خلوص دل کا در کھولے ہوئے
دھوپ کی شدّت میں بھی پرچھائیاں جلتی نہ تھیں
سایہ، دھوپ، سمندر ،آگ
جب اپنے گاؤں کے کچی گھروں کی یاد آئی
نہیں آئے گا اب سیلاب پھر سے
وہ پتھر برف کا گلنے لگا ہے
کہاں کیا ہو رہا ہے بے خبر ہیں
بتا ذوق نظر راہ میں دل کے کیا معنی
تیرگی تو مٹی جو تھی گھر میں
دل کی تسکین ہے کس آس میں تپتے رہنا
چمن میں چھوڑ کے جب خارو خس گئی خوشبو
غم کی دھیمی آگ میں کتنے جہاں جلتے رہے
یخ بستہ رات کی وہ پھبن یاد آئے ہے
دیے توشہر میں جلتے ہیں پھر بھی
زندگی کا رخ بدل گئے
صدائے معتبر ہے اور میں ہوں
آزمائش تھی ایسا جان پڑا
وہ اپنے آپ میں خود کو بحال کرتا ہوا
جو شعلہ لکھ کے گیا وہ زبان اب بھی ہے
آج نظروں سے عجب لطف کا منظر گزرا
اتارے بزم میں کوئی تو خامشی کا بوجھ
درد کی بخشی ہوئی سوغات سے جائیں گزر
بجھتے ہوئے شعلوں میں بھڑک بڑھنے لگی ہے
میں گیا میرا ہم نفس بھی گیا
شگاف آئے اگر دیوارو در میں
رات آنکھوں میں بھر کے لیٹے رہے
غم کی خوش رنگ سی لہک بن کر
شہزاد گان عیش کا لشکر گیا کہاں
زندگی کو رسن و وار سمجھ رکھا تھا
شہر احساس
رندؔ ساغری کا فکری سفر
ہر فضائے زندگی میں زندگی تنہا رہی
کوئی خود ہی سوچے پھر اس گھر میں کیارہ جائے گا
صبا گلوں کی ہر اک پنکھڑی سنوارتی ہے
ہر طرف اک ہما ہمی تنہا
تیز بارش میں خلوص دل کا در کھولے ہوئے
نئے اسلوب سے بیان میں ہم
آگ کے لگتے ہی سامان لٹا ہے کیا کیا
چند سانسوں کا فسانا ہے قریب آجاؤ
زندگی شادماں سی لگتی ہے
جو بجھ گئے تھے سر شام ہی سے چوکھٹ پر
بھینی بھینی گلی گلی ہے ہوا
سونے چاندی کے کھلونوں سے نہیں بہلے گا
وقت کا ٹوٹا ہوا ساز نہ چھیڑا جائے
وہ اب جب بھی ملاقاتیں کرے ہے
دل نے سنی کیسی آہٹ
سلگ رہے تھے جو دل سوزش نہاں کی طرح
روح بے چین من اداس اداس
جاگا تو لطف خواب گراں دیر تک رہا
ہنسی ہوئی نظر سے کوئی دیکھتا لگے
تری نگاہ محبت کو جب سے پہچانا
حسن دیوانہ گر کی بات کرو
جو دھوپ سے خالی ہو وہ آنگن تو نہیں ہم
جس جگہ کھل رہے تھے پھول اے دوست
فضائے کیفیت ذہن رخ بدلنے لگی
نغمۂ شوق ہوں سنگیت میں ڈھالو مجھ کو
مرے الجھے ہوئے خوابوں کی تعبیریں مجھے دے دو
ہو عزم پختہ تو طوفان گھٹ بھی جاتے ہیں
کوئی شریک راہ محبت ہوا تو ہے!
نہ سیم وزر نہ خزانے تلاش کرتے ہیں
شعور چھوڑ کے دیوانہ پن تک آیا ہوں
انسانیت کا ذہن تو بیشک کھلے میں ہے
اپنی تہذیب محبت کو نہ چھوڑا جائے
غم کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو رو کو تو سہی
رئیس شہر کی گلیوں میں غل مچاؤ نہیں
سرخ سرخ اشکوں سے استقبال لکھ کر جائیں گے
ستم پرور نگاہوں کو جو اپنائے ہوئے ہم ہیں
گل رنگ
رندؔ ساغری کے کلام میں سلاست اور روانی
جب سلام وپیام یاد آئے
کیا بات کہوں میں اس دل کی حسن رخ جاناں مانگے ہے
گردش وقت اگر راس نہ آئی لوگو
بنا کے دل کو وہ کچھ اور بیقرار چلے
تابہ کے عشق میں جلتے جائیں
وہ اپنے وعدۂ رنگیں کا جب بھی آسرا دے ہے
گھر کے آتی ہوئی ساون کی گھٹا دیکھی ہے
حسن کا بانکپن چاہتی ہے
لے آڑا شوق تمنا اس حد پرواز تک
دنیا کی الجھی راہوں میں ہر ایک مسافر تنہا ہے
میرے غم کا مجھے احساس دلانے آئے
نظروں کے تبسم کو تم آج بکھرنے دو
گر بڑھے جوش جنوں طوق وسلاسل ٹوٹے
وہ ہیں ہم سے خفا کیا کریں
بہت مضطر دل وحشت اثر ہے وہ بھی تم لے لو
آج سے کھیلو نہ کل سے کھیلو
جب عشق ہے خود معصوم صفت، پھر حسن میں یہ طرّاری کیوں
کشا کش غم دوراں جہاں سے گزرے ہیں
کہر کے دھند ھلکوں میں اس طرح کھلی کلیاں
گردش دوراں تجھے ہم آزمائے جائیں گے
مستقبل حیات کی جنت کے شوق میں
جو تمہارے قریب رہتے ہیں
کہہ رہا ہے یہ خزاں دیدہ بہاروں کا عروج
جہاں چھوڑا تھا وہیں تک ہے فسانہ اے دوست
دل شکستہ کی مجبوریاں تلاش کروں
ابتدائے غم انجام سے آگے نہ بڑھی
معلوم نہیں آپ کو حالات ہمارے
شان عزم مستقل تو دیکھئے تقدیر سے
مہرباں مجھ پر وہ جان انجمن ہے دوستو
تھکے تھکے سے تری رہ گزر سے لوٹ آئے
زندگی لے کے آبھی جاؤ تم
شام فراق دل مرا شاد بھی ہے اداس بھی
رگ سنگ
رند کی شاعری میں ندرت خیال اور جدّت بیان
آنکھ حیراں ہے ادائے مہہ جبیں کے ساتھ ساتھ
کچھ اور ہی شدّت سے دھڑکتا ہے مرا دل
کبھی نگاہوں سے دور ہٹ کر کبھی نگاہوں میں آگئی ہے
ساز نہیں ہے جنگ نہیں ہے نغمہ
کس طرح آج یہ ان تک مری اواز گئی
کچھ اس اداس سے کی تنظیم گلستاں میں نے
روح واحساس پر وہ چھا سے گئے بات
حق آشنا ہے آج اسیر مجاز دیکھ!
یہ جبیں کہیتی ہے سجدوں کے نشاں کو دیکھ لیں
نظریں اٹھیں جس طرف جلوؤں کی زیبائش ہوئی
بنا ذوق نظر راہ وفا میں دل کے کیا معنی
روئے عالم پر ابھی غازہ نہیں
گردش دوراں تراہم سے الجھنا ہے فضول
منہ پھلائے ہوئے بیٹھی رہی سوسن اپنا
غم و اندوہ کا عالم کہاں تک
باغباں گلشن میں تیرے یوں کشش ہوتی تو ہے
آپ کے پروانے ہیں پروانے آنے دیجیے
کبھی حسن میں وہ ادا نہیں کبھی دل میں رنج ومحن نہیں!
دل وفا پیکر تھا دلدادہ ہوا
حسن گر واقف آلام نہیں ہے نہ سہی
جلوے اتر کے عرش سے زینے میں آگئے
زلف وہ ہے جو ترے رخ پہ پریشاں ہو جائے
دوقدم بھی ساتھ جب میرے وہ چل سکتے نہیں
مجھ کو کوئی خیال نہیں جستجو نہیں
باقی کوئی نشاں کف قاتل میں رہ گیا
فضائے رنگیں کو گلشن کا اعتبار کہیں
ظاہر میں تو جادو تری خوشبو میں نہیں ہے
طوفاں کے ساتھ ساتھ سفینے بدل گئے
کچھ خم زلف جو پیچیدہ ہوئے آپ سے آپ
جبین شوق سے وابستہ سنگ در کیوں ہو
جہاں جہاں نگۂ شوق بے پناہ اٹھی
یوں ہی تکمیل مرا مشرب رندانہ سہی
بن گئی بات دل نشینوں میں
صحرا میں دشت میں ہے نہ صحن چمن میں ہے
یہ مانا فطرت انساں ابھی حجاب میں ہے
مرے رونے پہ جب کوئی تبسم ریز ہو جائے
ذوق سجدہ تھا یوں نبھایا گیا
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.