فہرست
انتساب
محبتیں
بہتی ہوئی شام کی کتھا
احمد رضوان کی اردو غزل
لہو کو زندگی کا ساز دے کر
میں ایک شام جو روشن دیا اٹھا لایا
بس اپنے خواب میں رہنے کا سلسلہ رکھوں
شب ڈھلے گنبد اسرار میں آجاتا ہے
خواب کردے یا ہوا کردے مجھے
جو چل رہا ہے تماشا تمام کر، مجھ میں
رات بھر نیند کے مارے نہیں سونے دیتے
جب اپنا شوق سفر اپنی چاہ دیکھتا ہوں
صدائے گنبد اسرار تو لے آیا
حسن کم یاب کی تمنا میں
میں خاک ہورہا ہوں یہاں خاکدان میں
کسی کو چھوڑ دیتا ہوں کسی کے ساتھ چلتا ہوں
قدم قدم پہ نیا سنگ میل ہوتا ہے
صورت یار کی تلاوت کی
اے باد زمانہ! تجھے آرام نہیں کیا
جہاں چراغ کو چھو کر ہوا گزرتی ہے
میں ایک دشت تھا کچھ روز ابر یاب رہا
ایسے منظر ہیں جنہیں دیکھنا خوش آتا ہے
خوشا کہ ندرت افکار سے بدلتا رہا
طاق رفتہ پہ سجایا تو نہیں جاسکتا
آتا ہی نہیں ہونے کا یقیں، کیا بات کروں
نہ جانے کون سی گہرائیوں میں بیٹھ گئی
بھر جائے گلوں سے کاسۂ دل، آنکھوں میں کوئی تصویر تو ہو
نظر ملا کے ابد گیر کرنے والا نہیں
خاک دیکھی ہے، شفق زار فلک دیکھا ہے
عجیب خواب ہے ، اظہار سے گریزاں ہے
اپنے خوابوں سے جدا ہونے کا غم کرتا ہوں
دل و نظر میں ترا عکس جھلملانے لگا
عجب تصور تنہائی ہے جہاں میں ہوں
زندگی کو، ثبات کچھ بھی نہیں
ہر شام حیرتوں سے گزارا کیا مجھے
رقص کرنا تھا، گاہ گاہ کیا
نقش اک ایسا سر لوح جہاں رکھتا میں
وہ جب بساط ابد آشنا سمیٹے گا
کیا رات ہے کہ سایۂ مہتاب بھی نہیں
ہوگیا دل کا ضطراب تمام
کون ہے اپنا کون پرایا جانتے ہیں
فہرست
انتساب
محبتیں
بہتی ہوئی شام کی کتھا
احمد رضوان کی اردو غزل
لہو کو زندگی کا ساز دے کر
میں ایک شام جو روشن دیا اٹھا لایا
بس اپنے خواب میں رہنے کا سلسلہ رکھوں
شب ڈھلے گنبد اسرار میں آجاتا ہے
خواب کردے یا ہوا کردے مجھے
جو چل رہا ہے تماشا تمام کر، مجھ میں
رات بھر نیند کے مارے نہیں سونے دیتے
جب اپنا شوق سفر اپنی چاہ دیکھتا ہوں
صدائے گنبد اسرار تو لے آیا
حسن کم یاب کی تمنا میں
میں خاک ہورہا ہوں یہاں خاکدان میں
کسی کو چھوڑ دیتا ہوں کسی کے ساتھ چلتا ہوں
قدم قدم پہ نیا سنگ میل ہوتا ہے
صورت یار کی تلاوت کی
اے باد زمانہ! تجھے آرام نہیں کیا
جہاں چراغ کو چھو کر ہوا گزرتی ہے
میں ایک دشت تھا کچھ روز ابر یاب رہا
ایسے منظر ہیں جنہیں دیکھنا خوش آتا ہے
خوشا کہ ندرت افکار سے بدلتا رہا
طاق رفتہ پہ سجایا تو نہیں جاسکتا
آتا ہی نہیں ہونے کا یقیں، کیا بات کروں
نہ جانے کون سی گہرائیوں میں بیٹھ گئی
بھر جائے گلوں سے کاسۂ دل، آنکھوں میں کوئی تصویر تو ہو
نظر ملا کے ابد گیر کرنے والا نہیں
خاک دیکھی ہے، شفق زار فلک دیکھا ہے
عجیب خواب ہے ، اظہار سے گریزاں ہے
اپنے خوابوں سے جدا ہونے کا غم کرتا ہوں
دل و نظر میں ترا عکس جھلملانے لگا
عجب تصور تنہائی ہے جہاں میں ہوں
زندگی کو، ثبات کچھ بھی نہیں
ہر شام حیرتوں سے گزارا کیا مجھے
رقص کرنا تھا، گاہ گاہ کیا
نقش اک ایسا سر لوح جہاں رکھتا میں
وہ جب بساط ابد آشنا سمیٹے گا
کیا رات ہے کہ سایۂ مہتاب بھی نہیں
ہوگیا دل کا ضطراب تمام
کون ہے اپنا کون پرایا جانتے ہیں
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.