سرورق
وہ کیا ہوا جو سرِ زندگی تماشا تھا
حیرت بھی اظہار میں آنا جانتی ہے
جھلملاتا ہوں آج شام سے میں
عجیب عالمِ تعزیر سے گزرتا ہوں
دھوپ سے رابطہ رہے یونہی
ازل سے ایک بھٹکتا ہوا مسافر ہوں
نظر میں شہر جلنے کا دھواں پھیلا ہوا تھا
رنج کتنے ہیں اور خوشی کتنی
نہیں کچھ تو چلو اتنا سمجھ لو
میں اپنے دکھ میں ذرا بھی کمی نہیں کرتا
ایک دن اضطراب میں ہم نے
میں تو خاموش ہی رہتا ہوں وہی بولتا ہے
وقت دریا تھا اور گہرا تھا
خود سے اب میری ملاقات کبھی رہتی ہے
دیپ جلنے کے اہتمام تلک
یوں تو زمیں کا خواب ہوا آسماں کا خواب
ذرۂ کم نمائے زمیں بھی نہیں
اک ستارا اگر چمک جاتا
چلے کہاں سے مسافر ہوئے کہاں آباد
خاک ملنے ملانے جاتا ہوں
بیٹھے رہتے تھے تیرے دھیان میں ہم
خود اپنی بے کرانی سے گزرتے
دنیا کو دیکھ دیکھ کے حیرت کیا کروں
جب ہم نے اپنا اپنا قبیلہ الگ کیا
زندگی راہ پہ لانے کو چلا جاتا ہوں
اک ستارا تھا ہوائے شام تھی
افق کے پار خلا میں اتر رہی تھی شام
زمیں کی دوسری جانب اتر نہ جائے شام
اپنا سایہ بڑھا رہی ہے شام
وہ حسیں جب سراپا دکھانے لگا
ماننا پڑ گیا کمال اس کا
آنکھیں بناتا دشت کی وسعت کو دیکھتا
مجھ کو صحرا میں بھی سیلاب نظر آتاہے
میں نے ہر بات چھپا لی بڑی آسانی سے
زمیں سے دور سرِ لا مقام رہتا تھا
چلے تو ساتھ زمانہ تمام آیا تھا
راہ میں کوئی چراغوں کی گلی آتی ہے
گفتگو ختم اس کلام کے بعد
شام کا سیال اسرار
جادو گر
طلوعِ شام سے پہلے۔۔۔۔!!
سرورق
وہ کیا ہوا جو سرِ زندگی تماشا تھا
حیرت بھی اظہار میں آنا جانتی ہے
جھلملاتا ہوں آج شام سے میں
عجیب عالمِ تعزیر سے گزرتا ہوں
دھوپ سے رابطہ رہے یونہی
ازل سے ایک بھٹکتا ہوا مسافر ہوں
نظر میں شہر جلنے کا دھواں پھیلا ہوا تھا
رنج کتنے ہیں اور خوشی کتنی
نہیں کچھ تو چلو اتنا سمجھ لو
میں اپنے دکھ میں ذرا بھی کمی نہیں کرتا
ایک دن اضطراب میں ہم نے
میں تو خاموش ہی رہتا ہوں وہی بولتا ہے
وقت دریا تھا اور گہرا تھا
خود سے اب میری ملاقات کبھی رہتی ہے
دیپ جلنے کے اہتمام تلک
یوں تو زمیں کا خواب ہوا آسماں کا خواب
ذرۂ کم نمائے زمیں بھی نہیں
اک ستارا اگر چمک جاتا
چلے کہاں سے مسافر ہوئے کہاں آباد
خاک ملنے ملانے جاتا ہوں
بیٹھے رہتے تھے تیرے دھیان میں ہم
خود اپنی بے کرانی سے گزرتے
دنیا کو دیکھ دیکھ کے حیرت کیا کروں
جب ہم نے اپنا اپنا قبیلہ الگ کیا
زندگی راہ پہ لانے کو چلا جاتا ہوں
اک ستارا تھا ہوائے شام تھی
افق کے پار خلا میں اتر رہی تھی شام
زمیں کی دوسری جانب اتر نہ جائے شام
اپنا سایہ بڑھا رہی ہے شام
وہ حسیں جب سراپا دکھانے لگا
ماننا پڑ گیا کمال اس کا
آنکھیں بناتا دشت کی وسعت کو دیکھتا
مجھ کو صحرا میں بھی سیلاب نظر آتاہے
میں نے ہر بات چھپا لی بڑی آسانی سے
زمیں سے دور سرِ لا مقام رہتا تھا
چلے تو ساتھ زمانہ تمام آیا تھا
راہ میں کوئی چراغوں کی گلی آتی ہے
گفتگو ختم اس کلام کے بعد
شام کا سیال اسرار
جادو گر
طلوعِ شام سے پہلے۔۔۔۔!!
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔