فہرست
قدم قدم پہ نگاہوں کو جستجو تیری
یہ جو شیشوں کے کھنکنے کی صدا آتی ہے
دل، کہ تھا آئینہ حسن ترا، ٹوٹ گیا
اپنے انجام کا آغاز ہوئی جاتی ہے
کیوں ہوگئے حقیر خود اپنی نگاہ میں
بیٹھے ہیں آپ ہی اب بیزار و سر گراں سے
محبت ایک لحن بے صدا ہے بزم ہستی میں
لبوں پہ ہے جو تبسم تو آنکھ پر نم ہے
ہے سفر ہی مرا مقصود سفر، جانے دو
نہ کم ہوا ہے نہ ہو سوز اضطراب دروں
بے نیاز خلش دل نہیں ہونے پاتے
کتنی یادوں کے دیے ذہن میں جل جاتے ہیں
دلوں کی جوت جگاؤ، بہت اندھیرا ہے
مسلسل
ہر طرف مہکی ہوئی خوشبوئے رعنائی ہے آج
گیت اگر گا نہ سکا اشک بہانا چاہا
وہ شکل پیش نظر تو کبھی نہیں ہوتی
ہیں شب غم شریک حال آنسو
دور دریا سے، سلگتا ہوا اک صحرا ہوں
جادۂ مرگ مسلسل سے گزر تا جاؤں
یاد پھر بھولی ہوئی ایک کہانی آئی
کس موڑ پر ملا تھا، اب یاد کر رہا ہوں
غم کے خاکوں میں رنگ بھر جائیں
آگیا ہو نہ کوئی بھیس بدل کر، دیکھو
دن تو سو طرح کی باتوں میں گزر جاتا ہے
جتنے آزادی انساں کے طلبگار ملے
سامنے اب کوئی منزل نہ کوئی راہگذر
فقیہیہ شہر! جو ہوں تیرے ہم خیالوں میں
لفظوں کے سیہ پیراہن میں لپٹی ہوئی کچھ تنویریں ہیں
کب مجھے تنہا روی کا غم رہا
دل کے ورق سادہ پہ کچھ رنگ ابھاریں
بیان شوق پہ مائل وہ کم نظر ہوں گے
ہر نفس ان کی صدا ہو جیسے
دیدہ دل کی فضا پر غم کے بادل چھا گئے
شوق منزل جو رہنما نہ رہا
کہاں اس بھیڑ میں دمساز کوئی
چھایا ہے اداسی کا سماں، شام ہوئی ہے
جب کوئی شام حسیں، نذر خرابات ہوئی
خوگر ظلمت ہوا جاتا ہے دل
حاصل زندگی عشق، یہی خواب وخیال
بن سکیں جو دل رسوا کے سہارے، کم ہیں
جیسے جیسے روشناس جام ہوتی جائے گی
بجھ گئی دل کی روشنی، راہ دھواں دھواں ہوئی
رنج دوری بھی ہو اب دل کو گوارا جیسے
دل خراب کے کیجے نہ دیکھ بھال بہت
رنگ بن کر رونما ہر منظر گلشن میں ہے
شبنم آلود جبیں، برگ گل ترکی طرح
نفس نفس نغمہ ونواسے فضا کو معمور کر رہا ہوں
وہ دور نشاط دیدہ و دل جیسے بس ابھی گزراہی تو ہے
توفیق عشق کا تو گنہ گار میں بھی تھا
گو وقت کے مقتل میں ابھی گونج رہا ہوں
سمجھ نہ لمحۂ حاضر کا واقعا مجھ کو
قیام ہے نہ سفر، کچھ عجیب حال میں ہوں
پے بہ پے سمت سفر اپنی بدلتا کیوں ہے؟
قافلہ کب کے ٹوٹے ستاروں کا یہ سامنے سے نظر کے گزرنے لگا
لڑلیے بے بات بھی، ہوتا رہا ایسا بہت
لہو لہو سایہ منظر، یہاں سے بھاگ چلو
غم و نشاط کی ہر رہگزر میں تنہا ہوں
گاہے گاہے جب میں خود کو یاد آؤں
لمحہ لمحہ بسر ہوتا جاتا تھا دن دم بہ دم رات نزدیک آتی گئی
یہ برف سی دھوپ ہر شجر پر
دن کی پگڈنڈی پہ سورج چلتے چلتے گر پڑا ہے
رنگ و نکہت کا یہ موسم ہے کہ پیغام اس کا
اک اجنبی دنیا میں اب جینا مقدّر ہوگیا
بھیڑ میں ہے مگر اکیلا ہے
اسیر سلسلۂ عمر رائیگاں کیا ہے!
جن سے آنکھیں بچلی گئیں تھی کبھی سامنے پھر نہ وہ عکس لائے گئے
کبھی کبھی نظر آتا ہے یہ سماں کیسا
روز وشب کی رہگذر پر نقش پاے رفتگاں
یہ کیسا ربط ہوادل کو تیری ذات کے ساتھ
بڑھ جائے دل کی غم زدگی جب نظر ملے
لمحہ بھر رکنا پڑا، گو میں بہت عجلت میں تھا
قریب جاؤں تو صحرا دکھائی دیتا ہے
سنے گا کون، کہ ٹھری یہ نار سا کتنی
چڑھتے دریا سے بھی گر پار اتر جاؤ گے
یہ گھور اندھیرا بھی دکھائے گا بہت کچھ
رہا ہے قافلۂ گل کا انتظار کسے
نہ ایک پل سر دشت تپاں رکے بادل
جاگ اٹھے تھے مری آنکھوں میں یہ کس رات کے خواب
پھر آج بند دریچے مکاں کے کھولیں گے
افق پر شام کا پہلا ستارہ مسکراتا ہے
خانہ ویرانی سے خوش کتنا دل مایوس ہے
کچھ کشش اس کے لیے ماضی نہ مستقبل میں ہے
خالی شیشے میں کوئی عکس اتارا جائے
پھر ادھر سے ابھی گزرے گا دوبارا اک شخص
پہنچتا ہے پیام تازہ مجھ تک دم بہ دم اس کا
بکھرتے ٹوٹتے لمحوں کو اپنا ہمسفر جانا
پار کرنا ہے ندی کو، تو اتر پانی میں
صبح کے اخباروں کی سرخی بن کر شہر پہ چھائی آگ
کتنے نادیدہ علاقوں کی سیاحت کی ہے
رہرو کے ساتھ جیسے چلتی ہو رہگذر بھی
ہم نے بنا لیا اسے ساتھی شراب کا
یہ آخری پہر ہے گناہوں کی رات کا
نظروں سے ساحلوں کے نظارے نہاں ہوئے
صرف اک تجھے کھو کر تھا میں کس قدر تنہا
یہ شب کی سیاہی ہے یا دن کا اجالا ہے!
لالہ وگل کا جہاں، راس کب آیا ہے مجھے
دیکھ لو، چھونا تو اس پیکر کا مشکل ہے میاں
نہ رستہ نہ کوئی ڈگر ہے یہاں
ہے ہمیں کتنا عزیز اب تک تراغم، کیا کہیں
دل کی جانب نگراں جب سے نظر ہے تیری
ہر گزرتے ہوئے جھونکے نے کہا ہے مجھ سے
درگذر کر کہ یہی ایک سزا ہے میری
سن سکا کوئی نہ جس کو، وہ صدا میری تھی
آج اور کل میں جو تھا ربط بہم ٹوٹے گا
ممکن اپنے لیے محال رہا
بیتے موسم جو ساتھ لاتی ہیں
واسوخت
نقش جاں میں بے حسی کا رنگ بھر جاؤں گا میں
شام کے منظر میں خونیں رنگ بھر دیتا ہے کون
ابھی تو شادابیوں کے دن ہیں ابھی تو سبزہ لہک رہا ہے
کہیں ستاروں کی زر فشانی کہیں شگوفے مہک رہے ہیں
ملی حادثے کی خبر دفعتاً
ہر دریچے میں مرے قتل کا منظر ہوگا
ہائے کس دھند کے جنگل میں رواں ہیں ہم بھی
قدم قدم پہ اکیلے دکھوں کا میلا ہے
اس کی یادوں کو شریک دل تنہا کر لو
بے غرض میہماں نہ تھیں چڑیاں
دل، کس آسیب کا مسکن ہے، ہراساں کیوں ہو؟
ہر موڑ پہ خوابوں کا اک گانوسا بستا ہے
کوئی نہ تھا جو کسی سے قدم ملا کے چلے
ہم نے اپنا یہی مقسوم سفر جانا ہے
رنگ پیڑوں کا کیا ہوا دیکھو
چل پڑے ہیں تو کہیں جا کے ٹھہرنا ہوگا
وہ بات بات میں اک ندرت بیان اس کی
نہ ہو اداس، دل مبتلا سے کہتا ہے
فلک اجاڑ، نہ زمیں نظر آئے
سر سبز درختوں پر یہ قہر ہوا دیکھو
غموں سے زرد ہے یاسر خوشی سے نکھرا ہے
نظر میں آج بھی ہنسا ہوا وہ چہرا ہے
لٹا رہے ہو عبث بے بہا خزینوں کو
یاد کرتے ہیں جنھیں آج کے حالات میں ہم
ان آندھیوں میں عجب انتشار پھیل گیا
نکل کے شہر سے جانا ہے، لوگ کہتے ہیں
نمود سوز جاں منظر بہ منظر
نقش پاکوئی گزر گاہ نظر پر ٹھہرے
ہر تار نفس موت کے ہالے کی طرح ہے
تجھ سے بچھڑے تو کہیں اپنا نشاں بھی نہ ملا
تعینات زمان ومکاں سے پہلے تھا
جو یہ شرط تعلق ہے ، کہ ہے اہم کو جدا رہنا
پانو اپنے ادھر اٹھے تھے، ادھر سے پہلے
بہار لوٹ بھی آئی تو کیا کہ تو ہی نہ تھا
اجل سے برسر پیکار ایک میں بھی تھا
ذہن کا تیز تھا، دل کا بھی نہ خالی نکلا
دل جہاں روک رہا ہو نہ خطا سے پہلے
گلاب افسردہ تھے، ستارے بجھے بجھے سے
امیدیں پاس آئیں سہمی سہمی
کل کے بھولے ہوئے غم تازہ نصابوں میں کہاں
میرا قصہ پھر سے موضوع سخن ہو جائے گا
منزلوں کی کھوج میں خود بے نشاں ہو جائیں گے
بھیر میں چلتے ہوئے دیکھا ہے اکثر تجھ کو
راہ آکر کہاں تمام ہوئی
ہر طرف پھیلتا بڑھتا نظر آئے پانی
موسم کی سختیوں سے ہراساں نہ تھے درخت
پہاڑوں سے اتر کر جب وہ میدانوں میں آیا تھا
گو، دن چڑھا، فصیل شب تار گر گئی
جانب کوچہ و بازار نہ دیکھا جائے
کھوئی کھوئی سی نظر ہے، دل بہت گھبرائے ہے
دو قدم چل نہ سکا کوئی، سفر کیسا تھا
گلی گلی یہ سماں دھند کے اترنے کا
کیوں شام سے لودینے لگا؟ سوچ رہا ہوں
اک تیرہ باطن ان بستیوں کا سردار ہوگا
ہاتھ نہ آئے، تیز ہوا کا آنچل ہے
تجھ سے جو بچھڑے دیدہ و دل میں بسی اداسی ایسے
کھوکے رہ جائے نہ ان اونچے گھروں کے درمیاں
الفاظ میں، احساس کو ڈھالا نہیں جاتا
بے سبب انتظار کے لمحے
مکینوں کو ترستا ہے مکاں ہے
ایک خاموش کسک دل میں جگا دیتے ہیں
تلخی زیست کا احساس بڑھا دیتا ہے
دھواں دھواں ہوئے سب راستے خیالوں کے
جل تھل صحرا خشک سمندر رکھتے ہیں
کیوں نہ سڑکوں پر یونہی بھٹکا کروں
دن کی بستی پہ چھا رہی ہے شام
روشنی دیتے رہے تازہ خیالوں کی طرح
نذر صادقین
جسم و جاں پر گزر گئیں صدیاں
رنگ افشانی گل و شبنم دو پل
کرسکے کم نہ بڑھتا ہوا فاصلا دیکھتے رہ گئے
بانس کے جنگلوں سے گزرتی ہوا آتشیں گیت گاتی ہوئی آئے گی
اڑتے اڑتے کہیں کھو گئی فاختہ
بسے بسائے پرندوں کے گھر اجڑنے لگے
اس طلسم بے حسی کو توڑ سکتا کیوں نہیں؟
مرحلے گزرے سو گزرے، جان جاں پروانہ کر
گل، چراغ انا نہ ہوجائے
آئی، پھر فصل برگ و بار آئی
سامنے، غم کی رہگذر آئی
حسرت آمد بہار میں، پی!
بہشتوں سے بیزار ہیں عورتیں
چاند چھت پر مری اتر آیا
دل کی روش روش سے گزرتی یہ تتلیاں
کسک پرانے زمانے کی ساتھ لایا ہے
کیا ہوئی ابر کی وہ چادر، دیکھ
پیڑ گرتا کوئی نظر آیا
رونقیں اتنی بڑھیں، وحشت کا ساماں ہوگئیں
خون ہوا سورج کا، دور افق پر لالی پھیلی ہے
درد جاگا نہیں کتنے دن ہوگئے
جہاں میں جاؤں، ہوا کا یہی اشارا ہو
ایک احساس زیاں، لمحہ کیا ہے
منتظر اس کا کوئی خود اس کے گھر میں رہ گیا
دعا جب آئی ہے لب پر ترے حوالے سے
پرتو دھنک میں کس کا، گھٹاؤں میں کون ہے؟
زباں کرے گفتگو اسی کی کہ جس نے ہم کو زبان دی ہے
سجائے ہیں مہ وخورشید، صبح وشام اس نے
ستارہ ساں افق شب پہ جگمگائے تو
تو زندگی کے لیے آسرانہ مان اسے
یہ پھول تو ہر برس کھلیں گے
چاند بھی، پھول بھی ستارا بھی
خوشی کی اجنبی راہوں سے اخر لوٹ آئے ہیں
بکھر گیا وہ طلسم وفا نہ مانوں گا
دیپ پلکوں پہ جلانے آئے
یوں بے رخی برت نہ مری التجا کے ساتھ
بستیاں خوابوں کی جتنی ہیں، سبھی اس پار ہیں
بھروسا ہی سجن سب کچھ، بھروسا ٹوٹ جائے نا
پرچھائیں سے اس کی پیار کرلوں
لجا لجا کے ستاروں سے مانگ بھرتی ہے
چھت پر مری اتر کے عجب پیش وپس میں تھا
نہ مجھے خیال جادہ، نہ مجھے امید منزل
کہیں تو تجھ سے اماں پاؤں، شام تنہائی!
سلگتی بانہوں کی بیٹا بیاں پنھا کے اسے
جلتی رتوں میں بارش برسا گیا ہے کوئی
نہیں، میں قد میں کب تم سے بڑا ہوں
جب وہ موڑ آئے تو پاس اور ذرا ہوجانا
کس خموشی سے ہم نے پی ہے شراب
اسے جو ساتھ نہ لائے بہار کا موسم
رنگ بن بن کے فضاؤں میں بکھرنا اس کا
بچھڑ نہ جائیں کہیں ہم، اسے ہر اس نہ تھا
کچھ اتنے پاس سے ہو کر گزر گیا اک شخص
وہ تیرگی مرے چہرے پہ مل گیا اک شخص
ہر نفس جیسے کوئی چلتی ہوئی تلوار ہے
مرگ دل کا مجھے پیام آیا
یہ میرے احساسات کو ڈستی ہوئی تنہائیاں
وہ، اور اس کا ایک ربط رایگاں، میں کون ہوں؟
جانے کیا اس شخص کو منظور ہے
چاروں طرف سے سنگ ملامت کی زد پہ ہوں
رشتوں کی اک بھیڑ ہے میرے ساتھ مگر تنہاہوں میں
مجھ میں کسی کا عکس نہ پر تو، خالی آئینہ ہوں میں
سینے میں کسک بن کے اترنے کے لیے ہے
کسی بدن کی مہک دور سے بلاتی ہے
فسوں طراز فضا دور دور تک تیری
دل میں کیوں جاگ اٹھی ہے، یہ کسک کیسی ہے؟
سفر ہے سہل مگر پھر بھی خوشگوار نہیں
ربط، بے کار خیالوں سے بڑھانا اس کا
ادھوری قربتوں کے خواب آنکھوں کو دکھا جانا
وہ پیاسے تھے، سمندر سامنے تھا
لالہ زاروں کا سفر، ختم نہ کرتی خوشبو
زندگی میں کسی کی کمی اب نہیں
رنگ ہے، پھول ہے، خوشبو ہے، صبا ہے کوئی
خوشبو سی میرے دل میں اتر جائے گی یہ شام
طلوع صبح حسیں ہے، کہ سامنے تم ہو
مدتوں بعد ہم کسی سے ملے
بچھڑ کر بھی اب وہ مرے سات ہیں
منتظر میری آہٹ کا گھر ہے مرا
اخر اس قید تعلق سے رہا بھی ہوگا
وہ ملے بھی تو ملے ہم سے بچھڑ نے کے لیے
اپنا یہی ہے صحن، یہی سائبان ہے
یہ کس کا نام ہے جو نقش دل نشیں کی طرح
نظر کے سامنے کچھ عکس جھلملائے بہت
وہ ہم سے خفا تھا مگر اتنا بھی نہیں تھا
دھواں دھواں سی صدا اک سنائی دیتی تھی
اس کے ملنے کا احتمال سا کچھ
جس نے جس سے کمان لی ہے
اک ہم ہیں اور اک زہر بھرا جام ہمارا
سن لی صدائے کوہ ندا اور چل پڑے
وہ خاک ڈال چلو درد کے خزینوں پر
نشاط جاں، کہ بھرم کے سوا کچھ اور نہیں
کسی بھی سمت ہو، دل کا سفر اکیلا ہے
زہر حقیقت خواب میں میرے بھر دیتا ہے، کون ہے تو؟
بے دست وپاہوں اور ارادہ سفر کا ہے
اپنی قاتل سوچوں سے کیا کیا گھبراتا ہوں
بہت گھٹن اس حصار میں ہے، حدانا سے گزرنہ جاؤں!
لکھ کر، ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے
کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں
شادماں بھی نہیں، غمیں بھی نہیں
خواب، ان جاگتی آنکھوں کو دکھانے والا
بنددروازوں پہ تم رہ رہ کے یوں دستک نہ دو
چہرے سارے بھلا رہا ہوں
منزل کا سراغ کھو گیا ہے
لوگ کعبے نہ سومنات میں ہیں
ان لکھا لفظ، گو، کتاب میں ہوں
مصلحت کے ہزار پہرے ہیں
موسم کی یہ سختی، یہ پریشان پرندے
کب یہ سیل رواں رکا ہے میاں
آنکھوں کے سب خواب کہیں کھو جاتے ہیں
شعلۂ دل سے یہ زباں روشن
درودیوار پر، کچھ اجنبی پرچھائیاں روشن
روح کو اپنی گنوادیں جسم بے سر کے لیے
کہیں پہ غم تو کہیں پر خوشی ادھوری ہے
سب سے الگ کچھ سوچ رہا ہوں
نہیں احساس ہی کچھ، تیرگی کیا، روشنی ہے!
وقت کا معمول، کوئی دوسرا ہو جاے گا
فضا میں کیسی اداسی ہے، کیا کہا جائے
ہم بھی تھے کبھی اس کے طرفدار، مگر اب؟
کم کسی پل بھی تقاضائے انا ہوتا نہیں
عمر رفتہ گئی کدھر میری
تونے پھر ہم کو پکارا سر پھری پاگل ہوا!
دھوئیں میں دروبام کھونے کا منظر مرے سامنے ہے
جب حکم اک صادر ہوا، تم چپ رہے ہم چپ رہے
کریں بھڑک کے نہ یہ سعی رایگاں، شعلے
مخمور سعیدی کا فن
فہرست
قدم قدم پہ نگاہوں کو جستجو تیری
یہ جو شیشوں کے کھنکنے کی صدا آتی ہے
دل، کہ تھا آئینہ حسن ترا، ٹوٹ گیا
اپنے انجام کا آغاز ہوئی جاتی ہے
کیوں ہوگئے حقیر خود اپنی نگاہ میں
بیٹھے ہیں آپ ہی اب بیزار و سر گراں سے
محبت ایک لحن بے صدا ہے بزم ہستی میں
لبوں پہ ہے جو تبسم تو آنکھ پر نم ہے
ہے سفر ہی مرا مقصود سفر، جانے دو
نہ کم ہوا ہے نہ ہو سوز اضطراب دروں
بے نیاز خلش دل نہیں ہونے پاتے
کتنی یادوں کے دیے ذہن میں جل جاتے ہیں
دلوں کی جوت جگاؤ، بہت اندھیرا ہے
مسلسل
ہر طرف مہکی ہوئی خوشبوئے رعنائی ہے آج
گیت اگر گا نہ سکا اشک بہانا چاہا
وہ شکل پیش نظر تو کبھی نہیں ہوتی
ہیں شب غم شریک حال آنسو
دور دریا سے، سلگتا ہوا اک صحرا ہوں
جادۂ مرگ مسلسل سے گزر تا جاؤں
یاد پھر بھولی ہوئی ایک کہانی آئی
کس موڑ پر ملا تھا، اب یاد کر رہا ہوں
غم کے خاکوں میں رنگ بھر جائیں
آگیا ہو نہ کوئی بھیس بدل کر، دیکھو
دن تو سو طرح کی باتوں میں گزر جاتا ہے
جتنے آزادی انساں کے طلبگار ملے
سامنے اب کوئی منزل نہ کوئی راہگذر
فقیہیہ شہر! جو ہوں تیرے ہم خیالوں میں
لفظوں کے سیہ پیراہن میں لپٹی ہوئی کچھ تنویریں ہیں
کب مجھے تنہا روی کا غم رہا
دل کے ورق سادہ پہ کچھ رنگ ابھاریں
بیان شوق پہ مائل وہ کم نظر ہوں گے
ہر نفس ان کی صدا ہو جیسے
دیدہ دل کی فضا پر غم کے بادل چھا گئے
شوق منزل جو رہنما نہ رہا
کہاں اس بھیڑ میں دمساز کوئی
چھایا ہے اداسی کا سماں، شام ہوئی ہے
جب کوئی شام حسیں، نذر خرابات ہوئی
خوگر ظلمت ہوا جاتا ہے دل
حاصل زندگی عشق، یہی خواب وخیال
بن سکیں جو دل رسوا کے سہارے، کم ہیں
جیسے جیسے روشناس جام ہوتی جائے گی
بجھ گئی دل کی روشنی، راہ دھواں دھواں ہوئی
رنج دوری بھی ہو اب دل کو گوارا جیسے
دل خراب کے کیجے نہ دیکھ بھال بہت
رنگ بن کر رونما ہر منظر گلشن میں ہے
شبنم آلود جبیں، برگ گل ترکی طرح
نفس نفس نغمہ ونواسے فضا کو معمور کر رہا ہوں
وہ دور نشاط دیدہ و دل جیسے بس ابھی گزراہی تو ہے
توفیق عشق کا تو گنہ گار میں بھی تھا
گو وقت کے مقتل میں ابھی گونج رہا ہوں
سمجھ نہ لمحۂ حاضر کا واقعا مجھ کو
قیام ہے نہ سفر، کچھ عجیب حال میں ہوں
پے بہ پے سمت سفر اپنی بدلتا کیوں ہے؟
قافلہ کب کے ٹوٹے ستاروں کا یہ سامنے سے نظر کے گزرنے لگا
لڑلیے بے بات بھی، ہوتا رہا ایسا بہت
لہو لہو سایہ منظر، یہاں سے بھاگ چلو
غم و نشاط کی ہر رہگزر میں تنہا ہوں
گاہے گاہے جب میں خود کو یاد آؤں
لمحہ لمحہ بسر ہوتا جاتا تھا دن دم بہ دم رات نزدیک آتی گئی
یہ برف سی دھوپ ہر شجر پر
دن کی پگڈنڈی پہ سورج چلتے چلتے گر پڑا ہے
رنگ و نکہت کا یہ موسم ہے کہ پیغام اس کا
اک اجنبی دنیا میں اب جینا مقدّر ہوگیا
بھیڑ میں ہے مگر اکیلا ہے
اسیر سلسلۂ عمر رائیگاں کیا ہے!
جن سے آنکھیں بچلی گئیں تھی کبھی سامنے پھر نہ وہ عکس لائے گئے
کبھی کبھی نظر آتا ہے یہ سماں کیسا
روز وشب کی رہگذر پر نقش پاے رفتگاں
یہ کیسا ربط ہوادل کو تیری ذات کے ساتھ
بڑھ جائے دل کی غم زدگی جب نظر ملے
لمحہ بھر رکنا پڑا، گو میں بہت عجلت میں تھا
قریب جاؤں تو صحرا دکھائی دیتا ہے
سنے گا کون، کہ ٹھری یہ نار سا کتنی
چڑھتے دریا سے بھی گر پار اتر جاؤ گے
یہ گھور اندھیرا بھی دکھائے گا بہت کچھ
رہا ہے قافلۂ گل کا انتظار کسے
نہ ایک پل سر دشت تپاں رکے بادل
جاگ اٹھے تھے مری آنکھوں میں یہ کس رات کے خواب
پھر آج بند دریچے مکاں کے کھولیں گے
افق پر شام کا پہلا ستارہ مسکراتا ہے
خانہ ویرانی سے خوش کتنا دل مایوس ہے
کچھ کشش اس کے لیے ماضی نہ مستقبل میں ہے
خالی شیشے میں کوئی عکس اتارا جائے
پھر ادھر سے ابھی گزرے گا دوبارا اک شخص
پہنچتا ہے پیام تازہ مجھ تک دم بہ دم اس کا
بکھرتے ٹوٹتے لمحوں کو اپنا ہمسفر جانا
پار کرنا ہے ندی کو، تو اتر پانی میں
صبح کے اخباروں کی سرخی بن کر شہر پہ چھائی آگ
کتنے نادیدہ علاقوں کی سیاحت کی ہے
رہرو کے ساتھ جیسے چلتی ہو رہگذر بھی
ہم نے بنا لیا اسے ساتھی شراب کا
یہ آخری پہر ہے گناہوں کی رات کا
نظروں سے ساحلوں کے نظارے نہاں ہوئے
صرف اک تجھے کھو کر تھا میں کس قدر تنہا
یہ شب کی سیاہی ہے یا دن کا اجالا ہے!
لالہ وگل کا جہاں، راس کب آیا ہے مجھے
دیکھ لو، چھونا تو اس پیکر کا مشکل ہے میاں
نہ رستہ نہ کوئی ڈگر ہے یہاں
ہے ہمیں کتنا عزیز اب تک تراغم، کیا کہیں
دل کی جانب نگراں جب سے نظر ہے تیری
ہر گزرتے ہوئے جھونکے نے کہا ہے مجھ سے
درگذر کر کہ یہی ایک سزا ہے میری
سن سکا کوئی نہ جس کو، وہ صدا میری تھی
آج اور کل میں جو تھا ربط بہم ٹوٹے گا
ممکن اپنے لیے محال رہا
بیتے موسم جو ساتھ لاتی ہیں
واسوخت
نقش جاں میں بے حسی کا رنگ بھر جاؤں گا میں
شام کے منظر میں خونیں رنگ بھر دیتا ہے کون
ابھی تو شادابیوں کے دن ہیں ابھی تو سبزہ لہک رہا ہے
کہیں ستاروں کی زر فشانی کہیں شگوفے مہک رہے ہیں
ملی حادثے کی خبر دفعتاً
ہر دریچے میں مرے قتل کا منظر ہوگا
ہائے کس دھند کے جنگل میں رواں ہیں ہم بھی
قدم قدم پہ اکیلے دکھوں کا میلا ہے
اس کی یادوں کو شریک دل تنہا کر لو
بے غرض میہماں نہ تھیں چڑیاں
دل، کس آسیب کا مسکن ہے، ہراساں کیوں ہو؟
ہر موڑ پہ خوابوں کا اک گانوسا بستا ہے
کوئی نہ تھا جو کسی سے قدم ملا کے چلے
ہم نے اپنا یہی مقسوم سفر جانا ہے
رنگ پیڑوں کا کیا ہوا دیکھو
چل پڑے ہیں تو کہیں جا کے ٹھہرنا ہوگا
وہ بات بات میں اک ندرت بیان اس کی
نہ ہو اداس، دل مبتلا سے کہتا ہے
فلک اجاڑ، نہ زمیں نظر آئے
سر سبز درختوں پر یہ قہر ہوا دیکھو
غموں سے زرد ہے یاسر خوشی سے نکھرا ہے
نظر میں آج بھی ہنسا ہوا وہ چہرا ہے
لٹا رہے ہو عبث بے بہا خزینوں کو
یاد کرتے ہیں جنھیں آج کے حالات میں ہم
ان آندھیوں میں عجب انتشار پھیل گیا
نکل کے شہر سے جانا ہے، لوگ کہتے ہیں
نمود سوز جاں منظر بہ منظر
نقش پاکوئی گزر گاہ نظر پر ٹھہرے
ہر تار نفس موت کے ہالے کی طرح ہے
تجھ سے بچھڑے تو کہیں اپنا نشاں بھی نہ ملا
تعینات زمان ومکاں سے پہلے تھا
جو یہ شرط تعلق ہے ، کہ ہے اہم کو جدا رہنا
پانو اپنے ادھر اٹھے تھے، ادھر سے پہلے
بہار لوٹ بھی آئی تو کیا کہ تو ہی نہ تھا
اجل سے برسر پیکار ایک میں بھی تھا
ذہن کا تیز تھا، دل کا بھی نہ خالی نکلا
دل جہاں روک رہا ہو نہ خطا سے پہلے
گلاب افسردہ تھے، ستارے بجھے بجھے سے
امیدیں پاس آئیں سہمی سہمی
کل کے بھولے ہوئے غم تازہ نصابوں میں کہاں
میرا قصہ پھر سے موضوع سخن ہو جائے گا
منزلوں کی کھوج میں خود بے نشاں ہو جائیں گے
بھیر میں چلتے ہوئے دیکھا ہے اکثر تجھ کو
راہ آکر کہاں تمام ہوئی
ہر طرف پھیلتا بڑھتا نظر آئے پانی
موسم کی سختیوں سے ہراساں نہ تھے درخت
پہاڑوں سے اتر کر جب وہ میدانوں میں آیا تھا
گو، دن چڑھا، فصیل شب تار گر گئی
جانب کوچہ و بازار نہ دیکھا جائے
کھوئی کھوئی سی نظر ہے، دل بہت گھبرائے ہے
دو قدم چل نہ سکا کوئی، سفر کیسا تھا
گلی گلی یہ سماں دھند کے اترنے کا
کیوں شام سے لودینے لگا؟ سوچ رہا ہوں
اک تیرہ باطن ان بستیوں کا سردار ہوگا
ہاتھ نہ آئے، تیز ہوا کا آنچل ہے
تجھ سے جو بچھڑے دیدہ و دل میں بسی اداسی ایسے
کھوکے رہ جائے نہ ان اونچے گھروں کے درمیاں
الفاظ میں، احساس کو ڈھالا نہیں جاتا
بے سبب انتظار کے لمحے
مکینوں کو ترستا ہے مکاں ہے
ایک خاموش کسک دل میں جگا دیتے ہیں
تلخی زیست کا احساس بڑھا دیتا ہے
دھواں دھواں ہوئے سب راستے خیالوں کے
جل تھل صحرا خشک سمندر رکھتے ہیں
کیوں نہ سڑکوں پر یونہی بھٹکا کروں
دن کی بستی پہ چھا رہی ہے شام
روشنی دیتے رہے تازہ خیالوں کی طرح
نذر صادقین
جسم و جاں پر گزر گئیں صدیاں
رنگ افشانی گل و شبنم دو پل
کرسکے کم نہ بڑھتا ہوا فاصلا دیکھتے رہ گئے
بانس کے جنگلوں سے گزرتی ہوا آتشیں گیت گاتی ہوئی آئے گی
اڑتے اڑتے کہیں کھو گئی فاختہ
بسے بسائے پرندوں کے گھر اجڑنے لگے
اس طلسم بے حسی کو توڑ سکتا کیوں نہیں؟
مرحلے گزرے سو گزرے، جان جاں پروانہ کر
گل، چراغ انا نہ ہوجائے
آئی، پھر فصل برگ و بار آئی
سامنے، غم کی رہگذر آئی
حسرت آمد بہار میں، پی!
بہشتوں سے بیزار ہیں عورتیں
چاند چھت پر مری اتر آیا
دل کی روش روش سے گزرتی یہ تتلیاں
کسک پرانے زمانے کی ساتھ لایا ہے
کیا ہوئی ابر کی وہ چادر، دیکھ
پیڑ گرتا کوئی نظر آیا
رونقیں اتنی بڑھیں، وحشت کا ساماں ہوگئیں
خون ہوا سورج کا، دور افق پر لالی پھیلی ہے
درد جاگا نہیں کتنے دن ہوگئے
جہاں میں جاؤں، ہوا کا یہی اشارا ہو
ایک احساس زیاں، لمحہ کیا ہے
منتظر اس کا کوئی خود اس کے گھر میں رہ گیا
دعا جب آئی ہے لب پر ترے حوالے سے
پرتو دھنک میں کس کا، گھٹاؤں میں کون ہے؟
زباں کرے گفتگو اسی کی کہ جس نے ہم کو زبان دی ہے
سجائے ہیں مہ وخورشید، صبح وشام اس نے
ستارہ ساں افق شب پہ جگمگائے تو
تو زندگی کے لیے آسرانہ مان اسے
یہ پھول تو ہر برس کھلیں گے
چاند بھی، پھول بھی ستارا بھی
خوشی کی اجنبی راہوں سے اخر لوٹ آئے ہیں
بکھر گیا وہ طلسم وفا نہ مانوں گا
دیپ پلکوں پہ جلانے آئے
یوں بے رخی برت نہ مری التجا کے ساتھ
بستیاں خوابوں کی جتنی ہیں، سبھی اس پار ہیں
بھروسا ہی سجن سب کچھ، بھروسا ٹوٹ جائے نا
پرچھائیں سے اس کی پیار کرلوں
لجا لجا کے ستاروں سے مانگ بھرتی ہے
چھت پر مری اتر کے عجب پیش وپس میں تھا
نہ مجھے خیال جادہ، نہ مجھے امید منزل
کہیں تو تجھ سے اماں پاؤں، شام تنہائی!
سلگتی بانہوں کی بیٹا بیاں پنھا کے اسے
جلتی رتوں میں بارش برسا گیا ہے کوئی
نہیں، میں قد میں کب تم سے بڑا ہوں
جب وہ موڑ آئے تو پاس اور ذرا ہوجانا
کس خموشی سے ہم نے پی ہے شراب
اسے جو ساتھ نہ لائے بہار کا موسم
رنگ بن بن کے فضاؤں میں بکھرنا اس کا
بچھڑ نہ جائیں کہیں ہم، اسے ہر اس نہ تھا
کچھ اتنے پاس سے ہو کر گزر گیا اک شخص
وہ تیرگی مرے چہرے پہ مل گیا اک شخص
ہر نفس جیسے کوئی چلتی ہوئی تلوار ہے
مرگ دل کا مجھے پیام آیا
یہ میرے احساسات کو ڈستی ہوئی تنہائیاں
وہ، اور اس کا ایک ربط رایگاں، میں کون ہوں؟
جانے کیا اس شخص کو منظور ہے
چاروں طرف سے سنگ ملامت کی زد پہ ہوں
رشتوں کی اک بھیڑ ہے میرے ساتھ مگر تنہاہوں میں
مجھ میں کسی کا عکس نہ پر تو، خالی آئینہ ہوں میں
سینے میں کسک بن کے اترنے کے لیے ہے
کسی بدن کی مہک دور سے بلاتی ہے
فسوں طراز فضا دور دور تک تیری
دل میں کیوں جاگ اٹھی ہے، یہ کسک کیسی ہے؟
سفر ہے سہل مگر پھر بھی خوشگوار نہیں
ربط، بے کار خیالوں سے بڑھانا اس کا
ادھوری قربتوں کے خواب آنکھوں کو دکھا جانا
وہ پیاسے تھے، سمندر سامنے تھا
لالہ زاروں کا سفر، ختم نہ کرتی خوشبو
زندگی میں کسی کی کمی اب نہیں
رنگ ہے، پھول ہے، خوشبو ہے، صبا ہے کوئی
خوشبو سی میرے دل میں اتر جائے گی یہ شام
طلوع صبح حسیں ہے، کہ سامنے تم ہو
مدتوں بعد ہم کسی سے ملے
بچھڑ کر بھی اب وہ مرے سات ہیں
منتظر میری آہٹ کا گھر ہے مرا
اخر اس قید تعلق سے رہا بھی ہوگا
وہ ملے بھی تو ملے ہم سے بچھڑ نے کے لیے
اپنا یہی ہے صحن، یہی سائبان ہے
یہ کس کا نام ہے جو نقش دل نشیں کی طرح
نظر کے سامنے کچھ عکس جھلملائے بہت
وہ ہم سے خفا تھا مگر اتنا بھی نہیں تھا
دھواں دھواں سی صدا اک سنائی دیتی تھی
اس کے ملنے کا احتمال سا کچھ
جس نے جس سے کمان لی ہے
اک ہم ہیں اور اک زہر بھرا جام ہمارا
سن لی صدائے کوہ ندا اور چل پڑے
وہ خاک ڈال چلو درد کے خزینوں پر
نشاط جاں، کہ بھرم کے سوا کچھ اور نہیں
کسی بھی سمت ہو، دل کا سفر اکیلا ہے
زہر حقیقت خواب میں میرے بھر دیتا ہے، کون ہے تو؟
بے دست وپاہوں اور ارادہ سفر کا ہے
اپنی قاتل سوچوں سے کیا کیا گھبراتا ہوں
بہت گھٹن اس حصار میں ہے، حدانا سے گزرنہ جاؤں!
لکھ کر، ورق دل سے مٹانے نہیں ہوتے
کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں
شادماں بھی نہیں، غمیں بھی نہیں
خواب، ان جاگتی آنکھوں کو دکھانے والا
بنددروازوں پہ تم رہ رہ کے یوں دستک نہ دو
چہرے سارے بھلا رہا ہوں
منزل کا سراغ کھو گیا ہے
لوگ کعبے نہ سومنات میں ہیں
ان لکھا لفظ، گو، کتاب میں ہوں
مصلحت کے ہزار پہرے ہیں
موسم کی یہ سختی، یہ پریشان پرندے
کب یہ سیل رواں رکا ہے میاں
آنکھوں کے سب خواب کہیں کھو جاتے ہیں
شعلۂ دل سے یہ زباں روشن
درودیوار پر، کچھ اجنبی پرچھائیاں روشن
روح کو اپنی گنوادیں جسم بے سر کے لیے
کہیں پہ غم تو کہیں پر خوشی ادھوری ہے
سب سے الگ کچھ سوچ رہا ہوں
نہیں احساس ہی کچھ، تیرگی کیا، روشنی ہے!
وقت کا معمول، کوئی دوسرا ہو جاے گا
فضا میں کیسی اداسی ہے، کیا کہا جائے
ہم بھی تھے کبھی اس کے طرفدار، مگر اب؟
کم کسی پل بھی تقاضائے انا ہوتا نہیں
عمر رفتہ گئی کدھر میری
تونے پھر ہم کو پکارا سر پھری پاگل ہوا!
دھوئیں میں دروبام کھونے کا منظر مرے سامنے ہے
جب حکم اک صادر ہوا، تم چپ رہے ہم چپ رہے
کریں بھڑک کے نہ یہ سعی رایگاں، شعلے
مخمور سعیدی کا فن
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔