فہرست
کامران ندیم کی نظمیں
شعری مفاہیم کا مخاطبہ
پیش لفظ
پس نوشت
وحشت ہی سہی
چھو لبوں سے ایاغ وحشت کا
چاک دل ہے کمال وحشت کا
پھر چھلکتا ہے جام وحشت کا
ایک کہانی بڑی پرانی
روکش تیرگی کو مار دیا
ترے در پہ دور جنوں کاٹتے ہیں
لوڈ شیڈنگ
اک تسلسل سے رائگانی ہے
وہ جو اک فرط شادمانی ہے
اینگزائٹی
پھیلتا ہے غبار بے خبری
چھلک اٹھی ہیں بنام حیرت
نہال خزاں گزیدہ
مآل شر گلاب وچراغ کیا دیکھیں
قبلہ وہی ہے نیزہ وخنجر جدا جدا
سفر کا آخری لمحہ
نخل پژ مردہ پہ رہتا ہے زوال ایک نہ ایک
ایک الجھن
خرابہ ور ہوتا ہے خراب آہستہ آہستہ
خوش یقینی
اجالا
مآل
کہاں تک آنکھ میں رکھوں جمال حورو پری
روائے جان پر دوہرا عذاب بنتا ہوں
دعائے نور
اجنبی رشتے جہاں میں کون کس کا آشنا
بیاد فیضؔ صاحب
اک ستارہ کسی چشم حیراں میں ہے
آسماں کو تلاش کیا کرتے
بیسویں صدی کی آخری چاندرات
سپردگی کا دلولہ جمال میں نہیں ملا
یہاں بس اک تماشائی بہت ہے
نایافت
اجڑے ہوئے شہر کی زبانی کوئی غزل
کل شب جو ماہتاب نے سجدہ کیا مجھے
شوق بھی امتحان بھی ہم بھی
موجودیت کا سفر
اے وحشت نظارہ
کرب کے قریب ہے
نظر آتا ہے اٹھتا جان سے دل سے دھواں مجھ کو
باز گشت
یہ جو خیرات ہے صاحب
آرزو کرتے رہیں گے
کاگارے کا گا
نظر تک آیا ہے پہچان تک نہیں آیا
مرے ارض وسماء جھلسا گیا ہے
ایک دن کی مسافت
شب یلدا
اور منظر ہیں بہت چشم خریدار میں اب
کل بھی یہ کہانی تھی، آج بھی کہانی ہے
سنّاٹا
شب یلدا مسلسل ہے
سفر کا اک ہے روشن
آسیب گزیدہ زندگی
کس قدر تیز ہوا ہے باہر
ایک نؔظم ننھی کے لیے
زیبائش
انتظار
کھل گئے ہیں عنبریں گیسوئے دوست
گلوبل ولج
مرگ نغمہ
رم زندگی
صبح کھو گئی جیسے، جاوداں اندھیرا ہے
رات کو پہلو میں اک تصویر روشن ہوگئی
شہوت
تخلیق
نا آسودگی
سینہ شب پہ سحر گھول رہا ہے کوئی
ترے دست حنائی
کافی
پاتال کی آواز
تری آنکھوں کی لو ہے یا چراغ آشنائی ہے
دھند
وہی سر ہے وہی سودا وہی وحشت ہے میاں
ویمپائر
CONTRIBUTORकामरान नदीम
PUBLISHER कामरान नदीम
CONTRIBUTORकामरान नदीम
PUBLISHER कामरान नदीम
فہرست
کامران ندیم کی نظمیں
شعری مفاہیم کا مخاطبہ
پیش لفظ
پس نوشت
وحشت ہی سہی
چھو لبوں سے ایاغ وحشت کا
چاک دل ہے کمال وحشت کا
پھر چھلکتا ہے جام وحشت کا
ایک کہانی بڑی پرانی
روکش تیرگی کو مار دیا
ترے در پہ دور جنوں کاٹتے ہیں
لوڈ شیڈنگ
اک تسلسل سے رائگانی ہے
وہ جو اک فرط شادمانی ہے
اینگزائٹی
پھیلتا ہے غبار بے خبری
چھلک اٹھی ہیں بنام حیرت
نہال خزاں گزیدہ
مآل شر گلاب وچراغ کیا دیکھیں
قبلہ وہی ہے نیزہ وخنجر جدا جدا
سفر کا آخری لمحہ
نخل پژ مردہ پہ رہتا ہے زوال ایک نہ ایک
ایک الجھن
خرابہ ور ہوتا ہے خراب آہستہ آہستہ
خوش یقینی
اجالا
مآل
کہاں تک آنکھ میں رکھوں جمال حورو پری
روائے جان پر دوہرا عذاب بنتا ہوں
دعائے نور
اجنبی رشتے جہاں میں کون کس کا آشنا
بیاد فیضؔ صاحب
اک ستارہ کسی چشم حیراں میں ہے
آسماں کو تلاش کیا کرتے
بیسویں صدی کی آخری چاندرات
سپردگی کا دلولہ جمال میں نہیں ملا
یہاں بس اک تماشائی بہت ہے
نایافت
اجڑے ہوئے شہر کی زبانی کوئی غزل
کل شب جو ماہتاب نے سجدہ کیا مجھے
شوق بھی امتحان بھی ہم بھی
موجودیت کا سفر
اے وحشت نظارہ
کرب کے قریب ہے
نظر آتا ہے اٹھتا جان سے دل سے دھواں مجھ کو
باز گشت
یہ جو خیرات ہے صاحب
آرزو کرتے رہیں گے
کاگارے کا گا
نظر تک آیا ہے پہچان تک نہیں آیا
مرے ارض وسماء جھلسا گیا ہے
ایک دن کی مسافت
شب یلدا
اور منظر ہیں بہت چشم خریدار میں اب
کل بھی یہ کہانی تھی، آج بھی کہانی ہے
سنّاٹا
شب یلدا مسلسل ہے
سفر کا اک ہے روشن
آسیب گزیدہ زندگی
کس قدر تیز ہوا ہے باہر
ایک نؔظم ننھی کے لیے
زیبائش
انتظار
کھل گئے ہیں عنبریں گیسوئے دوست
گلوبل ولج
مرگ نغمہ
رم زندگی
صبح کھو گئی جیسے، جاوداں اندھیرا ہے
رات کو پہلو میں اک تصویر روشن ہوگئی
شہوت
تخلیق
نا آسودگی
سینہ شب پہ سحر گھول رہا ہے کوئی
ترے دست حنائی
کافی
پاتال کی آواز
تری آنکھوں کی لو ہے یا چراغ آشنائی ہے
دھند
وہی سر ہے وہی سودا وہی وحشت ہے میاں
ویمپائر
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।