سرورق
ترتیب
گرد سفر میں راہ نے دیکھا نہیں مجھے
بارشیں فریاد سے ہوتی نہیں
موسم گل کا سماں خانۂ برباد میں ہے
نگارخانۂ شام و سحر کے پاس رہیں
اس دشت بے پناہ کی حد پر بھی خوش نہیں
دل میں کسی کے غم کو جگہ اور دیجیے
یہ زمین اور آسماں موجود ہے
کسی کی یاد میں اب کوئی حسرت کیوں نہیں ہوتی
جو میرے بس میں ہے اس سے زیادہ کیا کرنا
یاد کرنے کے زمانے سے بہت آگے ہیں
ہر سہولت سے بجز محروم ہوتا جائے گا
یار کی گلیوں کو جو جاتی نہیں
نگاہ ناز کی تھوڑی سی میزبانی میں
عشق پیشہ نہیں ہے لوگوں کا
جسے حاصل سمجھ رہے ہیں یہ
شاخ گل کو شجر بنانے سے
رنگ گل سے پیرہن اچھا لگا
عشق چاہتا ہے خود نمائی بھی
دل گنہگار ہے رقیبوں کا
ہے ادھر پائل بجی دیوار میں
یوں بولی تھی چڑیا خالی کمرے میں
جو دربدر ہو اس کا ٹھکانہ درخت ہے
کسی کی دین ہے لیکن مری ضرورت ہے
کیا ضروری ہے کہ میں ہر سو ترا چرچا کروں
ہزاروں میل پر جو روشنی ہے
جب کہیں آتا ہے تنہا آدمی
اے مرے دل اور بھی آہستہ چل
گھر میں رہنا تو اک مصیبت ہے
تم جہاں جاؤ، با مراد رہو
کوئی قصور نہںی میری خوش گمانی کا
تری نظر کا ابھی تک جمال باقی ہے
دعائیں مانگتے رہنے کا کچھ اثر تو ہوا
جو ترے انتظار کا دن ہے
ان دنوں ہے زندگی انتظار کی جگہ
میں کسی کو کھو رہا ہوں ان دنوں
حال اچھا بھی ہے، خراب بھی ہے
آگ پانی میں لگا لیتا ہوں میں
ایسا لگتا ہے جیسے پوری ہے
جی چاہتا ہے کوئی مری بات تو سنے
کس قدر محدود کر دیتا ہے غم انسان کو
ان دنوں دل گا رہا ہے دوستو
دن بہ دن محصور ہوتا جا رہا ہوں دوستو
میں اس کی انجمن میں اکیلا نہیں گیا
عشق اک دیوانگی ہے اور بس
پھولوں کی انجمن میں بہت دیر تک رہا
سارے عالم پہ ہوگیا طاری
سیر اور لطف کے اور بھی مقام ہیں
یوں نہیں ہے کہ اس ے میں نے مسیحا سمجھا
عشق کی دیوانگی مٹ جائے گی
غبار دل سے نکالا، نظر کو صاف کیا
فریب گاہ محبت اگر ضروری ہے
اچھا ہوا کہ اس نے ارادہ نہیں کیا
دن گزارا کہیں اکیلے میں
کوئی آئے توشاد رہتا ہے
شاہ کو دیجے، گدا کو دیجیے
یوں حسن کی بلا میں گرفتار ہم ہوے
کچھ گھروندے سے بنا لیتا ہے دل
ایسی کئی دنوں سے حالت ہے زندگی کی
کچھ اور دیر نہ آتا تو جیسے مر جاتا
ایسا نہیں کہ کچھ بھی دے کر خرید لیجے
نہ دن کو دن سمجھتے ہیں، نہ شب کو شب سمجھتے ہیں
ستارہ شام کا جب کہکشاں ہونے ہی والا تھا
درد بڑھتے ہوے بھی کچھ نہ کہا
اک جگہ رہنا اگر عادت نہیں افلاک کی
سیہ کہتا ہے میرے سائے سے
اک شخص ہمارے گھرانے میں
دل مضطرب ہے اور پریشان جسم ہے
زندگی جب کسی کے نام ہوئی
سرورق
ترتیب
گرد سفر میں راہ نے دیکھا نہیں مجھے
بارشیں فریاد سے ہوتی نہیں
موسم گل کا سماں خانۂ برباد میں ہے
نگارخانۂ شام و سحر کے پاس رہیں
اس دشت بے پناہ کی حد پر بھی خوش نہیں
دل میں کسی کے غم کو جگہ اور دیجیے
یہ زمین اور آسماں موجود ہے
کسی کی یاد میں اب کوئی حسرت کیوں نہیں ہوتی
جو میرے بس میں ہے اس سے زیادہ کیا کرنا
یاد کرنے کے زمانے سے بہت آگے ہیں
ہر سہولت سے بجز محروم ہوتا جائے گا
یار کی گلیوں کو جو جاتی نہیں
نگاہ ناز کی تھوڑی سی میزبانی میں
عشق پیشہ نہیں ہے لوگوں کا
جسے حاصل سمجھ رہے ہیں یہ
شاخ گل کو شجر بنانے سے
رنگ گل سے پیرہن اچھا لگا
عشق چاہتا ہے خود نمائی بھی
دل گنہگار ہے رقیبوں کا
ہے ادھر پائل بجی دیوار میں
یوں بولی تھی چڑیا خالی کمرے میں
جو دربدر ہو اس کا ٹھکانہ درخت ہے
کسی کی دین ہے لیکن مری ضرورت ہے
کیا ضروری ہے کہ میں ہر سو ترا چرچا کروں
ہزاروں میل پر جو روشنی ہے
جب کہیں آتا ہے تنہا آدمی
اے مرے دل اور بھی آہستہ چل
گھر میں رہنا تو اک مصیبت ہے
تم جہاں جاؤ، با مراد رہو
کوئی قصور نہںی میری خوش گمانی کا
تری نظر کا ابھی تک جمال باقی ہے
دعائیں مانگتے رہنے کا کچھ اثر تو ہوا
جو ترے انتظار کا دن ہے
ان دنوں ہے زندگی انتظار کی جگہ
میں کسی کو کھو رہا ہوں ان دنوں
حال اچھا بھی ہے، خراب بھی ہے
آگ پانی میں لگا لیتا ہوں میں
ایسا لگتا ہے جیسے پوری ہے
جی چاہتا ہے کوئی مری بات تو سنے
کس قدر محدود کر دیتا ہے غم انسان کو
ان دنوں دل گا رہا ہے دوستو
دن بہ دن محصور ہوتا جا رہا ہوں دوستو
میں اس کی انجمن میں اکیلا نہیں گیا
عشق اک دیوانگی ہے اور بس
پھولوں کی انجمن میں بہت دیر تک رہا
سارے عالم پہ ہوگیا طاری
سیر اور لطف کے اور بھی مقام ہیں
یوں نہیں ہے کہ اس ے میں نے مسیحا سمجھا
عشق کی دیوانگی مٹ جائے گی
غبار دل سے نکالا، نظر کو صاف کیا
فریب گاہ محبت اگر ضروری ہے
اچھا ہوا کہ اس نے ارادہ نہیں کیا
دن گزارا کہیں اکیلے میں
کوئی آئے توشاد رہتا ہے
شاہ کو دیجے، گدا کو دیجیے
یوں حسن کی بلا میں گرفتار ہم ہوے
کچھ گھروندے سے بنا لیتا ہے دل
ایسی کئی دنوں سے حالت ہے زندگی کی
کچھ اور دیر نہ آتا تو جیسے مر جاتا
ایسا نہیں کہ کچھ بھی دے کر خرید لیجے
نہ دن کو دن سمجھتے ہیں، نہ شب کو شب سمجھتے ہیں
ستارہ شام کا جب کہکشاں ہونے ہی والا تھا
درد بڑھتے ہوے بھی کچھ نہ کہا
اک جگہ رہنا اگر عادت نہیں افلاک کی
سیہ کہتا ہے میرے سائے سے
اک شخص ہمارے گھرانے میں
دل مضطرب ہے اور پریشان جسم ہے
زندگی جب کسی کے نام ہوئی
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.