سرورق
لو سنبھالو مجھے درد جگری بڑھتا ہے
باغ عالم میں خزان دیدہ نہ تھا گلشن دل
ضبط ممکن نہیں لب میل فغاں کرتے ہیں
یاد ایام کہ بے رنج وتعب کٹتے تھے
قصہ یہ تھا کہ اب آہیں نہ بھرو ں گا ہر گز
رابطہ غیر سے پہلے تو نہ تھا کچھ تم کو
جانتے ہیں کہ رہا کرتے ہو بیزار بہت
ہاں دیکھو اگر اسکے تو پریشانی ہو
اب تو ہنستے ہو مگر خوب رولاؤں گا تمہیں
شرمگیں آنکھ کو کیا کیا نہ پرارماں دیکھو
سرخی پان سے رواں خون جگر دیکھو ستم
جب وہ جھنکواے کنوئیں چاہ ذقن دکھلا کر
وہ کف دست کف دست بیاباں دکھلاے
پشت پا آپکے گالوں سے صفا دیکھے ہیں
ٹوہ سیمیں دیکھو توسر پھوڑو تم
پیارے دیکھے نہ ہو وہ چیز نئی دیکھو تم
خوبی وحسن بھی ہے خلوت مروت بھی ہے
اس زمانے میں تو بیشک وہ حسیں یکتا ہے
اسطرح کا کوئی انساں نہ ہوا اور نہ ہے
اپنے آغا کو سونچوتو کہ یہ ڈھنگ تھے کب
دل لگی اپنی اسی کمری پہ موقوف ہے اب
ہم خفا ہو کے نہ آتے تھے وہ دن بھول گئے
سب نہیں تم کو اگر ہم سے محبت نہ سہی
تمکو سودای محبت تھا بتاؤ کہ مجھے
یہ لگاوٹ جو نظر آی تو شیداے ہوے ہم
جتنے عاشق ہیں یہ عیار ہیں کیا سمجھے ہو
جنسے اب ربط ومحبت ہی وہ بیگانے ہیں
پھر کہے دیتے ہیں پچتاؤگے مانو آؤ
گر یہی طو ر ہیں آخر تو یہی ہونا ہے
صحبت غیر مبارک رہی آرام کرو
دیکھو ایسا نہ ہو برعکس طبیعت ہو جاے
جس طرح اپنی بسر ہو گی بسر کر لیں گے
لیکن افسوس ابھی دل میں تھے ارماں کیا کیا
دیکھئے آئے نہ اب حرف شکایت لب تک
جامہ زیبی تمہیں اس طرح سکھاتی پیاری
نازو انداز میں بمثیل تمہیں کردیتے
دلبری میں کوئی محبوب نہ تم سا ہوتا
ہاے رہ رہ کے یہ افسوس مجھے آتا ہے
تضمین جناب مہر صاحب لکھنوی سلمہ برغزل استاد نسیم صاحب
مہر بس ہر زہ روائی سی نہیں کچھ حاصل
اضطراب د ل بیتاب کڑہاتا ہی انہیں
صبر اظہار سی رتبے میں سوا ہوتا ہے
بند آنکھیں ہوی جاتی ہیں لبوں پر دم ہے
بعد مردن ہمیں درکار ہے نیکی نہ بدی
وجہ محرومیٔ مقصد ہے تمناے سوال
ہے زباں یا کوئی میناے بت خود مفتون
ہاں طلبگار تھی ہم کو کن فیکون سے پہلے
ہم تو کافر نہیں اندانہ ہی مذہب اپنا
آب ہوتی ہیں جگر آنکھ میں وہ تیزی ہے
سب طلبگار مرورت ہیں وہ ہث پر ظالم
تابکی سوزش مستانہ پے رسوائی
بیوفا دشمن جاں شوخ ستمکر قاتل
ہوتی ہیں لال زباں صاحب ابواب سکوت
مدتوں تک رہی زنداں میں کڑی سب جھیلے
نیند کا نام جو آتا ہے شب فرقت میں
ایک مدت سے کیا مرحلۂ رحم کو طے
حسن والفت میں جو یہ ردوبدل ہیں ظالم
خاندان میں جہت ننک ہوں وہ رسوا ہوں
قبرخا صاں الٰہی کوہی جای آرام
طالب دید نہ کھ وصل کا ہوں میں سایل
کب یہ تاثیر ہے اظہار بیاں کے قاتل
ای گل خندہ زن مہر وعنایت تجھ سے
عشق کا نیک کسی طرح سے انجام نہیں
AUTHORمہرلکھنوی
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مطبع شمشیہ
AUTHORمہرلکھنوی
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER مطبع شمشیہ
سرورق
لو سنبھالو مجھے درد جگری بڑھتا ہے
باغ عالم میں خزان دیدہ نہ تھا گلشن دل
ضبط ممکن نہیں لب میل فغاں کرتے ہیں
یاد ایام کہ بے رنج وتعب کٹتے تھے
قصہ یہ تھا کہ اب آہیں نہ بھرو ں گا ہر گز
رابطہ غیر سے پہلے تو نہ تھا کچھ تم کو
جانتے ہیں کہ رہا کرتے ہو بیزار بہت
ہاں دیکھو اگر اسکے تو پریشانی ہو
اب تو ہنستے ہو مگر خوب رولاؤں گا تمہیں
شرمگیں آنکھ کو کیا کیا نہ پرارماں دیکھو
سرخی پان سے رواں خون جگر دیکھو ستم
جب وہ جھنکواے کنوئیں چاہ ذقن دکھلا کر
وہ کف دست کف دست بیاباں دکھلاے
پشت پا آپکے گالوں سے صفا دیکھے ہیں
ٹوہ سیمیں دیکھو توسر پھوڑو تم
پیارے دیکھے نہ ہو وہ چیز نئی دیکھو تم
خوبی وحسن بھی ہے خلوت مروت بھی ہے
اس زمانے میں تو بیشک وہ حسیں یکتا ہے
اسطرح کا کوئی انساں نہ ہوا اور نہ ہے
اپنے آغا کو سونچوتو کہ یہ ڈھنگ تھے کب
دل لگی اپنی اسی کمری پہ موقوف ہے اب
ہم خفا ہو کے نہ آتے تھے وہ دن بھول گئے
سب نہیں تم کو اگر ہم سے محبت نہ سہی
تمکو سودای محبت تھا بتاؤ کہ مجھے
یہ لگاوٹ جو نظر آی تو شیداے ہوے ہم
جتنے عاشق ہیں یہ عیار ہیں کیا سمجھے ہو
جنسے اب ربط ومحبت ہی وہ بیگانے ہیں
پھر کہے دیتے ہیں پچتاؤگے مانو آؤ
گر یہی طو ر ہیں آخر تو یہی ہونا ہے
صحبت غیر مبارک رہی آرام کرو
دیکھو ایسا نہ ہو برعکس طبیعت ہو جاے
جس طرح اپنی بسر ہو گی بسر کر لیں گے
لیکن افسوس ابھی دل میں تھے ارماں کیا کیا
دیکھئے آئے نہ اب حرف شکایت لب تک
جامہ زیبی تمہیں اس طرح سکھاتی پیاری
نازو انداز میں بمثیل تمہیں کردیتے
دلبری میں کوئی محبوب نہ تم سا ہوتا
ہاے رہ رہ کے یہ افسوس مجھے آتا ہے
تضمین جناب مہر صاحب لکھنوی سلمہ برغزل استاد نسیم صاحب
مہر بس ہر زہ روائی سی نہیں کچھ حاصل
اضطراب د ل بیتاب کڑہاتا ہی انہیں
صبر اظہار سی رتبے میں سوا ہوتا ہے
بند آنکھیں ہوی جاتی ہیں لبوں پر دم ہے
بعد مردن ہمیں درکار ہے نیکی نہ بدی
وجہ محرومیٔ مقصد ہے تمناے سوال
ہے زباں یا کوئی میناے بت خود مفتون
ہاں طلبگار تھی ہم کو کن فیکون سے پہلے
ہم تو کافر نہیں اندانہ ہی مذہب اپنا
آب ہوتی ہیں جگر آنکھ میں وہ تیزی ہے
سب طلبگار مرورت ہیں وہ ہث پر ظالم
تابکی سوزش مستانہ پے رسوائی
بیوفا دشمن جاں شوخ ستمکر قاتل
ہوتی ہیں لال زباں صاحب ابواب سکوت
مدتوں تک رہی زنداں میں کڑی سب جھیلے
نیند کا نام جو آتا ہے شب فرقت میں
ایک مدت سے کیا مرحلۂ رحم کو طے
حسن والفت میں جو یہ ردوبدل ہیں ظالم
خاندان میں جہت ننک ہوں وہ رسوا ہوں
قبرخا صاں الٰہی کوہی جای آرام
طالب دید نہ کھ وصل کا ہوں میں سایل
کب یہ تاثیر ہے اظہار بیاں کے قاتل
ای گل خندہ زن مہر وعنایت تجھ سے
عشق کا نیک کسی طرح سے انجام نہیں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔