یہ مضامین خیال میں
ورود اورمیں
ہے مول بھاؤ میں بازار میں ہے ساتھ مرے
ایک کار ہنر تماشا ہے
کسی کے خواب کو احساس سے باندھا ہوا ہے
توشہ خواب لیے چلتا ہوں
پس خیال کوئی سلسلہ نہیں ٹکتا
جان دی ہے امان چاہتا ہوں
وجود خاک میں یہ نغمہ لہو پانی
امکان سے باہر کبھی آثار سے آگے
یہی دھڑ کا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے
رہے گا جسم میں اور جان سے گذارے گا
ہر قدم موج بلا سے واسطہ ے
پانی کا اضطراب مرے جسم و جاں میں اور
لہو سے چشمہ حیواں نکالنا تھا کبھی
صحرا ملال دھوپ تھکن بے قرار ریت
اضطراب جسم وجاں ہے اور میں
شعور آگہی کے فلسفے میں جلتا ہوں
صحرا سا گرسب پانی
مرے کہے پہ ذرا اعتبار کرنا تھا
صدیوں کا انتظار مرے جسم و جاں میں اور
رات ہوں اندھیرا ہوں
صبا کی خاک نوردی سبو کی ویرانی
نیند کیسی؟ خواب کیا؟ جلتے شکارے دیکھنا
توشۂ دشت خلا خالی ہے
بات یہ ہے کہ کوئی بات پرانی بھی نہیں
میں تماشا ہوں تو تماشا ہے
نہ راس آیا مجھے خوش ادا بدن میرا
بلا کی پیاس تھی حد نظر میں پانی تھا
رواں ہے موج فنا جسم و جاں اتار مجھے
اگر چہ آج مری چشم تر میں آوے ہے
اک تماشا یہ دکھا دینے کا
اس لیے بیقرار ہے شاید
اب کوئی آرام مجھے پر کاہے کو
ورود جسم تھا جاں کا عذاب ہونے لگا
سارے آثار سب امکان بدل جاتے ہیں
خالد اب یہ بیکرانی اور لکھنے کی نہیں
شجرپانی ہوا یکسر خلا ہے
آتے ہی تیرے جاں مری جان میں آئے
سیاہ رات کے قصے سنا رہی ہے ہوا
حرف تازہ کہ مری اور چلا آتا ہے
سفر رستہ صعوبت خواب صحرا
خود کشی ارمان دریا بے ثبات
خیمہ جاں میں ستارے اترے
سر بسر خواب ہوں پائندہ کیا
خاک کی صورت تصور کیا اچھاہے
جبین وقت پہ لکھا ہوا نشاں بھی نہ تھا
دھواں، شور ش، روانی ، بے یقینی
آزاد غزلیں
زندہ رہنے کے بہت سامان تھے
لوح محفوظ پہ لکھا ہوتا
اک سکوت مسلسل میں گرداب ہے
سارے اسرار نہاں کھولتی ہے
کہ جستہ جستہ بھلا دیا ہے
جام جم رہتا نہیں
زندگی جادۂ عرفاں سے سوا چاہتی ہے؟
بند دریدہ
رابطہ چل پڑا
نظمیں
زبیر اکراسنگ اور میں
زبیرا کراسنگ پر
کوئی آنے کا نہیں اب
یعنی
نومینس لینڈ
آپ قطار میں ہیں
اور اب ہم ایلین کے منتظر ہیں
بلا عنوان
ہمیں معلوم ہے اب کیا کرو گے تم
زوم
یا بنی اسرائیل
سفر معکوس ہے
ایس ادا یس
دشت ہم قدم ہے
آسمان روشن ہے
کمپیوٹر اور میں
موت
انہدام
نہیں اب عشق!
اصل میں یہ دشت تھا
کہ ہم تو لوٹنے ٹوالے تھے لیکن
اے مری دیوار گریہ!
اے حضرت جن!
جوکر
جنگل سے جنگل کی طرف
دریافت
الف
کہ بس اک خواب
اس کو آثار قدیمہ سے محبت ہے
ورود
دشت آفتاب
سراب
کلینڈر اور میں
ہوا سب جانتی ہے
میں اور ہزار دشت
آپشن لیس آدمی کا تجربہ
راون زندہ باد!
الجھن
اے خدا!
بلا عنوان
بلاعنوان
آب جو
بلا عنوان
یہ دریا رخ بدلتا جا رہا ہے
لہو کو زوم کرتے ہیں
آئی سو لیشن وارڈ میں پڑی زندگی
یہ مضامین خیال میں
ورود اورمیں
ہے مول بھاؤ میں بازار میں ہے ساتھ مرے
ایک کار ہنر تماشا ہے
کسی کے خواب کو احساس سے باندھا ہوا ہے
توشہ خواب لیے چلتا ہوں
پس خیال کوئی سلسلہ نہیں ٹکتا
جان دی ہے امان چاہتا ہوں
وجود خاک میں یہ نغمہ لہو پانی
امکان سے باہر کبھی آثار سے آگے
یہی دھڑ کا مرے پندار سے باندھا ہوا ہے
رہے گا جسم میں اور جان سے گذارے گا
ہر قدم موج بلا سے واسطہ ے
پانی کا اضطراب مرے جسم و جاں میں اور
لہو سے چشمہ حیواں نکالنا تھا کبھی
صحرا ملال دھوپ تھکن بے قرار ریت
اضطراب جسم وجاں ہے اور میں
شعور آگہی کے فلسفے میں جلتا ہوں
صحرا سا گرسب پانی
مرے کہے پہ ذرا اعتبار کرنا تھا
صدیوں کا انتظار مرے جسم و جاں میں اور
رات ہوں اندھیرا ہوں
صبا کی خاک نوردی سبو کی ویرانی
نیند کیسی؟ خواب کیا؟ جلتے شکارے دیکھنا
توشۂ دشت خلا خالی ہے
بات یہ ہے کہ کوئی بات پرانی بھی نہیں
میں تماشا ہوں تو تماشا ہے
نہ راس آیا مجھے خوش ادا بدن میرا
بلا کی پیاس تھی حد نظر میں پانی تھا
رواں ہے موج فنا جسم و جاں اتار مجھے
اگر چہ آج مری چشم تر میں آوے ہے
اک تماشا یہ دکھا دینے کا
اس لیے بیقرار ہے شاید
اب کوئی آرام مجھے پر کاہے کو
ورود جسم تھا جاں کا عذاب ہونے لگا
سارے آثار سب امکان بدل جاتے ہیں
خالد اب یہ بیکرانی اور لکھنے کی نہیں
شجرپانی ہوا یکسر خلا ہے
آتے ہی تیرے جاں مری جان میں آئے
سیاہ رات کے قصے سنا رہی ہے ہوا
حرف تازہ کہ مری اور چلا آتا ہے
سفر رستہ صعوبت خواب صحرا
خود کشی ارمان دریا بے ثبات
خیمہ جاں میں ستارے اترے
سر بسر خواب ہوں پائندہ کیا
خاک کی صورت تصور کیا اچھاہے
جبین وقت پہ لکھا ہوا نشاں بھی نہ تھا
دھواں، شور ش، روانی ، بے یقینی
آزاد غزلیں
زندہ رہنے کے بہت سامان تھے
لوح محفوظ پہ لکھا ہوتا
اک سکوت مسلسل میں گرداب ہے
سارے اسرار نہاں کھولتی ہے
کہ جستہ جستہ بھلا دیا ہے
جام جم رہتا نہیں
زندگی جادۂ عرفاں سے سوا چاہتی ہے؟
بند دریدہ
رابطہ چل پڑا
نظمیں
زبیر اکراسنگ اور میں
زبیرا کراسنگ پر
کوئی آنے کا نہیں اب
یعنی
نومینس لینڈ
آپ قطار میں ہیں
اور اب ہم ایلین کے منتظر ہیں
بلا عنوان
ہمیں معلوم ہے اب کیا کرو گے تم
زوم
یا بنی اسرائیل
سفر معکوس ہے
ایس ادا یس
دشت ہم قدم ہے
آسمان روشن ہے
کمپیوٹر اور میں
موت
انہدام
نہیں اب عشق!
اصل میں یہ دشت تھا
کہ ہم تو لوٹنے ٹوالے تھے لیکن
اے مری دیوار گریہ!
اے حضرت جن!
جوکر
جنگل سے جنگل کی طرف
دریافت
الف
کہ بس اک خواب
اس کو آثار قدیمہ سے محبت ہے
ورود
دشت آفتاب
سراب
کلینڈر اور میں
ہوا سب جانتی ہے
میں اور ہزار دشت
آپشن لیس آدمی کا تجربہ
راون زندہ باد!
الجھن
اے خدا!
بلا عنوان
بلاعنوان
آب جو
بلا عنوان
یہ دریا رخ بدلتا جا رہا ہے
لہو کو زوم کرتے ہیں
آئی سو لیشن وارڈ میں پڑی زندگی
Thanks, for your feedback
अध्ययन जारी रखने के लिए कृपया कोड अंकित करें। कुछ सुरक्षा कारणों से यह आवश्यक है। इस सहयोग के लिए आपके आभारी होंगे।