فہرست
نیند سے پہلے
سیمگوں خواب بسرنے لگے افسانہ ہوئے
ٹوٹتے نشہ کی تلخی ہے ابھی تک باقی
اشک بہہ جائیں گے آثار سحر سے پہلے
نقش پا
یہ رہروان زندگی خبر نہیں کہاں گئے
یہ نیم خواب گھاس پر اداس اداس نقش پا
نقرئی گھنٹیاں سی بجتی ہیں
دور کی آواز
کون آوارہ ہواؤں کا سبکسار ہجوم؟
موت
آج سوچا ہے کہ احساس کو زائل کر دوں
فیصلہ
کالے ساگر کی موجوں میں ڈوب گئیں دھندلی آشائیں
نئی صبح
بولی خود سر ہوا ایک ذرہ ہے تو
اعتماد
اک دھند لکا سا ہے دم توڑ چکا ہے سورج
تنہائی میں
میرے شانوں پہ ترا سر تھا ، نگاہیں نمناک
پگڈنڈی
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
تم سے ہمیں اور کیا ملے گا
جان شریں
جبر
زرد پتوں کا وہی ڈھیر وہی دور خزاں
کہاں تو یہ تھا کہ میری چاہت میں گد گدی سی تھی لوریوں کی
جب اور اب
دیار غیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو
اتفاق
عہد وفا
یہی شاخ تم جس کے نیچے کسی کیلئے چشم نم ہو یہاں اب سے کچھ سال پہلے
تبدیلی
اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں
ایک سوال
زمیں کے تاریک گہرے سینے میں پھینک دو اس کا جسم خاکی
شکوہ
خدائے عالم بلند وبرتر
خون خاک میں جذب ہو جاتا ہے اور
خاک وخون
کیا ہوئی آپ کی وہ گرمئ گفتار فریکاہ
ایک کہانی
رات کے بندھن توڑ چکی تھیں
تجھے تو یاد نہ ہوگی وہ شام کیف آگیں
ریت کے محل
پندرہ اگست
یہی دن ہے جس کیلئے میں نے کاٹی تھیں آنکھوں میں راتیں
کہاں تو لبو تھا تصور ہی سے دل
آزادی کے بعد
نہیں فرصت یک نگہ آدمی کو
اٹھو سا کنان تہہ ارض اسفل
اٹھو ساکنان تہ ارض اسفل
بہائم نے تہذیب کی پوستینیں
سوا نیزے پر آگیا آج سورج
صنم ساز واصنام روتے ہیں تم کو
مہک آئی آلودہ خوں پیرہن کی
یو ں نہ کہو
کبھی نہ اس کے بھاگ کھلیں گے پیاسی مٹی رہے گی پیاسی
میں نے دیکھا ہے ٹپکتے رگ آہن سے لہو
جنگ
دہقان سنوارتا ہے مٹی
ہم نے اس لاش کو بے گو روکفن چھوڑا دیا
محبت
رات میں دیر تک اڑتے بادل کھلے چاند کی کشمکش!
سنگ و خشت وآہن سے
وہ مکان
زندگی اک طویل بل کھاتی
انتظار
سرما کی اداس چاندنی کا
ترک وفا
کون ہو بنت مہ ومہردرخشان بخوم
شکست خواب
ڈھلی رات تارے جھپکنے لگے آنکھ شبنم کے ناسفتہ موتی
آخر شب
آخری ملاقات
آؤ کہ جشن مرگ محبت منائیں ہم
رخصت
فضائیں نم گرد وپیش بوجھل زمین پاؤں تلے ہے دلدل
ایک لڑکا
دیار شرق کی آباد یوں کے اونچے ٹیلو پر
تماشا
جشن نور وز ہے سجے کوچے
میں جب طفل مکتب تھا ہر بات ہر فلسفہ جانتا تھا
آگہی
لو وہ چاہ شب سے نکلا پچھلے پہر پیلا مہتاب
یادیں
مفتئ شہر کا ہے یہ فتوےٰ
میرا نام
جب نئے شہر میں جاتا ہوں وہاں کے ورو بام
نیا شہر!
اب نہ شوریدہ سری ہے نہ امنگوں کا ہجوم
دعاء
عمر گریزاں کے نام
عمر یوں مجھ سے گریزاں ہے کہ ہر گام پہ میں
بہار بھی آکے جا چکی تھی خزاں بھی گلشن سے جارہی ہے
مامن
نکہت گل نے سحر دم اسے بیدار کیا
پس دیوار چمن
دل ہے کہ اجاڑ کوئی بستی
کتبہ
اگر آپ چاہتے ہیں کہ
فہرست
نیند سے پہلے
سیمگوں خواب بسرنے لگے افسانہ ہوئے
ٹوٹتے نشہ کی تلخی ہے ابھی تک باقی
اشک بہہ جائیں گے آثار سحر سے پہلے
نقش پا
یہ رہروان زندگی خبر نہیں کہاں گئے
یہ نیم خواب گھاس پر اداس اداس نقش پا
نقرئی گھنٹیاں سی بجتی ہیں
دور کی آواز
کون آوارہ ہواؤں کا سبکسار ہجوم؟
موت
آج سوچا ہے کہ احساس کو زائل کر دوں
فیصلہ
کالے ساگر کی موجوں میں ڈوب گئیں دھندلی آشائیں
نئی صبح
بولی خود سر ہوا ایک ذرہ ہے تو
اعتماد
اک دھند لکا سا ہے دم توڑ چکا ہے سورج
تنہائی میں
میرے شانوں پہ ترا سر تھا ، نگاہیں نمناک
پگڈنڈی
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
تم سے ہمیں اور کیا ملے گا
جان شریں
جبر
زرد پتوں کا وہی ڈھیر وہی دور خزاں
کہاں تو یہ تھا کہ میری چاہت میں گد گدی سی تھی لوریوں کی
جب اور اب
دیار غیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو
اتفاق
عہد وفا
یہی شاخ تم جس کے نیچے کسی کیلئے چشم نم ہو یہاں اب سے کچھ سال پہلے
تبدیلی
اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں
ایک سوال
زمیں کے تاریک گہرے سینے میں پھینک دو اس کا جسم خاکی
شکوہ
خدائے عالم بلند وبرتر
خون خاک میں جذب ہو جاتا ہے اور
خاک وخون
کیا ہوئی آپ کی وہ گرمئ گفتار فریکاہ
ایک کہانی
رات کے بندھن توڑ چکی تھیں
تجھے تو یاد نہ ہوگی وہ شام کیف آگیں
ریت کے محل
پندرہ اگست
یہی دن ہے جس کیلئے میں نے کاٹی تھیں آنکھوں میں راتیں
کہاں تو لبو تھا تصور ہی سے دل
آزادی کے بعد
نہیں فرصت یک نگہ آدمی کو
اٹھو سا کنان تہہ ارض اسفل
اٹھو ساکنان تہ ارض اسفل
بہائم نے تہذیب کی پوستینیں
سوا نیزے پر آگیا آج سورج
صنم ساز واصنام روتے ہیں تم کو
مہک آئی آلودہ خوں پیرہن کی
یو ں نہ کہو
کبھی نہ اس کے بھاگ کھلیں گے پیاسی مٹی رہے گی پیاسی
میں نے دیکھا ہے ٹپکتے رگ آہن سے لہو
جنگ
دہقان سنوارتا ہے مٹی
ہم نے اس لاش کو بے گو روکفن چھوڑا دیا
محبت
رات میں دیر تک اڑتے بادل کھلے چاند کی کشمکش!
سنگ و خشت وآہن سے
وہ مکان
زندگی اک طویل بل کھاتی
انتظار
سرما کی اداس چاندنی کا
ترک وفا
کون ہو بنت مہ ومہردرخشان بخوم
شکست خواب
ڈھلی رات تارے جھپکنے لگے آنکھ شبنم کے ناسفتہ موتی
آخر شب
آخری ملاقات
آؤ کہ جشن مرگ محبت منائیں ہم
رخصت
فضائیں نم گرد وپیش بوجھل زمین پاؤں تلے ہے دلدل
ایک لڑکا
دیار شرق کی آباد یوں کے اونچے ٹیلو پر
تماشا
جشن نور وز ہے سجے کوچے
میں جب طفل مکتب تھا ہر بات ہر فلسفہ جانتا تھا
آگہی
لو وہ چاہ شب سے نکلا پچھلے پہر پیلا مہتاب
یادیں
مفتئ شہر کا ہے یہ فتوےٰ
میرا نام
جب نئے شہر میں جاتا ہوں وہاں کے ورو بام
نیا شہر!
اب نہ شوریدہ سری ہے نہ امنگوں کا ہجوم
دعاء
عمر گریزاں کے نام
عمر یوں مجھ سے گریزاں ہے کہ ہر گام پہ میں
بہار بھی آکے جا چکی تھی خزاں بھی گلشن سے جارہی ہے
مامن
نکہت گل نے سحر دم اسے بیدار کیا
پس دیوار چمن
دل ہے کہ اجاڑ کوئی بستی
کتبہ
اگر آپ چاہتے ہیں کہ
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.