یاد گار جگر!
ترتیب
جگر کے جاننے والوں سے
انتساب
تعارف
پیش لفظ
دور اوّل
دور دوم
دور سوم
جگر کا غیر مطبوعہ ، تلف شدہ و حذف کردہ کلام
تصوّر جب کسی دست نگاری کا رہا دل میں
یہاں نزع ہے انکے اب پر ہنسی ہے
حسیات جگر
اس کوچہ میں ہوں صورت نقس کف پا میں
ہائے رولینے سے بھی کب بوجھ دل کا کم ہوا
اُف وہ پروانوں کا نذرغم پنہاں ہونا
نہ بھولے گا یہ عالم عشق کا سر سرسے گذرجانا
جان ہے بیقراری جسم ہے پائمال سا
غشی نے نہ دامن پکڑ نے دیا
دیتی ہے پتہ ساقی ہر مست کی انگڑائی
ہم ان کے سامنے حالت یہ ہیں بتائے ہوئے
جوش وحشت نے جو چھیڑا دیدۂ خونبار کو
پھرتا ہے چشم شوق میں نقشہ بہار کا
سوز غم دیکھ نہ برباد ہو حاصل میرا
اظہار درد عشق کے قابل بنا دیا
یوں ٹوٹ کے اب خنجر قاتل نہیں ملتا
کوئی تو خیر خواہ دل نا صبور تھا
یہی کچھ دیر اگر شور ش فریاد ہے آج
کیا قیامت تھا الٰہی شکوۂ بیداد بھی
کس کو معلوم کہ ہے یاد ل ناشاد نہیں
یوں درد کے ہاتھوں میں لبریز فغاں ہوتا
میں شوق دید میں اتنا نحیف وزار ہوا
کس قدر حسن کا عالم ترے مستانہ ہے
جمال دوست جو درپردہ لطف یار نہ ہو
سوز غم الفت کا ظاہر یہ اثر دیکھا
آگئی کونسی حسرت دل سوزاں کے قریب
تاب اس بزم میں دیدار کی لائی نہ گئی
ضبط میں بھی یہ روش اودل ناشاد رہے
نزع میں حالت مری اسدرجہ بے تابانہ تھی
محفوظ اک جگہ بھی نہیں جسم زار میں
دل جو گم سلسلہ زلف گرہ گیر میں ہے
جو ہجر گل کی نشانی ہے داستاں صیاد
کیوں نہ ہو شوق سے عشق کے پیمانے کا
کر گیا کیسا ستم یہ جلوۂ جانا نہ آج
یہ کہہ کہہ کر تسلّی دل ناشاد کرتے ہیں
ٹھیک احساس ہی باقی تن ہیجاں میں نہیں
حسرت یہ ہے کہ پیش نظر رات دن رہیں
کار گر کچھ دل کی آہیں شام ہجراں ہو گئیں
یہ کیا آج اوچشم تر دیکھتے ہیں
کار گر کچھ دل کی آہیں شام ہجراں ہو گئیں
یوں آج ان کے سامنے شرح فغاں رہے
کیا کروں اک قطرۂ خوں بھی جو دامن میں نہیں
کس قیامت کا اثر یہ جذبۂ کامل میں ہے
یہ کس کی یاد چھریاں لے کے دل میں بار بار آئی
غضب حسن آفریں فیض جمال روئے جاناں تھا
کون سی بلبل نے اے صیاد پھر دیکھا قفس
دھجیاں دست جنوں سے جیب و داماں میں نہیں
وہ آتے اور نہ ہم شرح آرزو کرتے
آنکھوں سے دل میں ہے کبھی دل سے جگر میں ہے
اثر پیدا ہوا کس کی فغاں میں
متفرق اشعار
نہ وہ دل نہ تن میں وہ جاں رہ گئی
بجز اک جلوۂ دیدار سب سے بے خبر ہوتا
غم بھری جان توارمان بھرا دل لے کر
مثنوی سرود حقیقت
ناقوس کہیں کہیں اذاں میں
متفرقات
شعلۂ طور مطبوعہ ۱۹۴۶ ء
لب پہ نالہ نہیں ، شکوہ نہیں فریاد نہیں
دور دوم
صبح اس رنگ سے تھی رقص کنا ں شمع کی خاک
واللہ کرم تیرا جب تک کہ نہ شامل تھا
غیر مطبوعہ غزل
مبارک عشق کو اب بے نیازجسم و جاں ہونا
ترے ہی شیوۂ عاشق کشی کی تجھ کو قسم
اٹھ گیا کیا جگر درد بہ دل شعلہ بہ جاں
جلووں کا اثر دہام ہے محبوب پاس ہے
شکایت دل ایذا طلب کو کیا کیجے
میں نہیں رہتا ہوں میں جب پاس آتا ہے وہ شوخ
جب تم نہیں تو فائدہ آہ وفغاں سے کیا
قصہ نازو نیاز کیا کہیں ہوتا ہے ختم
دل ہی نہیں تو کام غم جاوداں سے کیا
تاثیر محبت کی اللہ رے مجبوری
کافر عشق ابھی خوگرا الحاد نہیں
شعلۂ طور مطبوعہ۴۶ ء
نمود حسن کی یہ گرمئ مزاج تو دیکھ
محال تھا کہ غم عشق بے نشاں ہوتا
سکون شوق ، جو مائل بہ اضطراب ہوا
ہرنفس موج اضطراب ہوا
تمہیں گزر گئے دامن بچا کے ورنہ یاں
ہر اک جان و تن میں سماتا چلا جا
جنون عشق میں اچھا برا کیا
رشک یہ بھی ں نہیں پسند کہ وہ
مذہب عشق کر قبول مسلک عاشقی نہ دیکھ
زاہد مگر اس رمز سے آگاہ نہیں ہے
وہ کچھ دیکھ کو مرے سمجھا رہے ہیں
محبت آپ اپنی ترجماں ہے
ڈر ہے مجھ کو کہ میری غرض سکوت
ہاں مبارک اب یہ معراج نظر میرے لیے
الٰہی ! جذب محبت کی بخش دے تقصیر
نہیں ہے نہیں ہے جوانی نہیں ہے
کو’ی دیکھے تو کیا ہنسی آئے
جام بلور پلا دے ساقی
اپنی ہستی کے سوا مجھ سے بھی غافل ہو جائے
ہمہ نغمہ ہمہ خوشبو ہمہ رنگ
جو مصیبت جو قیامت آئی
نگاہ کرم کر ضرورت نہیں ہے
بیخودی نے مری صدہا کیے منظر پیدا
عشق مضطر ہے مرے دل میں سما جانے کو
ہوا بھری تھی جو سر میں اس آستانے کی
اے موج نفس لے چل اس بزم تجلی میں
کبھی جو یار کو مست شراب دیکھیں گے
دل کے احساسات کو یوں شرح پیہم کیجئے
حاصل کون ومکاں بس دل دیوانہ ہے
جلوے تھے جس قدر چمن روز گار کے
اپنے ہی جلوے نظر آتے ہر اک نتویر سے
رہتی ہے اس کی یاد یوں درد زبان عاشقی
کس قدر فیض نگاہ مست رانی عام ہے
رنگ رخ و شگفتگئ دل لیے ہوئے
چہرہ چھپا کے پھر مجھے بے تاب کیجئے
کہتے ہی رہے حضرت منصور انا الحق
مٹا کر اپنی ہستی یار کی تصویر دیکھیں گے
ضیا بار حقیقت ہے یہ شمع زندگی میری
ذہن سے علم کتابی سب بھلانا چاہیے
دکھا دوں حسن بیتابی مگر پھر خوف آتا ہے
ایک سوز بے اماں ہے دونوں جانب مشترک
یہ میرا طائر دل ہے سمجھتا کیا ہے تو ظالم
لمحات طور اردو نظمیں
ماں باپ کی آنکھوں کے نور ہو تم
محبت تمہاری خدا کے لیے تھی
سوئے سوراج قدم اپنا بڑھاتے جاؤ
خوشی سے نہ کیوں نکر ہو معمور سہرا
جگر رشیدوظفر میاں کو رہے نہ کیوں ساز گار سہرا
وسعت بقدر جوش طلب پا کے پی گیا
بادۂ شیراز (کلام فارسی)
سحر ندا برآمد حجاب ہائے رازے
دور سوم(یعنی آتش گل)
تلف شدہ غزل
کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے
غالب مرحوم
قطعہ
آپ کے سب اصول جمہوری
نظم آوازیں
چھپتا ہے کہیں بانی بیدار کا عالم
اعلان جمہوریت
یاد ش بخیر پھر ہے اسی رہ گزر کی یاد
جب تک کہ غم انساں سے جگر انسان کا دل معمور نہیں
غیر مطبوعہ غزلیں
محبت کا بالآخررقص بیتابانہ کام آیا
کم نہیں ظلمت بھی کچھ اہل نظر کے لیے
مدت میں جو اس شوخ کا دیدار ہوا ہے
بے نام و نشاں ایسا بھی اک وار ہوا ہے
یہ میخانہ ہے بزم جسم نہیں ہے
کیا کیا نہ تپایا ہے اسے آتش غم نے
وفا اک جنس ہے معروف و دلکش
اک منزل بے نام نہ حسرت نہ تماشا
پنچنازندگی سے زندگی تک
غیر مطبوعہ غزل
غیر مطبوعہ غزل
اب کسی شے میں دلکشی نہ رہی
حذف شدہ اشعار
دکھا دے اے دل بیتاب عالی ہمتی اپنی
ہاں اے نگاہ شوق ذرا تو بھی کام کر
بڑھے ہیں تری جستجو میں بڑھے ہیں
اس زمانے میں دلائل کے سوا
کہنا نہ پھر کہ ہائے مجھے ہوگیا ہے کیا
ترا حریف مقابل کہیں نہ بن جائے
مری غرض غم پردہ فرما رہے ہیں
قطعہ
آج سے ترک ملاقات بھی تسلیم مجھے
بے سبب کب کوئی سوائے فغاں ہوتا ہے
جناب شیخ بھی انساں تو خوب ہیں لیکن
غیر مطبوعہ غزل
ان دنوں روز گار عشق نہ پوچھ
غیر مطبوعہ غزل
غیر مطبوعہ غزل
طوفاں کو موج، موج کو طوفاں نہ کر سکے
غم دوراں کی میں تفسیر کبھی کر نہ سکا
غیر مطبوعہ اشعار
بیمار کا حشر جو ہوتا تھا ہو چکا
غیر مطبوعہ غزل
چشم ساقی میں تصدق ترے پیمانوں کے
عشق نے لی اک انگڑائی جاگ اٹھا غیرت کا ضمیر
آخر زندگی کھلا یہ راز
میرے ہوتے یہ کرم ہو نہ کسی پر یارب
ہاں وطن میں مرے فطرت کے مطابق اے دوست
یہ فلک ، یہ ماہ و انجم یہ زمیں یہ رنگ و بو
چارہ گر اب مجھے معاف کریں
مری طرف سے کوئی یہ کہہ دے مجاہد بے خبر سے پہلے
جب حسن ومحبت مل کے بہم سر شار غزل خواں ہوتے ہیں
وہ حسن ہی نہیں ہے جو ہوجائے مطمئن
غیر مطبوعہ نظمیں مبارک باد صحتیابی
بفضل خدا غسل صحت مبارک
قوم و وطن کے مدعی کون ومکاں پہ چھائے جا
ایک شاعر کا پیام
ہر قوم کی ہے عید ہر اک انس و جاں کی عید
ایک نا مکمل نظم
وہ جس کی دید سے ہوتا تھا حاصل
عید
رباعی اور نظم گاندھی جی پر غیر مطبوعہ
ان کا مذہب و حدانیت
ان کی سیاست کی گہرائی
بلا عنوان
تکیہ
یوم آزادی
عکس روئے نگار ہے تکیہ
وہ پاکستان ہے ساقی، یہ ہندوستان ہے ساقی
کتابیات
خطوط
بیاضیں
رسائل
YEAR1970
CONTRIBUTORعمیر منظر
PUBLISHER آئینۂ ادب، لاہور
YEAR1970
CONTRIBUTORعمیر منظر
PUBLISHER آئینۂ ادب، لاہور
یاد گار جگر!
ترتیب
جگر کے جاننے والوں سے
انتساب
تعارف
پیش لفظ
دور اوّل
دور دوم
دور سوم
جگر کا غیر مطبوعہ ، تلف شدہ و حذف کردہ کلام
تصوّر جب کسی دست نگاری کا رہا دل میں
یہاں نزع ہے انکے اب پر ہنسی ہے
حسیات جگر
اس کوچہ میں ہوں صورت نقس کف پا میں
ہائے رولینے سے بھی کب بوجھ دل کا کم ہوا
اُف وہ پروانوں کا نذرغم پنہاں ہونا
نہ بھولے گا یہ عالم عشق کا سر سرسے گذرجانا
جان ہے بیقراری جسم ہے پائمال سا
غشی نے نہ دامن پکڑ نے دیا
دیتی ہے پتہ ساقی ہر مست کی انگڑائی
ہم ان کے سامنے حالت یہ ہیں بتائے ہوئے
جوش وحشت نے جو چھیڑا دیدۂ خونبار کو
پھرتا ہے چشم شوق میں نقشہ بہار کا
سوز غم دیکھ نہ برباد ہو حاصل میرا
اظہار درد عشق کے قابل بنا دیا
یوں ٹوٹ کے اب خنجر قاتل نہیں ملتا
کوئی تو خیر خواہ دل نا صبور تھا
یہی کچھ دیر اگر شور ش فریاد ہے آج
کیا قیامت تھا الٰہی شکوۂ بیداد بھی
کس کو معلوم کہ ہے یاد ل ناشاد نہیں
یوں درد کے ہاتھوں میں لبریز فغاں ہوتا
میں شوق دید میں اتنا نحیف وزار ہوا
کس قدر حسن کا عالم ترے مستانہ ہے
جمال دوست جو درپردہ لطف یار نہ ہو
سوز غم الفت کا ظاہر یہ اثر دیکھا
آگئی کونسی حسرت دل سوزاں کے قریب
تاب اس بزم میں دیدار کی لائی نہ گئی
ضبط میں بھی یہ روش اودل ناشاد رہے
نزع میں حالت مری اسدرجہ بے تابانہ تھی
محفوظ اک جگہ بھی نہیں جسم زار میں
دل جو گم سلسلہ زلف گرہ گیر میں ہے
جو ہجر گل کی نشانی ہے داستاں صیاد
کیوں نہ ہو شوق سے عشق کے پیمانے کا
کر گیا کیسا ستم یہ جلوۂ جانا نہ آج
یہ کہہ کہہ کر تسلّی دل ناشاد کرتے ہیں
ٹھیک احساس ہی باقی تن ہیجاں میں نہیں
حسرت یہ ہے کہ پیش نظر رات دن رہیں
کار گر کچھ دل کی آہیں شام ہجراں ہو گئیں
یہ کیا آج اوچشم تر دیکھتے ہیں
کار گر کچھ دل کی آہیں شام ہجراں ہو گئیں
یوں آج ان کے سامنے شرح فغاں رہے
کیا کروں اک قطرۂ خوں بھی جو دامن میں نہیں
کس قیامت کا اثر یہ جذبۂ کامل میں ہے
یہ کس کی یاد چھریاں لے کے دل میں بار بار آئی
غضب حسن آفریں فیض جمال روئے جاناں تھا
کون سی بلبل نے اے صیاد پھر دیکھا قفس
دھجیاں دست جنوں سے جیب و داماں میں نہیں
وہ آتے اور نہ ہم شرح آرزو کرتے
آنکھوں سے دل میں ہے کبھی دل سے جگر میں ہے
اثر پیدا ہوا کس کی فغاں میں
متفرق اشعار
نہ وہ دل نہ تن میں وہ جاں رہ گئی
بجز اک جلوۂ دیدار سب سے بے خبر ہوتا
غم بھری جان توارمان بھرا دل لے کر
مثنوی سرود حقیقت
ناقوس کہیں کہیں اذاں میں
متفرقات
شعلۂ طور مطبوعہ ۱۹۴۶ ء
لب پہ نالہ نہیں ، شکوہ نہیں فریاد نہیں
دور دوم
صبح اس رنگ سے تھی رقص کنا ں شمع کی خاک
واللہ کرم تیرا جب تک کہ نہ شامل تھا
غیر مطبوعہ غزل
مبارک عشق کو اب بے نیازجسم و جاں ہونا
ترے ہی شیوۂ عاشق کشی کی تجھ کو قسم
اٹھ گیا کیا جگر درد بہ دل شعلہ بہ جاں
جلووں کا اثر دہام ہے محبوب پاس ہے
شکایت دل ایذا طلب کو کیا کیجے
میں نہیں رہتا ہوں میں جب پاس آتا ہے وہ شوخ
جب تم نہیں تو فائدہ آہ وفغاں سے کیا
قصہ نازو نیاز کیا کہیں ہوتا ہے ختم
دل ہی نہیں تو کام غم جاوداں سے کیا
تاثیر محبت کی اللہ رے مجبوری
کافر عشق ابھی خوگرا الحاد نہیں
شعلۂ طور مطبوعہ۴۶ ء
نمود حسن کی یہ گرمئ مزاج تو دیکھ
محال تھا کہ غم عشق بے نشاں ہوتا
سکون شوق ، جو مائل بہ اضطراب ہوا
ہرنفس موج اضطراب ہوا
تمہیں گزر گئے دامن بچا کے ورنہ یاں
ہر اک جان و تن میں سماتا چلا جا
جنون عشق میں اچھا برا کیا
رشک یہ بھی ں نہیں پسند کہ وہ
مذہب عشق کر قبول مسلک عاشقی نہ دیکھ
زاہد مگر اس رمز سے آگاہ نہیں ہے
وہ کچھ دیکھ کو مرے سمجھا رہے ہیں
محبت آپ اپنی ترجماں ہے
ڈر ہے مجھ کو کہ میری غرض سکوت
ہاں مبارک اب یہ معراج نظر میرے لیے
الٰہی ! جذب محبت کی بخش دے تقصیر
نہیں ہے نہیں ہے جوانی نہیں ہے
کو’ی دیکھے تو کیا ہنسی آئے
جام بلور پلا دے ساقی
اپنی ہستی کے سوا مجھ سے بھی غافل ہو جائے
ہمہ نغمہ ہمہ خوشبو ہمہ رنگ
جو مصیبت جو قیامت آئی
نگاہ کرم کر ضرورت نہیں ہے
بیخودی نے مری صدہا کیے منظر پیدا
عشق مضطر ہے مرے دل میں سما جانے کو
ہوا بھری تھی جو سر میں اس آستانے کی
اے موج نفس لے چل اس بزم تجلی میں
کبھی جو یار کو مست شراب دیکھیں گے
دل کے احساسات کو یوں شرح پیہم کیجئے
حاصل کون ومکاں بس دل دیوانہ ہے
جلوے تھے جس قدر چمن روز گار کے
اپنے ہی جلوے نظر آتے ہر اک نتویر سے
رہتی ہے اس کی یاد یوں درد زبان عاشقی
کس قدر فیض نگاہ مست رانی عام ہے
رنگ رخ و شگفتگئ دل لیے ہوئے
چہرہ چھپا کے پھر مجھے بے تاب کیجئے
کہتے ہی رہے حضرت منصور انا الحق
مٹا کر اپنی ہستی یار کی تصویر دیکھیں گے
ضیا بار حقیقت ہے یہ شمع زندگی میری
ذہن سے علم کتابی سب بھلانا چاہیے
دکھا دوں حسن بیتابی مگر پھر خوف آتا ہے
ایک سوز بے اماں ہے دونوں جانب مشترک
یہ میرا طائر دل ہے سمجھتا کیا ہے تو ظالم
لمحات طور اردو نظمیں
ماں باپ کی آنکھوں کے نور ہو تم
محبت تمہاری خدا کے لیے تھی
سوئے سوراج قدم اپنا بڑھاتے جاؤ
خوشی سے نہ کیوں نکر ہو معمور سہرا
جگر رشیدوظفر میاں کو رہے نہ کیوں ساز گار سہرا
وسعت بقدر جوش طلب پا کے پی گیا
بادۂ شیراز (کلام فارسی)
سحر ندا برآمد حجاب ہائے رازے
دور سوم(یعنی آتش گل)
تلف شدہ غزل
کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے
غالب مرحوم
قطعہ
آپ کے سب اصول جمہوری
نظم آوازیں
چھپتا ہے کہیں بانی بیدار کا عالم
اعلان جمہوریت
یاد ش بخیر پھر ہے اسی رہ گزر کی یاد
جب تک کہ غم انساں سے جگر انسان کا دل معمور نہیں
غیر مطبوعہ غزلیں
محبت کا بالآخررقص بیتابانہ کام آیا
کم نہیں ظلمت بھی کچھ اہل نظر کے لیے
مدت میں جو اس شوخ کا دیدار ہوا ہے
بے نام و نشاں ایسا بھی اک وار ہوا ہے
یہ میخانہ ہے بزم جسم نہیں ہے
کیا کیا نہ تپایا ہے اسے آتش غم نے
وفا اک جنس ہے معروف و دلکش
اک منزل بے نام نہ حسرت نہ تماشا
پنچنازندگی سے زندگی تک
غیر مطبوعہ غزل
غیر مطبوعہ غزل
اب کسی شے میں دلکشی نہ رہی
حذف شدہ اشعار
دکھا دے اے دل بیتاب عالی ہمتی اپنی
ہاں اے نگاہ شوق ذرا تو بھی کام کر
بڑھے ہیں تری جستجو میں بڑھے ہیں
اس زمانے میں دلائل کے سوا
کہنا نہ پھر کہ ہائے مجھے ہوگیا ہے کیا
ترا حریف مقابل کہیں نہ بن جائے
مری غرض غم پردہ فرما رہے ہیں
قطعہ
آج سے ترک ملاقات بھی تسلیم مجھے
بے سبب کب کوئی سوائے فغاں ہوتا ہے
جناب شیخ بھی انساں تو خوب ہیں لیکن
غیر مطبوعہ غزل
ان دنوں روز گار عشق نہ پوچھ
غیر مطبوعہ غزل
غیر مطبوعہ غزل
طوفاں کو موج، موج کو طوفاں نہ کر سکے
غم دوراں کی میں تفسیر کبھی کر نہ سکا
غیر مطبوعہ اشعار
بیمار کا حشر جو ہوتا تھا ہو چکا
غیر مطبوعہ غزل
چشم ساقی میں تصدق ترے پیمانوں کے
عشق نے لی اک انگڑائی جاگ اٹھا غیرت کا ضمیر
آخر زندگی کھلا یہ راز
میرے ہوتے یہ کرم ہو نہ کسی پر یارب
ہاں وطن میں مرے فطرت کے مطابق اے دوست
یہ فلک ، یہ ماہ و انجم یہ زمیں یہ رنگ و بو
چارہ گر اب مجھے معاف کریں
مری طرف سے کوئی یہ کہہ دے مجاہد بے خبر سے پہلے
جب حسن ومحبت مل کے بہم سر شار غزل خواں ہوتے ہیں
وہ حسن ہی نہیں ہے جو ہوجائے مطمئن
غیر مطبوعہ نظمیں مبارک باد صحتیابی
بفضل خدا غسل صحت مبارک
قوم و وطن کے مدعی کون ومکاں پہ چھائے جا
ایک شاعر کا پیام
ہر قوم کی ہے عید ہر اک انس و جاں کی عید
ایک نا مکمل نظم
وہ جس کی دید سے ہوتا تھا حاصل
عید
رباعی اور نظم گاندھی جی پر غیر مطبوعہ
ان کا مذہب و حدانیت
ان کی سیاست کی گہرائی
بلا عنوان
تکیہ
یوم آزادی
عکس روئے نگار ہے تکیہ
وہ پاکستان ہے ساقی، یہ ہندوستان ہے ساقی
کتابیات
خطوط
بیاضیں
رسائل
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔