سرورق
خدا یاز عصیان مرا پاک کن
اے خدائے دو جہاں خالق اکبر تو ہے
قصیدہ نعتیہ
یا رسول عربی مدح تو در قرآنست
مسدس نعتیہ
خدا وند تجھے ہے علم تحریر مقدر کا
منقبت
شان الٰہ شان جناب امیر ہے
بنا جس خاک پر نقش قدم میری پیمبر کامل
ازل سے کون ہوا ہمسر رسول خدا
کام آتے ہیں مشکل میں یہ ہے کام علی کا
غم عشق سے داغ حاصل ہوتا
جنوں کے ساتھ طبیعت کو انتشار ہوا
تادم مرگ گہلا عشق میں یوں تن میرا
ہاتھ بے سامانیوں سے مالش سر ہوگیا
حال وار فتگی اے یوسف ثانی کہتا
جام شربت میں وہ لعل لب خندان دیکھا
سرمہ آنکھوں میں لگاے سر محفل آیا
ہوں وہ دیوانہ کہ میں داخل زندان نہوا
وہ ملا جس دن پڑھا ہمنے دوگانا عید کا
وصال یار سے آباد گھر نہیں دیکھا
خضر دل راہ پر لگا دیگا
دل الفت سے اے گلبدن بھر گیا
جذب باطن سے مرے گھر وہ گل اندام آیا
کچھ لطف یم دیدۂ گریان نہ آوٹھے گا
شب فراق میں کس دن مجھے قرار آیا
خاص کیونکر رگ گردن میں ہو مسکن اونکا
اے شغل مے خیال ہے کس خانہ جنگ کا
مجھکو فراغ اب غم عقبا سے ہوگیا
جو کوئی وحشی گیسوے مسلسل ہوگا
حیلہ سے مرغ دل کو پھنسا نا ضرور تھا
عاشق ہوے خراب ہوے غم نے کھو دیا
کفر عشق یار ہے کچھ غم نہیں تفضیح کا
عجب پیچ گیسوے خمدار دیکھا
سایہ ایسا ہے ترے رخسار آتش ناک کا
جلوے سے اسکے نور سر شام ہوگیا
کب میں دیوانہ گیسوے معنبر نہوا
گئے بہار کے دن موسم خزان دیکھا
لعل ویاقوت سے بالی میں ہے روشن پتا
جام مے کو قدح چشمۂ کوثر سمجھا
آنے سے تیرے خوش دل دیوانہ ہوگیا
منظور جنوں پیر ہن تن نہیں ہوتا
اے صنم وہ کون سی ایسی جفا تھی میں نہ تھا
جب ارادہ ہو سوال گوہر مقصود کا
داغ دل سے ہے غرض آہ رساسے مطلب
اسقدر ہے شدّت درد بیان عندلیب
ردیف باے فارسی
رہوں میں گرد گہر کے سایۂ دیوار کی صورت
ردیف تاے فوقانی
خرب بدنام ہوئی دیدۂ تر آپ سے آپ
ہونٹوں تک آتے ہیں اسرار نہانی دن رات
ردیف ثاے مثلثہ
وصل جاناں کے ہیں ارمان عبث
رہتا ہے چندروز سے باشد ومدمزاج
ردیف جیم معجمہ
کہیں درد دل کا نپایا علاج
ردیف حاے حطی
تڑپی جو عشق گیسو عنبر شکن میں روح
دیر کی آنے میں صبح شب ہجران کیطرح
ہوگیا آتش سوداے ملیحان دوزخ
ردیف خاے معجمہ
رنگ گل سے بھی زیادہ یار کے ہیں گال سرخ
ظلم گلچیں نے کئے شدت صیاد کے بعد
تعلّیان یہ لڑکپن میں اے صنوبر قد
ردیف دال مہملہ
غم زمانے کے رہے یوں دل ناشاد کے گرد
یوں دیکھتا ہوں ہجر بت سیمبر میں چاند
یوں صرف ہوا شوق خط یار میں کاغذ
ردیف ذال معجمہ
اب تک نہ برآئی کسی تدبیر سے امید
ردیف راے مہملہ
پھڑک اٹھو جو سناؤں دل وجگر کی خبر
تب الفت کے ہے قابل تعویذ
زہر کھاتا ہوں مار گیسو پر
یار کے واسطے جب نقرئی آئی زنجیر
تر ہے قطروں سے پسینے کے جو سارا زیور
جھک گیا سجدے کو میں محراب ابرو دیکھکر
تم تو پروان میں ہو کرتی ہے خدائی تصویر
ہاتھ کہتے ہیں کہ ہوں تار گریباں میں اور
نہ بار سر بدن پر ہے نہ بار رنج ہے دل پر
آنکھ اس قاتل عالم سے لڑائی کیونکر
بوسۂ لب کی ہے اے دلبر ہوس
ردیف سین مہملہ
فرقت میں بیقرار رہا صبح وشام روز
ردیف زاے معجمہ
ردیف شین معجمہ
ہیں صدا سے تری باغوں میں عنا دل خاموش
ردیف صاد مہملہ
ردیف ضاد معجمہ
مجھے الفت کی ہے اے سیمبر حرص
بال ہماوچتر گہر بار سے غرض
ردیف طاے مہملہ
لایا نہ سال بھر میں کبھی پیک یار خط
پاس جبین کسے کسے تحریر کا لحاظ
ردیف ظاے معجمہ
ردیف غین معجمہ
ردیف عین مہملہ
ردیف غین معجمہ
آنکھوں کے آگے خار ہے بے روے یار باغ
بڑھاپے نے کیا بے زر ملمع
ردیف فا
کیا راز دل بیان کریں مبتلاے عشق
ردیف قاف
تیور کے بل سے پاتے ہیں ہم انحراف صاف
حیلۂ کم سنی اے حور شمائل کب تک
ردیف کاف تازی
ردیف گاف
کھینچئے تصویر کیونکر ہوسکے ایجاد رنگ
لوٹئے عشق بت رشک قمر میں کبتک
ردیف لام
نے کے ڈورے ہیں یہ سب محفل کو آئیگا خیال
صدمے فراق کے نہ کسیکا اٹھاے دل
اسقدر کسکو کئے بوسے عنایت آج کل
ردیف میم
خواب میں آکے دکھا جاکبھی اے یار قدم
نہیں ہیں حوروپریزاد پیار کے قابل
سبزہ حسرت میں نہیں یا گلشن قالی نہیں
ردیف نون
کیونکر قرار پاے مرا دل ذرا کہیں
سمجھ جنکو نہیں ہے وہ کسیکو کیا سمجھتے ہیں
بلائیں پاس عنایات بیقیاس کریں
نہیں آتی کوئی دم نیند اے ہمراز آنکھوں میں
ہم اپنے جان کا ایدوست دشمن دیکھ لیتے ہیں
کوئی تمسے حسن میں شکل بشر ملتی نہیں
وہ بادشہ ہیں جو ترے در کے فقیر ہیں
ایسی دیکھی نہ سنی صحبت مستانہ کہیں
جان جائے گی یار کے غم میں
کیا تھمے آنکھونسے آنسو کوئی دم برسات میں
ہے شہرۂ مذاق سخن خاص وعام میں
تڑپا کروں نہ صورت بسمل تو کیا کروں
ضعف میں طاقت رفتار کہاں
کوزہ نبات ہیں وہ لب شکرین نہیں
ہوشیاروں میں نہیں ہوں میں تو دیوانوں میں ہوں
رنج ہوتا چار دن تو دل کو راحت چار دن
گرمیاں جاتی ہیں برسات کے دن آتے ہیں
صغیر کوے بتاں میں نہ جاؤ عید کے دن
شہر سے بستر اٹھائیں ترک آسایش کریں
رہتی ہے بیخبری مجکو جہاں رہتا ہوں
وصل کا خواب بھی تقدیر وکھانے کی نہیں
زخمی تیغ نظر مجروح خنجر کے نہیں
بارہا شربت دیدار پلا جاتے ہیں
یوں تیرے طلبگار ہیں انسان ہزاروں
جان دے شوق رخ یار کے نظارے میں
رات قصوں میں بسر کرتے ہو دن باتوں میں
ذکر بتاں کروں کہ میں یاد خدا کروں
کسی سے کام نہیں تم سے کام رکھتے ہیں
تیرے آنے کی تمنّا بخدار کہتے ہیں
قاصد نہیں پیام نہیں نامہ بر نہیں
جیتے جی اپنے ہیں سب بعد فنا کوئی نہیں
کیوں ڈبوے نہ مجھے دیدۂ ترپانی میں
یار سے صورت وصال نہیں
مرکے بھی اپنی شکستہ خاطری کی حد نہیں
کیا کہیں جائیں کہاں حالت ناشادی میں
بدر کیونکر کہوں مہ نوکو
سلائی بھوں میں پھیرے دیکے کاجل چشم جادو میں
دل میں غم سینے میں ارمان رہا کرتے ہیں
مبتلاے حاصل ومحصول ہو
ردیف واو
زمانہ دیکھکر صورت تمہاری کیوں نہ مائل ہو
کہتے ہیں جس کو گوش بت سیمبر کی لو
سنا جو جان بلب اندوہ وآہ سے ہمکو
تری گلی کے سوا کب قرار باغ میں ہو
وحشت میں کیا بیان کروں اضطراب کو
دود دل غم میں جو اے مشفق من پیدا ہو
اسکی گلی سے فرق دم واپسین نہ ہو
کون ہے یاد جود لواے ستمگاروں کو
ردیف ہاے ہوز
عاشق زار ہوں دنیا سے گذر جانے دو
ایکدن سونے نپاے اس بت پر فن کے ساتھ
اہل فن کو پیشتر ہے علم وفن سے فائدہ
وصل قمری جو نظر آئے گا شمشاد کے ساتھ
تجھسے جب تک محبت رہے گی
ردیف یا تحتیانی
زندگی بھر نہیں اس کوچے سے جانے والے
رہنما غیب سے ہم عشق میں پاتے آئے
سمائی جو دل میں محبت تمھاری
خدا کی شان ہے دم بھر نہیں کوئی صنم خالی
ہرن کب وحشتوں سے اے بت گلفام ملتا ہے
ہجوم داغ سے دل لالہ زار دیکھ چکے
سرگشتگان الفت لاکھوں وطن سے نکلے
پھولونکی چادریں ہوں مسہری تنی رہے
بلبلیں کرتی ہیں گلزار میں نالے کیسے
کیا تشہیر لاشہ بات اوبے پیر مٹی کی
خار اندوہ الٰہی گل تر ہو جاے
الفت نہیں اب اے ستم ایجاد کسیکی
خوبردیون سے حسینوں کو ضرر ہوتا ہے
ہے جو عشق مصطفے شوق لقائے مرتضیٰ
منتین مفت میں کیں آئے نہ ہو بات گئی
دل کو جو کاٹے وہ تیزی کا ردا برو میں ہے
اپنے مکان سے وہ یہاں تک نہ آئنگے
بال بکھریں جو تمھارے شب یلدا ہو جائے
کیجیے کچھ وحشیوں کی اپنے تدبیر یں نئی
پردہ ہے نیل کارخ پرنور کے لیے
اگر لینے پائبن بلائیں تمھاری
اے غم ہجر نہ آفت نہ مصیبت ہوگی
جوش الفت تھا ہمارے آپ کے
تن عاشقوں کے یوں غم فرقت میں گل گئی
کیونکر کہوں کہ روز ملاقات کیجئے
دل کو کیا تھی خبر رنج ومحن پہلے سے
تیرے گھر میں کوئی اے یارنہ آنے پائے
ایکدن داغ اے مہ کامل دکھائینگے تجھے
تم بھی ہوے اب چاہنے والے مرے دلکے
دشت وحشت سے سفر سوے مکان کیا کیجئے
اب خدا سے لولگانی چاہیئے
پھول مرجھائے گل داغ جگر کے آگے
دل لوگونکے دکھتے ہیں زمانے میں ہمارے
داغ ہے دل میں خیال ابرو خمدار سے
جا بجا تصویر چشم یار گھر میں چاہیے
لاغری میں شدت فریاد وزاری آج ہے
جوش وحشت میں یہ ایام بدل جائینگے
خط صراحی مے بادہ خوار دیکھیں گے
کس کی صورت ورق دل پر اوتر آئی ہے
غم بھی کھانے کو ہمیں مثل غذا ملتا ہے
یارنے یوں مری آنکھوں میں جگھ پائی ہے
شاد ہوتے ہو زیادہ مری ناشادی سے
سینے میں ہے یا جگر نہیں ہے
بیوجہ گرد باد میں کب پیچ وتاب ہے
راتدن کیوں مشق رہتی نالہ وفریاد کی
کیوں ہے قول دہن تنگ کہ عنقا کیا ہے
قصیدہ حضرت سلطان عالم محمد واجد علی شاہ والی ملک اور وہ
شہ گردوں نشین قطب زمیں مہر جہانبانی
سعادت بخشی ذات ہمایونکی وہ شہرت ہے
قصیدہ درشان مرزا اعظم الشان بہادر
قصیدہ مرزارفیع الشان بہادر
ازسلاطین ہراقلیم فزون شان تو باد
ابر رحمت کی صفت میں ہے مجھے تشنہ لبی
خمسہ نعتیہ
مرثیہ
رباعی
قطعہ تہنیت انیس الدولہ بہادر
نیر بخت نگوبرج سعادت میں رہے
قطع تہنیت انیس الدّولہ بہادر
قطعہ در شان وزیر الممالک حضور عالم
تاریخ مسجد شیخ عالم لکھنوی
سرورق
خدا یاز عصیان مرا پاک کن
اے خدائے دو جہاں خالق اکبر تو ہے
قصیدہ نعتیہ
یا رسول عربی مدح تو در قرآنست
مسدس نعتیہ
خدا وند تجھے ہے علم تحریر مقدر کا
منقبت
شان الٰہ شان جناب امیر ہے
بنا جس خاک پر نقش قدم میری پیمبر کامل
ازل سے کون ہوا ہمسر رسول خدا
کام آتے ہیں مشکل میں یہ ہے کام علی کا
غم عشق سے داغ حاصل ہوتا
جنوں کے ساتھ طبیعت کو انتشار ہوا
تادم مرگ گہلا عشق میں یوں تن میرا
ہاتھ بے سامانیوں سے مالش سر ہوگیا
حال وار فتگی اے یوسف ثانی کہتا
جام شربت میں وہ لعل لب خندان دیکھا
سرمہ آنکھوں میں لگاے سر محفل آیا
ہوں وہ دیوانہ کہ میں داخل زندان نہوا
وہ ملا جس دن پڑھا ہمنے دوگانا عید کا
وصال یار سے آباد گھر نہیں دیکھا
خضر دل راہ پر لگا دیگا
دل الفت سے اے گلبدن بھر گیا
جذب باطن سے مرے گھر وہ گل اندام آیا
کچھ لطف یم دیدۂ گریان نہ آوٹھے گا
شب فراق میں کس دن مجھے قرار آیا
خاص کیونکر رگ گردن میں ہو مسکن اونکا
اے شغل مے خیال ہے کس خانہ جنگ کا
مجھکو فراغ اب غم عقبا سے ہوگیا
جو کوئی وحشی گیسوے مسلسل ہوگا
حیلہ سے مرغ دل کو پھنسا نا ضرور تھا
عاشق ہوے خراب ہوے غم نے کھو دیا
کفر عشق یار ہے کچھ غم نہیں تفضیح کا
عجب پیچ گیسوے خمدار دیکھا
سایہ ایسا ہے ترے رخسار آتش ناک کا
جلوے سے اسکے نور سر شام ہوگیا
کب میں دیوانہ گیسوے معنبر نہوا
گئے بہار کے دن موسم خزان دیکھا
لعل ویاقوت سے بالی میں ہے روشن پتا
جام مے کو قدح چشمۂ کوثر سمجھا
آنے سے تیرے خوش دل دیوانہ ہوگیا
منظور جنوں پیر ہن تن نہیں ہوتا
اے صنم وہ کون سی ایسی جفا تھی میں نہ تھا
جب ارادہ ہو سوال گوہر مقصود کا
داغ دل سے ہے غرض آہ رساسے مطلب
اسقدر ہے شدّت درد بیان عندلیب
ردیف باے فارسی
رہوں میں گرد گہر کے سایۂ دیوار کی صورت
ردیف تاے فوقانی
خرب بدنام ہوئی دیدۂ تر آپ سے آپ
ہونٹوں تک آتے ہیں اسرار نہانی دن رات
ردیف ثاے مثلثہ
وصل جاناں کے ہیں ارمان عبث
رہتا ہے چندروز سے باشد ومدمزاج
ردیف جیم معجمہ
کہیں درد دل کا نپایا علاج
ردیف حاے حطی
تڑپی جو عشق گیسو عنبر شکن میں روح
دیر کی آنے میں صبح شب ہجران کیطرح
ہوگیا آتش سوداے ملیحان دوزخ
ردیف خاے معجمہ
رنگ گل سے بھی زیادہ یار کے ہیں گال سرخ
ظلم گلچیں نے کئے شدت صیاد کے بعد
تعلّیان یہ لڑکپن میں اے صنوبر قد
ردیف دال مہملہ
غم زمانے کے رہے یوں دل ناشاد کے گرد
یوں دیکھتا ہوں ہجر بت سیمبر میں چاند
یوں صرف ہوا شوق خط یار میں کاغذ
ردیف ذال معجمہ
اب تک نہ برآئی کسی تدبیر سے امید
ردیف راے مہملہ
پھڑک اٹھو جو سناؤں دل وجگر کی خبر
تب الفت کے ہے قابل تعویذ
زہر کھاتا ہوں مار گیسو پر
یار کے واسطے جب نقرئی آئی زنجیر
تر ہے قطروں سے پسینے کے جو سارا زیور
جھک گیا سجدے کو میں محراب ابرو دیکھکر
تم تو پروان میں ہو کرتی ہے خدائی تصویر
ہاتھ کہتے ہیں کہ ہوں تار گریباں میں اور
نہ بار سر بدن پر ہے نہ بار رنج ہے دل پر
آنکھ اس قاتل عالم سے لڑائی کیونکر
بوسۂ لب کی ہے اے دلبر ہوس
ردیف سین مہملہ
فرقت میں بیقرار رہا صبح وشام روز
ردیف زاے معجمہ
ردیف شین معجمہ
ہیں صدا سے تری باغوں میں عنا دل خاموش
ردیف صاد مہملہ
ردیف ضاد معجمہ
مجھے الفت کی ہے اے سیمبر حرص
بال ہماوچتر گہر بار سے غرض
ردیف طاے مہملہ
لایا نہ سال بھر میں کبھی پیک یار خط
پاس جبین کسے کسے تحریر کا لحاظ
ردیف ظاے معجمہ
ردیف غین معجمہ
ردیف عین مہملہ
ردیف غین معجمہ
آنکھوں کے آگے خار ہے بے روے یار باغ
بڑھاپے نے کیا بے زر ملمع
ردیف فا
کیا راز دل بیان کریں مبتلاے عشق
ردیف قاف
تیور کے بل سے پاتے ہیں ہم انحراف صاف
حیلۂ کم سنی اے حور شمائل کب تک
ردیف کاف تازی
ردیف گاف
کھینچئے تصویر کیونکر ہوسکے ایجاد رنگ
لوٹئے عشق بت رشک قمر میں کبتک
ردیف لام
نے کے ڈورے ہیں یہ سب محفل کو آئیگا خیال
صدمے فراق کے نہ کسیکا اٹھاے دل
اسقدر کسکو کئے بوسے عنایت آج کل
ردیف میم
خواب میں آکے دکھا جاکبھی اے یار قدم
نہیں ہیں حوروپریزاد پیار کے قابل
سبزہ حسرت میں نہیں یا گلشن قالی نہیں
ردیف نون
کیونکر قرار پاے مرا دل ذرا کہیں
سمجھ جنکو نہیں ہے وہ کسیکو کیا سمجھتے ہیں
بلائیں پاس عنایات بیقیاس کریں
نہیں آتی کوئی دم نیند اے ہمراز آنکھوں میں
ہم اپنے جان کا ایدوست دشمن دیکھ لیتے ہیں
کوئی تمسے حسن میں شکل بشر ملتی نہیں
وہ بادشہ ہیں جو ترے در کے فقیر ہیں
ایسی دیکھی نہ سنی صحبت مستانہ کہیں
جان جائے گی یار کے غم میں
کیا تھمے آنکھونسے آنسو کوئی دم برسات میں
ہے شہرۂ مذاق سخن خاص وعام میں
تڑپا کروں نہ صورت بسمل تو کیا کروں
ضعف میں طاقت رفتار کہاں
کوزہ نبات ہیں وہ لب شکرین نہیں
ہوشیاروں میں نہیں ہوں میں تو دیوانوں میں ہوں
رنج ہوتا چار دن تو دل کو راحت چار دن
گرمیاں جاتی ہیں برسات کے دن آتے ہیں
صغیر کوے بتاں میں نہ جاؤ عید کے دن
شہر سے بستر اٹھائیں ترک آسایش کریں
رہتی ہے بیخبری مجکو جہاں رہتا ہوں
وصل کا خواب بھی تقدیر وکھانے کی نہیں
زخمی تیغ نظر مجروح خنجر کے نہیں
بارہا شربت دیدار پلا جاتے ہیں
یوں تیرے طلبگار ہیں انسان ہزاروں
جان دے شوق رخ یار کے نظارے میں
رات قصوں میں بسر کرتے ہو دن باتوں میں
ذکر بتاں کروں کہ میں یاد خدا کروں
کسی سے کام نہیں تم سے کام رکھتے ہیں
تیرے آنے کی تمنّا بخدار کہتے ہیں
قاصد نہیں پیام نہیں نامہ بر نہیں
جیتے جی اپنے ہیں سب بعد فنا کوئی نہیں
کیوں ڈبوے نہ مجھے دیدۂ ترپانی میں
یار سے صورت وصال نہیں
مرکے بھی اپنی شکستہ خاطری کی حد نہیں
کیا کہیں جائیں کہاں حالت ناشادی میں
بدر کیونکر کہوں مہ نوکو
سلائی بھوں میں پھیرے دیکے کاجل چشم جادو میں
دل میں غم سینے میں ارمان رہا کرتے ہیں
مبتلاے حاصل ومحصول ہو
ردیف واو
زمانہ دیکھکر صورت تمہاری کیوں نہ مائل ہو
کہتے ہیں جس کو گوش بت سیمبر کی لو
سنا جو جان بلب اندوہ وآہ سے ہمکو
تری گلی کے سوا کب قرار باغ میں ہو
وحشت میں کیا بیان کروں اضطراب کو
دود دل غم میں جو اے مشفق من پیدا ہو
اسکی گلی سے فرق دم واپسین نہ ہو
کون ہے یاد جود لواے ستمگاروں کو
ردیف ہاے ہوز
عاشق زار ہوں دنیا سے گذر جانے دو
ایکدن سونے نپاے اس بت پر فن کے ساتھ
اہل فن کو پیشتر ہے علم وفن سے فائدہ
وصل قمری جو نظر آئے گا شمشاد کے ساتھ
تجھسے جب تک محبت رہے گی
ردیف یا تحتیانی
زندگی بھر نہیں اس کوچے سے جانے والے
رہنما غیب سے ہم عشق میں پاتے آئے
سمائی جو دل میں محبت تمھاری
خدا کی شان ہے دم بھر نہیں کوئی صنم خالی
ہرن کب وحشتوں سے اے بت گلفام ملتا ہے
ہجوم داغ سے دل لالہ زار دیکھ چکے
سرگشتگان الفت لاکھوں وطن سے نکلے
پھولونکی چادریں ہوں مسہری تنی رہے
بلبلیں کرتی ہیں گلزار میں نالے کیسے
کیا تشہیر لاشہ بات اوبے پیر مٹی کی
خار اندوہ الٰہی گل تر ہو جاے
الفت نہیں اب اے ستم ایجاد کسیکی
خوبردیون سے حسینوں کو ضرر ہوتا ہے
ہے جو عشق مصطفے شوق لقائے مرتضیٰ
منتین مفت میں کیں آئے نہ ہو بات گئی
دل کو جو کاٹے وہ تیزی کا ردا برو میں ہے
اپنے مکان سے وہ یہاں تک نہ آئنگے
بال بکھریں جو تمھارے شب یلدا ہو جائے
کیجیے کچھ وحشیوں کی اپنے تدبیر یں نئی
پردہ ہے نیل کارخ پرنور کے لیے
اگر لینے پائبن بلائیں تمھاری
اے غم ہجر نہ آفت نہ مصیبت ہوگی
جوش الفت تھا ہمارے آپ کے
تن عاشقوں کے یوں غم فرقت میں گل گئی
کیونکر کہوں کہ روز ملاقات کیجئے
دل کو کیا تھی خبر رنج ومحن پہلے سے
تیرے گھر میں کوئی اے یارنہ آنے پائے
ایکدن داغ اے مہ کامل دکھائینگے تجھے
تم بھی ہوے اب چاہنے والے مرے دلکے
دشت وحشت سے سفر سوے مکان کیا کیجئے
اب خدا سے لولگانی چاہیئے
پھول مرجھائے گل داغ جگر کے آگے
دل لوگونکے دکھتے ہیں زمانے میں ہمارے
داغ ہے دل میں خیال ابرو خمدار سے
جا بجا تصویر چشم یار گھر میں چاہیے
لاغری میں شدت فریاد وزاری آج ہے
جوش وحشت میں یہ ایام بدل جائینگے
خط صراحی مے بادہ خوار دیکھیں گے
کس کی صورت ورق دل پر اوتر آئی ہے
غم بھی کھانے کو ہمیں مثل غذا ملتا ہے
یارنے یوں مری آنکھوں میں جگھ پائی ہے
شاد ہوتے ہو زیادہ مری ناشادی سے
سینے میں ہے یا جگر نہیں ہے
بیوجہ گرد باد میں کب پیچ وتاب ہے
راتدن کیوں مشق رہتی نالہ وفریاد کی
کیوں ہے قول دہن تنگ کہ عنقا کیا ہے
قصیدہ حضرت سلطان عالم محمد واجد علی شاہ والی ملک اور وہ
شہ گردوں نشین قطب زمیں مہر جہانبانی
سعادت بخشی ذات ہمایونکی وہ شہرت ہے
قصیدہ درشان مرزا اعظم الشان بہادر
قصیدہ مرزارفیع الشان بہادر
ازسلاطین ہراقلیم فزون شان تو باد
ابر رحمت کی صفت میں ہے مجھے تشنہ لبی
خمسہ نعتیہ
مرثیہ
رباعی
قطعہ تہنیت انیس الدولہ بہادر
نیر بخت نگوبرج سعادت میں رہے
قطع تہنیت انیس الدّولہ بہادر
قطعہ در شان وزیر الممالک حضور عالم
تاریخ مسجد شیخ عالم لکھنوی
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.