فہرست
شارق کیفی کی شاعری:’’ ایک خود غرض جسم کا استعارہ‘‘
برسوں جنوں صحرا صحرا بھٹکاتا ہے
ایک مدت ہوئی گھر سے نکلے ہوئے
انتہا تک بات لے جاتا ہوں میں
سست قدموں سے گھر لوٹتا ہوں
وار پر وار کر دہا ہوں میں
وہ پل آخر میسر ہوگیا ہے
ہونے سے مرے فرق ہی پڑتا تھا بھلا کیا
کوئی سوئے ریگزار آیا نہیں
کچھ بھی منزل سے نہیں لائے ہم
ابھی منزل کہاں میری نظر میں
سفر سے مجھ کو بددل کر رہا تھا
ہیں اب اس فکر میں ڈوبے ہوئے ہم
کب یقیں کرتا تھا میں اظہار میں
خواب ویسے تو اک عنایت ہے
طرح طرح سے مرا دل بڑھایا جاتا ہے
کہیں نہ تھا وہ دریا جس کا ساحل تھا میں
میں قصہ سنانے ہی میں کھو گیا
رات بے پردہ بھی لگتی ہے مجھے
ابھی تک خامشی کچھ سن رہی ہے
یہ سچ ہے دنیا بہت حسیں ہے
اداس ہیں سب پتا نہیں گھر میں کیا ہو ا ہے
کوئی کچھ بھی کہتا رہے سب خاموشی سے سن لیتا ہے
برا لگا تو بہت زخم کو چھپاتے ہوئے
طبیعتیں اس جہان والی
دنیا شاید بھول رہی ہے
کہیں ابٹن کی خوشبو نوحہ خواں تھیں
اک وہی ہمدرد تھا تھوڑا مرا
دلوں پر نقش ہونا چاہتا ہوں
کچھ قدم اور مجھے جسم کو ڈھونا ہے یہاں
میں یہاں بھی شکست کھاتا ہوا
کھلے صحرا سے خوف کھانا کیا
دور تک تیرے ساتھ چل نہ سکے
عدالت ہے گواہوں کے بیاں ہیں
شہرت ہے تو یہ مشکل ہے
شہر کو بھاری پڑا الگاؤ مجھ سے
لوگ سہہ لیتے تھے ہنس کر کبھی بے زاری بھی
تن سے جب تک سانس کا رشتہ رہے گا
جو کہتا ہے کہ دریا دیکھ آیا
ڈرا ہوا ہوں لیکن کیسے بتاؤں میں
زیر لب یار گنگناتے ہوئے
تماش بینوں میں ہوں تو کیا ہے
نہیں میں حوصلہ تو کر رہا تھا
مضحکہ خیز یہ کردار ہوا جاتا ہے
تھکن میرے بستر پہ سونے لگی
وہ دن بھی تھے کہ ان آنکھوں میں اتنی حیرت تھی
وہ امتحاں دئے ہیں بات بات پر
ہاتھ آتا تو نہیں کچھ پہ تقاضہ کر آئیں
شبیہوں کو ایسے مجسم کیا
یوں ہوئے موت سے حیراں جیسے
یہ شرط خوب ہے ترک تعلقات کے ساتھ
آئینے کا ساتھ پیارا تھا کبھی
سامنے تیرے ہوں گھبرا یا ہوا
کہاں سوچا تھا میں نے بزم آرائی سے پہلے
پتا ہے آشنا دنیا ہے تم سے
شریک محفل وتنہائی ہم بھی چاہتے تھے
جھوٹ پر اس کے بھروسا کر لیا
بے تکلف مرا ہیجان بناتا ہے مجھے
الگ کیا ہے تمہارا آستاں بھی
بولتے سے ہوئے لگتے ہیں مگر کہتے ہیں کیا
یہ چہرہ کس لئے اترا ہوا ہے
خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے
کہاں پہلے سی اب وہ یاریاں ہیں
جستجوئے لب و رخسار گئی
کبھی خود کو چھو کر نہیں دیکھتا ہوں
یوں بھی قصہ ہمارا گھر گھر تھا
سنو ہم انتہا تک جائیں گے اب
سب آسان ہوا جاتا ہے
پہلی بار وہ خط لکھا تھا
دید کا اپنی بلاوا دیں مجھے
صحرا مجھ پہ کھلا ہی نہیں
ترے غم سے ابرنا چاہتا ہوں
اپنے رہبر پر جھنجھلاتا رہتا ہوں
کم سے کم دنیا سے اتنا مرا رشتہ ہو جائے
ممکن ہی نہ تھی خود سے شنا سائی یہاں تک
سیانے تھے مگر اتنے نہیں ہم
تیرا آنا تو یوں غذاب ہوا
یہ کچھ بدلاؤ سا اچھا لگا ہے
وہ ملا تو اسے پہچان نہیں پائے ہم
جو شخص میرا تن بھی بانٹتا ہے صرف گھر نہیں
تماش بیں کبھی نہ بھول پائیں گے
بات میری خوشی کی نہیں ہے
گزر رہا ہے وہ لمحہ تو یاد آیا ہے
کیسے گھر سے نکلتا اپنے ہو کر اتنا رسوا میں
جتنا حساب دیا جائے گا
کس کو کس کا دھیان ہے گھر میں
بڑا ہے دکھ سو حاصل ہے یہ آسانی مجھے
اعتراف
فہرست
شارق کیفی کی شاعری:’’ ایک خود غرض جسم کا استعارہ‘‘
برسوں جنوں صحرا صحرا بھٹکاتا ہے
ایک مدت ہوئی گھر سے نکلے ہوئے
انتہا تک بات لے جاتا ہوں میں
سست قدموں سے گھر لوٹتا ہوں
وار پر وار کر دہا ہوں میں
وہ پل آخر میسر ہوگیا ہے
ہونے سے مرے فرق ہی پڑتا تھا بھلا کیا
کوئی سوئے ریگزار آیا نہیں
کچھ بھی منزل سے نہیں لائے ہم
ابھی منزل کہاں میری نظر میں
سفر سے مجھ کو بددل کر رہا تھا
ہیں اب اس فکر میں ڈوبے ہوئے ہم
کب یقیں کرتا تھا میں اظہار میں
خواب ویسے تو اک عنایت ہے
طرح طرح سے مرا دل بڑھایا جاتا ہے
کہیں نہ تھا وہ دریا جس کا ساحل تھا میں
میں قصہ سنانے ہی میں کھو گیا
رات بے پردہ بھی لگتی ہے مجھے
ابھی تک خامشی کچھ سن رہی ہے
یہ سچ ہے دنیا بہت حسیں ہے
اداس ہیں سب پتا نہیں گھر میں کیا ہو ا ہے
کوئی کچھ بھی کہتا رہے سب خاموشی سے سن لیتا ہے
برا لگا تو بہت زخم کو چھپاتے ہوئے
طبیعتیں اس جہان والی
دنیا شاید بھول رہی ہے
کہیں ابٹن کی خوشبو نوحہ خواں تھیں
اک وہی ہمدرد تھا تھوڑا مرا
دلوں پر نقش ہونا چاہتا ہوں
کچھ قدم اور مجھے جسم کو ڈھونا ہے یہاں
میں یہاں بھی شکست کھاتا ہوا
کھلے صحرا سے خوف کھانا کیا
دور تک تیرے ساتھ چل نہ سکے
عدالت ہے گواہوں کے بیاں ہیں
شہرت ہے تو یہ مشکل ہے
شہر کو بھاری پڑا الگاؤ مجھ سے
لوگ سہہ لیتے تھے ہنس کر کبھی بے زاری بھی
تن سے جب تک سانس کا رشتہ رہے گا
جو کہتا ہے کہ دریا دیکھ آیا
ڈرا ہوا ہوں لیکن کیسے بتاؤں میں
زیر لب یار گنگناتے ہوئے
تماش بینوں میں ہوں تو کیا ہے
نہیں میں حوصلہ تو کر رہا تھا
مضحکہ خیز یہ کردار ہوا جاتا ہے
تھکن میرے بستر پہ سونے لگی
وہ دن بھی تھے کہ ان آنکھوں میں اتنی حیرت تھی
وہ امتحاں دئے ہیں بات بات پر
ہاتھ آتا تو نہیں کچھ پہ تقاضہ کر آئیں
شبیہوں کو ایسے مجسم کیا
یوں ہوئے موت سے حیراں جیسے
یہ شرط خوب ہے ترک تعلقات کے ساتھ
آئینے کا ساتھ پیارا تھا کبھی
سامنے تیرے ہوں گھبرا یا ہوا
کہاں سوچا تھا میں نے بزم آرائی سے پہلے
پتا ہے آشنا دنیا ہے تم سے
شریک محفل وتنہائی ہم بھی چاہتے تھے
جھوٹ پر اس کے بھروسا کر لیا
بے تکلف مرا ہیجان بناتا ہے مجھے
الگ کیا ہے تمہارا آستاں بھی
بولتے سے ہوئے لگتے ہیں مگر کہتے ہیں کیا
یہ چہرہ کس لئے اترا ہوا ہے
خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے
کہاں پہلے سی اب وہ یاریاں ہیں
جستجوئے لب و رخسار گئی
کبھی خود کو چھو کر نہیں دیکھتا ہوں
یوں بھی قصہ ہمارا گھر گھر تھا
سنو ہم انتہا تک جائیں گے اب
سب آسان ہوا جاتا ہے
پہلی بار وہ خط لکھا تھا
دید کا اپنی بلاوا دیں مجھے
صحرا مجھ پہ کھلا ہی نہیں
ترے غم سے ابرنا چاہتا ہوں
اپنے رہبر پر جھنجھلاتا رہتا ہوں
کم سے کم دنیا سے اتنا مرا رشتہ ہو جائے
ممکن ہی نہ تھی خود سے شنا سائی یہاں تک
سیانے تھے مگر اتنے نہیں ہم
تیرا آنا تو یوں غذاب ہوا
یہ کچھ بدلاؤ سا اچھا لگا ہے
وہ ملا تو اسے پہچان نہیں پائے ہم
جو شخص میرا تن بھی بانٹتا ہے صرف گھر نہیں
تماش بیں کبھی نہ بھول پائیں گے
بات میری خوشی کی نہیں ہے
گزر رہا ہے وہ لمحہ تو یاد آیا ہے
کیسے گھر سے نکلتا اپنے ہو کر اتنا رسوا میں
جتنا حساب دیا جائے گا
کس کو کس کا دھیان ہے گھر میں
بڑا ہے دکھ سو حاصل ہے یہ آسانی مجھے
اعتراف
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.